تحریر:نعیم الرحمٰن
”لکھی کوکون موڑے؟” اردوکی صفِ اول کی افسانہ،ناول،سفرنامہ،ڈرامہ وکالم نگار ،شاعرہ اورسیاستدان بشریٰ رحمٰن کی آپ بیتی ہے۔ بشریٰ رحمٰن کاقلم وقرطاس سے تعلق طالب عملی کے زمانے میںہی ہوگیاتھا۔جب وہ ‘امروز’ اور ‘کوہستان ‘ میں کالم اورفیچرزلکھاکرتی تھیں۔ انھوں نے ایم اے جرنلزم میں کالم نگاری اور فیچر رائٹنگ میں اختصاص حاصل کیا۔اس کے ساتھ افسانہ وناول نگاری بھی شروع کردی۔ 1985 ء میں باقاعدہ اخباری میں کالم لکھنے کا آغازکیا۔اس طرح جو لوگ انہیں بطورفکشن رائٹرنہیں جانتے تھے، وہ بھی ا ن کے کالم پڑھنے لگے اورقارئین سے ان کا براہ راست رابطہ ہوگیا۔بشریٰ رحمٰن نے عملی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیااور دوعشروں سے زیادہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔ سیاست کے خارزار میں ان کی پہچان بااصول اورشائستہ خاتون سیاستدان کی رہی۔جس کی وجہ سے انہوں نے عزت و احترام تو بہت حاصل کیا۔لیکن وہ مقام نہ پاسکیں ،جس کی وہ حقدارتھیں۔
بشریٰ رحمٰن ایک ہمہ جہت ادیبہ تھیں۔ان کی تحریروں کی ایک طویل فہرست ہے۔جس میںناول اللہ میاں جی، براہ راست،چاندسے نہ کھیلو ، چارہ گر، پیاسی ، لازوال اول ودوم، لگن، خوبصورت،شرمیلی، پارسائی، پارسا،دانارسوائی،کس موڑ پرملے ہو،تیرے سنگِ درکی تلاش میں، باؤلی بھکارن اوربے ساختہ ۔ناولٹ کے مجموعے بت شکن، ایک آوارہ کی خاطر،لالہ صحرائی اورپے انگ گیسٹ ۔افسانوں کے مجموعے چپ، بہشت، عشق عشق، پشیما ن اورقلم کہانیاں ، دوسفرنامے ٹک ٹک دیدم ٹوکیو اور دوردیس، شاعری کا مجموعہ” صندل میں سانسیں چلتی ہیں’ ‘ اورایک کتاب ”ابوالکلام آزاد ایک مطالعہ” شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز کے لیے کئی عمدہ ڈرامے اورسیریلز بھی تحریر کیے۔جنگ اخبارمیں ان کاکالم”چادر،چاردیواری اورچاندنی ” دو دہائی سے زیادہ شائع ہوتارہا۔وہ 1985ء اور 1988ء میں صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں۔ اور2002ء اور2008ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پررکن قومی اسمبلی بنیں۔2007ء میں حکومت نے ان کی اعلیٰ ادبی اورسیاسی خدمات پرتمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔سیاست اورادب کی شائستہ آواز 7فروری 2022ء کوکروناکاشکار ہوکر جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔
بشریٰ رحمٰن کی منفرد اوربے مثل آپ بیتی”لکھی کوکون موڑے؟” گذشتہ سال ہی شائع ہوئی تھی۔یہ خودنوشت اردوکے معروف ادبی رسالے ‘الحمرا’ میں قسط وار شایع ہوتی رہی ہے۔”لکھی کوکون موڑے؟”بڑے سائز کے سات سوصفحات جس میں آرٹ پیپر پررنگین تصاویر بھی شامل ہیں اورایک سوچوبیس ابواب پرمشتمل ہے۔ اس ضخیم آپ بیتی کودوست پبلی کیشنزنے اپنی روایتی حسنِ طباعت سے آراستہ کیا ہے اوراس کی قیمت بائیس سوروپے ہے۔”لکھی کوکون موڑے؟” کو اردوکی چندبہترین آپ بیتیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔خواتین اہل قلم میں قرة العین حیدرکی ”کارِ جہاں درازہے”، نثارعزیز بٹ کی ”گئے دنوںکاسراغ”عصمت چغتائی کی ”کاغذی ہے پیرہن”عطیہ داؤد کی ”آئینے کے سامنے”،امرتاپریتم کی ”رسیدی ٹکٹ ”،”محبت نامے”،کشورناہید کی ”بری عورت کی کتھا”،”بری عورت کی دوسری کتھا” اور ادا جعفری کی ”جورہی سو بے خبری رہی” کے علاوہ سیدہ عابدہ حسین کی ”اوربجلی کٹ گئی” کا اہم مقام ہے۔عابدہ حسین نے اپنی آپ بیتی انگریزی میں لکھی تھی۔اس کا اردومیں ترجمہ کیاگیا۔قرة العین حیدرکی ”کارِجہاں درازہے” مصنفہ کے اپنے خاندان کے ساتھ برصغیرپاک وہندکے بڑے اوراہم ادیبوں شاعروں اوراہل قلم کی تاریخ ہے۔ ان میں سے بیشترخواتین کاتعلق صرف ادب سے ہے۔جبکہ عابدہ حسین کاصرف سیاست سے تعلق رہا ۔ اس طرح بشریٰ رحمٰن کی ”لکھی کوکون موڑے؟” کایہ اختصاص ہے کہ یہ کسی مستندادیب اورسیاستدان خاتون کی پہلی خودنوشت ہے۔
”لکھی کوکون موڑے؟” کاپیش لفظ بشریٰ رحمٰن نے”داستاں درداستاں”کے عنوان سے لکھاہے۔” اپنی کتھالکھناگویااس طرح ہے جیسے کوئی ریت کے ڈھیرپرگرے ہوئے موتی چننے کی کوشش کررہا ہو۔سب جانتے ہیں کہ ریت پرموتی چننادنیاکامشکل ترین کام ہے ۔احتیاط ملحوظ خاطر نہ ہوتوانگلی کے نرم سے لمس سے دب کرموتی ریت کے اندردورتک دھنس جاتاہے۔اگراس ایک موتی کی تلاش میں ریت کے اندر ہاتھ ڈال دیں توسارے موتی درہم برہم ہوجاتے ہیں۔زندگی بسرکرنا آسان ہے ۔زندگی کولکھناادق ترین کام ہے ۔اسی لیے توکوئی اور ہونا چاہیے آپ کی زندگی کولکھنے کے لیے ۔۔یاپھرزندگی خودآپ کولکھتی رہتی ہے ۔شانہ نشین کاتبوں کے توسط سے ۔۔کتابیں زندہ رہتی ہیں اورادراک وعرفان کے کھوجی ہردور میں نکل آتے ہیں۔اگرایسانہ ہوتاتوآج ہم اپنے پُرکھوںکے زمانوں اورکارناموں پراِترانہ رہے ہوتے۔میری داستان میں سے شروع ہوتی ہے اورمیں پرہی ختم ہوجاتی ہے۔انسان کی حیات کہانی یامشکلات کہانی کاآغاز میںہی سے ہوتا ہے۔ اس کوصیغہ واحدمتکلم میں ہی بیان کیاجاسکتاہے۔داستان گواپنے قاری کواپنی سانسوںسے بھی قریب ترپاتاہے اوربعض اوقات شدتِ جذبات میں وہ بھی کہہ جاتا ہے جونہیں کہنا تھا۔پھریہ کس نے کہناتھااگراس نے نہیں کہناتھا۔۔میں نے سیاسی یادداشتوںکولکھنے کی جسارت کی۔میں سیاست میں چندروزہ مسافرتھی۔کوئی سیاسی بیک گراؤنڈنہیں تھا،کوئی تجربہ نہیں تھا،کوئی شوق نہیں تھا۔تقدیرمجھے گھیرگھارکراس بحرِذخارمیں لے گئی ۔ سیاست کاکاچہرہ بھی پورانظرنہیں آتا۔جس زاویے سے دیکھیں اور طرح ہی نظرآئے گا۔کبھی اس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔کبھی چاند گرہن سایہ فگن ہوجاتاہے۔ہرکوئی اپنے ذہن اورزمانے کے مطابق اس تجربے سے گزرتاہے۔ میرا خیال ہے کہ میرے لیے بہت پہلے لکھ دیا گیاتھاکہ میں سیاست میں جاؤں گی۔میں اسے داستان درداستان اس لیے کہتی ہوں کہ اس کے اندر صرف سیاسی یادداشتیں اورکارگزار یاں نہیں ہیں بلکہ اس موجودزمانے کے بہت سے سیاسی ،سماجی،ثقافتی اور روحانی واقعات بھی سلسلہ وارداستان کاحصہ بن گئے ہیں۔”
ڈاکٹرخالق تنویر ”بشریٰ رحمٰن اوران کی آپ بیتی”کے عنوان سے لکھتے ہیں۔”خودنوشت سوانح عمری وقت کے دھندلکوںمیں پوشیدہ شخصیت کی بازیافت ہے۔بشریٰ رحمٰن کی آپ بیتی کاغالب موضوع سیاست ہے۔یوں کہیے انھوں نے زندگی کے اس خاص پہلوکے حوالے سے اپنے آپ کوجاننے کی کوشش کی ہے۔بشریٰ رحمٰن کی سرگزشت میں ملکی سیاست اوراہل سیاست کے رویو ںکوموضوع کے اعتبارسے محوری حیثیت حاصل ہے۔انھوںنے اس دورکے تموجات کی جوتصویریں پیش کی ہیں۔ان کے دل خراش مناظرتمام جزئیات کے ساتھ واضح نظرآرہے ہیں۔ سیاست کی اس نگری پرشاذاجلے اورزیادہ ترغلیظ لوگ قابض ہیں۔جوایوانِ اقتدارکے آخری زینے تک رسائی کے لیے ہرحربہ آزمانے پرہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔مردوںکی خوشامدانہ مسکراہٹ اور خواتین کی زیب وزینت وہ طلسمی کلیدہے جوچشم زدن میں کامرانی کے دروازے کھولتی ہے اور سیاسی دھارے کارخ متعین کرتی ہے۔بشریٰ رحمٰن ایک مناسب فاصلے پرکھڑی یہ ڈرامے دیکھتی ہیں،آگے بڑھ کراس کاحصہ بننے کی ان میں تاب ہے اور نہ ان کامزاج۔وہ خاموشی سے اپنے آپ میں سمٹ جاتی ہیں اورپھرفطری انداز میں سب کچھ اپنی تخلیقی شخصیت میں جذب کرلیتی ہیں۔مینارپاکستان کے مسلم لیگ کے جلسے میں شیخ رشیدنے وزیراعلیٰ کی موجودگی میں بے نظیرکے خلاف انتہائی نازیباگفتگوکی،جسے سامعین نے پرزورتالیوں سے اورنوازشریف نے معنی خیز مسکراہٹ سے سراہا۔ بشریٰ رحمٰن کویہ بات اس قدرناگوارگزری کہ انھوں نے نہ صرف پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان سے معذرت کی بلکہ اگلے روز نواز شریف کے طرزعمل کے خلاف احتجاج کے لیے ان کے دفتر پہنچ گئیں۔وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ نواز شریف نے اس گستاخی پر بشریٰ رحمٰن کوکبھی معاف نہیں کیا۔”
کرونا وبا میں بشریٰ رحمٰن کی وفات نہ صرف اردوادب کابڑا نقصان ہے۔ بلکہ سیاست سے بھی شرافت ، وضع داری اورتہذیب کاخاتمہ ہو گیا ۔ سیاست میں بشریٰ رحمٰن کی اینٹری کم عمری میں ہی ہوگئی تھی۔جب جنرل ایوب مارشل لاء دورکے بہاولپورکے سخن پرورکمشنرمسرت حسین زبیری ان کے اباجی کے پاس آئے اورکہاکہ بی ڈی ممبرزکے لیے بہاول پورسے تین ممبرزبنانی ہیں اور پورے شہرسے ہمیں دوخواتین ہی مل سکی ہیں۔آپ کی بیٹی بشریٰ رشیدکانام بھیج دوںاباجی نے کہامیری بیٹی توبمشکل اٹھارہ سال کی ہے اورابھی کالج میں پڑھتی ہے۔وہ کیسے ممبر بن سکتی ہے۔زبیری صاحب نے کہاکہ ہمیں اعلیٰ خاندان کی پڑھی لکھی خواتین درکارہیںاورمجھے آپ کے خاندان کے سوا،کوئی اورخاندا ن نظرنہیں آرہا۔رہی عمر،آپ کی بیٹی برقعہ پہنتی ہے۔تومسئلہ حل ہوگیا۔برقعے میں عمرکاپتہ نہیں چلتا۔کاغذات میں ہم دوچارسال بڑھاکر لکھ دیں گے۔اس روز بشریٰ رشیدکی عمرمیں پانچ سال کااضافہ کردیاگیا،اور وہ بی ڈی ممبربن گئیں۔
شادی کے چندسال بعد1970ء الیکشن میں بشریٰ رحمن کے خالہ زادبھائی میاں ذکاء الرحمٰن کولاہور کے ایک حلقے سے کونسل مسلم لیگ کا ٹکٹ مل گیا۔بشریٰ چونکہ طالب علمی کے زمانے میں بیسٹ ڈبیٹررہی تھیں۔اس لیے انھوں نے اپنے جلسوں میںشرکت اورتقریر یں کرنے کی درخواست کی۔بشریٰ نے شوہرسے اجازت مانگی۔اگرچہ ان کے سیاسی جلسوں میں شرکت کے سخت خلاف تھے پھربھی بادل نخوا ستہ اجازت دے دی۔یہی سیاست کی جانب ان کا پہلا قدم ثابت ہوا۔
ہمارے معاشرے میں تمامترصلاحیتوں کے باوجود عورت کوکن مشکلات اورپابندیوں کاسامناکرناپڑتاہے۔اس کی مثال بشریٰ رحمٰن ہیں۔ مستندمصنف ہونے کے باوجودانہیںکس جبرکاسامناکرنا پڑا اورانھوں نے کس خندہ پیشانی سے اسے برداشت کیا،اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہوگی۔” وہ ہماری شادی کااولین زمانہ تھا۔ایک دن ہم دونوںباہرگھوم پھرکرگھرآئے۔باہرکادروازہ کھولا۔جونہی اندرقدم رکھا فرش پرتازہ ڈاک کے لفافے پڑے ہوئے تھے ۔ایک سفیدلفافہ میرے نام تھا۔ باقی میرے شوہرکی کاروباری ڈاک تھی۔میں نے لپک کر لفافہ اٹھایا۔اپنانام دیکھا اوربے چینی سے اسے کھولا۔میری خوشی کی انتہامیرے چہرے سے ظاہرہونے لگی کہ ‘نقوش’ جیسے رسالے کے ایڈیٹر نے افسانہ نمبرکے لیے میراافسانہ مانگاتھا۔اس رات ہمارے گھر پہلا دھماکہ ہوا۔شوہرکی موجودگی میں ایڈیٹرکاخط پڑھنااورخوشی کا اظہا رکرناایک جرم ٹھہرا۔پابندیوںکاایک بورڈآویزاں ہوگیا۔ہمارے میکے میں کتاب کوبہت اہمیت دی جاتی تھی۔ہرکسی نے قلم پکڑ رکھا تھا۔میں بھی بارہ سال کی عمرسے لکھ رہی تھی ۔پابندی کے بعد میں نے ایک صندوق خالی کیا اوراس میں اپنی ساری کاپیاں،لکھے ہوئے مسود ے،ادھورے افسانے،قلم خطوط، سب رکھ دیئے اورباہرسے تالالگادیا۔چیزیں جب ذہن کی کیتلی میں ابل کرنکلتیں توانہیں لکھ کراس صندوق میں ڈال دیتی ۔بادی النظرمیں وہ لڑکی جوبشریٰ رشیدتھی بشریٰ رحمٰن بن کرکارگہ حیات میں جت گئی۔میرا پہلا بیٹامبشرپیداہواتو میں نے ‘پیاسی’ ناول لکھناشروع کردیا۔اسی اندازمیں، چھپ چھپاکے،رات گئے جب وقت ملتا۔پچھلی رات جب بچے کودودھ پلانے اٹھتی ۔پھرچھپاکے صندوق کے اندررکھ دیتی۔چھ سال میں یہ ناول لکھتی رہی۔کئی باراصلاح کرتی۔کئی بارلکھتی رہتی۔اگلے دس سال میں اللہ نے مجھے چاربچے عطاکیے اورمیں نے اپنی ذات کواپنی تخلیقات میں گم کردیا لیکن لکھنے کاعمل کبھی نہیں رکا۔صندوق کا پیٹ بھرتارہا۔پھرایک دن ایساآیاکہ مجھے ‘پیاسی’ ناول کراچی کے ایک پرچے میں قسط وارشائع کرنے کی اجازت مل گئی۔اس شرط پرکہ تصویرنہیں چھپواؤگی ،انٹرویو نہیں دوں گی۔مجھے نہ توتصویرچھپوانے کاشوق تھانہ ہی انٹرویو دینے کا۔لکھنے کاجنون تھا، چھپوانے کاشوق تھا۔قلم میرے لیے آکسیجن سلنڈر تھا۔اگرقلم چھن جاتاتوسانسیں برقرار نہ رہ سکتیںشاید۔”
یہ ہمارے دورکی ایک بڑی مصنفہ کے ساتھ شوہرکارویہ تھا۔جسے انہوں نے خوش اسلوبی سے سہا اوربالآخرچھپنے کاحق حاصل کرلیا۔ نامور شاعرہ اداجعفری کوبھی ایسے ہی حالات سے دوچارہونا پڑا۔جس کاذکرانھوں نے اپنی آپ بیتی”جورہی سوبے خبری رہی” میں کیاہے۔ ذرایہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں۔”چودہ سال احتیاط کی رسی پرسانس روکے چل رہی تھی کہ ایک دن میاں صاحب نے دفترسے واپسی پرایک فائل دی۔پوچھنے پرکہا ‘خود ہی پڑھ لو۔’فائل دیکھی تومیرے توپاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔’یہ کیاکہاہے آپ نے ؟ مجھ سے توپوچھاہوتا۔ ‘جواب ملا۔’پہلے کبھی پوچھاہے جواب پوچھتا۔”ساری زندگی آپ میراسیاست میں جانا،ناپسندکرتے رہے ہیں۔میں لوگوں سے یہی کہتی رہی ہوں ،اب خود۔’ ،” وہ بھی میری مرضی تھی۔یہ بھی میری مرضی ہے۔”اصل میں ان دنوں بلدیات کے انتخاب دوسری مرتبہ ہوگئے تھے اورپنجاب کے گورنر غلام جیلانی نے صوبائی مجلس شوریٰ کے لیے خواتین کابایوڈیٹامانگا تھا۔میرے میاںخودہی میرابایوڈیٹابھجوادیااوراس کی ایک کاپی مجھے لاکردے دی تھی۔
جس طرح شوہرسے بشریٰ رحمٰن کواپنی تحریریں چھپوانے کی اجازت ملی۔اسی طرح انہیں سیاست میں بھی شوہر نے بھیج دیا۔صوبائی اسمبلی سے خطاب کاموقع بشریٰ رحمٰن کوجلدمل گیا۔اس وقت ان کے چاروں بچے نرسری اورپرائمری میں پڑھتے تھے۔ وہ روزانھیں ہوم ورک کرا تیں اورکاپیاں چیک کرتی تھیں۔نصاب پران کی خوب نظرتھی۔نصاب میں موجودغلطیوں پربھی ان کی نظرتھی۔انھوں نے بسم اللہ کہہ کرتقر یرشروع کردی۔تفصیل سے نصاب کے بارے میں بتایا۔والدین اوربچوں کے مسائل پرروشنی ڈالی اورکتابوں کی ناقص چھپائی کابھی ذکر کیا ۔ان کی پہلی تقریر کی ایوان میں بھرپور پذیرائی ہوئی۔اجلاس کے اختتام پروزیرخزانہ نوازشریف کی طرف سے ساری اسمبلی کے ساتھ ڈنر کادعوت نامہ ملا۔دعوت نامہ بشریٰ صاحبہ نے گھرجاکرشوہرکودکھایا۔انہوں نے پڑھ کرایک طرف رکھ دیا اورکہا،” میں تمہیں صرف اسمبلی میں جانے کی اجازت دی ہے۔ڈنرز اٹینڈکرنے کی نہیں۔” رحمٰن صاحب نے ایک بارپھران کاساراجوش وخروش نکال دیا۔
بشریٰ رحمٰن نے حکمرانوں کی خطابت کا بہت عمدگی سے تجزیہ کیاہے۔” ہمارے ملک میں خطابت کاکوئی پیمانہ نہیں ہے۔ یہاں سیاست گونگے آدمی کوبھی بولناسکھا دیتی ہے۔ہم نے ذوالفقارعلی بھٹوکی تقریریں سنیں۔ وہ بہت اچھے مقررتھے۔انہیں اردو،انگریزی دونوں زبانوں پرعبو رحاصل تھا۔مجھے کولبھالیتے تھے،تالیاں بجوالیتے تھے۔انہوں نے الیکشن جیتا۔حکومت بنائی اوراپوزیشن کے ساتھ مل کرآئین بنایا۔جنرل ضیاء فوجی آدمی تھے ،تقریر کرنا نہیں جانتے تھے۔اردوٹھیک سے بول نہیں سکتے تھے۔ابتدائی تقریرں کویادکیاجائے تواردومیں لکھاہوا،ا سکرپٹ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے۔مگرچندسالوں میں انہوں نے سلیس اردومیں تقریر کرناسیکھ لی۔بے نظیرصاحبہ کوتقریرکافن اپنے والدسے ودیعت ہواتھا۔ مگربیرونِ ملک تعلیم کی وجہ سے اردومیں تقریر نہیں کرسکتی تھیں۔رومن رسم الخط میں انہیں جوتقریرلکھ کردی جاتی تھی اس کابعض اوقات صحیح تلفظ نہیں ہوتاتھا۔بے نظیربھٹوپارلیمنٹ کے اندرھی بہت اچھی تقریر کرلیتی تھیں۔انگریزی زبان پرانہیں پوراعبورحاصل تھا۔ نواز شریف کوصوبائی کونسل میں کسی نے بولتے نہیں سنا۔اگرکھڑے بھی ہوں تواٹک اٹک کربولتے تھے۔ لیکن جب وزیراعلیٰ بنے توانہوں نے کافی حدتک اس کمی کوپوراکرلیاتھا۔ان کوقسمت نے وزیراعظم بھی بنایا۔اپوزیشن لیڈربھی بنے اور اب وہ بڑے جلسوں میں فی البدیہہ خطاب بھی کرتے ہیں۔پریس کانفرنس اورٹی وی پروگراموں میں بھی آتے ہیں۔یقین نہیں آتاکہ ایک زمانے میں انہیں بولنا نہیں آتاتھا۔ صدرپرویزمشرف بھی اردومیں تقریر نہیں کرسکتے تھے۔پہلی تقریر میں انہوں انگریزی اردوملاکرگنگاجمنی تقریر کی تھی لیکن جب ان کااقتدار طویل ہواتووہ بھی باقاعدہ بامحاورہ اردوبولنے لگے۔عمران خان کومشہورشخصیت کے طور پرجب اقبال ڈے پر اسٹیج پرتقریر کے لیے بلایا گیا تو وہ گھبرا گئے اور مجھے تقریرکرنا نہیں آتی۔جب زبردستی کھڑا کردیاتو بولے ،میں توصرف پلیئر ہوں،اسکالر نہیں ،مجھے علامہ اقبال ایک شعریاد ہے۔ وہی سناکراسٹیج سے اترگئے۔پھرجب عمران الیکشن جیت کراسمبلی میں آئے تو وہاں بھی انہوں نے فلور پرتقریر نہیں کی۔اگرکبھی کی تو ہوٹ ہوگئے۔مگرسیاست کاکرشمہ ہے کہ آج عمران خان منجھے ہوئے مقررکی طرح لاکھوں کے جلسے سے خطاب کرتے ہیں۔ایک ایک دن میںکئی تقریریں کرتے ہیں۔یہ مثالیں اس لیے پیش کی ہیں کہ سیاست میں آکرتقریر کرنا ہی پڑتی ہے۔”
حکمرانوں تقاریرکاایسا تجزیہ کسی اورکتاب میں نہیں ملے گا۔انیس دسمبرانیس سوچوراسی کوضیاالحق کاریفرنڈم تھا۔ بشریٰ رحمٰن کی ڈیوٹی زنانہ پولنگ اسٹیشن کاجائزہ لینے کی لگی۔اب یہ انہی کی زبانی سنئے۔” ہرجگہ ووٹ ڈالنے والوں کارش نہیں تھا۔اکادکاخواتین وحضرات آکرووٹ ڈال رہے تھے ۔شام کومیں نے پھرہرپولنگ اسٹیشن کادورہ کیا۔ہرایک نے بتایاکہ بارہ بجے کے بعدیہ عمل سست ہوگیاہے۔ایک پولنگ اسٹیشن پردیکھاکہ چھوٹی چھوٹی اسکول کی لڑکیاں خودہی بیلٹ پیپرپرمہریں لگاکربوکس میں ڈال رہیں تھیں۔میں نے پوچھا،ایساکیوں کررہی ہو؟ کہنے لگیں، باجی ہمارے پولنگ بوتھ پہ توکوئی ایک ووٹ بھی ڈالنے نہیں آیا۔اب شام ہوگئی ہے ہم نہیں چاہتے یہ ڈبے خالی نکلیں۔”
ریفرنڈم کی حقیقت اس چھوٹے سے اقتباس سے عیاں ہے۔ بشریٰ رحمٰن ساتھ قلم ان کی قسمت سے وابستہ کردیاگیاتھا۔لکھی کووہی موڑ سکتا ہے جوتقدیرلکھنے والا ہوتاہے۔گورنرغلام جیلانی نے نوازشریف کووزیراعلیٰ بنوادیا۔دونوں ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔ پروگرام کے مطابق حلف برداری ہوگئی۔حلف برداری کے بعد ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ بشریٰ کی زبانی ہی سنیں۔” بیرے چائے کے لوازمات لے کر ایک ایک مہمان کے آگے جارہے تھے۔میں گورنرصاحب کے ساتھ کھڑی تھی۔گورنرجیلانی کونہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے سامنے سے چائے کاٹرے پکڑکرکھڑے ہوئے بیرے کے سرسے پگڑی اتارکر نوازشریف کے سرپررکھ دی۔نوازشریف اس اچانک حادثے کے لیے تیار نہ تھے۔بھلاکون ایساسوچ بھی سکتاتھا۔ ان کامنہ خجالت اورگھبراہٹ سے بالکل سرخ ہوگیا۔دونوں ہاتھ بے اختیاراتھے مگرسرکی طرف بڑھنے کے بجائے گرگئے۔۔ جائے ادب تھی۔مقام مصلحت تھا۔گورنرجیلانی ان کے محسن بھی تھے۔تاحال باس بھی تھے۔انھوں نے یہ حرکت کیوں کی تھی؟ اس کامطلب کیاتھا؟یہ کوئی مذاق کاوقت نہیں تھا۔ایک سب سے بڑے صوبے کانوجوان وزیراعلیٰ ان کے روبروتھا۔ خودوہ قہقہے لگاکرہنستے رہے۔باقی شرکاء بھی ان کاساتھ دینے لگے۔”
بشریٰ رحمٰن نے تواس واقعہ کی وضاحت نہیں کی۔دراصل یہ اپنے مہرہ کواس کی اوقات یاددلانے کی کوشش تھی۔وزارت لینے کے لیے کیاکیا پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔دروغ برگردن راوی،ایک خاتون جنرل الیکشن جیت کرآئی تھیں۔اس کا پوراگروپ اگرچہ اس کی پشت پرتھامگرکسی طرف سے اسے وزارت کاسگنل نہیں مل رہاتھا۔ایک صبح وہ معززعورت جھاڑوپکڑکرمیاں نوازشریف کے گھرماڈل ٹاؤن چلی گئی اورصبح ہی صبح ان کے صحن میں جھاڑو لگانے لگ گئی تھی۔جب محترم میاں شریف فجر کی نمازپڑھ کرمسجدسے گھرآتے تھے ۔انہوں نے ایک معزز،صاف ستھری عورت کوجھاڑولگا تے دیکھاتوحیران ہوئے۔پوچھا،بی بی تم کون ہو۔۔کیوں جھاڑولگارہی ہو؟ اس نے اپناتعارف کرایااور رونے لگ گئی۔بولی،میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں۔خداکے واسطے مجھے وزارت دے دیں۔میں ساری زندگی آپ کی نوکرانی بن کررہوں گی۔اورآپ کے صحن میں جھاڑولگاتی رہوں گی۔بعدمیں اسے وزارت مل گئی۔
استادوں کی حوصلہ افزائی اورگھرکے موافق ماحول کی بدولت بشریٰ رشیدکے نام سے زمانہ طالب علمی میں لکھنے کی ابتداکردی تھی۔ وہ اس زمانے کے عظیم ادیبوں کوپڑھ کران کے بارے میں سوچاکرتی تھیں۔ابتدابھی ادبی پرچوں سے کی۔’عکس نو’ میں پہلاافسانہ’ پھریادوں کے دیب جلے’بارہ سال کی عمرمیں شائع ہوا۔کراچی سے جمیل خیری’جام نو’ نکالتے تھے۔اس میں، کئی سال لکھا۔چندسال میں بھارتی رسالو ں میں بھیجنے کاحوصلہ ہوا،تو’بیسویں صدی’ کو’ سوکھے ہوئے پھول’ بھیج دیا۔ وہ بھی شائع ہوگیا۔اس رسالے کے مدیرخوشترگرامی افسانے کے ساتھ مصنف کاپتہ اورخط بھی چھاپ دیتے تھے۔ان کادوسرا افسانہ شائع ہواتوخطوط کی لائن لگ گئی۔بھارت سے شمع دہلی کے مدیریونس دہلوی ضیاالحق کی دعوت پراسللام آبادآئے توانھوں نے بشریٰ رحمٰن سے کہاکہ میرے ساتھ ایک اورصاحب بھی ہیں جوآپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔یہ ہندسماچارکے چیف ایڈیٹروجے کمارچوپڑہ ہیں۔گھرآکروجے کمار نے بتایاکہ جالندھر میں ان کے تین اخبارنکلتے ہیں۔پنجاب کیسری، ہندی میں،اردومیں، ہندسماچار اورجگ بانی پنجابی میں۔وہ اپنے اخباروں کی اشاعت ایک لاکھ کرنا چاہتے ہیں اور کسی ایسے ادیب کوچھاپناچاہتے ہیں ۔جس سے اشاعت بڑھ جائے۔کچھ دوستوں نے آپ کانا م دیاہے۔بشریٰ نے جواب دیا۔اتنی جلدی کسی کی فرمائش پرلکھنا توبہت مشکل ہے۔آپ میراناول’لگن’ لے جائیں یہ پاکستان میں بہت مقبول ہواہے۔چھپے ہوئے ناول پر انہیں تعمل تھا توبشریٰ نے کہا،شرطیہ دس قسطوں میں کے اندراگر آپ کے اخبار کی اشاعت نہ بڑھی توجرمانے کے ساتھ واپس کردیجئے گا ۔ تین ماہ گزرگئے کوئی خبرنہ ملی۔بشریٰ رحمٰن نے بھی سوچاکہ چھپاہواناول نہ شائع کیاہوگا۔ایک دن وجے کاانگریزی میں لکھاخط انھیں ملا۔جس میں لکھاتھاکہ تیسری قسط سے اخبارکی سرکولیشن میں اضافہ شروع ہوگیا اوردسویں قسط تک ایک لاکھ ہوگئی۔ ہمارے دفتر میں آپ کے نام خطوط کاتانتا بندھ گیا۔اتنے زیادہ خطوط، ہم آپ کوروزانہ نہیں بجھواسکتے تھے۔اس لیے ہم نے اجازت کے بغیر آپ کاایڈریس شائع کردیا۔ اس کے بعداخبارنے بشریٰ رحمٰن کاہرناول اورافسانہ چھاپا۔
اس ضمن میںایک واقعہ نامورمصنف ابدال بیلا نے کیاہے۔”جن دنوں لگن ناول قسط وارچھپ رہاتھا۔ہندسماچارکے ہاکرز نے ہڑتال کر دی تھی اورکہہ دیاتھاکہ وہ پورا ہفتہ اخبار نہیں اٹھائیں گے۔ہفتے کے روز لدھیانہ کی عورتیں چمٹے،کڑچھے اوربیلنے اٹھاکرباہرنکل آئی تھیں اور انھوں نے ہڑتال میں بیٹھے ہاکرزپردھاوا بول دیاتھااور کہاتھا کل اتوارہے اورہمیں ہرحال میں لگن اخبارکے تینوں ورژن میں درکار ہیں۔ اس طرح ہڑتال ایک ہی دن میں ختم ہوگئی۔
ایسی مقبولیت شاید ہی کسی مصنف کوحاصل ہوئی ہو۔ضیاالحق کے ہمراہ بشریٰ رحمٰن کوبھارت جانے اورراجیوگاندھی سے ملنے کااتفاق ہوا۔” جہاز سے اتر کرضیاالحق اور راجیوگاندھی ایک ساتھ مسکراتے ہوئے اندرآئے۔راجیونے پتلون کے ساتھ سفیدرنگ کی بش شرٹ پہنی ہوئی تھی۔تھکاہواساسادہ ساان کاچہرہ تھا۔عام سے چپل پاؤں میں تھے۔وہ بالکل ایک عام اورنارمل آدمی لگ رہے تھے۔حسبِ دستورصدر صا حب نے اپنے وفدکاتعارف کراناشروع کیا۔میں چونکہ پہلے کھڑی تھی اس لیے میری طرف اشارہ کرکے ضیاالحق انگریزی میںبولے۔’یہ بشریٰ رحمٰن ایک بڑے بزنس مین کی بیوی اورپنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔یہ کالم نگار،مصنف ،شاعر اورانٹی لکچوئل خاتون ہیں’۔ راجیوگاندھی مسکرائے،میری طرف دیکھا۔پھرصدرصاحب کوجوجواب دیااس نے مجھے ہی نہیں سارے صحافیوں کوحیران کردیا۔ انہوں نے اردومیں کہا ، ضیاصاحب ،آپ نے سارا تعارف ہی ریورس کردیاہے۔جوبات پہلے بتانی چاہیے تھی وہ سب سے آخرمیں بتائی۔”
یہ ہماری اورپڑوسی ملک کے ترجیحات کامعاملہ ہے۔پاکستانی صدرکے لیے بزنس مین کی بیوی اوررکن پارلیمنٹ ہونا زیادہ اہم تھا۔ بھارتی وزیراعظم مصنف اورشاعرکواہم سمجھتے تھے۔1986ء میں بے نظیربھٹوپاکستان واپس آئیں تووزیراعظم نوازشریف نے اعلیٰ سطحی میٹنگ بلا ئی اورحکمت عملی پرمشاورت کی ۔بیشتروزیروںبے نظیرکی آمد پررکاوٹیں کھڑی کرنے اورشاہراہیں بلاک کرنے کامشورہ دیا۔نوازشریف نے بشریٰ رحمٰن سے ان کامشورہ طلب کیا۔توانہوں نے کہاکہ ” میاں صاحب! تماش بین خلقت تماشادیکھنے ضرور آتی ہے۔آپ اسے کسی قیمت پر نہیں روک سکتے۔لوگ بے نظیربھٹوکوتین وجوہات کی بناکردیکھنے ضرورآئیں گے۔وہ ایک نوجوان اورخوبروخاتون ہے، وہ وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی ہے اور وہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کی کمان سنبھالنے والی ہے۔یہ تینوں باتیں بڑی پرکشش ہیں۔آپ راستوں کو مسدود نہ کریں پولیس کوصرف امن قائم رکھنے کے لیے استعمال کریں ۔لوگ آئیں گے۔ان کودیکھیں گے۔ان کی تقریر سنیں گے۔پھر تبصرہ کرتے ہوئے گھروں کولوٹ جائیں گے۔بیشترلوگوں نے میری تجویز کی مخالفت کی۔پھرسارے ملک نے دیکھاکہ جب بے نظیرآئیں۔ مال روڈکوبھٹو،بے نظیر اورنصرت بھٹوکی بڑی بڑی تصاویر سے سجایاگیا۔پولیس امن عامہ کافرض اداکرتی رہی۔جلسہ ہوگیااور بے نظیر خیریت سے واپس چلی گئیں۔”
یہ حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ ایسی صورتحال سے کیسے نمٹناچاہیے۔چوہدری اور شریف برادران ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔اطلاعات کے مطابق چوہدری شجاعت وزیراعلیٰ نوازشریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریف لانا چاہتے تھے۔اس دوران بشریٰ رحمٰن کوسارک ممالک کے پارلیمنٹیرین اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی جاناپڑا۔جب وہ ایک ہفتہ بعدواپس آئیں توسیاسی بحران ٹل چکا تھا۔فریقین مل جل کرکام کرنے پرراضی ہوگئے تھے۔البتہ اس زمانے میں ان دوسیاسی خاندانوں کے دلوں میں جوبال آگیاتھا وہ آج تک اپنارنگ دکھارہاہے اورجوں کاتوں موجودہے۔جن ارکان نے چوہدری برادران کااس وقت ساتھ دیاتھا انہیں نوازشریف نے کبھی دل سے معاف نہیں کیا۔معاف کرنے کے لیے بادشاہی کی نہیں دریادلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
”لکھی کوکون موڑے؟”سیاست کے نگارخانے کے ایسے بہت سے دلچسپ واقعات کامرقع ہے۔اس آپ بیتی میں پاکستان کی سیاست کے چالیس سال قاری کے سامنے کسی فلم کی مانندنظرآتے ہیں۔محلاتی سازشیں،ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا،دوست کادشمن اوردشمن کا دوست بنناغرض کیا ہے جوبشریٰ رحمٰن نے بیان نہیں کیا۔ان تمام حالات میں اپنا دامن کیسے بچاکررکھتے ہیں اورسچ گوئی کے لیے کیساخمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔تین مرتبہ وزارت کے لیے بشریٰ رحمٰن کانام لیاگیا،لیکن وہ ایوان اورایوان سے باہربہترین اندازمیں پارٹی کاموقف پیش کرنے کے باوجودوہ وزارت کی پری کورجھانہ سکیں۔ ملک کے کئی مشہورسیاستدانوں کے حقیقی چہرے بھی مصنفہ نے بڑی خوبی سے پیش کیے ہیں۔بعض افراد کے مختصر ذکر میں انہوں نے متعلقہ شخصیت کے کردارکانچوڑ پیش کردیاہے۔ جس کے لیے وہ مبارک باد کی حقدارہیں۔ ایک بارجب وزارت میں بشریٰ کا نا م نہ آیا تواپوزیشن یعنی پیپلزپارٹی جوتقریر کے دوران انہیں پریشان کرتاتھا۔ بہت حیران ہوئے۔انہوں نے کہا’ہمیں بہت افسوس ہے کہ نوازشریف نے اس بار بھی آپ کووزیرنہیں بنایا۔’ان میں سے ایک نے کہاکہ ‘ہم ایک کام کے سلسلے میں نواز شریف سے ملے تھے اورہم نے آپ کی سفارش کی تھی۔’بشریٰ رحمٰن نے کہاکہ ‘آپ نے اچھانہیں کیا۔وہ سمجھیں گے میں نے آپ کوبھیجا ہے اورقسم خداکی مجھے وزارت نہ ملنے کاذرابھی ملال نہیں ہے۔”
20جون 1990ء کوبجٹ سیشن میں پرائیویٹ ممبرزڈے پرچوہدری ظہیرالدین نے اسپیکرکی اجازت سے قرار پیش کی۔”ہماری کولیگ بشریٰ رحمٰن کی ایوان کے اندرکارکردگی قابل تعریف ہے۔ ہم اپنی پارٹی یعنی اپوزیشن کی طرف سے ان خدمات کے صلے میں انہیں”قادرالکلام،شیریں بیان،بلبل پاکستان” کاخطاب دیناچاہتے ہیں۔علی اکبروینس نے قراردادکی تائیدکردی توپنجاب کے وزیر قانو ن نصراللہ دریشک نے بھی سرکاری بنچوں سے ایسی قرار دادلاناچاہی۔اسپیکر نے کہاکہ علیحدہ قراردادکی ضرورت نہیں ۔آپ اپوزیشن کے ساتھ مشترکہ قراردادبناکرلے آئیں۔مشترکہ قرارداد کے حق میں منظورچنیوٹی کے علاوہ پورے ایوان نے ووٹ دیا۔اس دن بشریٰ کویاد آیا ۔ ان کے والدسروجنی نائیڈوکی تقاریرسننے بڑے شوق سے جاتے تھے۔جنہیں ”بلبل ہند” کاخطاب ملا تھا۔ انھوں نے بیٹی کوسروجنی کی کہانی سناکرکہاتھا۔’ بیٹاجی!تم دل لگاکرپڑھا کرو،مطالعہ جاری رکھو۔بڑے لوگوں سے ملاکرو۔ان سے خط وکتابت کرو۔اچھی اچھی تقریریں کیا کرو۔میری خواہش اور دعاہے کہ تم اتنی اچھی مقررہ بن جاؤکہ ایک دن تمہیں”بلبل پاکستان” کاخطاب ملے۔”
بشریٰ رحمٰن نے کتاب میں درویش صفت ‘غلام حیدروائیں’ اور”مولاناعبدالستارنیازی” کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ ان کے ساتھ اپنوں نے کیاسلوک کیا۔بشریٰ رحمٰن 1989ء میں عمران خان کی شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ مہم میں بھی شامل رہیں اورلوگوں کے جذبہ اور خلوص اور عمران کے لیے عقیدت سے بہت متاثرہوئیں۔انھوں نے اسی دور میں عمران خان سے کہاکہ’ آپ سیاست میں آئیں اور وزیر اعظم بن جائیں۔’عمران نے کہا، ‘آپ کوایسا نہیں کہناچاہیے تھا،اس میرے نصف العین میں مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔’پھر دنیانے دیکھا عمران سیاست میں بھی آئے اور وزیراعظم بھی بنے۔
نوے کے عشرے کوبشریٰ رحمٰن اپنی کتاب زندگی سے نکال دیناچاہتی ہیں۔اس دورمیں وہ سیاست سے بھی دورہوگئیں۔سیاسی انتقام کی کڑی آزمائش شروع ہوگئی۔نوازشریف حکومت میں یہ طریق کاربہت رہا ہے۔ان حالات میں انھوں نے اپنے بچوں کوباہر بھیجنا شروع کردیا۔جنرل مشرف دورمیں جب قائداعظم مسلم لیگ بنانے کافیصلہ ہواتو چوہدری شجاعت، پرویزالہٰی اور میاں اظہرنے انہیں گھر آکر شمولیت کی دعوت دی۔میاں اظہراس وقت وزیراعظم کے امیدوارتھے۔لیکن وہ الیکشن ہارگئے۔اس کی بھی ایک کہانی ہے۔تووزات عظمٰی کاہما میرظفراللہ جمالی کے سرپربیٹھ گیا۔
اکتوبرانیس سوننانوے میں بشریٰ رحمٰن اقبال ڈے کی تقریب میں شرکت کے لیے تھائی لینڈمیں تھیں۔واپسی پرجب طیارہ لاہورسے پانچ سومیل اوروقت پچاس منٹ باقی رہ گیاتوجہازکا رخ اچانک واپس بنکاک کی طرف موڑ دیاگیا۔یہ بارہ اکتوبرکی عجیب رات تھی۔جب پرویز مشرف کی فضا میں موجودگی میں فوج نے نوازشریف کووزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ملک میں اس انقلاب کے وقت بشریٰ اوردیگرافراد کوکچھ روزبنکاک میں ہی رہناپڑا۔خداخداکرکے دوراتیں اورتین د ن گزرنے کے بعداذنِ رہائی ملا اور واپس جاسکے۔ فوجی حکومت آتے ہی سیاسی ٹریفک کارخ ادھرمڑجاتاہے، کچھ سیانے، باہربیٹھ کرگالیاں دیتے ہیں۔اندرجاکرکورنش بجالاتے ہیں۔اس طرح فوجی حکومتوں کودوام ملتاہے۔فوجی حکمراں بھی جانتے ہیں کہ آمریت کے اوپرجمہوریت کاغلاف چڑھانے کے لیے یہی ٹھکرائے ہو ئے صنم اورچلے ہوئے سیاسی مہرے درکارہیں۔
”لکھی کوکون موڑے؟” ضخیم ہونے کے باوجودقابل مطالعہ آپ بیتی ہے۔ بشریٰ رحمٰن کااسلوب سادہ، نثرپراثر ہے۔انہیں زبان وبیان پر عبورحاصل ہے۔کتاب میں انہوں نے گذشتہ چارعشروں کی پاکستانی سیاست کے نشیب وفرازخوبصورتی سے بیان کیے ہیں۔اس دورکے حکمرانوں، ضیاء الحق، محمدخان جونیجو، نوازشریف، بے نظیربھٹو، پرویزمشرف، میرظفراللہ جمالی،چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، عمران خان کے خامیاں خوبیاں جوانہیں نظرآئیں۔ بلاکم وکاست بیان کردی ہیں۔سیاسی دوستیاں اوردشمنیاںاورسازشیں بھی کھول کررکھ دی ہیں ۔پاکستان میں عورت کن مسائل کاشکار ہے۔بشریٰ رحمٰن جیسی بڑی ادیبہ تصنیف وتالیف کے لیے بھی شوہرکی اجازت کی محتاج ہوتی ہے۔جیلوںاور قیدیوں کے مسائل، اقلیتوں سے سلوک، مراعات یافتہ طبقہ کی عیاشیاں اور لاہور کے طوائفوں کی زندگی، مختصر شخصی خاکے اور سفرنامے، آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی ۔غرض کیاہے جو”لکھی کوکون موڑے؟ ” میں نہیں ہے۔افسوس یہ بے مثال ادیبہ، انسان دوست سیا ستدان کرونا کاشکارہوکراس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ایک اورعمدہ خودنوشت شائع کرنے پردوست پبلشر کوبھرپور مبارک باد۔