حکومت اور حکمراں اتحاد ایک بار پھر پُر اعتماد ہو چکا ہے۔ بازی ایک بار پھر پلٹ گئی۔ سپریم کورٹ کا فل بینچ بننے اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی راہ ہموار ہو گئی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر چودھری شجاعت حسین کا خط سامنے آنے کے بعد ہوا یعنی یک لخت بازی پلٹ گئی۔ اب عین اس وقت جب سپریم کورٹ میں کمنںٹس دیے گئے کہ حمزہ شہباز شریف کا عہدہ سخت خطرے میں ہے، ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی۔
آئینی اور قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ عدالت میں سامنے آنے والے کمنںٹس سے ظاہر ہوتا تھا کہ معزز جج صاحبان اپنا ذہن بنا چکے ہیں۔
اسی بارے میں:
اگر یہ تاثر درست ہے تو اس پس منظر میں اگر پہلی سماعت میں کوئی ایسا فیصلہ سنا دیا جاتا جس کا انتظار حکمراں جماعت کے مخالفین کو تھا تو یہ باعث حیرت نہ ہوتا۔ پھر کیا وجہ تھی کہ مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی؟ یہ سوال قانونی حلقوں میں اہمیت رکھتا ہے اور اس پر بحث ہوتی رہے گی لیکن پس پردہ معلومات معاملے کے ایک اور رخ سے پردہ اٹھاتی ہیں جسے سمجھنے کے لیے چند سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ محض دو دن کی مہلت رکھنے والی حکومت پنجاب میں یہ اعتماد کیسے پیدا ہوا کہ اس نے اکتالیس رکنی کابینہ نہ صرف تشکیل دی بلکہ اس نے حلف بھی اٹھا لیا؟ اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس ایک وجہ تو یہی ہے کہ یہ فیصلہ غیر متوقع طور پر التوا میں چلا گیا۔ اس کی دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ریاستی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان روابط کے احیا کے نتیجے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے عدم استحکام کو استحکام میں بدلنے پر وسیع پیمانے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پارٹی ڈسپلن اراکین پارلیمان کا فری مینڈیٹ اور پارٹی ہیڈ
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں بدیانتی کا ایک پہلو
عدم استحکام کو استحکام میں بدلنے کی فوری ضرورت کی وجہ بہت غیر معمولی ہے۔ انتہائی با خبر ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو اگلی قسط ادا کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنے اس فیصلے کے دو اسباب بیان کیے ہیں۔ پہلا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے تازہ سیاسی معاملات میں سوفٹ مداخلت کی خبروں کے بعد سعودی عرب نے اپنی ضمانت واپس لے لی ہے جب کہ چین کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کی ضمانت پر اقتصادی امداد کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس سلسلے میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے جو وعدے کیے گئے تھے، انھیں پورا نہیں کیا گیا۔ اس تازہ پیش رفت کے بعد آئی ایم ایف کی امداد خطرے میں پڑ گئی ہے اور ملک کے ڈیفالٹ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اس غیر معمولی پیش رفت کے بعد سیاسی، انتظامی اور عدالتی ہر قسم کے فیصلوں کے ذریعے عدم استحکام پیدا ہونے کے ہر راستے کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ اس پس منظر میں سپریم کورٹ کے فل بینچ کے قیام کی توقع بھی کی جا رہی ہے اور یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ آنے میں ممکن ہے کہ کوئی دھماکہ خیز صورت حال پیدا نہ ہو بلکہ کسی بھی سیاسی گروہ کو امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی اجازت بھی نہ دی جائے۔