دوستو، یہ تصویر اپنی کہانی آپ سنا رہی ہے۔
ٹھری میر واہ کے جن تین دور افتادہ گائوں میں ہم نے سیلاب متاثرین کی بحالی کا بیڑا اٹھایا ہے، وہاں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ کئی جگہوں پر تو آدمی سیلاب میں ڈوب جاتا ہے، اتنا گہرا پانی کھڑا ہے۔ تمام راستے اونچے نیچےاور کیچڑ زدہ ہوگئے ہیں۔ پیدل چلنا بھی مشکل ہے۔ جو لوگ چپل پہنتے ہیں، ان کی چپل اندر ہی دھنسی رہ جاتی ہے۔ننگے پائوں ہی پھررہے ہیں کئی لوگ۔ رستے میں جگہ جگہ نئے گڑھے بن گئے ہیں، جن میں پانی بھرا ہوا ہے۔ خود گائوں والوں کو ان نئے گڑھوں کا پتا نہین ہے۔ اگرچہ بارش اور سیلاب سے پہلے وہ ان ہی راستوں سے گزرتے رہے ہیں اور یہ پگڈنڈیاں ان کی پہچانی ہوئی ہیں مگر نئے اور گہرے گڑھوں کی وجہ سے سب پانی میں پائوں رکھنے سے ڈر رہے ہیں۔
اس سیلاب کے پانی میں سانپ بھی آگئے ہیں۔ کچھ زہریلے بھی ہیں ان میں سے۔ اس کے علاوہ لاکھوں مچھروں کی نئی کالونیاں بھی امڈ رہی ہیں۔ کچھ جگہوں پر، پانی کی سطح پر، سبزی مائل کاہی یعنی الجی بھی پھیلنے لگی ہے۔ پائوں میں کھلا زخم ہو تو اس میں بس کر یہ کاہی چند دن میں ناسور بن جاتی ہے۔ پھوڑا بن کر پیپ اگلنے لگتی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
مگر اس کے باوجود ہم اب تک پونے چار سو سیلاب زدگان میں راشن بانٹ چکے ہیں۔ کچھ خیمے بھی دئیے ہیں۔ بستر، چادریں اور برتن بھی۔
لیکن اب مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ ہمارے فوکس سیلاب زدہ ایریا میں، تمام مسائل کے باوجود، بہت سے خاندان اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں ہی بیٹھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن کے گھر میں مرد نہیں ہیں اور کوئی معذور، بوڑھا، بچے یا حاملہ عورت ہی ہے۔ وہ سامان اٹھا کر نہیں جاسکتے۔ دور تک چل نہیں سکتے۔ کچھ کو لگتا تھا کہ اتنا سیلاب کا پانی نہیں آئے گا کہ وہ ڈوب جائیں۔ کئی ایک ایسے بھی ہیں جن کو لگتا ہے کہ اپنے گھر میں بھوکا پیاسا بیٹھے رہنا بہتر ہے، چاہے مر ہی کیوں نہ جائیں۔ یہ سڑک کنارے بے سروسامانی کی ذلت سے اچھا ہے۔ بے پردگی کے خیال اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کی خودداری نے بھی انہیں اپنے گھروں میں باندھ رکھا ہے۔
ہم نے ایسے ہی لوگوں کو دہلیز تک سامان پہنچانے کا بندوبست کیا ہے۔ یہ تصویر اس عزم کی ایک جھلک ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
لکھی کوکون موڑے؟ پاکستانی سیاست کی داستان, بشریٰ رحمٰن کے قلم سے
نواز شریف اور انصاف کا چیچک زدہ چہرہ
نیرہ نور: وہ تتلیو ں کے جگنوؤں کے دیس جانے والی
آپ نے دیکھا ہوگا، ہم نے اب تک ایک بھی راشن لینے والے سیلاب متاثرین کے گھرانے کی تصویر جاری نہیں کی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے منظم کام کیا ہے۔ ہمارے پاس تمام گائوں کے لوگوں کی فہرستیں ہیں اور ان ہی میں سے ایک ایک کرکے ہم ہر مستحق کو بدرجہِ ضرورت، اس کی دہلیز پر سامان پہنچا رہے ہیں۔ عزتِ نفس اور خودداری کا تحفظ، ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہمارا سب سے بڑا ہدف علاقے میں غذائی قحط اور ناکافی خوراک کی صورتحال کو روکنا تھا اور الحمد للہ ہم اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست نہ ہوگی کہ ہم نے سب کو، ساری چیزیں پہنچا دی ہیں۔ ابھی بھی بہت کمی ہے اور ہم اس کے لیے کوشش کررہے ہیں مگر وسائل محدود ہیں۔کیا کریں۔
پھر رستوں کی دشواریاں بھی سفر کو سست بنارہی ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جس سیلاب زدہ سے ہمارے رضاکار گزر رہے ہیں، وہاں نہ گدھا گاڑی چل سکتی ہے، نہ بیل گاڑی اور نہ کوئی مشینی گاڑی۔
اس لیے اب ہمارے رضاکاروں نے ہاتھ گاڑیاں اٹھا لی ہیں اور ان کو کھینچ کر، منوں سامان ان پر رکھ کے، گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ اور موذی جانوروں کے خطرے میں، راشن لے جارہے ہیں۔ خدا نوجوانوں کو ان کی بے لوث سعی کا صلہ دے (آمین) جو کسی معاوضے، صلے اور ستائش کی پرواہ کیے بغیر، ایسی زندگیوں کو بچانے کی دیوانہ وار کوشش کررہے ہیں، جو ناتوانی کے باعث بھلائی جاچکی ہیں۔
اگرچہ یہ بہت آسان تھا کہ ہم بھی لوگوں کو لائنوں میں لگاتے، قطاروں میں بٹھاتے اور ایک جگہ سب کو سامان بانٹ دیتے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا ہے اب تک۔ ہم نے خود رضاکاروں کو منع کیا ہے کہ راشن تقسیم کی لائنیں نہیں لگانی ہیں۔ کسی ایک جگہ بھی لوگوں کو قطار میں نہیں کھڑا کیا جائے گا۔ اب چاہے ہمیں اس کے لیے اضافی مشقت کرنی پڑے یا ایک قدم آگے جانا پڑے، لیکن امدادی سامان لوگوں کو ان کے گھروں پر ہی ملے گا، یا ان کے خیمے میں۔
اب یہ عمل اسی طرح خاموشی سے جاری ہے۔ یہ لڑکے راشن کی تقسیم کے دوران کوئی گروپ فوٹو نہیں بناتے۔ ان کی کوئی ٹک ٹاک نہیں بنی اب تک۔ یہ تصویر بھی عقب سے بنائی گئی ہے (جس کے لیے خود میں نے اصرار کیا تھا تب یہ بنی ہے) کیونکہ کسی ایک کو دکھاوے اور نمود و نمائش کا شوق نہیں۔ یہ صرف راہِ خدا میں اپنے مقصد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان لڑکوں نے پاکستان پر میرے یقین کو تازہ کردیا ہے۔
یقین کیجیے کہ اگر یہ دیوانے رضاکار نہ ہوتے، تو کسی کو خبر بھی نہیں ہونی تھی کہ ٹھری میرواہ، سندھ کے کسی کونے خاموش گوشے میں، گھاس پھوس سے بنے، کسی ادھ گرے، تباہ شدہ گھر میں کیا قیامت گزر چکی ہے۔
ان عام سے لڑکوں نے وہ کمال کردکھایا ہے کہ میں کیا کہوں آپ سے۔
اب سے چند دن پہلے یہ سب عام سے لوگ تھے۔ کوئی دکان چلا رہا تھا تو کوئی موٹر سائیکل مکینک تھا۔ کوئی گاڑی کا ڈرائیور تھا تو کوئی کسان۔
لیکن اب یہ سب سپر ہیرو بن گئے ہیں۔ رئیل لائف سپر ہیرو۔ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر حاضر۔
یقین مانیں ان کو بھوک نہیں لگتی۔ پیاس نہیں لگتی۔ یہ تھکتے نہین۔ صبح فجر سے مغرب کا اندھیرا پھیلنے تک گلی گلی یہ ہاتھ گاڑیاں کھینچے پھرتے ہیں۔ انہیں سانپ کے کاٹنے سے مرنے کا ڈر نہیں ہے۔ ان کو مچھروں سے خوف نہیں ہے۔ یہ پانی میں ڈوبنے سے فکرمند نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ سب اتنے ایمان دار ہیں کہ اب تک، پونے چار سو گھرانوں میں راشن پہنچانے کے باوجود، آٹے کا ایک ذرہ تک ادھر سے ادھر نہیں کیا ہے۔ اپنے گھروں میں بعد میں راشن لے جاتے ہیں، پہلے دن بھر میں مستحقین کی طے شدہ فہرست کو پورا کرتے ہیں۔ اگر اس کے بعد راشن بچ گیا تو ٹھیک، ورنہ ہماری طرف سے اگلی سپلائی کا انتظار کرتے ہیں اور اس دوران ایک حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔
میں نے گائوں کے ان نوجوانوں میں وہ ایمان کا وہ درجہ دیکھا ہے، جو شاید خود میرے دل میں بھی اس شدت سے موجزن نہیں۔ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس دلایا ہے ان گائوں والوں نے۔مجھے علامہ اقبال یاد آگئے ہیں ۔ مٹی کیا نم ہوئی ہے، زمین کی زرخیزی اپنے جوبن پر آگئی ہے۔
براہ کرم آج جمعے کے دن، میرے ساتھ مل کر ان رضاکاروں کے لیے ضرور دعا کیجیے گا کہ خدا ان کو محفوظ و سلامت رکھے۔ آمین۔
www.facebook.com/Thari-Mirwah-Floods-Relief-Initiative-106419505532291