Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
پیٹو لوگ اتنے شرارتی ہوتے ہیں، کہ بچوں سے دوستی صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی چاکلیٹ اور آئس کریم ہتھیا سکیں۔ ایسے لوگوں کے خیال میں امن، عشق اور محبت میں کچھ نہیں رکھا ہوتا۔ کیونکہ جو کچھ بھی رکھا ہوتا ہے، فریج میں رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں سے ایک دوست ہمارے بھی ہیں۔ ایک دفعہ بڑے وجدانی کیفیت میں کہتے ہوئے پائے گئے کہ میں نے اپنی پوری زندگی کی کمائی کا 50 فیصد حصہ فاسٹ فوڈ اور دیسی کھانوں پر لگایا ہے اور باقی حصہ ضائع ہی کیا ہے۔ ہم نے پوچھا وہ کس پر لگایا؟ تو موصوف منہ بنا کر کہتے، اپنی بیوی پر۔
گردش زندگی سے تنگ ایک دفعہ کہتے نظر آئے، اے زندگی ہمیں ضرور نچا پر کھانے تو اچھے کھلا۔ انہیں دوست کا ایک واقعہ ہے، ایک دفعہ زنگر برگر گھر لے جاتے ہوئے ،رستے میں کھو بیٹھے۔ موصوف اتنا جذباتی ہوئے، فاسٹ فوڈ کی دکان سے لے کر اپنے گھر کے راستے تک اطلاع برائے گمشدگی کے بڑے بڑے بینر لگا دیے۔ بچپن میں جب کوئی دوست ہمارا بستا پھینکا تھا تو ہم آواز لگاتے، “نا سٹیں!!، وچ اسلامیات دی کتاب ای، موصوف اس دور میں بھی یہ آواز لگاتے تھے، “نہ سٹیں وچ ٹفن ای”.
یہ دوست کسی بڑے سیانے سے بھی کم نہیں کیونکہ ایک سیانے نے کبھی کہا تھا، دنیا میں کوئی سو زبانیں موجود ہیں، لیکن ایک مسکراہٹ کی زبان ہر زبان میں ایک جیسا مفہوم رکھتی ہے۔ تو ہمارے سیانے دوست نے ایک نجی محفل میں ارشاد فرمایا، ہر صوبے، ہر ملک کی اپنی اپنی زبان ہے۔ پر دنیا میں کسی بھی خطے، ملک، شہر، نگر نگر میں صرف بھوک کی ہی ایک مشترکہ زبان ہے۔ اور یہی عالمی زبان ہونی چاہیے۔ ویسے اسی محفل کے اختتام پر موصوف کہہ رہے تھے، کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور ہیرے کو ہیرا، اتنے میں ان کو پیچھے سے کتے نے کاٹ لیا۔
انھی کا ایک اور سیانا قول ہے، کہتے ہیں، ویسے تو لوگ کہتے ہیں محبت اس دنیا کے سب سے اچھے احساسات ہیں۔ لیکن اگر پیٹ زوروں کا خراب ہو اور پورے نزاکت وقت پر باتھ روم خالی مل جائے، تو اس سے بھی بہتر جذبات نہیں ہو سکتے۔ ویسے تو انہیں لڑکیاں سفید ڈریس میں، لال دوپٹہ اور لال لپسٹک کے ساتھ ایدھی کی ایمبولینس سی لگتی ہیں۔ پر ان کو جوانی میں ایک عشق بھی ہوا، اور اس کی خاطر انہوں نے بڑی قربانیاں بھی دیں، انہیں قربانیوں کا انعام ان کی محبوبہ نے انکو گھربلاکر اس طرح دیا، موصوفہ بولیں، آج مجھے تمہاری محبت کا اعتراف ہے، اور دبی دبی مسکراہٹ سے بولیں، اس لئے آج تمہیں ہر طرح کے کام کرنے کی آزادی ہے، ہمارے دوست نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ان کی فریج سے ہر اس چیز کو جس کا کھانے سے تعلق تھا، ایک بیگ میں ڈالا اور شکریہ ادا کرکے گھر کو چل پڑے۔
ہم نے ان سے پوچھا، کیا کبھی زندگی میں کوئی خطرناک کھیل بھی کھیلا ہے؟ تو جناب کہتے، ایک دفعہ مسلسل دو گھنٹے کچھ نہ کھانے کی قسم اٹھائی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دو مقصد ہی رکھے ہیں، ایک کھانا کھانا اور دوسرا پھر کھانا کھانا۔ ویسے مشہور ہے، پانی میں بھینس چلی جائے، اور شاپنگ مال میں عورت دونوں ہی جلدی واپس نہیں آتیں، اس میں مزید اضافہ یہ کر لیا جائے، پیٹو دوست اگر کھانے کی میز پر بیٹھ جائیں، تو پھر ان کا اٹھنا ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔
پیٹو لوگ اتنے شرارتی ہوتے ہیں، کہ بچوں سے دوستی صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی چاکلیٹ اور آئس کریم ہتھیا سکیں۔ ایسے لوگوں کے خیال میں امن، عشق اور محبت میں کچھ نہیں رکھا ہوتا۔ کیونکہ جو کچھ بھی رکھا ہوتا ہے، فریج میں رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں سے ایک دوست ہمارے بھی ہیں۔ ایک دفعہ بڑے وجدانی کیفیت میں کہتے ہوئے پائے گئے کہ میں نے اپنی پوری زندگی کی کمائی کا 50 فیصد حصہ فاسٹ فوڈ اور دیسی کھانوں پر لگایا ہے اور باقی حصہ ضائع ہی کیا ہے۔ ہم نے پوچھا وہ کس پر لگایا؟ تو موصوف منہ بنا کر کہتے، اپنی بیوی پر۔
گردش زندگی سے تنگ ایک دفعہ کہتے نظر آئے، اے زندگی ہمیں ضرور نچا پر کھانے تو اچھے کھلا۔ انہیں دوست کا ایک واقعہ ہے، ایک دفعہ زنگر برگر گھر لے جاتے ہوئے ،رستے میں کھو بیٹھے۔ موصوف اتنا جذباتی ہوئے، فاسٹ فوڈ کی دکان سے لے کر اپنے گھر کے راستے تک اطلاع برائے گمشدگی کے بڑے بڑے بینر لگا دیے۔ بچپن میں جب کوئی دوست ہمارا بستا پھینکا تھا تو ہم آواز لگاتے، “نا سٹیں!!، وچ اسلامیات دی کتاب ای، موصوف اس دور میں بھی یہ آواز لگاتے تھے، “نہ سٹیں وچ ٹفن ای”.
یہ دوست کسی بڑے سیانے سے بھی کم نہیں کیونکہ ایک سیانے نے کبھی کہا تھا، دنیا میں کوئی سو زبانیں موجود ہیں، لیکن ایک مسکراہٹ کی زبان ہر زبان میں ایک جیسا مفہوم رکھتی ہے۔ تو ہمارے سیانے دوست نے ایک نجی محفل میں ارشاد فرمایا، ہر صوبے، ہر ملک کی اپنی اپنی زبان ہے۔ پر دنیا میں کسی بھی خطے، ملک، شہر، نگر نگر میں صرف بھوک کی ہی ایک مشترکہ زبان ہے۔ اور یہی عالمی زبان ہونی چاہیے۔ ویسے اسی محفل کے اختتام پر موصوف کہہ رہے تھے، کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور ہیرے کو ہیرا، اتنے میں ان کو پیچھے سے کتے نے کاٹ لیا۔
انھی کا ایک اور سیانا قول ہے، کہتے ہیں، ویسے تو لوگ کہتے ہیں محبت اس دنیا کے سب سے اچھے احساسات ہیں۔ لیکن اگر پیٹ زوروں کا خراب ہو اور پورے نزاکت وقت پر باتھ روم خالی مل جائے، تو اس سے بھی بہتر جذبات نہیں ہو سکتے۔ ویسے تو انہیں لڑکیاں سفید ڈریس میں، لال دوپٹہ اور لال لپسٹک کے ساتھ ایدھی کی ایمبولینس سی لگتی ہیں۔ پر ان کو جوانی میں ایک عشق بھی ہوا، اور اس کی خاطر انہوں نے بڑی قربانیاں بھی دیں، انہیں قربانیوں کا انعام ان کی محبوبہ نے انکو گھربلاکر اس طرح دیا، موصوفہ بولیں، آج مجھے تمہاری محبت کا اعتراف ہے، اور دبی دبی مسکراہٹ سے بولیں، اس لئے آج تمہیں ہر طرح کے کام کرنے کی آزادی ہے، ہمارے دوست نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ان کی فریج سے ہر اس چیز کو جس کا کھانے سے تعلق تھا، ایک بیگ میں ڈالا اور شکریہ ادا کرکے گھر کو چل پڑے۔
ہم نے ان سے پوچھا، کیا کبھی زندگی میں کوئی خطرناک کھیل بھی کھیلا ہے؟ تو جناب کہتے، ایک دفعہ مسلسل دو گھنٹے کچھ نہ کھانے کی قسم اٹھائی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دو مقصد ہی رکھے ہیں، ایک کھانا کھانا اور دوسرا پھر کھانا کھانا۔ ویسے مشہور ہے، پانی میں بھینس چلی جائے، اور شاپنگ مال میں عورت دونوں ہی جلدی واپس نہیں آتیں، اس میں مزید اضافہ یہ کر لیا جائے، پیٹو دوست اگر کھانے کی میز پر بیٹھ جائیں، تو پھر ان کا اٹھنا ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔