ADVERTISEMENT
آج سے تینتیس سال پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو عالم اسلام کی پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
انتخابات کے فوراً بعد جوڑ توڑ کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔ دونوں بڑی جماعتیں یہ دعوے کرنے لگیں۔ اس دوران قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں شروع کردیں۔ پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی وزیر اعظم کے عہدے کے لئے فوری نامزدگی کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
دوسری جانب اسلامی جمہوری اتحادنے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب پہلے کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ اس انتخاب میں کامیاب ہونے والی جماعت کو وزارت عظمیٰ سونپ دی جائے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا مطالبہ بظاہر جمہوری نظر آتا تھا لیکن اس میں ہارس ٹریڈنگ کا خطرہ تھا۔ جس سے نمٹنا کسی کے بس میں نہ تھا۔ چنانچہ صدر غلام اسحاق خان نے یکم دسمبر 1988ء کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے بے نظیر بھٹو کو ملک کا وزیراعظم نامزد کردیا۔ اور انہیں حکومت سازی کی دعوت دی۔ 2 دسمبر 1988ء کو جمعہ کی نماز کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے گیارہویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھالیا۔
وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ صدر نے ان سے اردو میں حلف لیا۔ اس تقریب میں بیگم نصرت بھٹو، آصف زرداری، صنم بھٹو، ناصر حسین اور دیگر سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔ اسی شام محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے مارشل لاء دور کے غیر منصفانہ اقدامات اور زیادتیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جو ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد برسراقتدار آئی تھیں اس موقع پر بھرپور فائدہ اٹھاتیں مگر ان کا دور حکومت شروع ہوتے ہی ملک میں رشوت ستانی اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ وہ نہ صرف حزب اختلاف بلکہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ٹھیک طرح سے نہ چل سکیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فقط 20 ماہ ہی حکومت کرسکیں اور 6 اگست 1990ء کو غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا۔