Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سندھ کے بلدیاتی نظام کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے
سیاسی میدان میں طویل عرصے بعد 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی نے سیاسی قوتوں کے مابین مثبت اور تاریخی ، قابل تحسین اقدام دیکھے اور اس کو ہر طبقے نے سراہا ہے ، جس کے بعد بہتری کی امید پیدا ہو ہے ۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا 31 دسمبر 2021ء سے 27جنوری 2022ء تک 28 دن جاری رہا اور 29 ویں دن بہتر انداز میں ختم ہوا۔دھرنے کے دوران بیک ڈور حکومت سندھ اور جماعت اسلامی کے رابطے اور مذاکرات کے کئے دور بھی ہوئے۔ مگر 27جنوری تک مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ غالباً اس کی وجہ دونوں اطراف بعض رہنمائوں کا سخت موقف تھا۔ اس دوران جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں میں سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
اسی دوران 26 جنوری کو وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر ناخو شگوار واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیوایم)کے ٹنڈو الہ یار میں ایک کارکن خلیل الرحمان جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے کا سبب پولیس کا منفی رویہ اور بلدیاتی نظام کے خلاف جلوس پر پولیس کا لاٹھی چارج تھا۔
انہی دنوں میں مہاجر قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ آفاق احمد کے انتہائی افسوسناک لب و لہجے سے یہ خدشہ ہوا کہ نہ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوگی ، بلکہ کراچی میںں انتشار پیدا ہوگا۔ کچھ علاقوں میں شرپسندوں نے کوشش بھی کی۔ تاہم سیاسی قیادت نے صبر و برادشت سے کام لیا اور خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی کے لئے تاریخی دن کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔
اس دن 3 اہم کام ہوئے ۔ پہلا کام یہ کہ حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتہائی سنجیدگی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے ایم کیوایم پاکستان کے مرکزی رہنماء اور وفاق وزیر سید امین الحق کو فون کر کے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس موقع پر متنازعہ ایشوز پر بات چیت کی پیش کش کی۔ دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ رات کو ایم کیوایم پاکستان کے مرحوم کارکن اسلم اور ایم کیوایم کےمضروب رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کے گھر تعزیت اور عیادت کے لئے وزراء کے ہمراہ پہنچ گئے اور دادرسی کا وعدہ کیا ۔ اس بحث میں نہیں پڑے کہ مرحوم اسلم کی موت دوران لاٹھی چارج تشدد سے یا مظاہرے کے کئی گھنٹے بعد حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں ایم کیو ایم کی انٹری کے پیچھے چھپے اصل راز
انتیس جنوری: آج نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی سال گرہ ہے
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
ایم کیوایم کے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین پر پولیس تشدد کی وجہ دفاعی یا اقدامی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سیاسی بالغ نظری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیوایم پاکستان نے یوم سوگ کو محدود کردیا اور چند کے سوا بیشتر سیاسی قیادت نے جلتی پر تیل کی بجائے پانی کا کام کیا۔
حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ، اس کی مثال کم سے کم سندھ میں بہت کم ملتی ہے۔ بالخصوص عین وقت پر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا ردعمل افسوسناک تھا۔وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر ناخوشگوار واقعہ کے بعد یہ خدشہ ہونے لگاکہ جماعت اسلامی کے طویل دھرنے کے شاید فوائد مل جائیں ،کیونکہ اچانک گراف ایم کیوایم پاکستان کا اوپر نظر آنے لگا۔
جماعت اسلامی پہلے ہی 28 جنوری کو کراچی کی 5 اہم شاہراہوں کے داخلی دروازوں پر دھرنوں کا اعلان کرچکی تھی اور ساتھ ہی 27 جنوری سے پی ایس ایل 7 کے میچوں کا آغاز بھی ہوناتھا ۔
یہاں پر بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت سندھ نے بالغ نظری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کے مابین مذاکرات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کا پیغام دیا۔ یوں مذاکرات کا عمل نہ صرف ایک مرتبہ پھر شروع ہوا ، بلکہ نتیجہ خیز رہا۔ 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب 2 بجے صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے جماعت اسلامی کے مطالبات منظور ہونے کے تحریری معاہدے کو دھرنے میں ہی پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ تھا تیسرا کام ۔
غالباً کراچی کی تاریخ میں ایک طویل عرصے بعد پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا ہےکہ ایک منظم جماعت کا دھرنا اپنے مطالبات کے حق میں 29 روز پر امن جاری رہا۔ اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے جلسے اور جلوس ،ہوتے رہے۔ فیسٹول بھی ہوا اور دیگر مثبت سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ غالباً متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاکستان تحریک انصا ف اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سوا تمام ہی اہم سیاسی، سماجی ، مذہبی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے وفود شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے دعوے کے مطابق 600 وفود نے دھرنے سے اظہار یکجہتی اور جماعت اسلامی کے مطالبات کے حق میں اپنا وزن ڈالا۔ یوں بامقصد مذاکرات ہوئے اور کامیابی کے نتیجے میں دھرنا پر امن طور پر ختم ہوا ۔
اس معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء بالخصوص لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021ء کے کئی نکات کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاجی دھرنا تھا اور جماعت اسلامی اپنے کئی اہم مطالبات تسلیم کرانے کامیاب ہوئی ہے۔
یہاں پر صوبائی حکومت کو بھی سیاسی بالغ نظری کریڈٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت کے باوجود دو بار اپوزیشن کے مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ایک بار ایوان سے ترامیم منظور کرلی۔ پیپلز پارٹی نے دوسری بار ترامیم کی منظوری کے لئے جماعت اسلامی سے معاہدہ کیا ہے ۔ 26 نومبر 2021ء کو حکومت نے شدید ہنگامہ آرائی کے دوران بلدیاتی ایکٹ 2013ء میں ترامیم منظور کیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ترمیمی بل اعتراضات اور پیغام کے ساتھ اسمبلی کو واپس بھیجا تھا۔ ان میں سے اکثر اعتراضات و ہی تھے جو اپوزیشن جماعتوں کے تھے۔ 11 دسمبر 2021ء کو گورنر سندھ کے بیشتر اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے ترامیم کی گئی تھیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی سب سیاسی بالغ نظری کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ کیونکہ اہل کراچی اب کسی انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اختلاف رائے تو انتشار ، دشمنی اور جنگ و جدل میں تبدیل کرنے سے گریز کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے
سیاسی میدان میں طویل عرصے بعد 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی نے سیاسی قوتوں کے مابین مثبت اور تاریخی ، قابل تحسین اقدام دیکھے اور اس کو ہر طبقے نے سراہا ہے ، جس کے بعد بہتری کی امید پیدا ہو ہے ۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا 31 دسمبر 2021ء سے 27جنوری 2022ء تک 28 دن جاری رہا اور 29 ویں دن بہتر انداز میں ختم ہوا۔دھرنے کے دوران بیک ڈور حکومت سندھ اور جماعت اسلامی کے رابطے اور مذاکرات کے کئے دور بھی ہوئے۔ مگر 27جنوری تک مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ غالباً اس کی وجہ دونوں اطراف بعض رہنمائوں کا سخت موقف تھا۔ اس دوران جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں میں سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
اسی دوران 26 جنوری کو وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر ناخو شگوار واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیوایم)کے ٹنڈو الہ یار میں ایک کارکن خلیل الرحمان جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے کا سبب پولیس کا منفی رویہ اور بلدیاتی نظام کے خلاف جلوس پر پولیس کا لاٹھی چارج تھا۔
انہی دنوں میں مہاجر قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ آفاق احمد کے انتہائی افسوسناک لب و لہجے سے یہ خدشہ ہوا کہ نہ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوگی ، بلکہ کراچی میںں انتشار پیدا ہوگا۔ کچھ علاقوں میں شرپسندوں نے کوشش بھی کی۔ تاہم سیاسی قیادت نے صبر و برادشت سے کام لیا اور خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی کے لئے تاریخی دن کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔
اس دن 3 اہم کام ہوئے ۔ پہلا کام یہ کہ حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتہائی سنجیدگی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے ایم کیوایم پاکستان کے مرکزی رہنماء اور وفاق وزیر سید امین الحق کو فون کر کے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس موقع پر متنازعہ ایشوز پر بات چیت کی پیش کش کی۔ دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ رات کو ایم کیوایم پاکستان کے مرحوم کارکن اسلم اور ایم کیوایم کےمضروب رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کے گھر تعزیت اور عیادت کے لئے وزراء کے ہمراہ پہنچ گئے اور دادرسی کا وعدہ کیا ۔ اس بحث میں نہیں پڑے کہ مرحوم اسلم کی موت دوران لاٹھی چارج تشدد سے یا مظاہرے کے کئی گھنٹے بعد حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں ایم کیو ایم کی انٹری کے پیچھے چھپے اصل راز
انتیس جنوری: آج نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی سال گرہ ہے
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
ایم کیوایم کے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین پر پولیس تشدد کی وجہ دفاعی یا اقدامی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سیاسی بالغ نظری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیوایم پاکستان نے یوم سوگ کو محدود کردیا اور چند کے سوا بیشتر سیاسی قیادت نے جلتی پر تیل کی بجائے پانی کا کام کیا۔
حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ، اس کی مثال کم سے کم سندھ میں بہت کم ملتی ہے۔ بالخصوص عین وقت پر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا ردعمل افسوسناک تھا۔وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر ناخوشگوار واقعہ کے بعد یہ خدشہ ہونے لگاکہ جماعت اسلامی کے طویل دھرنے کے شاید فوائد مل جائیں ،کیونکہ اچانک گراف ایم کیوایم پاکستان کا اوپر نظر آنے لگا۔
جماعت اسلامی پہلے ہی 28 جنوری کو کراچی کی 5 اہم شاہراہوں کے داخلی دروازوں پر دھرنوں کا اعلان کرچکی تھی اور ساتھ ہی 27 جنوری سے پی ایس ایل 7 کے میچوں کا آغاز بھی ہوناتھا ۔
یہاں پر بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت سندھ نے بالغ نظری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کے مابین مذاکرات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کا پیغام دیا۔ یوں مذاکرات کا عمل نہ صرف ایک مرتبہ پھر شروع ہوا ، بلکہ نتیجہ خیز رہا۔ 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب 2 بجے صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے جماعت اسلامی کے مطالبات منظور ہونے کے تحریری معاہدے کو دھرنے میں ہی پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ تھا تیسرا کام ۔
غالباً کراچی کی تاریخ میں ایک طویل عرصے بعد پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا ہےکہ ایک منظم جماعت کا دھرنا اپنے مطالبات کے حق میں 29 روز پر امن جاری رہا۔ اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے جلسے اور جلوس ،ہوتے رہے۔ فیسٹول بھی ہوا اور دیگر مثبت سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ غالباً متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاکستان تحریک انصا ف اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سوا تمام ہی اہم سیاسی، سماجی ، مذہبی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے وفود شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے دعوے کے مطابق 600 وفود نے دھرنے سے اظہار یکجہتی اور جماعت اسلامی کے مطالبات کے حق میں اپنا وزن ڈالا۔ یوں بامقصد مذاکرات ہوئے اور کامیابی کے نتیجے میں دھرنا پر امن طور پر ختم ہوا ۔
اس معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء بالخصوص لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021ء کے کئی نکات کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاجی دھرنا تھا اور جماعت اسلامی اپنے کئی اہم مطالبات تسلیم کرانے کامیاب ہوئی ہے۔
یہاں پر صوبائی حکومت کو بھی سیاسی بالغ نظری کریڈٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت کے باوجود دو بار اپوزیشن کے مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ایک بار ایوان سے ترامیم منظور کرلی۔ پیپلز پارٹی نے دوسری بار ترامیم کی منظوری کے لئے جماعت اسلامی سے معاہدہ کیا ہے ۔ 26 نومبر 2021ء کو حکومت نے شدید ہنگامہ آرائی کے دوران بلدیاتی ایکٹ 2013ء میں ترامیم منظور کیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ترمیمی بل اعتراضات اور پیغام کے ساتھ اسمبلی کو واپس بھیجا تھا۔ ان میں سے اکثر اعتراضات و ہی تھے جو اپوزیشن جماعتوں کے تھے۔ 11 دسمبر 2021ء کو گورنر سندھ کے بیشتر اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے ترامیم کی گئی تھیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی سب سیاسی بالغ نظری کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ کیونکہ اہل کراچی اب کسی انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اختلاف رائے تو انتشار ، دشمنی اور جنگ و جدل میں تبدیل کرنے سے گریز کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے
سیاسی میدان میں طویل عرصے بعد 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی نے سیاسی قوتوں کے مابین مثبت اور تاریخی ، قابل تحسین اقدام دیکھے اور اس کو ہر طبقے نے سراہا ہے ، جس کے بعد بہتری کی امید پیدا ہو ہے ۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا 31 دسمبر 2021ء سے 27جنوری 2022ء تک 28 دن جاری رہا اور 29 ویں دن بہتر انداز میں ختم ہوا۔دھرنے کے دوران بیک ڈور حکومت سندھ اور جماعت اسلامی کے رابطے اور مذاکرات کے کئے دور بھی ہوئے۔ مگر 27جنوری تک مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ غالباً اس کی وجہ دونوں اطراف بعض رہنمائوں کا سخت موقف تھا۔ اس دوران جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں میں سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
اسی دوران 26 جنوری کو وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر ناخو شگوار واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیوایم)کے ٹنڈو الہ یار میں ایک کارکن خلیل الرحمان جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے کا سبب پولیس کا منفی رویہ اور بلدیاتی نظام کے خلاف جلوس پر پولیس کا لاٹھی چارج تھا۔
انہی دنوں میں مہاجر قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ آفاق احمد کے انتہائی افسوسناک لب و لہجے سے یہ خدشہ ہوا کہ نہ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوگی ، بلکہ کراچی میںں انتشار پیدا ہوگا۔ کچھ علاقوں میں شرپسندوں نے کوشش بھی کی۔ تاہم سیاسی قیادت نے صبر و برادشت سے کام لیا اور خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی کے لئے تاریخی دن کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔
اس دن 3 اہم کام ہوئے ۔ پہلا کام یہ کہ حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتہائی سنجیدگی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے ایم کیوایم پاکستان کے مرکزی رہنماء اور وفاق وزیر سید امین الحق کو فون کر کے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس موقع پر متنازعہ ایشوز پر بات چیت کی پیش کش کی۔ دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ رات کو ایم کیوایم پاکستان کے مرحوم کارکن اسلم اور ایم کیوایم کےمضروب رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کے گھر تعزیت اور عیادت کے لئے وزراء کے ہمراہ پہنچ گئے اور دادرسی کا وعدہ کیا ۔ اس بحث میں نہیں پڑے کہ مرحوم اسلم کی موت دوران لاٹھی چارج تشدد سے یا مظاہرے کے کئی گھنٹے بعد حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں ایم کیو ایم کی انٹری کے پیچھے چھپے اصل راز
انتیس جنوری: آج نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی سال گرہ ہے
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
ایم کیوایم کے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین پر پولیس تشدد کی وجہ دفاعی یا اقدامی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سیاسی بالغ نظری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیوایم پاکستان نے یوم سوگ کو محدود کردیا اور چند کے سوا بیشتر سیاسی قیادت نے جلتی پر تیل کی بجائے پانی کا کام کیا۔
حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ، اس کی مثال کم سے کم سندھ میں بہت کم ملتی ہے۔ بالخصوص عین وقت پر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا ردعمل افسوسناک تھا۔وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر ناخوشگوار واقعہ کے بعد یہ خدشہ ہونے لگاکہ جماعت اسلامی کے طویل دھرنے کے شاید فوائد مل جائیں ،کیونکہ اچانک گراف ایم کیوایم پاکستان کا اوپر نظر آنے لگا۔
جماعت اسلامی پہلے ہی 28 جنوری کو کراچی کی 5 اہم شاہراہوں کے داخلی دروازوں پر دھرنوں کا اعلان کرچکی تھی اور ساتھ ہی 27 جنوری سے پی ایس ایل 7 کے میچوں کا آغاز بھی ہوناتھا ۔
یہاں پر بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت سندھ نے بالغ نظری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کے مابین مذاکرات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کا پیغام دیا۔ یوں مذاکرات کا عمل نہ صرف ایک مرتبہ پھر شروع ہوا ، بلکہ نتیجہ خیز رہا۔ 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب 2 بجے صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے جماعت اسلامی کے مطالبات منظور ہونے کے تحریری معاہدے کو دھرنے میں ہی پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ تھا تیسرا کام ۔
غالباً کراچی کی تاریخ میں ایک طویل عرصے بعد پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا ہےکہ ایک منظم جماعت کا دھرنا اپنے مطالبات کے حق میں 29 روز پر امن جاری رہا۔ اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے جلسے اور جلوس ،ہوتے رہے۔ فیسٹول بھی ہوا اور دیگر مثبت سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ غالباً متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاکستان تحریک انصا ف اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سوا تمام ہی اہم سیاسی، سماجی ، مذہبی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے وفود شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے دعوے کے مطابق 600 وفود نے دھرنے سے اظہار یکجہتی اور جماعت اسلامی کے مطالبات کے حق میں اپنا وزن ڈالا۔ یوں بامقصد مذاکرات ہوئے اور کامیابی کے نتیجے میں دھرنا پر امن طور پر ختم ہوا ۔
اس معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء بالخصوص لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021ء کے کئی نکات کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاجی دھرنا تھا اور جماعت اسلامی اپنے کئی اہم مطالبات تسلیم کرانے کامیاب ہوئی ہے۔
یہاں پر صوبائی حکومت کو بھی سیاسی بالغ نظری کریڈٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت کے باوجود دو بار اپوزیشن کے مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ایک بار ایوان سے ترامیم منظور کرلی۔ پیپلز پارٹی نے دوسری بار ترامیم کی منظوری کے لئے جماعت اسلامی سے معاہدہ کیا ہے ۔ 26 نومبر 2021ء کو حکومت نے شدید ہنگامہ آرائی کے دوران بلدیاتی ایکٹ 2013ء میں ترامیم منظور کیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ترمیمی بل اعتراضات اور پیغام کے ساتھ اسمبلی کو واپس بھیجا تھا۔ ان میں سے اکثر اعتراضات و ہی تھے جو اپوزیشن جماعتوں کے تھے۔ 11 دسمبر 2021ء کو گورنر سندھ کے بیشتر اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے ترامیم کی گئی تھیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی سب سیاسی بالغ نظری کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ کیونکہ اہل کراچی اب کسی انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اختلاف رائے تو انتشار ، دشمنی اور جنگ و جدل میں تبدیل کرنے سے گریز کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے
سیاسی میدان میں طویل عرصے بعد 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی نے سیاسی قوتوں کے مابین مثبت اور تاریخی ، قابل تحسین اقدام دیکھے اور اس کو ہر طبقے نے سراہا ہے ، جس کے بعد بہتری کی امید پیدا ہو ہے ۔
سندھ کے بلدیاتی نظام کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا 31 دسمبر 2021ء سے 27جنوری 2022ء تک 28 دن جاری رہا اور 29 ویں دن بہتر انداز میں ختم ہوا۔دھرنے کے دوران بیک ڈور حکومت سندھ اور جماعت اسلامی کے رابطے اور مذاکرات کے کئے دور بھی ہوئے۔ مگر 27جنوری تک مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ غالباً اس کی وجہ دونوں اطراف بعض رہنمائوں کا سخت موقف تھا۔ اس دوران جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں میں سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
اسی دوران 26 جنوری کو وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر ناخو شگوار واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیوایم)کے ٹنڈو الہ یار میں ایک کارکن خلیل الرحمان جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے کا سبب پولیس کا منفی رویہ اور بلدیاتی نظام کے خلاف جلوس پر پولیس کا لاٹھی چارج تھا۔
انہی دنوں میں مہاجر قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ آفاق احمد کے انتہائی افسوسناک لب و لہجے سے یہ خدشہ ہوا کہ نہ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوگی ، بلکہ کراچی میںں انتشار پیدا ہوگا۔ کچھ علاقوں میں شرپسندوں نے کوشش بھی کی۔ تاہم سیاسی قیادت نے صبر و برادشت سے کام لیا اور خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ 27 جنوری 2022ء کو اہل کراچی کے لئے تاریخی دن کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔
اس دن 3 اہم کام ہوئے ۔ پہلا کام یہ کہ حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتہائی سنجیدگی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے ایم کیوایم پاکستان کے مرکزی رہنماء اور وفاق وزیر سید امین الحق کو فون کر کے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس موقع پر متنازعہ ایشوز پر بات چیت کی پیش کش کی۔ دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ رات کو ایم کیوایم پاکستان کے مرحوم کارکن اسلم اور ایم کیوایم کےمضروب رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کے گھر تعزیت اور عیادت کے لئے وزراء کے ہمراہ پہنچ گئے اور دادرسی کا وعدہ کیا ۔ اس بحث میں نہیں پڑے کہ مرحوم اسلم کی موت دوران لاٹھی چارج تشدد سے یا مظاہرے کے کئی گھنٹے بعد حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں ایم کیو ایم کی انٹری کے پیچھے چھپے اصل راز
انتیس جنوری: آج نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی سال گرہ ہے
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
ایم کیوایم کے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین پر پولیس تشدد کی وجہ دفاعی یا اقدامی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سیاسی بالغ نظری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیوایم پاکستان نے یوم سوگ کو محدود کردیا اور چند کے سوا بیشتر سیاسی قیادت نے جلتی پر تیل کی بجائے پانی کا کام کیا۔
حکومت سندھ بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ، اس کی مثال کم سے کم سندھ میں بہت کم ملتی ہے۔ بالخصوص عین وقت پر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا ردعمل افسوسناک تھا۔وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر ناخوشگوار واقعہ کے بعد یہ خدشہ ہونے لگاکہ جماعت اسلامی کے طویل دھرنے کے شاید فوائد مل جائیں ،کیونکہ اچانک گراف ایم کیوایم پاکستان کا اوپر نظر آنے لگا۔
جماعت اسلامی پہلے ہی 28 جنوری کو کراچی کی 5 اہم شاہراہوں کے داخلی دروازوں پر دھرنوں کا اعلان کرچکی تھی اور ساتھ ہی 27 جنوری سے پی ایس ایل 7 کے میچوں کا آغاز بھی ہوناتھا ۔
یہاں پر بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت سندھ نے بالغ نظری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کے مابین مذاکرات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کا پیغام دیا۔ یوں مذاکرات کا عمل نہ صرف ایک مرتبہ پھر شروع ہوا ، بلکہ نتیجہ خیز رہا۔ 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب 2 بجے صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے جماعت اسلامی کے مطالبات منظور ہونے کے تحریری معاہدے کو دھرنے میں ہی پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ تھا تیسرا کام ۔
غالباً کراچی کی تاریخ میں ایک طویل عرصے بعد پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا ہےکہ ایک منظم جماعت کا دھرنا اپنے مطالبات کے حق میں 29 روز پر امن جاری رہا۔ اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے جلسے اور جلوس ،ہوتے رہے۔ فیسٹول بھی ہوا اور دیگر مثبت سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ غالباً متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاکستان تحریک انصا ف اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سوا تمام ہی اہم سیاسی، سماجی ، مذہبی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے وفود شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے دعوے کے مطابق 600 وفود نے دھرنے سے اظہار یکجہتی اور جماعت اسلامی کے مطالبات کے حق میں اپنا وزن ڈالا۔ یوں بامقصد مذاکرات ہوئے اور کامیابی کے نتیجے میں دھرنا پر امن طور پر ختم ہوا ۔
اس معاہدے کے بعض نکات اور جماعت اسلامی کے موقف سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاسی میدان میں عملی طور پر ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء بالخصوص لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021ء کے کئی نکات کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاجی دھرنا تھا اور جماعت اسلامی اپنے کئی اہم مطالبات تسلیم کرانے کامیاب ہوئی ہے۔
یہاں پر صوبائی حکومت کو بھی سیاسی بالغ نظری کریڈٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت کے باوجود دو بار اپوزیشن کے مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ایک بار ایوان سے ترامیم منظور کرلی۔ پیپلز پارٹی نے دوسری بار ترامیم کی منظوری کے لئے جماعت اسلامی سے معاہدہ کیا ہے ۔ 26 نومبر 2021ء کو حکومت نے شدید ہنگامہ آرائی کے دوران بلدیاتی ایکٹ 2013ء میں ترامیم منظور کیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ترمیمی بل اعتراضات اور پیغام کے ساتھ اسمبلی کو واپس بھیجا تھا۔ ان میں سے اکثر اعتراضات و ہی تھے جو اپوزیشن جماعتوں کے تھے۔ 11 دسمبر 2021ء کو گورنر سندھ کے بیشتر اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے ترامیم کی گئی تھیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی سب سیاسی بالغ نظری کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ کیونکہ اہل کراچی اب کسی انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اختلاف رائے تو انتشار ، دشمنی اور جنگ و جدل میں تبدیل کرنے سے گریز کرنا ہم سب کا فرض ہے۔