بھگت سنگھ 28ستمبر 1907 ء کو جڑانوالہ میں بنگہ کے مقام پر پیدا ہوا تھا ۔ وہ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ کا بھتیجا تھا ۔
سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے طبقات سے پاک معاشرہ چاہنے والایہ نوجوان برصغیر کی جدوجہد آزادی کا ہیروتھا ۔ بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ امرتسر اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ 1921ء میں سکول چھوڑ دیا اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔
1927ء میں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوا اور لاہور کے شاہی قلعے میں رکھا گیا۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی۔ اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہوگیا۔ دہلی میں عین اس وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اس نے اور بے۔کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔
یہ بھی دیکھئے:
انیس سو اٹھائیس میں سائمن کمیشن کی آمد پر لاہور ریلوے سٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائےزخمی ہوگئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹرا سکاٹ تھے۔
انقلاب پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر سائیکل پر دفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مار ہلاک کر دیا۔
یہ بھی پڑھئے:
منگل کا دن عمران خان کے لیے عظیم ناکامیاں کیسے لایا؟
وزیر اعظم کا ”امر بالمعروف” اور مولانا کا”نہی عن المنکر” جلسہ
جارج آرویل کا اینیمل فارم اور پاکستان کے موجودہ حالات
حوالدار جین نے بھگت سنگھ کا تعاقب کیا۔ انھوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج ہوسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہوگئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبدالعزیز نے کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔
لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے لالہ امرداس سینئر وکیل تھے۔ بعد ازاں بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دے دیا گیا اور 23مارچ 1931 کوان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیزوز پور کے قریب، دریائے ستلج کے کنارے، ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ بعد میں اسی مقام پر ان کی یادگار قائم کی گئی