Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سیلف لیس لفظ سنا تھا۔ پھر اس کے معنی تلاش کئے تو گوگل نے ترجمہ کیا
” بے لوث”۔
سوچا یہ صرف ماں باپ ہی ہوسکتے ہیں لیکن اب نرسنگ اسٹاف کے بارے میں میری رائے بدل گئی ہے۔
ساری زندگی نرسنگ سٹاف اور پیرا میڈیکل سٹاف سنا اور دیکھا تھا۔ اور ان کی عجیب وغریب کہانیاں سنی تھیں۔
شاید وہ سب لوگ بہروپئے ہیں اور اس عظیم کام کو کرنے والوں کی بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے جگر ٹرانسپلانٹ کے سلسلے میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور میں داخل ہوں۔ میرا خیال تھا کہ سرجن ڈاکٹر فیصل سعود ڈار صاحب اور ان کی ٹیم کا ٹرانسپلانٹ میں بہت اہم رول ہوتا ہے پر وہ سارا رول بے ہوشی میں ہی گزر گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے بے ہوش کیا اور کس نے ٹرانسپلانٹ کیا ۔
یہ بھی دیکھئے:
جب میری آنکھ کھلی تو آئی سی یو میں میرا کوئی اپنا میرے پاس بیٹھا تھا۔ اور میرے جسم سے منسلک سب مشینوں کو بار بار نوٹ کر رہا تھا۔ میں نہ بول سکتا تھا اور نہ ہل سکتا تھا۔ابھی ہوش میں آیا ہی تھا۔
بہت سے بیگ میرے جسم کو لگے ہوئے تھے جن کو وہ خالی کرتے تھے۔ اس کی مقدار لکھتے تھے۔ اس طرح کے تین لوگ شفٹوں میں کام کررہے تھے۔ مسلمان بھی تھے اور کرسچئن بھی پر سب بے لوث تھے۔ عجیب مرد وزن تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید میرا جنم ابھی ہوا ہے۔ کبھی میرا منہ گیلے کپڑے سے صاف کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرا رہےتھے۔ مجھے ڈائپر لگا رہے تھے، میرا ڈائپر بدل رہے تھے۔ مجھے دن میں تین دفعہ ماوتھ واش کروا رہے تھے ۔ آکسیجن ماسک درست کر رہے تھے، مجھے اٹھا کر بیٹھا رہے تھے۔ میرے پیشاب کے بیگ بدل رہے تھے۔ مسکرا رہے تھے جیسے وہ بہت خوش ہوں۔ مجھے ورزش کروا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
ستائس جنوری: آج استاذ الاساتذہ پروفیسر شریف المجاہد کی برسی ہے
جو وہ سب انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان پر فرض ہے، مجھے ہاتھ سے پکڑ کر چلا رہے تھے۔ اچھا ایک قدم اور واہ جی واہ بہت بہادر ہیں آپ۔ اچھا انکل ایک بات تو بتائیں غبارہ پھلا لیتے ہیں۔ یہ لیں کوشش کریں۔ ہوش میں آنے کے بعد پھیپھڑوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کیلئے یہ ورزشیں بہت ضروری ہیں۔ پہلا غبارہ پھلایا اور تالیاں بجانے کی آواز آئی اور یوں کئی غبارے پھلا کر اس مرحلے سے گزر گیا ۔ آئی سی یو سے ہوتا ہوا میں ہسپتال کے کمرے میں آگیا۔ نہ میں بیڈ سے گرا۔ نہ میرے کپڑے گندے یا گیلے ہوئے۔ روزانہ منہ ہاتھ دھلوا کر تیار کیا جاتا۔ بغیر کہے کپڑے بدلوائے جاتے جب کمرے میں شفٹ ہوا تو کچھ اور لوگ منتظر تھے۔ دوائی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ انکل شاباش واک کریں۔ انکل دانت صاف کریں۔ انکل سوئی چبھے گی سوری، انکل کیسے ہیں۔ انکل کیا کھایا۔
سچ بتاوں مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا یہ نرسنگ سٹاف نہیں ہیں بلکہ میرے ماں باپ ہیں۔ وہی شفقت، وہی مسکراہٹ ، وہی ٹھنڈک، وہی برداشت کیا بتاوں ۔ سبحان اللہ
آئی سی یو میں بابر صاحب، شہزاد صاحب، دانش صاحب، نجف صاحب، تنویر صاحب اور کمرے میں عدنان صاحب، فہیم صاحب، علی شیر صاحب، فرزانہ صاحبہ، گوہر صاحب، سیم صاحب، عدیلہ صاحبہ، علیزا صاحبہ، ولید صاحب، شیزا صاحبہ، ام فروا صاحبہ، جینفر صاحبہ، نیہا صاحبہ، فاطمہ صاحبہ، اسما صاحبہ، جہانگیر صاحب، ماہم صاحبہ، نقاش صاحب، رفعت صاحبہ، نبیلہ صاحبہ، رامین صاحبہ ، یاسر نیازی صاحب، حفیظ صاحب، احمد صاحب، ہارون صاحب، فدا صاحب ان سب کی شکل میں میں نے اپنے مرحوم والدین کو ساتھ ساتھ پایا۔ اتنا اپنا پن اور خیال ماں باپ ہی رکھ سکتے ہیں ۔ ان سب کیلئے خاص دعا کی درخواست ھے ۔ میرے علاج میں الله کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ ان سب کی مدد بھی شامل ہے ورنہ معاملات کافی دشوار ہوگئے تھے۔
مجھے آج عبدالستار ایدھی صاحب سمجھ آئے، اگر وہ میل نرس نہ ہوتے تو شاید عبدالستار ایدھی بھی نہ ہوتے ۔ اور بے شمار بچے کے عظیم والد بھی نہ ہوتے ۔
مدر ٹریسا بھی اگر نرس نہ ہوتیں تو کبھی اتنی عظیم ماں نہ ہوتیں ۔
میرے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم بڑھائیں اور نرسنگ سٹاف کو والدین کا احترام اور عزت دیں۔ بے شک وہ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں۔
پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہور آپ کا شکریہ اتنے اچھے لوگوں سے ملوانے کا اور میری سوچ بدلنے کا۔
میرا سلام ان عظیم ماوں کو جنہوں نے اتنے عظیم بیٹے اور بیٹیاں پیدا کیں اور پھر انکو خدمت کیلئے چن لیا گیا۔
بے شک یہ ہی عبدالستار ایدھی صاحب ہیں اور مدر ٹریسا صاحبہ ہیں۔ یہی سچے اور کھرے انسان ہیں اور اللہ کے انعام یافتہ لوگ ہیں۔
الحمدللہ میراجگر ٹرانسپلانٹ کامیاب ہوگیا ہے اور جلد لاہور اپنےگھر شفٹ ہوجاوں گا انشاء الله
میری بیٹی گھر شفٹ ہوچکی ہے الحمدللہ ۔
ابھی تین ماہ تک احتیاط کا حکم ہے ملاقات اور رابطے ممکن نہیں۔ فون کا استعمال ابھی نہیں کرتا میرے گھر والے فون سنتے ہیں ۔ واک کرتا ہوں نارمل کھانا کھاتا ہوں الحمدللہ سب بہتر ہورہا ہے۔
میرے علاج کے سلسلے میں سب احباب نے بہت مدد کی اس کیلئے ہماری فیملی آپ سب کی بہت شکر گزار ہے ۔ اللہ تعالی آپ سب کو اجر عظیم عطا فرما ئیں آمین۔
دعاوں کی درخواست ہے ہمارے لئے اور جو وسیلہ بنے اس عمل کو کامیاب بنانے کیلئے الله کے فضل سے۔
میں آپ سب کیلئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کیلئے سب جہانوں کی آسانیاں عطا فرمائیں آمین
سیلف لیس لفظ سنا تھا۔ پھر اس کے معنی تلاش کئے تو گوگل نے ترجمہ کیا
” بے لوث”۔
سوچا یہ صرف ماں باپ ہی ہوسکتے ہیں لیکن اب نرسنگ اسٹاف کے بارے میں میری رائے بدل گئی ہے۔
ساری زندگی نرسنگ سٹاف اور پیرا میڈیکل سٹاف سنا اور دیکھا تھا۔ اور ان کی عجیب وغریب کہانیاں سنی تھیں۔
شاید وہ سب لوگ بہروپئے ہیں اور اس عظیم کام کو کرنے والوں کی بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے جگر ٹرانسپلانٹ کے سلسلے میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور میں داخل ہوں۔ میرا خیال تھا کہ سرجن ڈاکٹر فیصل سعود ڈار صاحب اور ان کی ٹیم کا ٹرانسپلانٹ میں بہت اہم رول ہوتا ہے پر وہ سارا رول بے ہوشی میں ہی گزر گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے بے ہوش کیا اور کس نے ٹرانسپلانٹ کیا ۔
یہ بھی دیکھئے:
جب میری آنکھ کھلی تو آئی سی یو میں میرا کوئی اپنا میرے پاس بیٹھا تھا۔ اور میرے جسم سے منسلک سب مشینوں کو بار بار نوٹ کر رہا تھا۔ میں نہ بول سکتا تھا اور نہ ہل سکتا تھا۔ابھی ہوش میں آیا ہی تھا۔
بہت سے بیگ میرے جسم کو لگے ہوئے تھے جن کو وہ خالی کرتے تھے۔ اس کی مقدار لکھتے تھے۔ اس طرح کے تین لوگ شفٹوں میں کام کررہے تھے۔ مسلمان بھی تھے اور کرسچئن بھی پر سب بے لوث تھے۔ عجیب مرد وزن تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید میرا جنم ابھی ہوا ہے۔ کبھی میرا منہ گیلے کپڑے سے صاف کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرا رہےتھے۔ مجھے ڈائپر لگا رہے تھے، میرا ڈائپر بدل رہے تھے۔ مجھے دن میں تین دفعہ ماوتھ واش کروا رہے تھے ۔ آکسیجن ماسک درست کر رہے تھے، مجھے اٹھا کر بیٹھا رہے تھے۔ میرے پیشاب کے بیگ بدل رہے تھے۔ مسکرا رہے تھے جیسے وہ بہت خوش ہوں۔ مجھے ورزش کروا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
ستائس جنوری: آج استاذ الاساتذہ پروفیسر شریف المجاہد کی برسی ہے
جو وہ سب انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان پر فرض ہے، مجھے ہاتھ سے پکڑ کر چلا رہے تھے۔ اچھا ایک قدم اور واہ جی واہ بہت بہادر ہیں آپ۔ اچھا انکل ایک بات تو بتائیں غبارہ پھلا لیتے ہیں۔ یہ لیں کوشش کریں۔ ہوش میں آنے کے بعد پھیپھڑوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کیلئے یہ ورزشیں بہت ضروری ہیں۔ پہلا غبارہ پھلایا اور تالیاں بجانے کی آواز آئی اور یوں کئی غبارے پھلا کر اس مرحلے سے گزر گیا ۔ آئی سی یو سے ہوتا ہوا میں ہسپتال کے کمرے میں آگیا۔ نہ میں بیڈ سے گرا۔ نہ میرے کپڑے گندے یا گیلے ہوئے۔ روزانہ منہ ہاتھ دھلوا کر تیار کیا جاتا۔ بغیر کہے کپڑے بدلوائے جاتے جب کمرے میں شفٹ ہوا تو کچھ اور لوگ منتظر تھے۔ دوائی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ انکل شاباش واک کریں۔ انکل دانت صاف کریں۔ انکل سوئی چبھے گی سوری، انکل کیسے ہیں۔ انکل کیا کھایا۔
سچ بتاوں مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا یہ نرسنگ سٹاف نہیں ہیں بلکہ میرے ماں باپ ہیں۔ وہی شفقت، وہی مسکراہٹ ، وہی ٹھنڈک، وہی برداشت کیا بتاوں ۔ سبحان اللہ
آئی سی یو میں بابر صاحب، شہزاد صاحب، دانش صاحب، نجف صاحب، تنویر صاحب اور کمرے میں عدنان صاحب، فہیم صاحب، علی شیر صاحب، فرزانہ صاحبہ، گوہر صاحب، سیم صاحب، عدیلہ صاحبہ، علیزا صاحبہ، ولید صاحب، شیزا صاحبہ، ام فروا صاحبہ، جینفر صاحبہ، نیہا صاحبہ، فاطمہ صاحبہ، اسما صاحبہ، جہانگیر صاحب، ماہم صاحبہ، نقاش صاحب، رفعت صاحبہ، نبیلہ صاحبہ، رامین صاحبہ ، یاسر نیازی صاحب، حفیظ صاحب، احمد صاحب، ہارون صاحب، فدا صاحب ان سب کی شکل میں میں نے اپنے مرحوم والدین کو ساتھ ساتھ پایا۔ اتنا اپنا پن اور خیال ماں باپ ہی رکھ سکتے ہیں ۔ ان سب کیلئے خاص دعا کی درخواست ھے ۔ میرے علاج میں الله کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ ان سب کی مدد بھی شامل ہے ورنہ معاملات کافی دشوار ہوگئے تھے۔
مجھے آج عبدالستار ایدھی صاحب سمجھ آئے، اگر وہ میل نرس نہ ہوتے تو شاید عبدالستار ایدھی بھی نہ ہوتے ۔ اور بے شمار بچے کے عظیم والد بھی نہ ہوتے ۔
مدر ٹریسا بھی اگر نرس نہ ہوتیں تو کبھی اتنی عظیم ماں نہ ہوتیں ۔
میرے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم بڑھائیں اور نرسنگ سٹاف کو والدین کا احترام اور عزت دیں۔ بے شک وہ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں۔
پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہور آپ کا شکریہ اتنے اچھے لوگوں سے ملوانے کا اور میری سوچ بدلنے کا۔
میرا سلام ان عظیم ماوں کو جنہوں نے اتنے عظیم بیٹے اور بیٹیاں پیدا کیں اور پھر انکو خدمت کیلئے چن لیا گیا۔
بے شک یہ ہی عبدالستار ایدھی صاحب ہیں اور مدر ٹریسا صاحبہ ہیں۔ یہی سچے اور کھرے انسان ہیں اور اللہ کے انعام یافتہ لوگ ہیں۔
الحمدللہ میراجگر ٹرانسپلانٹ کامیاب ہوگیا ہے اور جلد لاہور اپنےگھر شفٹ ہوجاوں گا انشاء الله
میری بیٹی گھر شفٹ ہوچکی ہے الحمدللہ ۔
ابھی تین ماہ تک احتیاط کا حکم ہے ملاقات اور رابطے ممکن نہیں۔ فون کا استعمال ابھی نہیں کرتا میرے گھر والے فون سنتے ہیں ۔ واک کرتا ہوں نارمل کھانا کھاتا ہوں الحمدللہ سب بہتر ہورہا ہے۔
میرے علاج کے سلسلے میں سب احباب نے بہت مدد کی اس کیلئے ہماری فیملی آپ سب کی بہت شکر گزار ہے ۔ اللہ تعالی آپ سب کو اجر عظیم عطا فرما ئیں آمین۔
دعاوں کی درخواست ہے ہمارے لئے اور جو وسیلہ بنے اس عمل کو کامیاب بنانے کیلئے الله کے فضل سے۔
میں آپ سب کیلئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کیلئے سب جہانوں کی آسانیاں عطا فرمائیں آمین
سیلف لیس لفظ سنا تھا۔ پھر اس کے معنی تلاش کئے تو گوگل نے ترجمہ کیا
” بے لوث”۔
سوچا یہ صرف ماں باپ ہی ہوسکتے ہیں لیکن اب نرسنگ اسٹاف کے بارے میں میری رائے بدل گئی ہے۔
ساری زندگی نرسنگ سٹاف اور پیرا میڈیکل سٹاف سنا اور دیکھا تھا۔ اور ان کی عجیب وغریب کہانیاں سنی تھیں۔
شاید وہ سب لوگ بہروپئے ہیں اور اس عظیم کام کو کرنے والوں کی بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے جگر ٹرانسپلانٹ کے سلسلے میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور میں داخل ہوں۔ میرا خیال تھا کہ سرجن ڈاکٹر فیصل سعود ڈار صاحب اور ان کی ٹیم کا ٹرانسپلانٹ میں بہت اہم رول ہوتا ہے پر وہ سارا رول بے ہوشی میں ہی گزر گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے بے ہوش کیا اور کس نے ٹرانسپلانٹ کیا ۔
یہ بھی دیکھئے:
جب میری آنکھ کھلی تو آئی سی یو میں میرا کوئی اپنا میرے پاس بیٹھا تھا۔ اور میرے جسم سے منسلک سب مشینوں کو بار بار نوٹ کر رہا تھا۔ میں نہ بول سکتا تھا اور نہ ہل سکتا تھا۔ابھی ہوش میں آیا ہی تھا۔
بہت سے بیگ میرے جسم کو لگے ہوئے تھے جن کو وہ خالی کرتے تھے۔ اس کی مقدار لکھتے تھے۔ اس طرح کے تین لوگ شفٹوں میں کام کررہے تھے۔ مسلمان بھی تھے اور کرسچئن بھی پر سب بے لوث تھے۔ عجیب مرد وزن تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید میرا جنم ابھی ہوا ہے۔ کبھی میرا منہ گیلے کپڑے سے صاف کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرا رہےتھے۔ مجھے ڈائپر لگا رہے تھے، میرا ڈائپر بدل رہے تھے۔ مجھے دن میں تین دفعہ ماوتھ واش کروا رہے تھے ۔ آکسیجن ماسک درست کر رہے تھے، مجھے اٹھا کر بیٹھا رہے تھے۔ میرے پیشاب کے بیگ بدل رہے تھے۔ مسکرا رہے تھے جیسے وہ بہت خوش ہوں۔ مجھے ورزش کروا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
ستائس جنوری: آج استاذ الاساتذہ پروفیسر شریف المجاہد کی برسی ہے
جو وہ سب انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان پر فرض ہے، مجھے ہاتھ سے پکڑ کر چلا رہے تھے۔ اچھا ایک قدم اور واہ جی واہ بہت بہادر ہیں آپ۔ اچھا انکل ایک بات تو بتائیں غبارہ پھلا لیتے ہیں۔ یہ لیں کوشش کریں۔ ہوش میں آنے کے بعد پھیپھڑوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کیلئے یہ ورزشیں بہت ضروری ہیں۔ پہلا غبارہ پھلایا اور تالیاں بجانے کی آواز آئی اور یوں کئی غبارے پھلا کر اس مرحلے سے گزر گیا ۔ آئی سی یو سے ہوتا ہوا میں ہسپتال کے کمرے میں آگیا۔ نہ میں بیڈ سے گرا۔ نہ میرے کپڑے گندے یا گیلے ہوئے۔ روزانہ منہ ہاتھ دھلوا کر تیار کیا جاتا۔ بغیر کہے کپڑے بدلوائے جاتے جب کمرے میں شفٹ ہوا تو کچھ اور لوگ منتظر تھے۔ دوائی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ انکل شاباش واک کریں۔ انکل دانت صاف کریں۔ انکل سوئی چبھے گی سوری، انکل کیسے ہیں۔ انکل کیا کھایا۔
سچ بتاوں مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا یہ نرسنگ سٹاف نہیں ہیں بلکہ میرے ماں باپ ہیں۔ وہی شفقت، وہی مسکراہٹ ، وہی ٹھنڈک، وہی برداشت کیا بتاوں ۔ سبحان اللہ
آئی سی یو میں بابر صاحب، شہزاد صاحب، دانش صاحب، نجف صاحب، تنویر صاحب اور کمرے میں عدنان صاحب، فہیم صاحب، علی شیر صاحب، فرزانہ صاحبہ، گوہر صاحب، سیم صاحب، عدیلہ صاحبہ، علیزا صاحبہ، ولید صاحب، شیزا صاحبہ، ام فروا صاحبہ، جینفر صاحبہ، نیہا صاحبہ، فاطمہ صاحبہ، اسما صاحبہ، جہانگیر صاحب، ماہم صاحبہ، نقاش صاحب، رفعت صاحبہ، نبیلہ صاحبہ، رامین صاحبہ ، یاسر نیازی صاحب، حفیظ صاحب، احمد صاحب، ہارون صاحب، فدا صاحب ان سب کی شکل میں میں نے اپنے مرحوم والدین کو ساتھ ساتھ پایا۔ اتنا اپنا پن اور خیال ماں باپ ہی رکھ سکتے ہیں ۔ ان سب کیلئے خاص دعا کی درخواست ھے ۔ میرے علاج میں الله کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ ان سب کی مدد بھی شامل ہے ورنہ معاملات کافی دشوار ہوگئے تھے۔
مجھے آج عبدالستار ایدھی صاحب سمجھ آئے، اگر وہ میل نرس نہ ہوتے تو شاید عبدالستار ایدھی بھی نہ ہوتے ۔ اور بے شمار بچے کے عظیم والد بھی نہ ہوتے ۔
مدر ٹریسا بھی اگر نرس نہ ہوتیں تو کبھی اتنی عظیم ماں نہ ہوتیں ۔
میرے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم بڑھائیں اور نرسنگ سٹاف کو والدین کا احترام اور عزت دیں۔ بے شک وہ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں۔
پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہور آپ کا شکریہ اتنے اچھے لوگوں سے ملوانے کا اور میری سوچ بدلنے کا۔
میرا سلام ان عظیم ماوں کو جنہوں نے اتنے عظیم بیٹے اور بیٹیاں پیدا کیں اور پھر انکو خدمت کیلئے چن لیا گیا۔
بے شک یہ ہی عبدالستار ایدھی صاحب ہیں اور مدر ٹریسا صاحبہ ہیں۔ یہی سچے اور کھرے انسان ہیں اور اللہ کے انعام یافتہ لوگ ہیں۔
الحمدللہ میراجگر ٹرانسپلانٹ کامیاب ہوگیا ہے اور جلد لاہور اپنےگھر شفٹ ہوجاوں گا انشاء الله
میری بیٹی گھر شفٹ ہوچکی ہے الحمدللہ ۔
ابھی تین ماہ تک احتیاط کا حکم ہے ملاقات اور رابطے ممکن نہیں۔ فون کا استعمال ابھی نہیں کرتا میرے گھر والے فون سنتے ہیں ۔ واک کرتا ہوں نارمل کھانا کھاتا ہوں الحمدللہ سب بہتر ہورہا ہے۔
میرے علاج کے سلسلے میں سب احباب نے بہت مدد کی اس کیلئے ہماری فیملی آپ سب کی بہت شکر گزار ہے ۔ اللہ تعالی آپ سب کو اجر عظیم عطا فرما ئیں آمین۔
دعاوں کی درخواست ہے ہمارے لئے اور جو وسیلہ بنے اس عمل کو کامیاب بنانے کیلئے الله کے فضل سے۔
میں آپ سب کیلئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کیلئے سب جہانوں کی آسانیاں عطا فرمائیں آمین
سیلف لیس لفظ سنا تھا۔ پھر اس کے معنی تلاش کئے تو گوگل نے ترجمہ کیا
” بے لوث”۔
سوچا یہ صرف ماں باپ ہی ہوسکتے ہیں لیکن اب نرسنگ اسٹاف کے بارے میں میری رائے بدل گئی ہے۔
ساری زندگی نرسنگ سٹاف اور پیرا میڈیکل سٹاف سنا اور دیکھا تھا۔ اور ان کی عجیب وغریب کہانیاں سنی تھیں۔
شاید وہ سب لوگ بہروپئے ہیں اور اس عظیم کام کو کرنے والوں کی بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے جگر ٹرانسپلانٹ کے سلسلے میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور میں داخل ہوں۔ میرا خیال تھا کہ سرجن ڈاکٹر فیصل سعود ڈار صاحب اور ان کی ٹیم کا ٹرانسپلانٹ میں بہت اہم رول ہوتا ہے پر وہ سارا رول بے ہوشی میں ہی گزر گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے بے ہوش کیا اور کس نے ٹرانسپلانٹ کیا ۔
یہ بھی دیکھئے:
جب میری آنکھ کھلی تو آئی سی یو میں میرا کوئی اپنا میرے پاس بیٹھا تھا۔ اور میرے جسم سے منسلک سب مشینوں کو بار بار نوٹ کر رہا تھا۔ میں نہ بول سکتا تھا اور نہ ہل سکتا تھا۔ابھی ہوش میں آیا ہی تھا۔
بہت سے بیگ میرے جسم کو لگے ہوئے تھے جن کو وہ خالی کرتے تھے۔ اس کی مقدار لکھتے تھے۔ اس طرح کے تین لوگ شفٹوں میں کام کررہے تھے۔ مسلمان بھی تھے اور کرسچئن بھی پر سب بے لوث تھے۔ عجیب مرد وزن تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید میرا جنم ابھی ہوا ہے۔ کبھی میرا منہ گیلے کپڑے سے صاف کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرا رہےتھے۔ مجھے ڈائپر لگا رہے تھے، میرا ڈائپر بدل رہے تھے۔ مجھے دن میں تین دفعہ ماوتھ واش کروا رہے تھے ۔ آکسیجن ماسک درست کر رہے تھے، مجھے اٹھا کر بیٹھا رہے تھے۔ میرے پیشاب کے بیگ بدل رہے تھے۔ مسکرا رہے تھے جیسے وہ بہت خوش ہوں۔ مجھے ورزش کروا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
جنرل اعجاز اعوان نے اصلیت دکھا دی
پی ڈی ایم تحریک عدم پر کیوں تیار نہیں؟
ستائس جنوری: آج استاذ الاساتذہ پروفیسر شریف المجاہد کی برسی ہے
جو وہ سب انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان پر فرض ہے، مجھے ہاتھ سے پکڑ کر چلا رہے تھے۔ اچھا ایک قدم اور واہ جی واہ بہت بہادر ہیں آپ۔ اچھا انکل ایک بات تو بتائیں غبارہ پھلا لیتے ہیں۔ یہ لیں کوشش کریں۔ ہوش میں آنے کے بعد پھیپھڑوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کیلئے یہ ورزشیں بہت ضروری ہیں۔ پہلا غبارہ پھلایا اور تالیاں بجانے کی آواز آئی اور یوں کئی غبارے پھلا کر اس مرحلے سے گزر گیا ۔ آئی سی یو سے ہوتا ہوا میں ہسپتال کے کمرے میں آگیا۔ نہ میں بیڈ سے گرا۔ نہ میرے کپڑے گندے یا گیلے ہوئے۔ روزانہ منہ ہاتھ دھلوا کر تیار کیا جاتا۔ بغیر کہے کپڑے بدلوائے جاتے جب کمرے میں شفٹ ہوا تو کچھ اور لوگ منتظر تھے۔ دوائی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ انکل شاباش واک کریں۔ انکل دانت صاف کریں۔ انکل سوئی چبھے گی سوری، انکل کیسے ہیں۔ انکل کیا کھایا۔
سچ بتاوں مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا یہ نرسنگ سٹاف نہیں ہیں بلکہ میرے ماں باپ ہیں۔ وہی شفقت، وہی مسکراہٹ ، وہی ٹھنڈک، وہی برداشت کیا بتاوں ۔ سبحان اللہ
آئی سی یو میں بابر صاحب، شہزاد صاحب، دانش صاحب، نجف صاحب، تنویر صاحب اور کمرے میں عدنان صاحب، فہیم صاحب، علی شیر صاحب، فرزانہ صاحبہ، گوہر صاحب، سیم صاحب، عدیلہ صاحبہ، علیزا صاحبہ، ولید صاحب، شیزا صاحبہ، ام فروا صاحبہ، جینفر صاحبہ، نیہا صاحبہ، فاطمہ صاحبہ، اسما صاحبہ، جہانگیر صاحب، ماہم صاحبہ، نقاش صاحب، رفعت صاحبہ، نبیلہ صاحبہ، رامین صاحبہ ، یاسر نیازی صاحب، حفیظ صاحب، احمد صاحب، ہارون صاحب، فدا صاحب ان سب کی شکل میں میں نے اپنے مرحوم والدین کو ساتھ ساتھ پایا۔ اتنا اپنا پن اور خیال ماں باپ ہی رکھ سکتے ہیں ۔ ان سب کیلئے خاص دعا کی درخواست ھے ۔ میرے علاج میں الله کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ ان سب کی مدد بھی شامل ہے ورنہ معاملات کافی دشوار ہوگئے تھے۔
مجھے آج عبدالستار ایدھی صاحب سمجھ آئے، اگر وہ میل نرس نہ ہوتے تو شاید عبدالستار ایدھی بھی نہ ہوتے ۔ اور بے شمار بچے کے عظیم والد بھی نہ ہوتے ۔
مدر ٹریسا بھی اگر نرس نہ ہوتیں تو کبھی اتنی عظیم ماں نہ ہوتیں ۔
میرے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم بڑھائیں اور نرسنگ سٹاف کو والدین کا احترام اور عزت دیں۔ بے شک وہ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں۔
پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہور آپ کا شکریہ اتنے اچھے لوگوں سے ملوانے کا اور میری سوچ بدلنے کا۔
میرا سلام ان عظیم ماوں کو جنہوں نے اتنے عظیم بیٹے اور بیٹیاں پیدا کیں اور پھر انکو خدمت کیلئے چن لیا گیا۔
بے شک یہ ہی عبدالستار ایدھی صاحب ہیں اور مدر ٹریسا صاحبہ ہیں۔ یہی سچے اور کھرے انسان ہیں اور اللہ کے انعام یافتہ لوگ ہیں۔
الحمدللہ میراجگر ٹرانسپلانٹ کامیاب ہوگیا ہے اور جلد لاہور اپنےگھر شفٹ ہوجاوں گا انشاء الله
میری بیٹی گھر شفٹ ہوچکی ہے الحمدللہ ۔
ابھی تین ماہ تک احتیاط کا حکم ہے ملاقات اور رابطے ممکن نہیں۔ فون کا استعمال ابھی نہیں کرتا میرے گھر والے فون سنتے ہیں ۔ واک کرتا ہوں نارمل کھانا کھاتا ہوں الحمدللہ سب بہتر ہورہا ہے۔
میرے علاج کے سلسلے میں سب احباب نے بہت مدد کی اس کیلئے ہماری فیملی آپ سب کی بہت شکر گزار ہے ۔ اللہ تعالی آپ سب کو اجر عظیم عطا فرما ئیں آمین۔
دعاوں کی درخواست ہے ہمارے لئے اور جو وسیلہ بنے اس عمل کو کامیاب بنانے کیلئے الله کے فضل سے۔
میں آپ سب کیلئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کیلئے سب جہانوں کی آسانیاں عطا فرمائیں آمین