اقبال رحمان مانڈویا صاحب، آداب!
آپ نے اپنی کتاب کے ایک کم آٹھ سو صفحات میں کراچی آباد کردیا ۔ وہ کراچی کہ جو مچھیروں کی چھوٹی سی بستی تھا لیکن سو سال کے عرصے میں وہ شہروں کی دلہن بن گیا جس کا ہر گوشہ کوچہ مصور تھا کراچی کہ جس کو آباد ہونے میں زمانے لگے اور برباد اپنے بیٹوں کے ہاتھوں چند برسوں میں ہوگیا۔
آپ کی کتاب کیا ہے ایک گلدستہ ہے جس میں رنگ، خوشبو، لذت نظر، سب کچھ موجود ہے۔ خوشیوں کی پھوار جب بارش میں بدلتی ہے تو آپ کا رخ اداس موسموں کی طرف ہوجاتا ہے، دکھوں اور لٹے پٹے کراچی کا ذکر دل کو مٹھی میں بند کرلیتا ہے اور آپ لگتا ہے جیسے کراچی کا مرثیہ پڑھتے ہوں، بالکل اسی طرح جیسے میمن سنی ہونے کے باوجود کراچی کے لئے مجلس عزا بپا کرتے ہیں خود بھی بین کرتے ہیں اور اہل درد کو بھی رلاتے ہیں۔ کتاب میں آپ نے جس محبت و عقیدت سے مختلف مذاہب و مسالک کی عبادت گاہوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ کی وسعت نظر، کشادگی عقیدہ کو بھی ظاہر کرتا ہے، معاشرے سے یہ صفت اب مفقود ہے۔
اقبال رحمان مانڈویا صاحب! آپ سے تعلق فون کی حد تک رہا ہے، چند ماہ قبل آرٹس کونسل میں سرسری سی ملاقات ہوئی تھی۔ گزشتہ روز آپ کی محبت بھری آواز فون پر سنائی دی کہ شکیل بھائی کہاں ملاقات ہوسکتی ہے۔ اور دوسرے دن خود صاحب کتاب، کتاب سمیٹ موجود تھے۔ بہت شکریہ۔
آپ کی کتاب کیا ہے، اک حسین پینٹنگ ہے، ایک خوبصورت تصویر کہ جس میں ہر کراچی والا اپنے محبوب کو تلاش کرسکتا ہے۔ سرورق وسعت اور قدامت کی تصویر لیے ہے۔ طباعت، نہایت خوبصورت، جلد بندی مضبوط غرض ایک حسین مرقع ہے۔ اقبال بھائی! آپ سراپا محبت ہیں اور محبتوں کو فروغ دینے والے ہیں، یہ کتاب اس کا زندہ ثبوت ہے۔ لاک ڈائون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتاب پڑھتا جاتا ہوں، حیرانی دو چند ہوتی جاتی ہے، پیر و مرشد حضرت مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے “کہ میمن اور چنیوٹی پاگل بھی ہوں تو دوسرے کا سامان اپنے گھر میں پھینکتے ہیں” کیا یہ “قول فیصل” اب غلط ثابت ہو رہا ہے؟” لیکن آپ کیسے لکھ لٹ میمن ہیں جو کوچہ و بازار میں گھوم پھر کر اس یتیم شہر کی بپتا لکھتے ہیں جسے کوئی بھی قبول کرنے پر بھی کوئی آمادہ نہیں ہے۔ مکمل کتاب ایک مثبت پیغام لیکر سامنے آتی ہے کہیں کوئی منفی بات آگئی ہے تو بہت سرسری انداز سے ذکر کرکے آپ آگے بڑھ گئے ہیں جیسے یہ ذکر مطلوب نہیں تھا، بس ناگزیر تھا۔ میں کراچی اولڈ سٹی ایریا کے کبھی رہائشی نہیں رہا لیکن لڑکپن و جوانی میں بوتل گلی، لائٹ ہاؤس اور باکڑا ہوٹل ایک حسین یاد کی طرح ہمیشہ ذہن کے مال خانہ میں محفوظ رہے کہ ان کے بغیر یہ شہر مکمل ہی نہیں ہوتا۔
اقبال رحمان مانڈویا صاحب! آپ کی کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم بھی کبھی خوبصورت تھے، آج جو ہم نے اپنی صورت کو بگاڑ لیا ہے اس میں دشمنوں سے زیادہ دوستوں کی کارفرمائی ہے۔ جسے اصل کراچی دیکھنا ہے، اسے یہ کتاب حرف بہ حرف اپنے دل میں اتارنی پڑے گی، اس خلوص کو ٹٹولنا پڑے گا جو اس نسل کے دل میں تھا جس نے یہ کراچی دیکھا ہے ۔آغا خانی،برادری، اثنا عشری برادری، بوہرہ برادری، گوونیز کمیونیٹی، پارسی برادری، کہ ان سب سے میرا کراچی آباد تھا
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
مانڈویا صاحب! آپ نے ورق ورق کراچی کی جو تصویر کشی مصنف نے کی ہے وہ قابل تحسین ہے، تاریخ تحقیق، جغرافیہ سب کچھ ایک کتاب میں سموکر اسے ایک ناول کی طرح دلچسپ بنا دیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا جسے آپ نے بڑی عمدگی سے انجام دیا ہے۔کراچی کی تاریخ کیا تھی، شہر کیسے آباد ہوا، تقسیم سے قبل کون سے مذاہب و برادریاں اس شہر میں آباد تھیں،1947 کی تقسیم میں کتنے شہر برباد ہوئے لیکن کراچی ایک نیا جنم لیکر آباد ہوا، تقسیم کے بعد کن کن علاقوں سے کون لوگ آئے۔
مانڈویا صاحب! یوں تو آپ کی کتاب سے بے شمار ایسے اقتباسات پیش کیے جاسکتے ہیں جس سے کراچی کی خوبصورتی مزید نمایاں ہوکر سامنے آئے لیکن یہ مشقت قاری کو خود اٹھانی پڑے گی۔ اس کتاب کے ہر ایک صفحے اسے وہ لذت ملے گی جو اک محبوب سے ملاقات کے بعد ہوتی ہے۔ اقبال بھائی! آپ کا کراچی محبت بھرا کراچی ہے جو اپنے آغاز سے بانہیں پھیلائے کھڑا ہےکہ آؤ !میرے شہر میں آجاؤ، رہو ،بسو، اس کو ترقی دو اور اپنی ترقی کرو، کراچی نے سب کو پناہ دی لیکن کراچی کا کوئی نہ ہوا۔ کیسا سانحہ ہے۔
ان کچھ کتاب کے ناشر یعنی زاہد علی خان کا کرلوں۔ یہ صاحب ہمارے ہم مشرب و مشروب ہیں۔ خوش شکل ،خوش لباس اور سیر و سیاحت کے شوقین لیکن بہت قناعت پسند، اتنے قناعت پسند کہ سیاحت کے لئے ہمالیہ بھی جائیں تو ” برف خانگی” لیکر جاتے ہیں۔ کئی بروں سے ہم انکے تیر وتفنگ کا نشانہ بن رہے ہیں وہ ہم کو کچھ لکھنے کے لئے کہتے ہیں اور ہم سے صرف قصہ جدید لیلیٰ باتصویر لکھا جاتا ہے جس کا اختتامیہ ہوتا ہے ” منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے”۔
مانڈویا صاحب! اس دشت میں اک شہر تھا کے تولد کے ذمہ دار تو آپ ہیں لیکن کہیں پڑھا تھا کہ کتاب کا نام جناب عقیل عباس جعفری نے تجویز کیا۔ عقیل عباس جعفری صاحب تحقیق کے آدمی ہیں، مشاعرہ لوٹ شاعر ہیں لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ جنم پتری لکھنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ جعفری صاحب سے ہم بہت شاکی ہیں مجھ غریب کو انھوں نے شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔جو گھر آتا ہے پاکستان کرونیکل لے جاتا ہے اور مجھے اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لئے یہ کتاب ایک بار پھر خریدنی پڑتی ہے۔
مانڈویا صاحب! آپ کی کتاب تو ایک ناول ہے، جس میں ہمارا ذکر ہے جو ہمارے بارے میں ہے اور ہمارے کراچی کے بارے میں ہے، بس، اب اس ناول کا دوسرا حصہ جلد آنا چاہئے۔
Comments 1