آج پاکستان کے نامور قوال حاجی غلام فرید صابری کی برسی پے۔حاجی غلام فرید صابری 1924ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے مقبول ترین قوالوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی حاجی مقبول احمد صابری کے ساتھ قوالی گاتے تھے، ان کی
ان کی پیدائش 1930ء میں برطانوی ہند کے پنجاب کے روہتک ضلع کے کلیانہ میں ہوئی تھی۔ ان کے خاندان میں موسیقی کی روایت مغل شہنشاہوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ تان سین کی نسل سے ہیں، جو مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور کے عظیم موسیقار تھے۔ ان کے دادا محبوب بخش رانجی علی رنگ، اپنے وقت کے ایک ماہر استاد موسیقار تھے۔ آپ کے نانا باقر حسین خان، ستار کی تھے۔ آپ کا خاندان صابریہ سلسلۂ تصوف سے نسبت رکھتا ہے، لہذا صابری کو نام میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
ان کی پرورش گوالیار میں ہوئی۔ جوانی میں وہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے تھے اور ویرانی جگہ رہنا چاہتے تھے۔ چھ سال کی عمر میں، غلام فرید نے اپنے والد عنایت حسین صابری سے موسیقی کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
تیسرا پارہ: حیات بعد الممات،انفاق، حرمت سود، اور دیگر مضامین
تحریک عدم اعتماد: خدشات و علاج
آئینی و انتخابی جنگ میں جیت کس کی ہوگی؟
انھیںشمالی ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی اور قوالی کی تعلیم دی گئی تھی۔ انہیں ہارمونیم اور طبلہ بجانے کی بھی تعلیم دی گئی تھی۔ موسیقی شروع کرنے سے پہلے، غلام فرید صابری اپنے والد کے ہمراہ گوالیار میں خواجہ غوث محمد گوالیری کی زیارت کی لئے تشریف لے گئے۔
غلام فرید صابری نے ابتدا میں گوالیار میں اپنے والد استاد عنایت حسین صابری اور بہت سارے موسیقی اساتذہ سے موسیقی سیکھی۔ بعدازاں، غلام فرید صابری اور ان کے چھوٹے بھائی مقبول احمد صابری اور کمال احمد صابری نے استاد فتح الدین خان، استاد رمضان خان، استاد کلاں خان، استاد لتافت حسین خان رامپوری، اور ان کے روحانی پیشوا حضرت ہیرت علی شاہ وارثی سے موسیقی کا علم حاصل کیا۔
مشہور قوالیوں میں تاجدار حرم ہو نگاہ کرم، من کنتُ مولا،میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا، بھردو جھولی مری یامحمدشامل ہیں۔
حاجی غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔