درد، رنجش، مایوسی، کرب، اضطراب، غیر یقینی پن کے جتنے شیون ہیں کورونا کا خوف و خدشہ ان سب میں دب کے رہ گیا ہے۔ ادویہ کھا کھا کے کوئی غذا لینے کو جی نہیں کرتا۔ بین الضلعی تجارتی بندش کے تحت اس قصبہ میں کوئی پھل نہیں ملتا بلکہ بعض ادویہ بھی دستیاب نہیں ہو پا رہیں جن میں میرے فشارخون کو معمول پر رکھنے کی دوا بھی شامل ہے۔ نہ کوئی بین الاقوامی پابندیاں لگیں نہ کوئی جنگ چھڑی اور نہ مال کی رسد پہ کوئی قدغن ہے مگر حالات ایسے ہیں جیسے جنگ زدہ علاقہ ہو۔
کل میری پشت کی دیوار کے پیچھے والے گھر میں مقیم ہمسائن گذر گئی۔ پیشہ سے یہ لوگ دھوبی ہیں لیکن ایک زمانے میں اونچ نیچ کا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ کبھی کوئی قینچی قسم کی شے لینے، ہم بچے ان کے گھر چلے جاتے تھے۔ خاتون خانہ گوری چٹی، لمبی چوڑی خوش خلق خاتون تھیں جو محلے والوں کے کپڑے سیا کرتی تھیں۔ ان کا ایک بیٹا کم عمری میں جیسا ان دنوں ہوا کرتا تھا، سات آٹھ برس کی عمر میں تیز بخار میں مبتلا ہو کر مر گیا تھا۔ ہے تو عجیب بات لیکن وہ خاتون روتے ہوئے بھی اچھی لگ رہی تھیں۔
جب میرا پہلا بیاہ ہوا تو ہم میاں بیوی نے ایک رات، اپنی چھت سے چھوٹی سی دیوار پھاند کے ان کے چوبارے پر بھی بتائی تھی۔ میں کہاں سے کہاں جاتا رہا۔ ان ہمسائن کا گھر والا گذر گیا۔ مجھے ابھی معلوم ہوا کہ ان کے تو بیٹے بھی گذر گئے، جو دونوں مجھ سے تو کیا میرے چھوٹے بھائی سے بھی چھوٹے تھے۔ ان کے پوتے سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں جا کے محنت مزدوری کرنے لگے اور خود کو ” آئرن مین ” کہنے لگے مطلب استری کرنے والے۔ دو پیسے آ گئے تو انہوں نے گلی سے متعلق ہم پہ مقدمہ کر دیا۔ یوں انہوں نے اپنا دروازہ کچھ اور ہماری مشترکہ گلی میں اس طرف کو کھسکا دیا۔
یہ خاتون میری بڑی بہن جن کا دو برس قبل پچاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا، سے بھی ایک روز بڑی تھیں۔ یوں انہوں نے تین نسلیں دیکھی تھیں، یعنی ان کے پڑ پوتے بھی بیاہے جا چکے ہیں۔ کل صبح انہوں نے تہجد پڑھی، پھر چارپائی پر بیٹھ کے اپنی پوتی سے کچھ باتیں کیں اور دنیا سے چلی گئیں۔
مجھے بہن نے آ کر ان کی رحلت کی اطلاع دی۔ پھر پتہ چلا کہ بڑی بہن جو خود بیاسی برس کی ہیں، افسوس کے لیے ان کے ہاں جانے کو تیار ہو رہی تھیں۔ میں نے سختی سے منع کیا۔ جب بہن نے ہمسایوں کی حقوق کی بات کی تو میں نے کہا کہ اگر جانا ہی ہے تو ماسک بہن کے جاؤ، لوٹو تو آتے ہی نہانا اور کپڑے تبدیل کرنا۔ وہ نہیں گئیں۔
میرا یہی خیال تھا کہ سرکاری عمال آئیں گے اور وبا کے دور میں ایس او پیز کے مطابق تدفین کرر دیں گے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلے کی طرح ان کے گھر میں تعزیت کرنے والیوں کا ہجوم، مردوں کی آوت جاوت، مسجد سے ارتحال اور نماز جنازہ کا اعلان اور باقاعدہ کسی طرح کی بھی سماجی دوری کا خیال رکھے بنا جنازہ گھر سے نکلا اور تدفین کے لیے قبرستان لے جایا گیا۔
ملک کے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جلد وبا پہ قابو پا لیں گے۔ پھر کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن بتدریج ختم کر دیں گے ( جو کسی جگہ ہے ہی نہیں ) اور دوسری ہی سانس میں کہتے ہیں کہ اگر سماجی دوری پہ عمل نہ کیا گیا تو وبا اور شدت سے پھیلے گی اور ہمارے لیے معاملات سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
ملک کے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ نہ کوئی حساب کتاب ہے اور نہ ہی کوئی شفاف پن۔ ایک ہفتے میں، کورونا سے متعلق ملک بھر کے لیے یکساں پالیسی کا اعلان کیا جائے ورنہ عبوری فیصلہ سنا دیں گے۔
میں گذشتہ تیس برس سے نسبتا” صاف ستھرے ملک میں رہا۔ شاید مجھ میں وائرس کے خلاف مدافعت کم تھی۔ اسی لیے ایک ہی طرح کے وائرس کے اندرونی اور بیرونی حملے کا شکار ہوا۔ اندرونی حملہ اتنا شدید کہ دوائیاں کھا کھا کے متلی ہونے لگی ہے۔ منہ کا ذائقہ بدل گیا ہے۔ ایک جانب کی کمر چھلنی لگتی ہے اور اسی جانب کا شکم پھولا ہوا۔ اپنی ہی قمیص شکم سے مس ہو جائے تو الاماں۔ ہر صبح سوچتا ہوں کہ آج سب ٹھیک ہوگا مگر ہر روز مایوسی ہوتی ہے اور کسی روز تو بہت تکلیف دہ درد، جیسے آج۔
بجلی کے سامان کی دکانیں بند ہیں۔ الیکٹریشن میسر نہیں۔ گھر کے ایک حصے کی تاروں میں شارٹ سرکٹ کا خطرہ ہے، جب تک یہ تاریں ٹھیک نہ کر لی جائیں۔ ایر کنڈیشنر نہیں چلایا جا سکتا۔ میں اس قدر گرمی میں تو پاکستان میں نہیں رہا تھا۔ میرے کمرے میں اے سی تھا ، میرے کلینک کے دفتر میں اے سی تھا۔ بیچ میں کوئی بیس فٹ کا فاصلہ گرمی کا ہوتا تھا۔
گرمیوں کے کپڑے نہیں ہیں۔ کپڑوں کی دکانیں نہیں کھلی ہوئیں۔ شاید 9 مئی کو کھلیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں کپڑے لینے کو باہر نکلا نہیں کہ کورونا مجھے چمٹا نہیں۔ درد جتنا بھی مضطرب کن ہو، زندگی کتنی ہی بے رنگ کیوں نہ لگنے لگی ہو لیکن ایک بے نام وائرس کا شکار ہو کے مر جانے کا خوف، خوف کم اور قلق زیادہ لگتا ہے۔