Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کچھ دنوں سے جو ڈرامہ چل رہا تھا اس کا ڈراپ سین کچھ یوں ہوا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا نتیجہ یہ رہا۔ پی ٹی آئی ق لیگ کے امیدوار چودھری پرویز الہی’ نے 186 ووٹ لئے مدمقابل مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 ووٹ حاصل کئے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی نگرانی کرنے والے ڈپٹی سپیکر نے نتیجہ کا اعلان یہ کیا۔ حمزہ شہباز 179 ووٹ کے ساتھ کامیاب جبکہ پرویز الہی’ 186 ووٹوں کے ساتھ ناکام قرار پاتے ہیں۔ بقول ڈپٹی سپیکر وجہ شائد قانونی اور آئینی ہے۔ ایک خط جس سے ایک پرانی سیاسی بوالعجی یاد آئی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
کچھ یوں یاد پڑ رہا ہے کہ 1977 میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہورہے تھے۔ صوبہ سندھ کے حلقہ لاڑکانہ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حصہ لے رہے تھے۔ اس حلقے کے بارے میں رپورٹ آئی۔ لاہور سے شائع ہونے والے معتبر اخبار ( نوائے وقت) کے فرنٹ پیج پر دو تصاویر لگائی گئیں۔ ایک طرف ذوالفقار بھٹو کی تصویر جس کے نیچے کیپشن لگایا۔ بلامقابلہ جیت گئے۔دوسری جان محمد عباسی نیچے لکھا تھا بلامقابلہ ہار گئے۔
کچھ ایسا ہی 22 جولائی کو ہوا۔ 186 ووٹ دھرے کے دھرے رہ گئے۔179 کامیاب قرار پائے۔ ایک خط نے پانسہ پلٹ دیا۔
اب ذرا بات ہوجائے اس خط کی۔ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خط کیسا تھا۔ یعنی اصلی یا نقلی کیونکہ پہلے ہی ایک خط کی بازگشت کچھ عرصے سے گردش میں ہے۔ اس کے متعلق راجکماری شاید اب تک مانتی نہیں کہ وہ اصلی ہے۔ چھوڑیں اس بات کو۔ ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں” جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ” باقی اللہ جانے۔ ہم موجودہ خط کی بات کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کے دو سبق : ن لیگ کے لیے اور پی ٹی آئی کے لیے
یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ اس کا تحریر کنندہ کون ہے بظاہر اس کا تحریر کنندہ اگر چودھری شجاعت حسین ہیں تو پھر دل ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ چودھری شجاعت کی اس وقت جسمانی اور ذہنی کیفیت ہے اللہ ہمیں معاف کرے ہم بھی عمر کے جس حصے میں ہیں نماز کی رکعات، سجدے اور دوسرے ارکان کئی بار بھول جاتے ہیں۔ بعد میں بعض اوقات نماز دوبارہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں چھوڑیں بات تو چل رہی ہے چودھری شجاعت کی۔ یہ پورے۔ یقین سے کہنا مشکل ہے اگر انہیں پورا خط پڑھ کر سنانے کو کہا جائے تو وہ ایسا کرپائیں گے۔ مناسب سمجھا جائے تو عدالت انہیں بلواکر پوچھ بھی سکتی ہے۔ لیکن ہم کون ہوتے ہیں ایسے صلاح مشورے دینے والے ” تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”.
اب بات ہوجائے نیت کی ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نیت پر شک کرنے والے۔ دلوں کے بھید تو اللہ تعالی’ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ایک بات اس خط کو ڈپٹی سپیکر کے منہ سے سن کر ( یعنی horse’s mouth) خاصی عیاں ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ خط لکھنے والے،لکھوانے والے اور اسے موصول کرنے والے کی بددیانتی ( اگر یہ لفظ بے جا نہیں) ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی وجوہات کچھ یوں بنتی ہیں اس انتخاب کا معاملہ پچھلے تین ماہ سے چل رہا ہے کئی دفعہ عدالت ( ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ) میں پیش ہوچکا ہے۔ اور یہ انتخاب بھی پرویز الہی’ اور حمزہ شہباز کے درمیان ہے۔ یعنی دونوں وزارت اعلی’ کے امیدوار ہیں۔ اس پر کبھی چودھری شجاعت نے اعتراض نہیں کیا بلکہ تازہ ترین صورتحال میں حمایت کا اعلان کرچکے تھے۔ مگر اس خط میں 22 جولائی انتخاب کے روز اچانک چودھری صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی جماعت کے ارکان حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
انہوں خط ڈپٹی سپیکر کو لکھ دیا۔ جس میں پرویز الہی بشمول دوسرے 9 ممبران کو ہدایت دی کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔ اس خط کے بعد انتخاب کالعدم ہوجانا چاہیے۔ اس مقام پر آکے سپیکر کی بدنیتی شروع ہوتی ہے۔ اسے یہ خط ملتے ہی ایوان میں معاملہ رکھنا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ق کے صدر نے یہ خط بھیجا ہے۔جس میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت 10 ارکان کو ہدایت دی ہے اب ان کی حیثیت بطور امیدوار ختم ہوجاتی ہے۔ اور جیسا کہ بعد میں انہوں نے رولنگ دی کہ اس خط کی بنا پر مسلم لیگ ق کے دس ووٹ مسترد کرتا ہوں کیونکہ چودھری شجاعت نے خط میں لکھا ہے یہ ووٹ حمزہ شہباز کو ملنے تھے۔انہوں نے اس دلیری کا مظاہرہ شروع میں نہیں کیا بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہونے دیا اور پھر اس خط کی روشنی میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت دس ووٹ مسترد کردیے ( سبحان تیری قدرت) اگر وہ خط شروع میں سنادیتے تو انتخاب کا مرحلہ ہی نہ آتا کیونکہ چودھری صاحب نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ خط لکھا تھا کاش وہ پرویز الہی’ کا بطور وزیراعلی’ امیدوار نام واپس لے لیتے جب وہ پرویز الہی’ کو ہدایت دیں کہ حمزہ کو ووٹ دینا ہے پھر وہ انتخاب کیسا رہا؟ ہمیں تو یہ سب بددیانتی کی داستان لگتی ہے۔
خط لکھنے والے (چودھری شجاعت حسین) لکھوانے والے اگر کوئی ہے ( اللہ بہتر جانتا ہے) اور ڈپٹی سپیکر جس نے خط موصول کرلیا اور بقول اس کی تصدیق بھی چودھری صاحب سے کرالی لیکن ظاہر اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کے بعد کیا۔ کاش دلیری دکھاتے اور یہ کام پہلے کرلیتے تو کھیل اتنا لمبا نہ چلتا۔ پہلے کی تحریر “جمہوریت کے چیمپئن” اسے اس کا تسلسل سمجھیں۔ کیونکہ چیمپئن کا نام ان کے بیٹے نے ظاہر کردیا یعنی اپنی ٹویٹ میں ”اک زرداری سب پے بھاری”. اب یہ کون سا Democracy is best revenge ہے۔ باپ جانے یا بیٹا سانوں کیہ اے۔
کچھ دنوں سے جو ڈرامہ چل رہا تھا اس کا ڈراپ سین کچھ یوں ہوا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا نتیجہ یہ رہا۔ پی ٹی آئی ق لیگ کے امیدوار چودھری پرویز الہی’ نے 186 ووٹ لئے مدمقابل مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 ووٹ حاصل کئے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی نگرانی کرنے والے ڈپٹی سپیکر نے نتیجہ کا اعلان یہ کیا۔ حمزہ شہباز 179 ووٹ کے ساتھ کامیاب جبکہ پرویز الہی’ 186 ووٹوں کے ساتھ ناکام قرار پاتے ہیں۔ بقول ڈپٹی سپیکر وجہ شائد قانونی اور آئینی ہے۔ ایک خط جس سے ایک پرانی سیاسی بوالعجی یاد آئی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
کچھ یوں یاد پڑ رہا ہے کہ 1977 میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہورہے تھے۔ صوبہ سندھ کے حلقہ لاڑکانہ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حصہ لے رہے تھے۔ اس حلقے کے بارے میں رپورٹ آئی۔ لاہور سے شائع ہونے والے معتبر اخبار ( نوائے وقت) کے فرنٹ پیج پر دو تصاویر لگائی گئیں۔ ایک طرف ذوالفقار بھٹو کی تصویر جس کے نیچے کیپشن لگایا۔ بلامقابلہ جیت گئے۔دوسری جان محمد عباسی نیچے لکھا تھا بلامقابلہ ہار گئے۔
کچھ ایسا ہی 22 جولائی کو ہوا۔ 186 ووٹ دھرے کے دھرے رہ گئے۔179 کامیاب قرار پائے۔ ایک خط نے پانسہ پلٹ دیا۔
اب ذرا بات ہوجائے اس خط کی۔ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خط کیسا تھا۔ یعنی اصلی یا نقلی کیونکہ پہلے ہی ایک خط کی بازگشت کچھ عرصے سے گردش میں ہے۔ اس کے متعلق راجکماری شاید اب تک مانتی نہیں کہ وہ اصلی ہے۔ چھوڑیں اس بات کو۔ ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں” جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ” باقی اللہ جانے۔ ہم موجودہ خط کی بات کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کے دو سبق : ن لیگ کے لیے اور پی ٹی آئی کے لیے
یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ اس کا تحریر کنندہ کون ہے بظاہر اس کا تحریر کنندہ اگر چودھری شجاعت حسین ہیں تو پھر دل ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ چودھری شجاعت کی اس وقت جسمانی اور ذہنی کیفیت ہے اللہ ہمیں معاف کرے ہم بھی عمر کے جس حصے میں ہیں نماز کی رکعات، سجدے اور دوسرے ارکان کئی بار بھول جاتے ہیں۔ بعد میں بعض اوقات نماز دوبارہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں چھوڑیں بات تو چل رہی ہے چودھری شجاعت کی۔ یہ پورے۔ یقین سے کہنا مشکل ہے اگر انہیں پورا خط پڑھ کر سنانے کو کہا جائے تو وہ ایسا کرپائیں گے۔ مناسب سمجھا جائے تو عدالت انہیں بلواکر پوچھ بھی سکتی ہے۔ لیکن ہم کون ہوتے ہیں ایسے صلاح مشورے دینے والے ” تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”.
اب بات ہوجائے نیت کی ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نیت پر شک کرنے والے۔ دلوں کے بھید تو اللہ تعالی’ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ایک بات اس خط کو ڈپٹی سپیکر کے منہ سے سن کر ( یعنی horse’s mouth) خاصی عیاں ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ خط لکھنے والے،لکھوانے والے اور اسے موصول کرنے والے کی بددیانتی ( اگر یہ لفظ بے جا نہیں) ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی وجوہات کچھ یوں بنتی ہیں اس انتخاب کا معاملہ پچھلے تین ماہ سے چل رہا ہے کئی دفعہ عدالت ( ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ) میں پیش ہوچکا ہے۔ اور یہ انتخاب بھی پرویز الہی’ اور حمزہ شہباز کے درمیان ہے۔ یعنی دونوں وزارت اعلی’ کے امیدوار ہیں۔ اس پر کبھی چودھری شجاعت نے اعتراض نہیں کیا بلکہ تازہ ترین صورتحال میں حمایت کا اعلان کرچکے تھے۔ مگر اس خط میں 22 جولائی انتخاب کے روز اچانک چودھری صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی جماعت کے ارکان حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
انہوں خط ڈپٹی سپیکر کو لکھ دیا۔ جس میں پرویز الہی بشمول دوسرے 9 ممبران کو ہدایت دی کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔ اس خط کے بعد انتخاب کالعدم ہوجانا چاہیے۔ اس مقام پر آکے سپیکر کی بدنیتی شروع ہوتی ہے۔ اسے یہ خط ملتے ہی ایوان میں معاملہ رکھنا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ق کے صدر نے یہ خط بھیجا ہے۔جس میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت 10 ارکان کو ہدایت دی ہے اب ان کی حیثیت بطور امیدوار ختم ہوجاتی ہے۔ اور جیسا کہ بعد میں انہوں نے رولنگ دی کہ اس خط کی بنا پر مسلم لیگ ق کے دس ووٹ مسترد کرتا ہوں کیونکہ چودھری شجاعت نے خط میں لکھا ہے یہ ووٹ حمزہ شہباز کو ملنے تھے۔انہوں نے اس دلیری کا مظاہرہ شروع میں نہیں کیا بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہونے دیا اور پھر اس خط کی روشنی میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت دس ووٹ مسترد کردیے ( سبحان تیری قدرت) اگر وہ خط شروع میں سنادیتے تو انتخاب کا مرحلہ ہی نہ آتا کیونکہ چودھری صاحب نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ خط لکھا تھا کاش وہ پرویز الہی’ کا بطور وزیراعلی’ امیدوار نام واپس لے لیتے جب وہ پرویز الہی’ کو ہدایت دیں کہ حمزہ کو ووٹ دینا ہے پھر وہ انتخاب کیسا رہا؟ ہمیں تو یہ سب بددیانتی کی داستان لگتی ہے۔
خط لکھنے والے (چودھری شجاعت حسین) لکھوانے والے اگر کوئی ہے ( اللہ بہتر جانتا ہے) اور ڈپٹی سپیکر جس نے خط موصول کرلیا اور بقول اس کی تصدیق بھی چودھری صاحب سے کرالی لیکن ظاہر اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کے بعد کیا۔ کاش دلیری دکھاتے اور یہ کام پہلے کرلیتے تو کھیل اتنا لمبا نہ چلتا۔ پہلے کی تحریر “جمہوریت کے چیمپئن” اسے اس کا تسلسل سمجھیں۔ کیونکہ چیمپئن کا نام ان کے بیٹے نے ظاہر کردیا یعنی اپنی ٹویٹ میں ”اک زرداری سب پے بھاری”. اب یہ کون سا Democracy is best revenge ہے۔ باپ جانے یا بیٹا سانوں کیہ اے۔
کچھ دنوں سے جو ڈرامہ چل رہا تھا اس کا ڈراپ سین کچھ یوں ہوا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا نتیجہ یہ رہا۔ پی ٹی آئی ق لیگ کے امیدوار چودھری پرویز الہی’ نے 186 ووٹ لئے مدمقابل مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 ووٹ حاصل کئے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی نگرانی کرنے والے ڈپٹی سپیکر نے نتیجہ کا اعلان یہ کیا۔ حمزہ شہباز 179 ووٹ کے ساتھ کامیاب جبکہ پرویز الہی’ 186 ووٹوں کے ساتھ ناکام قرار پاتے ہیں۔ بقول ڈپٹی سپیکر وجہ شائد قانونی اور آئینی ہے۔ ایک خط جس سے ایک پرانی سیاسی بوالعجی یاد آئی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
کچھ یوں یاد پڑ رہا ہے کہ 1977 میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہورہے تھے۔ صوبہ سندھ کے حلقہ لاڑکانہ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حصہ لے رہے تھے۔ اس حلقے کے بارے میں رپورٹ آئی۔ لاہور سے شائع ہونے والے معتبر اخبار ( نوائے وقت) کے فرنٹ پیج پر دو تصاویر لگائی گئیں۔ ایک طرف ذوالفقار بھٹو کی تصویر جس کے نیچے کیپشن لگایا۔ بلامقابلہ جیت گئے۔دوسری جان محمد عباسی نیچے لکھا تھا بلامقابلہ ہار گئے۔
کچھ ایسا ہی 22 جولائی کو ہوا۔ 186 ووٹ دھرے کے دھرے رہ گئے۔179 کامیاب قرار پائے۔ ایک خط نے پانسہ پلٹ دیا۔
اب ذرا بات ہوجائے اس خط کی۔ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خط کیسا تھا۔ یعنی اصلی یا نقلی کیونکہ پہلے ہی ایک خط کی بازگشت کچھ عرصے سے گردش میں ہے۔ اس کے متعلق راجکماری شاید اب تک مانتی نہیں کہ وہ اصلی ہے۔ چھوڑیں اس بات کو۔ ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں” جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ” باقی اللہ جانے۔ ہم موجودہ خط کی بات کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کے دو سبق : ن لیگ کے لیے اور پی ٹی آئی کے لیے
یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ اس کا تحریر کنندہ کون ہے بظاہر اس کا تحریر کنندہ اگر چودھری شجاعت حسین ہیں تو پھر دل ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ چودھری شجاعت کی اس وقت جسمانی اور ذہنی کیفیت ہے اللہ ہمیں معاف کرے ہم بھی عمر کے جس حصے میں ہیں نماز کی رکعات، سجدے اور دوسرے ارکان کئی بار بھول جاتے ہیں۔ بعد میں بعض اوقات نماز دوبارہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں چھوڑیں بات تو چل رہی ہے چودھری شجاعت کی۔ یہ پورے۔ یقین سے کہنا مشکل ہے اگر انہیں پورا خط پڑھ کر سنانے کو کہا جائے تو وہ ایسا کرپائیں گے۔ مناسب سمجھا جائے تو عدالت انہیں بلواکر پوچھ بھی سکتی ہے۔ لیکن ہم کون ہوتے ہیں ایسے صلاح مشورے دینے والے ” تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”.
اب بات ہوجائے نیت کی ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نیت پر شک کرنے والے۔ دلوں کے بھید تو اللہ تعالی’ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ایک بات اس خط کو ڈپٹی سپیکر کے منہ سے سن کر ( یعنی horse’s mouth) خاصی عیاں ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ خط لکھنے والے،لکھوانے والے اور اسے موصول کرنے والے کی بددیانتی ( اگر یہ لفظ بے جا نہیں) ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی وجوہات کچھ یوں بنتی ہیں اس انتخاب کا معاملہ پچھلے تین ماہ سے چل رہا ہے کئی دفعہ عدالت ( ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ) میں پیش ہوچکا ہے۔ اور یہ انتخاب بھی پرویز الہی’ اور حمزہ شہباز کے درمیان ہے۔ یعنی دونوں وزارت اعلی’ کے امیدوار ہیں۔ اس پر کبھی چودھری شجاعت نے اعتراض نہیں کیا بلکہ تازہ ترین صورتحال میں حمایت کا اعلان کرچکے تھے۔ مگر اس خط میں 22 جولائی انتخاب کے روز اچانک چودھری صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی جماعت کے ارکان حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
انہوں خط ڈپٹی سپیکر کو لکھ دیا۔ جس میں پرویز الہی بشمول دوسرے 9 ممبران کو ہدایت دی کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔ اس خط کے بعد انتخاب کالعدم ہوجانا چاہیے۔ اس مقام پر آکے سپیکر کی بدنیتی شروع ہوتی ہے۔ اسے یہ خط ملتے ہی ایوان میں معاملہ رکھنا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ق کے صدر نے یہ خط بھیجا ہے۔جس میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت 10 ارکان کو ہدایت دی ہے اب ان کی حیثیت بطور امیدوار ختم ہوجاتی ہے۔ اور جیسا کہ بعد میں انہوں نے رولنگ دی کہ اس خط کی بنا پر مسلم لیگ ق کے دس ووٹ مسترد کرتا ہوں کیونکہ چودھری شجاعت نے خط میں لکھا ہے یہ ووٹ حمزہ شہباز کو ملنے تھے۔انہوں نے اس دلیری کا مظاہرہ شروع میں نہیں کیا بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہونے دیا اور پھر اس خط کی روشنی میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت دس ووٹ مسترد کردیے ( سبحان تیری قدرت) اگر وہ خط شروع میں سنادیتے تو انتخاب کا مرحلہ ہی نہ آتا کیونکہ چودھری صاحب نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ خط لکھا تھا کاش وہ پرویز الہی’ کا بطور وزیراعلی’ امیدوار نام واپس لے لیتے جب وہ پرویز الہی’ کو ہدایت دیں کہ حمزہ کو ووٹ دینا ہے پھر وہ انتخاب کیسا رہا؟ ہمیں تو یہ سب بددیانتی کی داستان لگتی ہے۔
خط لکھنے والے (چودھری شجاعت حسین) لکھوانے والے اگر کوئی ہے ( اللہ بہتر جانتا ہے) اور ڈپٹی سپیکر جس نے خط موصول کرلیا اور بقول اس کی تصدیق بھی چودھری صاحب سے کرالی لیکن ظاہر اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کے بعد کیا۔ کاش دلیری دکھاتے اور یہ کام پہلے کرلیتے تو کھیل اتنا لمبا نہ چلتا۔ پہلے کی تحریر “جمہوریت کے چیمپئن” اسے اس کا تسلسل سمجھیں۔ کیونکہ چیمپئن کا نام ان کے بیٹے نے ظاہر کردیا یعنی اپنی ٹویٹ میں ”اک زرداری سب پے بھاری”. اب یہ کون سا Democracy is best revenge ہے۔ باپ جانے یا بیٹا سانوں کیہ اے۔
کچھ دنوں سے جو ڈرامہ چل رہا تھا اس کا ڈراپ سین کچھ یوں ہوا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا نتیجہ یہ رہا۔ پی ٹی آئی ق لیگ کے امیدوار چودھری پرویز الہی’ نے 186 ووٹ لئے مدمقابل مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 ووٹ حاصل کئے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی نگرانی کرنے والے ڈپٹی سپیکر نے نتیجہ کا اعلان یہ کیا۔ حمزہ شہباز 179 ووٹ کے ساتھ کامیاب جبکہ پرویز الہی’ 186 ووٹوں کے ساتھ ناکام قرار پاتے ہیں۔ بقول ڈپٹی سپیکر وجہ شائد قانونی اور آئینی ہے۔ ایک خط جس سے ایک پرانی سیاسی بوالعجی یاد آئی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
کچھ یوں یاد پڑ رہا ہے کہ 1977 میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہورہے تھے۔ صوبہ سندھ کے حلقہ لاڑکانہ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حصہ لے رہے تھے۔ اس حلقے کے بارے میں رپورٹ آئی۔ لاہور سے شائع ہونے والے معتبر اخبار ( نوائے وقت) کے فرنٹ پیج پر دو تصاویر لگائی گئیں۔ ایک طرف ذوالفقار بھٹو کی تصویر جس کے نیچے کیپشن لگایا۔ بلامقابلہ جیت گئے۔دوسری جان محمد عباسی نیچے لکھا تھا بلامقابلہ ہار گئے۔
کچھ ایسا ہی 22 جولائی کو ہوا۔ 186 ووٹ دھرے کے دھرے رہ گئے۔179 کامیاب قرار پائے۔ ایک خط نے پانسہ پلٹ دیا۔
اب ذرا بات ہوجائے اس خط کی۔ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خط کیسا تھا۔ یعنی اصلی یا نقلی کیونکہ پہلے ہی ایک خط کی بازگشت کچھ عرصے سے گردش میں ہے۔ اس کے متعلق راجکماری شاید اب تک مانتی نہیں کہ وہ اصلی ہے۔ چھوڑیں اس بات کو۔ ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں” جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ” باقی اللہ جانے۔ ہم موجودہ خط کی بات کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کے دو سبق : ن لیگ کے لیے اور پی ٹی آئی کے لیے
یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ اس کا تحریر کنندہ کون ہے بظاہر اس کا تحریر کنندہ اگر چودھری شجاعت حسین ہیں تو پھر دل ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ چودھری شجاعت کی اس وقت جسمانی اور ذہنی کیفیت ہے اللہ ہمیں معاف کرے ہم بھی عمر کے جس حصے میں ہیں نماز کی رکعات، سجدے اور دوسرے ارکان کئی بار بھول جاتے ہیں۔ بعد میں بعض اوقات نماز دوبارہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں چھوڑیں بات تو چل رہی ہے چودھری شجاعت کی۔ یہ پورے۔ یقین سے کہنا مشکل ہے اگر انہیں پورا خط پڑھ کر سنانے کو کہا جائے تو وہ ایسا کرپائیں گے۔ مناسب سمجھا جائے تو عدالت انہیں بلواکر پوچھ بھی سکتی ہے۔ لیکن ہم کون ہوتے ہیں ایسے صلاح مشورے دینے والے ” تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”.
اب بات ہوجائے نیت کی ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نیت پر شک کرنے والے۔ دلوں کے بھید تو اللہ تعالی’ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ایک بات اس خط کو ڈپٹی سپیکر کے منہ سے سن کر ( یعنی horse’s mouth) خاصی عیاں ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ خط لکھنے والے،لکھوانے والے اور اسے موصول کرنے والے کی بددیانتی ( اگر یہ لفظ بے جا نہیں) ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی وجوہات کچھ یوں بنتی ہیں اس انتخاب کا معاملہ پچھلے تین ماہ سے چل رہا ہے کئی دفعہ عدالت ( ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ) میں پیش ہوچکا ہے۔ اور یہ انتخاب بھی پرویز الہی’ اور حمزہ شہباز کے درمیان ہے۔ یعنی دونوں وزارت اعلی’ کے امیدوار ہیں۔ اس پر کبھی چودھری شجاعت نے اعتراض نہیں کیا بلکہ تازہ ترین صورتحال میں حمایت کا اعلان کرچکے تھے۔ مگر اس خط میں 22 جولائی انتخاب کے روز اچانک چودھری صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی جماعت کے ارکان حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
انہوں خط ڈپٹی سپیکر کو لکھ دیا۔ جس میں پرویز الہی بشمول دوسرے 9 ممبران کو ہدایت دی کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔ اس خط کے بعد انتخاب کالعدم ہوجانا چاہیے۔ اس مقام پر آکے سپیکر کی بدنیتی شروع ہوتی ہے۔ اسے یہ خط ملتے ہی ایوان میں معاملہ رکھنا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ق کے صدر نے یہ خط بھیجا ہے۔جس میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت 10 ارکان کو ہدایت دی ہے اب ان کی حیثیت بطور امیدوار ختم ہوجاتی ہے۔ اور جیسا کہ بعد میں انہوں نے رولنگ دی کہ اس خط کی بنا پر مسلم لیگ ق کے دس ووٹ مسترد کرتا ہوں کیونکہ چودھری شجاعت نے خط میں لکھا ہے یہ ووٹ حمزہ شہباز کو ملنے تھے۔انہوں نے اس دلیری کا مظاہرہ شروع میں نہیں کیا بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہونے دیا اور پھر اس خط کی روشنی میں امیدوار پرویز الہی’ سمیت دس ووٹ مسترد کردیے ( سبحان تیری قدرت) اگر وہ خط شروع میں سنادیتے تو انتخاب کا مرحلہ ہی نہ آتا کیونکہ چودھری صاحب نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ خط لکھا تھا کاش وہ پرویز الہی’ کا بطور وزیراعلی’ امیدوار نام واپس لے لیتے جب وہ پرویز الہی’ کو ہدایت دیں کہ حمزہ کو ووٹ دینا ہے پھر وہ انتخاب کیسا رہا؟ ہمیں تو یہ سب بددیانتی کی داستان لگتی ہے۔
خط لکھنے والے (چودھری شجاعت حسین) لکھوانے والے اگر کوئی ہے ( اللہ بہتر جانتا ہے) اور ڈپٹی سپیکر جس نے خط موصول کرلیا اور بقول اس کی تصدیق بھی چودھری صاحب سے کرالی لیکن ظاہر اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کے بعد کیا۔ کاش دلیری دکھاتے اور یہ کام پہلے کرلیتے تو کھیل اتنا لمبا نہ چلتا۔ پہلے کی تحریر “جمہوریت کے چیمپئن” اسے اس کا تسلسل سمجھیں۔ کیونکہ چیمپئن کا نام ان کے بیٹے نے ظاہر کردیا یعنی اپنی ٹویٹ میں ”اک زرداری سب پے بھاری”. اب یہ کون سا Democracy is best revenge ہے۔ باپ جانے یا بیٹا سانوں کیہ اے۔