Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ایک طویل نیند سے بیداری کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک بار پھر انٹری دی ہے۔ یہ انٹری ایک اعتبار سے کامیاب رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک ماہ کی جدوجہد کے ذریعے ذرائع ابلاغ سے جو توجہ حاصل کی تھی، اس سے کہیں زیادہ توجہ اس نے ایک ہی ہلے میں حاصل کر لی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ہنگامے سے ایم کیو ایم کو صرف خبروں میں جگہ نہیں ملی۔ اس ہنگامے کی وجہ سے وہ ٹاک شوز میں جگہ لینے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کراچی کے اس ہنگامے کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟
ایم کیو ایم کی انٹری کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
ایک سیدھا سا مقصد تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف آواز بلند کر کے جماعت اسلامی نے جو مقام بنایا ہے، اسے محدود کیا جا سکے۔ کراچی کے ہنگامے کا یہ پہلو بھی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔
کراچی کے ہنگامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل آفاق احمد نے ایک نہایت نامناسب بیان دیا تھا۔ انھوں نے لسانی تعصب کو فروغ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مہاجر پٹھان کے ہوٹل سے چائے نہ پئیں۔ سندھ کے موجودہ سیاسی ماحول میں آفاق کا کیا ہے جو وہ آتش نوائی کر رہے ہیں؟ ان کے لیے کچھ نہیں۔ اس تلخ نوائی کے بعد بھی کچھ نہیں۔ دراصل انھوں نے ایم کیو ایم کو جگہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
چھبیس جنوری: آج پاکستان کے نامور سیاستدان ولی خان کی تاریخ وفات ہے
ان کے اس بیان کے بعد ایم کیو ایم کا پر تشدد ہنگامہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اہل کراچی کو بری طرح مایوس کیا۔ جماعت اسلامی نے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی۔ جماعت کے علاوہ مسلیم لیگ ن بھی اس خلا میں حصہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ ایم کیو ایم کے ہنگامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
اس ہنگامے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ دیہی سندھ میں بھی اس بار پیپلز پارٹی سے حصہ بٹانے کے لیے سیاسی قوتیں موجود تھیں۔ ان میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ایف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔ کراچی کے واقعے کے بعد پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں ایک نئی توانائی ملی ہے۔ جیسے جیسے انتخابی ماحول بنتا جائے گا، یہ توانائی بھی بڑھتی جائے گی۔
سندھ کو ہمیشہ لسانی تنازعات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، اب ایم کیو ایم کی انٹری کے ذریعے ایک بار وہی ہو رہا ہے۔ اس کا فوری عملی نتیجہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں متوقع ہے جب کہ دیرپا اثرات رکھنے والے نتائج ان نفرتوں میں ملیں گے جن کی وجہ سے سندھ پہلے ہی زخموں سے چور ہے۔
ایک طویل نیند سے بیداری کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک بار پھر انٹری دی ہے۔ یہ انٹری ایک اعتبار سے کامیاب رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک ماہ کی جدوجہد کے ذریعے ذرائع ابلاغ سے جو توجہ حاصل کی تھی، اس سے کہیں زیادہ توجہ اس نے ایک ہی ہلے میں حاصل کر لی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ہنگامے سے ایم کیو ایم کو صرف خبروں میں جگہ نہیں ملی۔ اس ہنگامے کی وجہ سے وہ ٹاک شوز میں جگہ لینے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کراچی کے اس ہنگامے کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟
ایم کیو ایم کی انٹری کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
ایک سیدھا سا مقصد تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف آواز بلند کر کے جماعت اسلامی نے جو مقام بنایا ہے، اسے محدود کیا جا سکے۔ کراچی کے ہنگامے کا یہ پہلو بھی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔
کراچی کے ہنگامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل آفاق احمد نے ایک نہایت نامناسب بیان دیا تھا۔ انھوں نے لسانی تعصب کو فروغ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مہاجر پٹھان کے ہوٹل سے چائے نہ پئیں۔ سندھ کے موجودہ سیاسی ماحول میں آفاق کا کیا ہے جو وہ آتش نوائی کر رہے ہیں؟ ان کے لیے کچھ نہیں۔ اس تلخ نوائی کے بعد بھی کچھ نہیں۔ دراصل انھوں نے ایم کیو ایم کو جگہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
چھبیس جنوری: آج پاکستان کے نامور سیاستدان ولی خان کی تاریخ وفات ہے
ان کے اس بیان کے بعد ایم کیو ایم کا پر تشدد ہنگامہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اہل کراچی کو بری طرح مایوس کیا۔ جماعت اسلامی نے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی۔ جماعت کے علاوہ مسلیم لیگ ن بھی اس خلا میں حصہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ ایم کیو ایم کے ہنگامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
اس ہنگامے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ دیہی سندھ میں بھی اس بار پیپلز پارٹی سے حصہ بٹانے کے لیے سیاسی قوتیں موجود تھیں۔ ان میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ایف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔ کراچی کے واقعے کے بعد پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں ایک نئی توانائی ملی ہے۔ جیسے جیسے انتخابی ماحول بنتا جائے گا، یہ توانائی بھی بڑھتی جائے گی۔
سندھ کو ہمیشہ لسانی تنازعات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، اب ایم کیو ایم کی انٹری کے ذریعے ایک بار وہی ہو رہا ہے۔ اس کا فوری عملی نتیجہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں متوقع ہے جب کہ دیرپا اثرات رکھنے والے نتائج ان نفرتوں میں ملیں گے جن کی وجہ سے سندھ پہلے ہی زخموں سے چور ہے۔
ایک طویل نیند سے بیداری کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک بار پھر انٹری دی ہے۔ یہ انٹری ایک اعتبار سے کامیاب رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک ماہ کی جدوجہد کے ذریعے ذرائع ابلاغ سے جو توجہ حاصل کی تھی، اس سے کہیں زیادہ توجہ اس نے ایک ہی ہلے میں حاصل کر لی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ہنگامے سے ایم کیو ایم کو صرف خبروں میں جگہ نہیں ملی۔ اس ہنگامے کی وجہ سے وہ ٹاک شوز میں جگہ لینے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کراچی کے اس ہنگامے کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟
ایم کیو ایم کی انٹری کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
ایک سیدھا سا مقصد تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف آواز بلند کر کے جماعت اسلامی نے جو مقام بنایا ہے، اسے محدود کیا جا سکے۔ کراچی کے ہنگامے کا یہ پہلو بھی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔
کراچی کے ہنگامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل آفاق احمد نے ایک نہایت نامناسب بیان دیا تھا۔ انھوں نے لسانی تعصب کو فروغ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مہاجر پٹھان کے ہوٹل سے چائے نہ پئیں۔ سندھ کے موجودہ سیاسی ماحول میں آفاق کا کیا ہے جو وہ آتش نوائی کر رہے ہیں؟ ان کے لیے کچھ نہیں۔ اس تلخ نوائی کے بعد بھی کچھ نہیں۔ دراصل انھوں نے ایم کیو ایم کو جگہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
چھبیس جنوری: آج پاکستان کے نامور سیاستدان ولی خان کی تاریخ وفات ہے
ان کے اس بیان کے بعد ایم کیو ایم کا پر تشدد ہنگامہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اہل کراچی کو بری طرح مایوس کیا۔ جماعت اسلامی نے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی۔ جماعت کے علاوہ مسلیم لیگ ن بھی اس خلا میں حصہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ ایم کیو ایم کے ہنگامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
اس ہنگامے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ دیہی سندھ میں بھی اس بار پیپلز پارٹی سے حصہ بٹانے کے لیے سیاسی قوتیں موجود تھیں۔ ان میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ایف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔ کراچی کے واقعے کے بعد پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں ایک نئی توانائی ملی ہے۔ جیسے جیسے انتخابی ماحول بنتا جائے گا، یہ توانائی بھی بڑھتی جائے گی۔
سندھ کو ہمیشہ لسانی تنازعات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، اب ایم کیو ایم کی انٹری کے ذریعے ایک بار وہی ہو رہا ہے۔ اس کا فوری عملی نتیجہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں متوقع ہے جب کہ دیرپا اثرات رکھنے والے نتائج ان نفرتوں میں ملیں گے جن کی وجہ سے سندھ پہلے ہی زخموں سے چور ہے۔
ایک طویل نیند سے بیداری کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک بار پھر انٹری دی ہے۔ یہ انٹری ایک اعتبار سے کامیاب رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک ماہ کی جدوجہد کے ذریعے ذرائع ابلاغ سے جو توجہ حاصل کی تھی، اس سے کہیں زیادہ توجہ اس نے ایک ہی ہلے میں حاصل کر لی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ہنگامے سے ایم کیو ایم کو صرف خبروں میں جگہ نہیں ملی۔ اس ہنگامے کی وجہ سے وہ ٹاک شوز میں جگہ لینے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کراچی کے اس ہنگامے کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟
ایم کیو ایم کی انٹری کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
ایک سیدھا سا مقصد تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف آواز بلند کر کے جماعت اسلامی نے جو مقام بنایا ہے، اسے محدود کیا جا سکے۔ کراچی کے ہنگامے کا یہ پہلو بھی ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔
کراچی کے ہنگامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل آفاق احمد نے ایک نہایت نامناسب بیان دیا تھا۔ انھوں نے لسانی تعصب کو فروغ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مہاجر پٹھان کے ہوٹل سے چائے نہ پئیں۔ سندھ کے موجودہ سیاسی ماحول میں آفاق کا کیا ہے جو وہ آتش نوائی کر رہے ہیں؟ ان کے لیے کچھ نہیں۔ اس تلخ نوائی کے بعد بھی کچھ نہیں۔ دراصل انھوں نے ایم کیو ایم کو جگہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
چھبیس جنوری: آج پاکستان کے نامور سیاستدان ولی خان کی تاریخ وفات ہے
ان کے اس بیان کے بعد ایم کیو ایم کا پر تشدد ہنگامہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اہل کراچی کو بری طرح مایوس کیا۔ جماعت اسلامی نے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی۔ جماعت کے علاوہ مسلیم لیگ ن بھی اس خلا میں حصہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ ایم کیو ایم کے ہنگامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
اس ہنگامے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ دیہی سندھ میں بھی اس بار پیپلز پارٹی سے حصہ بٹانے کے لیے سیاسی قوتیں موجود تھیں۔ ان میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ایف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔ کراچی کے واقعے کے بعد پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں ایک نئی توانائی ملی ہے۔ جیسے جیسے انتخابی ماحول بنتا جائے گا، یہ توانائی بھی بڑھتی جائے گی۔
سندھ کو ہمیشہ لسانی تنازعات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، اب ایم کیو ایم کی انٹری کے ذریعے ایک بار وہی ہو رہا ہے۔ اس کا فوری عملی نتیجہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں متوقع ہے جب کہ دیرپا اثرات رکھنے والے نتائج ان نفرتوں میں ملیں گے جن کی وجہ سے سندھ پہلے ہی زخموں سے چور ہے۔