ہم دونوں( میں اور عمار خان ناصر ) کو اکھٹے جامعہ محمدی شریف کے لیے نکلنا تھا۔ علی الصبح ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ اس وقت نہایت اخفاء میں نماز کے بعد کچھ تصبیحات اور اذکار ان کا معمول ہے۔ ہم گاڑی میں بیٹھے تو چند دعائیہ کلمات کے ساتھ سفر کا آغاز کروایا۔ راستے میں کسی مرحوم کا ذکر آتا تو بے اختیار ان کے لیے مختصر سی دعا کرتے اور یہ عمل وہ ہر مرحوم کے لیے دہراتے، کسی مشکل کا ذکر آتا تو وہ اللھم یسر پڑھتے، کسی تیسرے بندے کا ذکر ہوتا تو اگر فرد سے متعلق کوئی بات ہوتی تو خاموشی اختیار کرتے یا اختصار سے صرف مثبت بات کرتے۔
شخصیت کا حسن
مختصر یہ کہ خدا کی یاد، موت کی پیہم یاد، آخرت کا شعوری احساس ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ لیکن دلچسپ یہ کہ نہایت لطیف، دلچسپ اور برجستہ جملے بھی کستے کہ ہنس ہنس کر برا حال ہوتا، ان کی رفاقت میں نہ بوریت کا احساس نہ تھکاوٹ- کوئی علمی موضوع چھیڑتے تو معلوم ہوتا کہ خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔ ان کی ایپروچ کو دیکھتے تو جانتے کہ ایک نہایت ماڈرن اور جدید دور سے ہم آہنگ اسکالر کے ساتھ ہم کلام ہیں، لیکن تھوڑی دیر بعد معلوم ہوتا کہ اپنی تہذیبی روایت، علمی ورثے اور تراث میں اس قدر پنجے گاڑے ہوئے ہیں کہ جدیدیت کے ہر پہلو سے واقف ہونے کے باوجود اور اس کے متعرف ہونے کے باوجود اس کے طوفان کے سامنے گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈاکٹر رفیع الدین کی برسی پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
تیس نومبر: بھٹو نے آج کے دن پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی
میں اصل موضوع سے دور نکل اگیا۔ واپس لوٹ آتا ہوں۔ ان کے لیکچرز ختم ہونے کے ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ میری توجہ گوگل میپ اور ڈرائیونگ پر رہتی اور وہ کچھ اذکار میں مصروف ہوئے۔ یہ ان کے رات والے اذکار تھے۔ دعائیں۔ مناجات۔ لطیف سی خاموشی۔ تبسم۔ یا پھر کوئی عالمانہ گفتگو۔ اس دوران میں جوں ہی فارغ ہوتے فورا کوئی اذکار پڑھتے۔ موت اور آخرت کی یاد گویا ان کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔
صحبت کا اثر
ان کی رفاقت اور شاید نقالی میں میری زبان پر بھی چند کلمات آنا شروع ہوئے۔ ان کو ڈراپ کیا اور قیام گاہ پہنچا تو ایسے محسوس ہوتا جیسے کسی نے کسی کام پر لگا دیا ہے۔ نماز روٹین سے ہٹ کر عاجزی کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کی۔ موت اور آخرت کا موضوع گاہے بگاہے اپنی طرف متوجہ رکھتا۔
میں کل شام اسلام آباد پہنچ چکا ہوں۔ ان کے چند گھنٹوں کی رفاقت کسی دنیاوی پروجیکٹ کے حصول کا جشن یا ناکامی کی حزن نہیں بلکہ موت کی یاد ہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ تاثیر وقتی ہے۔
اب تھوڑی دیر میں جب دفتر کے لیے نکلوں گا تو وہی دنیا داری کی دوڑ اور مسابقت کی جنگ۔ لیکن میرا کہنا یہ تھا کہ ایسے نیک لوگوں کے ساتھ گزرے ہوئے چند لمحات اگر یہ تاثیر رکھتے ہیں تو یہ ہماری اس لاحاصل دنیاوی دوڑ میں لگی زندگیوں میں کس قدر ضروری ہیں۔ یہ دور اپنی سرشت میں ایک ابلیسی دور ہے جو برق رفتاری اور چابک دستی سے دنیا کو جنت کے متبادل کے طور پر پیش کرتی ہیں اور ہم اس کے طلسم سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ ہم سب کو ڈاکٹر عمار خان ناصر جیسے لوگوں کی رفاقت کی مسلسل ضرورت رہتی ہے جو اپنی نگاہ سے یا چند لمحوں کی رفاقت سے موت کے لیے جو بے چین کردیں جیسے بقول:
ایک لمحے کی رفاقت کا اثر
تم کسی تتلی کو چھو کر دیکھنا