محمد اشفاق
آنے وال ہفتے کالج جانے کا پروگرام بنایا۔ جب کالج پہنچا تو حیران رہ گیا۔ یہ کالج ایک بلڈنگ میں کھولا گیا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ ایسے کالج صرف پاکستان ہی میں ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ یہ کالج ان طالب علموں کے لیے ہے جو آسٹریلیا میں valid visa کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ یعنی کالج کو فیس دیتے رہیے اور اپنے visa کی میعاد میں توسیع کرواتے رہیے۔
نہ تو حاضری کی پابندی اور نہ ہی کلاسز باقاعدگی سے ہوتی تھیں۔کالج کو صرف اپنی فیس سے غرض تھی۔ بس فیس دیتے رہیے اور آسٹریلیا میں legal رہتے رہیے۔ خیر میں نے تمام تفصیلات حاصل کیں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ کالج روزانہ رات دیر تک کھلتا تھا۔ اور کلاس لیں یا نہ لیں بس کالج میں کبھی کبھار چکر لگانا ضروری تھا۔ فیس بھرنا لازمی تھا۔ مجھے یہ کالج دیکھ کر اپنے پاکستان کے کالج یاد آ گۓ۔
چند روز بعد دوبارہ آکر بقایا فیس جمع کروا کر میں اس کالج کا طالب علم بن گیا۔میں ہفتے میں دو یا تین مرتبہ کالج جاتا اور پرانا کام جمع کروا کر نیا کام لے آتا۔ میں نے اپنے ڈگری کورس کو ڈپلومہ میں convert کروا لیا تھا۔ اس کالج میں صرف ڈپلومہ کلاسز ھوتی تھیں۔ یہ کالج ان تمام غیر ملکیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا جو کام کے ساتھ ساتھ پڑھنا بھی چاہتے تھے۔ یعنی اس کالج کے طالب علم full time کام کرتے اور part time پڑھائی کرتے۔
دن گزرتے گۓ۔ میرے ساتھ رہنے والے دونوں لڑکے زیادہ تعلیم یافتہ تو نہ تھے لیکن بہت تمیزدار تھے۔ مجھے اس طرح رہنے کا پہلا تجربہ تھا۔ عام طور پر ناشتہ میں ہی بنایا کرتا تھا۔ رات کے کھانے کی ذمہ داری ان دونوں پر تھی۔گھر کے لیے کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی ذمہ داری کسی ایک فرد کی نہ تھی۔ کچن میں ایک نوٹ بک رکھ دی گئی تھی۔ جو بھی سامان خرید کر لاتا وہ اپنے page پر ان اشیاء کا نام اور amount لکھ دیتا۔ ہر جمعہ کی شام کو حساب کر لیا جاتا۔
میں نے گوگی لوگوں کو ایک تجویز دی کہ اگر کوئی پاکستانی آسٹریلیا آتا ھے اور وہ jobless ھے تو ہمیں اس کو عارضی طور پر رہائش اور کھانا دینا چاہیے اور جیسے ہی اس کو ملازمت مل جاۓ تو پھر وہ اپنی رہائش کا بندوبست کر لے۔ ان دونوں نے بھی میری اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اور یوں اگر ہمیں کوئی ایسا پریشان حال پاکستانی ملتا تو ہم اس کی مدد کرتے اور اسے اپنے apartment میں اس وقت تک رکھ لیتے جب تک کہ اس کو ملازمت نہ مل جاتی۔
دوسری طرف میری job اچھی چل رہی تھی۔ اب میں ریسٹورنٹ کے ہر چھوٹے بڑے کام میں کافی ماہر ھو گیا تھا۔ Ben کی چوریاں بدستور جاری تھیں۔لیکن میں نے اسے اب نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی عادات سے مجبور تھا۔
میرا ہفتہ کا دن اخبار بینی، کپڑے دھونے ، گھر کی صفائ اور میوڑک کے پروگرام دیکھنے یا سیر و تفریح میں گزرتا تھا۔
آج کا اخبار پڑھ رہا تھا کہ میری نظر ایک اشتھار پر رک گئ۔ یہ اشتھار Sydney Morning herald کی طرف سے دیا گیا تھا۔ اور یہ اشتھار trainee journalists کے حوالے سے تھا۔میری بڑی خواہش تھی کہ میں کوئی اخبار join کر لوں۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو اچھی تنخواہ اور دوسرا یہ میرا شوق تھا۔ اور مجھے اس کام میں مزا آتا تھا۔ خیر میں نے سوچ لیا کہ میں اس job کے لیے ضرور apply کروں گا ، ھونا نہ ھونا نصیب کی بات ھے۔ میں نے اگلے ہی دن اپنے ہاتھ سے درخواست لکھی اور دیے گۓ پتے پر ارسال کر دی۔ اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔
میں اب اس علاقے سے کافی مانوس ھو چکا تھا۔ کئ دیگر پاکستانیوں سے دوستی ھو چکی تھی۔ ایسے پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی جو بہت اچھی job کر رہے تھے۔ ورنہ اپنا کوئی بھائی بڑھئی، کوئی قصاب ، کوئی cook، کوئ ڈرائیور اور کوئی پلمبر بنا ھوا تھا۔ ان میں سے اکثر اسٹوڈنٹ ویزہ پر آسٹریلیا آۓ ھوۓ تھے۔ میں جب بھی ان سے آسٹریلیا آنے کی وجہ کے بارے میں پوچھتا، ان میں سے اکثر کا ایک ہی جواب ھوتا۔۔۔پاکستان میں ہے ہی کیا۔ نہ بجلی ، نہ گیس ، نہ پانی اور نہ کسی قسم کا تحفظ۔ اور ان کی اس بات میں کافی حد تک وزن تھا اورصداقت تھی۔
پاکستانیوں سمیت تمام غیر ملکیوں کا ایک ہی خواب تھا کہ کسی بھی طور پر آسٹریلیا کی PR یعنی یہاں کی شہریت حاصل کی جاۓ۔ کیونکہ جن کے پاس شھریت تھی اور کوئی ملازمت نہ تھی تو ایسے لوگوں کو حکومت ہر ھفتہ بیروزگاری الاؤنس دیتی تھی جس میں ایک فردکا بآسانی گزارہ ھو سکتا تھا۔ میں نے کئ ایسے پاکستانی دیکھے جو آسٹریلیا کی شھریت حاصل کر چکے تھے ، انھیں کام کا شوق نہ تھا اور حکومت کے بیروزگاری الاؤنس پر زندگی گزار رہے تھے۔ اپنی مرضی سے سوتے ، اپنی مرضی سے اٹھتے اور باقی سب کو بھی یہی مشورہ دیتے کہ بس ایک دفعہ PR لے لو اور زندگی خوب enjoy کرو۔
چند دن ہی گزرے ھوں گے ، جب شام کو اپنی job سے واپس آیا تو مجھے اپنے mailbox سے خط موصول ھوا۔ خط پا کر بہت خوشی ھوئی۔یہ خط Sydney Morning herald کی طرف سے تھا جہاں میں نے apply کیاھوا تھا۔ لفافہ کھولا۔ یہ خط اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا۔(جاری ھے)