اردو کے ایک ممتاز شاعر جناب یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے تھے۔ آبائی وطن گوجرانوالہ تھا۔
انہوں نے بڑے نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔ 1936ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1939ء میں میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی اور قیام پاکستان کے بعد مشہور ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر مقرر ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمار خان ناصر: چند گھنٹوں کی ملاقات کا اثر
ڈاکٹر رفیع الدین کی برسی پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے تک ترقی پائی۔ ان کی سوانح عمری ’’یوسف ظفر کی بات‘‘ کے نام سے اشاعت پذیرہوچکی ہے۔
یوسف ظفر کے شعری مجموعوں میں نوائے ساز‘ عشق پیماں‘ حریم وطن‘ صدا بہ صحرا‘ زہرخند اور زنداں کے نام شامل ہیں۔ ان کی شاعری کی کلیات بھی اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ آپ کی نثری تصنیف یہودیت بھی اپنے موضوع پر لکھی گئی ایک بڑی وقیع تصنیف ہے۔ 7 مارچ 1972ء کو جناب یوسف ظفرنے راولپنڈی میں وفات پائی۔ راولپنڈی میں فوجی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
نمونہ کلام
آ مرے چاند رات سونی ہے
بات بنتی نہیں ستاروں سے
۔۔۔۔۔
لاکھ ٹوٹے ہوئے ستاروں سے
تھک کے پتھر کی طرح بیٹھا ہوں رستے میں ظفرؔ
جانے کب اٹھ سکوں کیا جانیے کب گھر جاؤں
ان کی ایک مقبول غزل کے چند شعر
شہر لگتا ہے بیابان مجھے
کہیں ملتا نہیں انسان مجھے
میں تجھے جان سمجھ بیٹھا ہوں
اپنے سائے کی طرح جان مجھے
تو کہاں ہے کہ ترے پردے میں
لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے
تیری خوشبو کو صبا لائی تھی
کر گئی اور پریشان مجھے
میری ہستی ترا افسانہ تھی
موت نے دے دیا عنوان مجھے
ان کی نسبت کا کرشمہ ہے ظفرؔ
کہتے ہیں یوسف کنعان مجھے