عدیل سرور
یکم دسمبر1955 کا دن ہے ۔ سارا دن کام کرنے کے بعد روزا پارکس نامی عورت عام پرانی طرز کی بس میں منٹگمری امریکا کے علاقے سے سوار ہوتی ہیں ۔روزا پارکس نے کرایہ ادا کیا اورپھر رنگین سیکشن میں کالے رنگ کی امریکیوں کےلیے مخصوص نشست پے بیٹھ جاتی ہیں۔ سفید فاموں کےلیے مخصوص سب نشستیں بھر چکی ہیں اور بس امپائر تھیٹر کے سامنے تیسرے اسٹاپ پر پہنچ چکی ہے۔متعدد اور سفید فام بس میں داخل ہوتے ہیں .جیمز بلیک بس کا ڈرائیور دیکھتا ہے کہ سیاہ فام لوگ نشستوں پر بیٹھے ہیں جبکہ سفید فام لوگ کھڑے ہیں ۔جیمز بلیک روزا پارکس کی نشست کے پاس آتا ہے اور نسلی علیحدگی کے قانون کے مطابق اسے سفید فاموں کے لئے نشست چھوڑنے کو کہتا ہے۔روزا پارکس نشست چھوڑنے سے انکار کردیتی ہے جس پر جیمز اسے پولیس کو بلانے کی دھمکی دیتا ہے ۔ روزا پارکس بضد رہتی ہے اور پولیس اسے گرفتار کرلیتی ہے۔روزا پارکس پے علیحدگی کے قانون کے مطابق مقدمہ چلتا ہے ۔روزا پارکس کی گرفتاری پر احتجاج ہوتا ہے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں . علیحدگی کے قانون اور جن بسوں میں یہ قانون لاگو ہوتا تھا اُن کا مکمل بائیکاٹ کردیا جاتا ہے ۔احتجاجی تحریک منٹگمری امپرومنٹ ایسوسیشن کے نام سے بنتی ہے اور اس کا صدر مار ٹّن لوتھر کنگ جونیئر کو منتخب کر لیا جاتا ہے ۔جوایک عیسائی وزیر ہے اور نسل پرستی اور شہری حقوق کی جنگ کیلئے سرگرم ہے ۔381 دنوں تک احتجاجی تحریک چلتی ہے اور آخر امریکا کی عدالت عظمیٰ تاریخی فیصلے میں علیحدگی اور نسل پرستانہ تعصب پر مشتمل قانون کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔روزا پارکس شہریوں کے حقوق نسل پرستی، تعصب کے خلاف جنگ میں 2005تک اپنی موت کے دن تک لڑتی رہتی ہیں اسی دورانیہ میں روزا پارکس کو صدارتی تمغہ آزادی اور کانگریس کا سونے کا تمغہ بھی ملتا ہے ۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو بھی 1964میں نسلی تعصب اور عدم تشدد کے خلاف مزاحمت کرنے پر نوبل انعام برائے امن سے نوازا جاتا ہے ۔
تاریخ 65سال بعد ایک بار پھر اپنے آپکو دہراتی ہے 25مئی 2020کا دن ہے۔جورج فلائیڈ سیاہ فام امریکی نے خریداری کے بعد بل ادا کیا جو دوکاندار کو مشکوک گزرا دوکاندار نے پولیس کو بلایا اور پولیس نے جورج فلائیڈ کو گرفتار کرلیا ۔ڈیریک چاؤ ین نامی پولیس والے نے ہتھکڑی لگّے ہوئے فلائیڈ کی گردن کو گھٹنے کے زور سے آٹھ منٹ دبائے رکھا۔ فلائیڈ چلاتا رہا رحم کی بھیک مانگتا رہا بار بار کہتا رہا میں سانس نہیں لے پا رہا ۔عوامی ہجوم نے مداخلت کی کوشش کی دوسرے پولیس افسران کی طرف سے اُن کو روک دیا گیا ۔26 مئی تک فلوئیڈ کی موت کی ویڈیو پورے امریکا میں پھیل گئی۔احتجاجی تحریک شروع ہوئی لوگوں نے جسٹس فار فلوئیڈ ،میں سانس نہیں لے سکتا،بلیک لائیوز میٹر ز کے مختلف پوسٹرز سے شدید احتجاج کیا ۔احتجاج 60 ملکوں تک پھیل گیا13 جون تک امریکا کے 2000 شہروں میں مظاہرے لوٹ مار اور فسادات میں تبدیل ہوگئے .نسل پرستی، تشدد، تعصب اور غلاموں کے کاروبار کرنے والوں کے مجسموں اور یادگاروں کو گرادیا گیا ۔سخت ترین حالات کے بعد امریکا کی حکومت پولیس اصلاحات، عدم تشدد،عدم نسل پرستی,عدم تعصب کے قوانین کو لاگو کرنے کے لیے لوگوں کو اعتماد میں لیا اور لوگ مزید حقوق حاصل کرنے کی جنگ میں سرگرم ہیں ۔دونوں واقعات میں 65سال کا وقفہ ہے.حضرت انسان آج بھی نسل پرستی ،تعصب،تشدد ،بدامنی کے راستے پر گامزن ہے آخر کیوں۔
علم نفسیات میں کسی بھی شخص، جگہ، چیز ،نسل ،یا گروہ کے بارے میں پہلے سے رائے قائم کرلینا تعصب کہلاتا ہے ۔ تعصب ایک منفی رویہ ہے جو کسی بھی شخص يا مخصوص سماجی گروہ کے بارے قائم کر لیا جاتا ہے۔معنوی اعتبار سے تعصب کا مطلب ہے کسی کے بارے فیصلہ صادر کردینا مکالمہ اور تبدیلی کا امکان ختم کردینا۔یعنی نتیجہ نکالا جاچکا ہے متبادل حقائق اور وضاحتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
ماہرین نفسیات کے مطابق تعصب کے تین اجزا وقوفی ،احساساتی اور کرداری ہوتے ہیں ۔وقوفی تعصب میں کسی بھی فرد یا گروہ کے لیے نفرت آمیز خیالات رکھے جاتے ہیں احساساتی تعصب میں ان خیالات کے ساتھ جارحیت ،نفرت اور خوف کے ہیجانات کو منسلک کردیا جاتا ہے کرداری تعصب میں عملی طور پر کسی فرد یا گروہ کے ساتھ سخت رویہ اور جارحیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔
تعصب کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں جو نسبتاً مثبت بھی ہوتی ہیں یا انکو کم منفی بھی کہا جاسکتا ہے ۔ابن خلدون نےتعصب کو مثبت انداز میں پیش کیا ہے تعصب میں نسل قوم اور قبائل کے لوگ دوسری قوم یا قبائل کے لوگوں سے زیادہ ترقی کرنے یا طاقتور ہونے کے لئے شدید محنت کرتے ہیں اس نظریے کو مثبت تعصب کے زمرے میں لیا جاسکتا ہے۔
ہم کسی مظلوم کے حق میں بھی متعصب ہو سکتے ہیں انتہائی اعلیٰ سطح کی وطن یا قوم سے محبت ایک طرح کا تعصب ہی ہوتی ہے حق پر ہے یا نہیں درست ہے یا غلط مجھے ہر حال میں اپنی قوم يا وطن کی حمایت ہی کرنی ہے ایک طرح کا کم منفی تعصب ہے . نفسیات دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ تعصب بنیادی طور پر ایک منفی جذبہ ہے۔ یہ کسی گروہ یا فرد کیلئے منافرت،نا پسندیدگی اور دشمنی کا جذبہ ہے محض اسلئے کہ اس گروہ کے ارکان کسی مخصوص شناخت سے تعلق رکھتے ہیں۔لہٰذا انہیں قابل نفرت تصور کر لیا جاتا ہے ۔پس تعصب ایک احساس ہے، ذہنی حالت ہے ، رائے ہے، منفی جذبہ ہے ، ایک فیصلہ ہے ۔
نسل پرستی تعصب کی ایک شکل ہے۔خالصتاً کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا ذات پر فوقیت یا احساس برتری بارے امتیاز کے نظریے کو نسل پرستی کہتے ہیں یہ بھی ایک منفی جذبہ منفی رویہ ہی ہے ۔ نفسیات کے مطابق نسل ایک سماجی بناوٹ ہے اسکا مطلب ہے کہ معاشرہ نسل کے تصورات تشکیل دیتا ہے جس کی بنیاد تاریخی ،سیاسی ،معاشی ،معاشرتی اور علاقائی عناصر ہوتے ہیں ۔نسل پرستی تعصب سے زیادہ وسیع تجربہ اور مشق ہے ۔نسل پرستی میں یہ یقین قائم ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے نسلی بنیاد پر برتر ہے ۔نسل پرستی میں نسلی ہنسی،مذاق برا بھلا کہنا اور نفرتی جرائم کی کھلم کھلا نمائش کی جاتی ہے ۔نسل پرستی امتیازی سلوک کی ایک شکل ہے اس میں نسلی تنقید کرنا نسلی مذاق اڑانا،نسلی رویوں کے بارے میں تصویری نمائش کرنا ،گالیاں دینا ،بے عزت کرنا ،نیچا دکھانا جسے رویے عام دیکھنے میں ملتے ہیں ۔
نفسیات کے مطابق تعصب اور نسل پرستی کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں ۔سماجی طبقہ بندی ،تعلیمی طبقہ بندی ،ذرائع ابلاغ ،جنسی تفریق ،احساس کمتری یا احساس برتری کا شکار ہو نا چند ایک وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ نفسیات کے ماہرین کے مطابق تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کے بچے ابتدائی عمر سے ہی ماں، باپ، بہن ،بھائیوں اور اپنے ہم جولیوں سے تعصب سیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ بچوں کو مختلف گروہوں کے بارے نسل پرستی اور تعصب سیکھا دیا جاتا ہے ۔بچے بڑوں کے تعصب اپنا لیتے ہیں اور تعصب اُن میں مزید مستحکم ہوجاتا ہے ۔
آج کے جدید دور میں چاند ،مریخ پر پہنچنے کے بعد اسپیس شٹل بنانے کے بعد اور کہکشاؤں کو سر کرنے کے بعد اشرف المخلوقات ہونے کے بعد بھی انسان کا نسل پرست ہونا تعصب پسند ہونا ذات ،رنگ ،نسل کی بنیاد پر کسی سے زندگی چھین لینے جیسے رویوں کو اپنانا انسانیت کے چہرے پے ایک بدنما داغ ہے ۔حضرتِ انسان کو اپنے ان رویوں کو بدلنا ہوگا ۔ نفسیات کے علم کے مطابق اداروں کو پیش قدمی کے طور پر اقدامات کرنے چاہیے تاکہ ان رویوں کو روکا جاسکے ۔ ٹھوس پروگرام تشکیل دینے چاہیے تاکہ تعصب اور نسل پرستی کی انفرادی اور انتظامی شکلوں کو روکنے میں مدد ملے ،تعصب اور نسل پرستی کے خلاف پالیسیوں اور آگاہی کو لاگو کرنا چاہئے ۔میرےنفسیات کے علم کے مطابق با ہمی گروہی تعاون،حقیت پسندی،انصاف پسندی ،ذہنی کشادگی ،بلا تفریق مواقع،ذرائع ابلاغ کا مثبت استعمال ،بچوں کی مثبت ذہن سازی اور تحقیق جیسے رویے اپنا کے تعصب اور نسل پرستی کو بہت حد تک کم اور ختم بھی کیا جاسکتا ہے ۔
مارٹن لوتھر کنگ نے آج سے 65 سال پہلے کہا تھا کے دنیا کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے ۔غربت ،نسل پرستی اور جنگ مگر میرے علم کے مطابق یہ مسائل وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتے جارہے ہیں جن کا مؤثر حل ضروری ہے.جب کے پر امن دنیا ،سلامتی ،محبت،عدم تشدد ،عدم تعصب،عدم نسل پرستی اور بھائی چارے کی خوبصورت زندگی کے لئے آج سے چودہ سو سال پہلے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پے اور کسی کالے کو کسی گورے پے کوئی برتری نہیں سوائے تقویٰ کے ۔