پرسوں عمار خان ناصر بھائی کی معیت میں ہم ان کے بیٹے سے ملنے گئے۔ محمدی شریف گاؤں کی تصویروں میں نمایاں مٹی اور گارے کے آمیزش سے بنے اس گھر کے وسیع دالان میں داخل ہوئے۔ ایک کچا کمرہ بارشوں کی وجہ سے مکمل طور پر منہدم ہوچکا تھا۔ دوسرا ابھی قایم و دایم ہے۔ ہم اس منہدم اور رو بہ زوال کمرہ نما خانقاہوں کے بالکل سامنے صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ چکے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ مٹی سے بنے یہ گھروندے اصل میں کس گوہر نایاب کا مسکن ہیں۔ وہ عالی المرتبہ مکین کون تھے جن کی بودوباش نے لکڑی اور سرکنڈوں سے بنی اس چھت کو آسمانوں کی رفعت عطا کی۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس کمرے میں بیسویں صدی کی معرکتہ الآرا کتاب رحما بینھم لکھی گئی۔
یہ بھی پڑھئے:
دو دسمبر: تینتیس سال قبل، بے نظیر بھٹو آج کے دن پہلی بار وزیر اعظم بنیں
یکم دسمبر: حلقہ ارباب ذوق تا ریڈیو پاکستان، آج یوسف ظفر کی سالگرہ ہے
مولانا محمد نافع کا مسکن
مذکورہ مکان کے مکین مولانا محمد نافع (رح) تھے۔ جو اپنے علم و فضل و تقوی اور زہد کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف رہے۔ ہم چھوٹے لوگ ہیں۔ اس لیے بڑے گھروں کی نمایش سے اپنا قد اونچا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں۔ مولانا نافع جیسے بڑے لوگ کچے گھروندوں کی پہچان بدل دیتے ہیں۔ وہ مرجع تقلید روحانیت بن جاتے ہیں۔
ہاتھ بھی چومنے نہ دیتے
اس کچے کمرے میں ان کے پاس اپنے دور کے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے آئے۔ دور دراز سے لوگ ان کی زیارت کرنے اتے۔ لیکن وہ کسی کو اپنا ہاتھ چومنے نہ دیتے۔ وہ کسی کے عقل و شعور کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لینے کے حق میں نہیں تھے۔ دو دفعہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔ ووٹرز ان سے ملنے آتے تو ان کو بتاتے کہ یہ یہ لوگ میرے سمیت الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جن کو بہتر سمجھتے ہو ووٹ دے دینا۔ جامعہ محمدی شریف سے کسی قسم کا مالی فایدہ اپنے اوپر حرام سمجھتے۔
پکے فرش پر قدم نہ رکھا
لکڑی کے بنے ایک تخت پر سوتے۔ بیٹے نے کمروں سے متصل برآمدے میں پکی اینٹیں استمعال کیں تو اس پر سخت ناراض ہوئے۔ فرمایا کہ تم میرے آخرت کا گھر خراب کررہے ہو۔ پھر مرتے دم تک اس برآمدے میں داخل نہیں ہوئے۔ جامعہ میں ان کی لائبریری میں گیے تو ہزاروں کتابیں جو انہوں نے پڑھ رکھیں اور ان پر ان کے نوٹس رقم ہیں۔ جو کتاب پڑھ چکے اس پر ختم شد بھی لکھ دیا۔
وطن عزیز کے سیکولر لبرل طبقے کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ ان کچے گھروندوں میں رہائش پذیر ان بڑی علمی اور روحانی ہستیوں کے اس لازوال کردار سے واقف ہی نہیں جو ان کا محمدی شریف کے کسانوں اور کاشتکاروں کی زندگیوں میں قایم ودائم ہے۔