چودھری پرویز الٰہی بالآخر وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یہ فیصلہ کثیر پہلو ہے۔ سیاسی پتے عمران خان کے ہاتھ میں چلے گئے۔ وفاقی حکومت اسلام آباد تک محدود ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک واقعہ اور بھی ہوا۔
اس فیصلے نے اعلیٰ عدلیہ کو صرف متنازع نہیں بنایا بلکہ ن لیگ کے ہاتھ میں وہی پرانا بیانیہ بھی دے دیا ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ اب یہ محض وقت کی بات ہے کہ میاں نواز شریف کب وطن واپس آتے ہیں اور کب سیاسی فضا گرم کرتے ہیں۔
حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ اپنے بیانئے سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی لیکن ایک متنازع فیصلے کے ذریعے اسے چشم شدن میں تین ماہ پہلے والی مسلم لیگ بنا دیا گیا۔ جس فیصلے کے ذریعے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے محروم کیا گیا ہے، اس کے آنے سے پہلے ہی مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے فیصلے کے بارے میں سوالات اٹھا دیے تھے۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حکمراں اتحاد کے مطالبے کے مطابق اگر فل کورٹ بن جاتی تو فیصلہ کیا ہوتا لیکن اگر بینچ جاتا تو اس فیصلے پر اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔
حکمراں اتحاد کا موقف ہے کہ جس بینچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے، اس کا ٹریک ریکارڈ اسی قسم کے فیصلوں کا ہے یعنی اس کے فیصلے پی ٹی آئی کے حق اور مسلم لیگ ن کے خلاف آتے ہیں۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ حکمراں اتحاد نے وقت سے پہلے ہی پیش بندی کرتے ہوئے فل کورٹ کے قیام کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس عدالت کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ یوں حکمراں اتحاد کے بروقت فیصلے نے اسے نئی زندگی دے دی۔
یہ بھی پڑھئے:
چھبیس جولائی: سنیٹر عرفان صدیقی کی پراسرار گرفتاری کا راز کیا تھا؟‘
زندگی کیسے ملی؟ یوں، اس سوال کا جواب واضح ہے لیکن اس مطالبے کے پس پشت صرف ن لیگ اور اس کے اتحادی نہیں تھے بلکہ پاکستان کی تمام تر قانون دان برادری تھی جو بڑے ٹھوس قانونی بنیادوں پر فل کورٹ کا مطالبہ کر رہی تھی۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے عوامل نے حکمراں اتحاد کو توانائی مہیا کر دی ہے۔
حکمراں اتحاد کو ملنے والی نئی زندگی کی بنیاد مریم نواز شریف کے فیصلے پر تبصرے سے ملتی ہے۔ انھوں فیصلے کو عدالتی بغاوت قرار دیا جب کہ فیصلے سے قبل حکومت کو سخت موقف اختیار کرنے کا مشورہ دے کر متوقع فیصلے کی نوعیت واضح کر دی تھی۔
اس فیصلے کے صرف سیاسی اثرات نہیں ہوں گے۔ انصاف کی فراہمی کے تعلق سے ملک کے شہریوں کا نظام پر اعتماد ہی مجروح نہیں ہو گا بلکہ اداروں کے درمیان تصادم بھی شدید ہو جائے گا۔ اس تصادم کے آثار فرحت اللہ بابر کے ٹویٹ سے واضح ہیں۔ جیسے جیسے یہ تصادم بڑھتا جائے گا بیانیہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ اس قسم کا تصادم جہاں قومی فضا کو مکدر کرے گا، وہیں معیشت کو بھی تباہ کر دے گا۔
جہاں تک معیشت کا معاملہ ہے ، سیاسی عدم استحکام میں اس کے مضبوط ہونے کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور مالی مدد کرنے والے دوست ممالک ہمارے حالات اور وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ویسے ہی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔