آج رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی کا یوم ولادت ہے. جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا اور وہ 6 اپریل 1890ءکومراد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔ ابتدا میں داغ دہلوی اور منشی امیر اللہ خاں تسلیم لکھنوی کے شاگرد ہوئے اور پھر اصغر گونڈوی کے فیضان سخن حاصل کیا۔ ان کے کلام میں حسن و عشق اور کیف و سرور اتنا رچا ہوا تھا اور ترنم اس درجہ والہانہ اور دل سوز تھا کہ پورے برصغیر کے مقبول ترین شاعر کہلائے۔ ان کی شاعری کے تین مجموعے داغ جگر، شعلہ طور اور آتش گل ان کی یادگار ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
جگر مرادآبادی کو اردو شاعری کے چمکتے ستاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری ان کی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی آمیزش کا نتیجہ تھی جس نے انہیں اپنے زمانے بے حد مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا۔ جگر کوشاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا کیونکہ والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور بے حد مقبول تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
تیسرا پارہ: حیات بعد الممات،انفاق، حرمت سود، اور دیگر مضامین
تحریک عدم اعتماد: خدشات و علاج
آئینی و انتخابی جنگ میں جیت کس کی ہوگی؟
ان کا دیوان کلیات جگر کے نام سے شائع ہوا جو ان کی غزلوں، نظموں قصائد و قطعات کا مجموعہ ہے۔ اس دیوان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا دیباچہ آل احمد سرور نے لکھا ہے جنہوں نے کلیات کا عکس اتار کر رکھ دیا ہے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں: جگر ایک رومانی شاعر ہیں ۔ رومان کسی نہ کسی حقیقت کو ہی خوابوں میں پیش کرتا ہے جگر کے یہاں بھی خواب اور حقیقت کی دھوپ چھاؤں نظر آتی ہے۔جگر کو مرزا غالب اور دیگر شعرا کی طرح یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں اور برسوں گزر جانے کے بعد ہیں زبان پر تازہ رہتے ہیں۔ مثلاً
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جگر مراد آبادی نے 9 ستمبر 1960ءکو گونڈہ میں وفات پائی اور وہ وہیں آسودہ خاک ہوئے۔