آئینی و انتخابی جنگ میں جیت کس کی ہوگی؟ رمضان المبارک کے نیک لمحات میں پاکستان لمحہ موجود میں اپنے سیاسی اور نیم جمہوری پارٹیوں کے باعث نازک ترین مقدمے سے دوچار ہیں وطن عزیز اپنے مزاج و صلاحیت اور تدبر و تفکر میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے جمہوری خلافت کا مثالی نمونہ پیش کرنا چاہتا تھا مگر افسوس کہ جاگیر داروں کے گرفت مضبوط رہنے کے باعث 70 سالوں سے زائد عرصے میں عسکریت اور نیم جمہوری اسلامی تصورات نے عوام کی اکثریت کی کمر توڑدی دی ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی اور بد انتظامی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے.
جناب نواز شریف و اعلیحضرت آصف علی زرداری کی حکومتیں اور روئیے بھی غیر عسکری و غیر جمہوری نہیں رہے ہیں لیکن جناب عمران خان کی حکومت مکمل طور پر عسکریت کا نمونہ اور جمہوریت سے بیزار نظر آتا ہے سوال یہ ہے کہ عوام الناس کی دلنشین اکثریت اور خاص کر نوجوانوں و دانش مندوں کی بڑی اکثریت اب بھی جناب عمران خان کی شیدائی و حمایت یافتہ کیوں ہے۔
تازہ سیاسی صورت حال کے بارے میں یہ بھی پڑھئے:
عمران خان نے ووٹروں کے کیسے موہ لیے؟
تحریک عدم اعتماد: ریاست حادثے سے دوچار ہو گئی
تحریک عدم اعتماد: حادثے کا خطرہ بڑھ گیا
اس سوال کی جانکاری حاصل کئے بغیر 03 اپریل کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے جناب عمران خان کی حکمت و دانائی سمجھ میں نہیں آنے والی ہے اور نہ ہی دیوبند کے سکہ بند ترجمان و علامہ مرحوم کے افکار و تصورات کی فریم ورک سے انکاری حضرت مولانا صاحب نواز شریف و اعلیحضرت آصف علی زرداری کی ترجمانی کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں غربت و فکری افلاس اور بھوک و ظالمانہ نظام زندگی کی بنیادی اکائی اشرافیہ و بیوروکریسی اور جاگیر داروں کے ساتھ ملا ملٹری عدلیہ گھٹ جوڑ ہی ہیں جس کی پشت پناہی جاگیر داروں کی پارٹیاں ٹولیوں کی صورت میں باری باری کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب تین مرتبہ وزیر اعظم پاکستان رہنے کے باوجود اسٹیس کو فعال رکھنے والے شخصیت و کردار ہی رہے تب وہ کام نہیں کرسکتے تھے جو عمران خان نے پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے پر کیا۔
نواز شریف کے تینوں حکومتوں کو فوج و عدلیہ گٹھ جوڑ کر کے ختم کئے گئے جبکہ پیپلز پارٹی نے بھٹو مرحوم کے افکار و نعرے بھلا دیئے ہیں اور خود پیپلز پارٹی کے صدر جناب فاروق لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹو مرحوم کی حکومت ختم کردی تھی جناب عمران خان ابھی عمل و ادراک اور احساس و کشمکش میں مبتلا ہیں جس کے نتیجے میں وہ ناکام ترین وزیراعظم ثابت ہوا ہے لیکن خدا شاہد ہے کہ ابھی ان کے نعرے و سلوگن زندہ و تابندہ ہیں۔
تب ہی وہ زندہ سوالات کا سامنا کرتے ہوئے عوام کے پاس حاضر ہوا چاہتا ہے اپوزیشن جماعتوں میں زندگی کی حرارت نہیں ہیں اس لئے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہیں جے یو آئی ف و جماعت اسلامی پاکستان کا اکٹھ کبھی سود مند ہوتا تھا مگر افسوس ہے کہ پلوں کے نیچے بہت زیادہ پانی بہہ چکا ہے اور مولانا فضل الرحمان نے جس کشتی کا انتخاب کیا ہے اس میں سوراخ ہوگیا ہے۔
جناب سراج الحق قومی منظر نامے سے بری طرح غائب ہے۔ اسٹیس کو بدلنے کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقاء و فکری مکالمے کی احیاء و تجدید عہد وفا کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے دونوں مواقع قرآنی آیات مبارکہ اور آثارِ جمہوریت کے باوجود ضائع ہو جاتے ہیں جمہوریت اپنی خوبصورتی کے باوجود پاکستان میں انتہائی بدصورت شکل میں موجود ہے اور عسکریت اپنے قبیح حرکات و ثمرات کے باوجود پاکستان کے اشرافیہ زدہ پارٹیوں میں پھل پھول رہا ہے دیکھیں عوام الناس کی ترجمانی کرنے والی عوامی تحریک کب نمودار ہوتی ہے، الیکشن 2022 ء سر پر ہے رمضان المبارک کے دوران روحانی پہلو سے زیادہ اب انتخابی مہم جوئی شروع ہونے کو ہے دیکھتے ہیں انتخابات کا معرکہ کیسے ڈائزین ہوتا ہے لیکن پہلے دستوری و آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کا حکم حاکم کیسے ممکن ہے