جمہوری آمریت اور آمرانہ جمہوریت دونوں ریاست اور عوام کیلئے زہر قاتل ہیں، جنرل ضیاالحق کا پرتقدس غاصبانہ دور تھا، جونیجو صاحب وزیر اعظم ہوا کرتے تھے، ایک جملہ بار بار سننے کو ملتا تھا لولی لنگڑی جمہوریت، آمریت سے بہتر ہے۔ خیر سے مرد مومن مرد حق ضیاالحق کے بعد وطن عزیز نے ایک اور آمر مطلق جنرل پرویز مشرف جھیلا، بینظیر، نواز شریف، زرداری کے بلاخیز ادوار جھیلے، اس دوران جمہوریت نے پولیو کے قطرے پیئے یا نہیں، مگر 32 برس بعد جانے کیوں لگتا ہے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آج بھی وہی عالم ہے سمجھ نہیں آتا جمہوری آمریت ہے یا آمرانہ جمہوریت؟ لیجیئے حضرات مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مبینہ کرپشن اسلئے جھیلتے رہے کہ جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے، ضیاالحق کو اسلئے جھیلا کہ اسلامی جہاد کو نقصان نہ پہنچے، پرویز مشرف کو یوں جھیلا کہ امریکہ کو نقصان نہ پہنچے، سو ریاست اور عوام خسارہ جھیلتے جھیلتے دیوالیہ ہو گئے۔
مذھبی نخوت، عسکری حدت، عدالتی نخشب اور سیاسی تہمت تو بھگتتے آئے تھے اب میڈیا کی بدعت بھی جھیل لی، اب جانے آپ اسے میڈیا کی بدعت تصور کرتے ہیں یا چند اینکرز کی وحشت، بہرحال حقیقت یہ ہے کہ داغ تو میڈیا کے ماتھے پر لگا ہے، بلکہ داغ بھی کیا کلنک کی ٹیکہ، بھلا ہو مولانا طارق جمیل کا کہ انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلانیہ معذرت طلب کر لی ورنہ یہاں تو آئین شکن، پی سی او یافتہ اور مذھبی بغاوت کے مرتکب پراسرار بندے تک معافی سے مبرا ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند اینکرز ایسے بھی تھے جنہوں نے برملا مولانا طارق جمیل کی حمایت کی، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس واقعے نے مولانا طارق جمیل کا قد مزید بلند کر دیا۔ اب تاویل یہ ہے کہ میڈیا کی بدعت کو بدعت نہ کہا جائے چونکہ موجودہ تناظر میں جمہوری کی یہی ایک امید ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں، صورتحال واقعی کچھ ایسی ہی ہے، منتخب حکومت پہلے تو الیکٹیبلز کے ہاتھوں لٹی اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے پیراشوٹرز نے تاراج کیا۔ وزارت اطلاعات میں دو سال کے اندر تیسری بڑی تبدیلی، فواد چوہدری کے بعد فردوس عاشق اعوان بھی گرچہ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ تھی مگر شاید عاصم سلیم باجوہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی، رہ گئے بیچارے شبلی فراز تو انکا ذکر ہونا نہ ہونا برابر ہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جارحانہ فیلڈنگ نے تحریک انصاف کے بلے بازوں کو اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اسٹیڈیم تو نعروں سے گونج رہا ہے مگر اسکور بورڈ پر کہیں کوئی تبدیلی نہیں۔
عاصم سلیم باجوہ ایک قابل جرنیل ہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ کے عروج میں آئی ایس پی آر کا کردار بھلا کون بھول سکتا ہے، انہوں نے سنگین حالات میں نہ صرف میڈیا کو بہترین انداز میں اپنے ساتھ رکھا بلکہ مثبت تاثر کیساتھ عوام کا بھرپور اعتماد اور تعاون حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔ ساتھ ہی راحیل شریف کی امیج بلڈنگ، کچھ اسطرح کی کہ لگتا نہیں تھا کہ ان کے بعد جانے کیا ہو گا، یہ الگ بات ہے کہ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یہ امیج صرف ایک بلبلہ ثابت پوئی۔ بہرحال انکی قابلیت میں کوئی شک و شبہ نہیں مگر فوج کی صلاحیت کو عوامی میدان میں جانچنا پانی کو چھلنی میں جمع کرنے کے مترادف ہے۔ فوج میں یس سر اور جمہوریت میں اختلاف رائے بنیادی فرق ہے، مصلحتیں، سمجھوتے، تحمل، برداشت جیسے جمہوری رویے فوج کیلئے اجنبی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ریٹائرڈ جنرل کو مشیر اطلاعات کو درجہ دیا گیا ہے تو بے وجہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ حزب اختلاف کے عمران خان کو میڈیا سے بڑی انسیت تھی مگر وزیر اعظم عمران خان کو بیشمار سنگین شکایات ہیں، جن کا وہ برملا اظہار کرتے رہتے ہیں، اس حوالے سے ان کے پسندیدہ ممالک چین، ترکی اور سعودی عرب ہیں جہاں حکومتی ایما کے بغیر میڈیا پر نہیں مار سکتا۔ شاید وزارت اطلاعات میں بار بار تبدیلی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، وزیر و مشیر ایسے نتائج دینے سے قاصر رہے ہیں جو وزیر اعظم کی خواہشات کے مطابق ہوں۔
جیسا کہ اوپر اتفاق کیا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں میڈیا جمہوریت کیلئے واحد امید ہے تو پھر میڈیا کو کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ احساس پروگرام میں وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھے اینکرز نے مولانا طارق جمیل پر جس طرح چڑھائی کی اسے کسی طور جائز نہیں کہا جا سکتا۔ پہلی بات تو یہ کہ مولانا کو بھی اظہار آزادی اور اختلاف رائے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ میڈیا کو ہے مگر میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مولانا طارق جمیل کا بیان غلط تھا یا صحیح، نامناسب تھا یا مناسب، میں اس معاملے کو دوسری جہت سے دیکھ رہا ہوں، میڈیا کا سلوک کتنا مناسب اور منطقی ہے؟ مولانا طارق جمیل نہایت بااثر اور مقبول شخصیت ہیں، ایک سحرالبیان خطیب، نفرت چھوڑ کر محبت کا درس دینے والے چند علما میں سرفہرست، پاکستان میں وسیع حلقہ ارادت، عالمی منظر نامے پر ایک عالم اسلام کے مثبت تاثر کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر میں غلط نہیں تو ستر سالوں میں بارہا سیاستدانوں سے جڑی کہانیوں کو نفرت انگیز طور پیش کر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے زیادہ سنگین غلطیاں دوسرے کریں تو فسانہ نہیں بنتا مگر گوئبلز کی تھیوری کا مسلسل اور بھرپور استعمال کرتے ہوئے سیاست کو ایک نفرت انگیز اور مشکوک عمل بنا دیا گیا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اس عمل میں سیاستدانوں نے بھی بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔
موجودہ تناظر میں جائزہ لیں تو شاید میڈیا بھی کافی سے زیادہ مواقع فراہم کر رہا ہے جہاں رائے عامہ اسکے خلاف کھڑی ہے۔ میڈیا کے گرد حصار نظر آ رہا ہے، زباں بندی اور شب خون کی سرگوشیاں بھی سنی جا رہی ہیں۔ میڈیا مالکان کی کج فہمی، ظلم و زیادتی، اینکرز کا طرز زندگی، حتیٰ کہ حب الوطنی اور قومی سلامتی کے متعلق حقائق یا فسانے زبان زد عام ہیں۔ پاکستان میں صحافت ایک بڑی جدوجہد اور جنگ کے بعد یہاں تک پہنچی ہے، نثار عثمانی، منہاج برنا، ناصر نقوی، احفاظ الرحمان اور جانے کتنے صحافیوں کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ صحافت جمہوریت کیلئے آخری امید ہے تو محتاط رہیں، بہت زیادہ محتاط رہیں، غیر سنجیدہ رویہ، بے احتیاطی، جذباتیت، ریٹنگ کی دوڑ اور ہانپتے کانپتے چھوٹی بڑی غلطیاں صحافت کو بھی سیاست جیسا مشکوک بنا دینگی۔ ذمہ دارانہ صحافت کا تقدس قائم رکھنا ضروری ہے، عوام کا اعتماد قائم رکھنا ضروری ہے چونکہ یہی جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہے، خدارا کوئی موقعہ فراہم نہ کریں، بقول منیر نیازی صاحب
کج انج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر کے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی