اشعر نجمی اردوقابل قدرتخلیق کار اورمدیر ہیں۔انہوںنے ادبی جریدے ”اثبات” کااجرا کیا،تواسے روایتی ادبی رسائل سے مختلف بناکراپنی اوراثبات کی الگ شناخت قائم کی۔چندسال قبل جب انہوں نے ”اثبات ” کا تیسرا دور شروع کیا، توپاکستان اوربھارت میں سیاسی اور تجارتی روابط کے غیرموجودگی اورڈاک کی ترسیل پرپابندی کے باوجود”اثبات” کوبیک وقت دونوں ممالک میں شایع کرنے کا منفردتجربہ بھی اشعر نجمی کے حصے میں آیا۔یہی نہیں اثبات کے منفرد،بامعنی اورمستقل اہمیت کے حامل ”خصوصی شمارے” شایع کیے اوربیک وقت شایع ہونے کے باعث پاکستان میں بھی ان کی دھوم مچ گئی۔ اس طرح یہ شمارے اردوقارئین کے بڑے حلقے تک پہنچے اورپڑھنے والوں کو مدیر کے حقیقی مقام کااندازہ ہوسکا۔
”اثبات” کے ان خصوصی شماروں میں مشاہیرعلم وادب کے سرقوں کی کہانی ”سرقہ نمبر”میں پیش کی گئی۔ ”ادب میں عریاں نگاری اور فحش نگاری نمبر” میںعریاں نگاری کی ادبی تعریف متعین کرنے اورغیرضروری طورپرادب پاروں پرفحش نگاری کاالزام لگانے کی تفصیلات پیش کی گئیں۔اس نمبرمیں اشعرنجمی کاناولٹ ”دھکم پیل” بھی شامل تھا۔ مذہبی رواداری کے مقصدکوپیش نظررکھتے ہوئے دوضخیم جلدوں پرمبنی ،”احیائے مذاہب اتحاد،انتشار،تصادم ” بے مثال اورمعلومات کاخزانہ ثابت ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
دنیاکے سوسے زیادہ ممالک کی زبانوں کے تراجم پر مبنی تین جلدوںپرمشتمل” عالمی نثری ادب نمبر”اشعرنجمی کابے مثال کارنامہ ہے۔ ان تین جلدوں کے ذریعے اردوقارئین کوایک ہی جگہ عالمی ادب کے مطالعے کا موقع فراہم کردیا۔ان سات جلدوں پرمشتمل چارخصوصی شماروں سے پاکستانی قارئین بھی اشعرنجمی کے کام اور صلاحیتوں سے آشناہوئے۔”اثبات ” کے تمام خصوصی شمارے محمدطفیل کے ”نقوش” کے نمبرزکی طرح ہمیشہ زندہ رہیں گے اورریفرنس بک کے طور پراستعمال کیے جائیں گے۔
بطور مدیراپنالوہا منوانے کے بعداشعرنجمی نے بطورمصنف بھی ادبی دنیامیں قدم رکھا۔ان کا پہلا ناولٹ ”دھکم پیل” تو”اثبات”کے ”عریاں نگاری نمبر” میں شایع ہوا، اوراس ناولٹ سے ہی مصنف کے مستقبل کے عزائم ظاہرہوگئے،اوریہ بھی ثابت ہوگیاکہ فحش نگاری سے بچتے ہوئے حقیقی ادیب حساس موضوع پرکیسے لکھ سکتاہے۔کوروناوبا کے دوران اشعرنجمی نے دو ناول قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کیے۔جن میں ادب کی پامال راہوں اورموضوعات سے گریز کرتے ہوئے منفرد موضوعات پرقلم اٹھایا۔جواردو مصنفین کے لیے نوگوایریا کی حیثیت رکھتے تھے۔ پہلا”اس نے کہاتھا”۔ اس ناول میں اشعرنجمی نے ہم جنس پرستوں لزبین اورگے کے مسائل اور مشکلات کوبڑی جرأت مندی سے موضوع بنایاہے۔ اشعرنجمی کادوسرا ناول”صفرکی توہین” مذہبی انتہاپسندی کے بارے میں ہے۔اشعرنجمی کے یہ دونوں ناولزفکشن ہاؤس لاہور نے شایع کرکے بڑی جرأت مندی سے شایع کردیاہیے۔جس کے لیے وہ مبارک بادکے مستحق ہیں۔ اشعرنجمی کاسروکارگھسے پٹے موضوعات اورروایتی پامال راہوں سے نہیں ہے۔
اشعرنجمی نے ”اثبات کاشمارہ نمبرانتیس اورتیس”مشاعرہ، روایت،ثقافت اورتجارت”کے بارے میں خصوصی نمبرکے طور پرشایع کیاہے۔ اس بارپاکستان سے اس کی اشاعت سٹی بک پوائنٹ سے ہوئی ہے۔ جس نے اس مجلدنمبرکوخوبصورت ڈسٹ کورسے مزین دلکش انداز میں شایع کیاہے۔چھ سوبیس صفحات کے شمارے کی قیمت سولہ سوروپے ہے۔عمدہ کتابت،جلدبندی، خوبصورت سرورق سے مزین یہ شمارہ تمام ادب دوست حضرات کے لیے تحفہ خاص ہے۔کیونکہ یہ کسی رسالے کا روایتی ”مشاعرہ نمبر ” نہیں ہے۔ بلکہ اس میں مشاعرے کی تاریخ، روایات، ثقافتی ومعاشی اہمیت اوراردوشاعری کے فروغ کے لیے مشاعرے کے کردار کو ہرپہلوسے اجاگرکیاگیاہے۔ یہی نہیں عربی،فارسی اوردیگرزبانوں میں مشاعرو ںیاان جیسی سرگرمیوں پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مجموعی طورپرقارئین کواس خصوصی شمارے سے مشاعرے کے ادارے کے ہرپہلوکے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں اوریہ اس موضوع پرانتہائی جامع شمارہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پنشنرز کی دہائیوں طویل خدمات کا صلہ کیا ملا؟
خیبر پختونخوا بجٹ میں کوئی میگا پروجیکٹ کیوں نہیں؟
حکیم سعید ، ڈاکٹر اسرار اور عمران خان
بطوراداریہ اشعرنجمی نے ایک دلچسپ خیالی مذاکرہ”حاصل مشاعرہ:ایک گرماگرم مباحثہ” پیش کیاہے۔ جس میںچارفرضی ادبی شخصیات کے درمیان بحث کے ذریعے مشاعرے کی روایت کوواضع کیاگیاہے۔ادبی رسائل میں اس موضوع پرخصوصی شماروں کاذکر کرتے ہوئے اشعرنجمی نے لکھاہے۔” مشاعرے پراب تک کوئی سنجیدہ گفت گونہیں ہوپائی۔ترقی پسندی،جدیدیت، مابعدجدیدیت ،مابعد نو آبادیات ، غزل ،افسانے،ناول، تنقید وغیرہ جیسے افکارواصناف پررسائل کے ہزاروں گوشے شایع ہوتے رہتے ہیں،سیمیناربرپاہوتے ہی،حتیٰ کہ اس’لاک ڈاؤن’ کے موسم میں جب ادبی وثقافتی محفلوں پربھی پابندی ہے تو’ویب نار’ کی اختراع کی گئی۔
سوشل میڈیامیں ‘آن لائن سیمینار’ اور’لائیوٹاک شو’ کاماحول گرم ہے لیکن ان میں سے کسی بھی ذرائع نے ‘مشاعرے’ کے موضوع کاانتخاب سنجیدہ گفت گوکے لیے نہیں کیا ، البتہ آن لائن مشاعرے خوب ہورہے ہیں،واہ وااورسبحان اللہ کی گونج سے ‘کی بورڈ’لرزہ براندام ہے۔ماہنامہ ‘شاعر’ نے اعجازصدیقی کی ادارت میں آگر ہ سے1950ء میں ایک ‘مشاعرہ نمبر’ نکالا،لیکن افسوس اس موضوع پرسرکھپانے کی جگہ اس موقرجریدے نے دوتین مضامین چھاپے اور پور ے نمبرمیں غزلیں اورنظمیں چھاپ دیں،مجموعی طورپر’شاعر’ کے مذکورہ شمارے کوتحریری مشاعرہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا ۔ ‘نیرنگ خیال’ نے بھی شایدایک مشاعرہ نمبرچھاپاتھالیکن باوجودکوشش اس تک میری رسائی نہ ہوپائی۔ایک رسالہ ‘روشنی'(جے پور) نے مارچ ۔اپریل 1935ء میں مشاعرہ نمبرنکالاتھا لیکن اس کے مختصر تعارف سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ کچھ مشاعروں کی رودادپرمبنی ہوگاجو ظاہر ہے زیرِ نظرشمارے کاہدف نہیں ہے۔”
”اثبات” کے ”مشاعرہ نمبر” کو دس بامعنی اور دلچسپ ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ ان ابواب میں ”تاریخ ظہوربنائے دعویٰ”،”موازنہ رقبہ بندی”،”حجت قاطع”،”خندہ زخم”،”گواہ مندرجہ دستاویز”،”جراحیات”،”معذرت خواہان مشاعرہ”،”ضرب الازب”،”گفت و شنید” اور”نوحہ کناں”شامل ہیں۔ بیشترموضوعات کااندازہ قاری اس کے عنوان ہی سے لگالیتاہے۔ہرباب کی ابتدا میں مدیرنے مختصرشذرہ لکھ کر اس کے موضوع کوواضع کیاہے۔
”تاریخ ظہوربنائے دعویٰ” کا پہلا مضمون علی جوادزیدی کی کتاب ”تاریخ مشاعرہ” کی تلخیص اوراس شمارے کاطویل ترین مضمون ہے،جو سوصفحات سے زاید پرمشتمل ہے۔اس بارے میں مدیراثبات کے مطابق۔” مشاعرہ پرسب سے اچھاکام علی جوادزیدی کاہے۔’تاریخ مشا عرہ’ کے نام سے انھوں نے نہ صرف اردومشاعرے کی ابتدا اوراس کے عروج وزوال کی داستان رقم کردی ہے بلکہ عربی،فارسی،ترکی اور ہندی مشاعروں پربھی تفصیل سے گفت گو کی ہے۔مضمون کے آغاز میں علی جوادزیدی لکھتے ہیں۔”ہندوستانی اورپاکستانی مشاعرے خاصے کی چیزہے۔
دوسرے ملکوں سے جولوگ آتے ہیں اور ہماری طرح ان شعری مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں،وہ صرف محظوظ ہی نہیں ہوتے بلکہ حیرت کااظہاربھی کرتے ہیں کہ اس طرح کاادارہ کس طرح وجودمیں آیااوراس نے اتنی ہردلعزیزی حاصل کرلی۔ایسامشاعرہ تواردو شاعروں سے ، اوراسی لیے ہندوستان اورپاکستان سے مخصوص رہاہے لیکن آج جب اردوبولنے والے ملکوں ملکوں پھیل چکے ہیں،ان کایہ محبوب اجتماع بھی بین الاقوامی حیثیت اختیارکرگیاہے۔زبانوں میں بھی اب یہ اردوہی تک محدود نہیں رہ گیابلکہ ہندی میں ‘کوی سمیلن’ اور پنجابی میں ‘کوی دربار’ بن کردائروسائرہوگیاہے۔ان حالات میں فطری طور سے ذہن اس کے تاریخی ارتقا کی داستان مرتب کرنے کے بارے میں سوچنے لگتاہے۔”
علی جوادزیدی نے سوچاہی نہیں مشاعرے کی تاریخ مرتب بھی کرڈالی۔یہ تلخیص انتہائی دلچسپ اور معلوماتی ہے،جوپڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ مشہورشاعر،خاکہ نگار اورماہرتعلیم اسلم فرخی نے ”مشاعرے کی روایت” پرقلم اٹھایاہے۔ محترم اسلم فرخی نے بڑی دلچسپ بات لکھی ہے ۔” اردوشاعری نے مشاعرے کی روایت اور مشاعرے کی روایت نے اردوشاعری کوپروان چڑھایا۔مشاعرے کی روایت ایک تہذیبی، علمی موشگافیوںاورتخلیقی جودت کے بھرپوراظہارکی وجہ سے ہماری ثقافتی تاریخ کاایک اہم حصہ ہے۔ایک زمانے میں کراچی میں برماشیل مشاعروں کوادبی سطح پربڑی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ یہ اردوشاعری کے کسی ناموراستادکے حوالے سے منعقدہوتے تھے۔کراچی میں مشاعروں کی روایت کوروزنامہ ‘ڈان’ نے بڑی دھوم دھام سے فروغ دیا۔جنھیں تفنن طبع کے طور پر’عظیم الڈان’ مشاعرے کہاجاتاتھا،قیامِ پاکستان کے بعدجگرصاحب پہلے پہل کراچی، ڈان ہی کے مشاعرے میں شرکت کرنے آئے تھے۔”
مرزافرحت اللہ بیگ کے مشہورِ زمانہ”اہلی کاایک یادگارمشاعرہ” کاایک حصہ۔آفتاب احمدکا”قدیم مشاعرے کی ادبی اہمیت”، شمس الرحمٰن فاروقی کا” ادبی نشستیں اورتخلیقی عمل”، بانوقدسیہ کا”مشاعرے کی روایت کااثرمشرقی زبانوںپر”، خواجہ محمداکرام کا”مشاعروں کی تہذیبی اہمیت اورزبان کافروغ”، احمدرضوان کا”لسان الصراورمشاعرے کی روایت” اورسہیل انجم کامضمون ”لال قلعہ کے اردو مشاعرے : روایت وحکایت”اس حصے کے دیگرمضامین ہیں۔جن میں مشاعرے کے آغاز،روایت اوران کی تہذیبی اہمیت کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ان میں بانوقدسیہ کامضمون ان کے ایم فل/پی ایچ ڈی کے مقابلے ”اردومشاعرے کی روایت:ادبی،تہذیبی اورثقافتی پہلو” کاایک باب ہے۔
احمدرضوان کامضمون ”لسان العصراورمشاعرے کی روایت” کااقتباس ملاحظہ کریں۔” لسان العصر، خان بہادراکبرالہ آبادی اپنے عہدکے چندنامورشاعروں میں سے تھے جن کی تخلیقات کوخاص وعام میں پسندکیا جاتا۔لسان العصرکاخطاب انھیں سرعبدالقادرنے اپنے مجلہ ‘ مخز ن’ میں عطاکیاتھا،جب کہ خان بہادرکاخطاب سرکارانگلشیہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں دیاتھا۔حسن عسکری نے انھیں اردوکاجدید ترین شاعرکہاتوشمس الرحمٰن فاروقی نے انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پریادکیاکرتے ہیں جس نے نوآبادیات کی حقیقت کوبہت پہلے سمجھ لیا تھا ۔
اکبرالہ آبادی کی مجلسی،ادبی،ثقافتی اورمعاشرتی زندگی کے بہت سے پہلوہیں جن پربیش بہا کام کیاگیاہے۔مشاعرہ نمبرکے حوالے سے کوشش کی گئی ہے کہ ان واقعات اورقصوں کواس مضمون میں یکجاکیاجائے جس میں اکبربالواسطہ یابلاواسطہ شامل رہے اوراکبر نے اپنی شاعری کے ذریعے بیان کیایالوگوں نے ان کی سوانح عمری میں یہ واقعات درج کیے۔اکبراپنی طرزکی شاعری کے موجدبھی تھے اورخاتم بھی۔”
”موازنہء رقبہ بندی” کی ابتدامیں مدیرکی تحریرسے موضوع کی وضاحت ہوتی ہے۔”یادِ ماضی عذاب ہے یارب، لیکن اس سے بھی بڑا عذاب یہ ہے کہ ہم اپنے حال کاموازنہ اپنے گزرے ہوئے ‘کل ‘ سے کرکرکے دل ہی دل میں کڑھتے رہیں۔ماضی کے پرستارخواہ ان کا حال جتنا بھی آسودہ کیوں نہ ہو،جس شہرمیں بھی رہنااکتائے ہوئے رہناکی کیفیت سے دوچاررہتے ہیں۔مشاعروں کابھی یہی حال ہے، اردو والے اس کاموازنہ قدیم مشاعروں سے کرتے رہتے ہیں،اس کی رقبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔مثلاً آج کے لوگ جگر اورفانی کے زمانے کے مشاعروں کویاد کرکے آہیں بھرتے ہیں جب کہ سیماب اکبرآبادی اپنے زمانے کے مشاعروں پرگرجتے اوربرستے ہیں۔ اور غالب ومومن کے زمانے کے مشاعروں ذکربڑے چاؤسے کرتے ہیں۔”
اس باب کے تحت تیرہ دانش وَروں تحریروں کوشامل کیا گیا ہے۔ جن میںاستادشاعر سیماب اکبرآبادی اپنے مضمون ”مشاعروں کاجدیدنظام عمل”میں مشاعرے کی اہمیت کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔” ادبی مجالس اورادبی اجتماعات کی تہذیب واصلاح بھی نہایت ضروری ہے۔کسی ملک کی تہذیب اورطبعی رحجانات کاعکس اس ملک کے ادب میںہوتاہے اورادبیات کے تجزیے سے ہرملک کے تمدن،معاشرت،نفسی معاملات اورشخصی میلانات کاپتہ چلتاہے۔ہماری مجالس میں سب سے بڑی ادبی مجلس’مشاعرہ’ ہے جواپنی روایتی خصوصیات کے ساتھ صدیوںسے ہندوستان میں رائج ہے۔”
اس باب کے دیگرمضامین میں سید احتشام حسین رضوی کا”مشاعرے اوران کی افادیت” سہیل بخاری کا” اردوکے مشاعرے”، فرمان فتح پوری کا ” مشاعرہ: ایک مقبول عام ثقافتی ادارہ”،جمیل جالبی کا”مشاعرے کی روایت”، مولانا عبدالماجددریابادی کا” ایک بزم مشاعرہ کی غیرشاعرا نہ صدارت”، امیرحسن نورانی کا” ادبی معرکوں کی کہانی”،سلیم اخترکا ”فاعتبرویااولی الابصار”،مظفرحنفی کا” ہمارے مشاعرے”، امجداسلام امجد کا” مشاعرے ایک خوبصورت اورزندہ روایت”،تصنیف حیدر کا ”ایک چونی چھاپ مشاعرے کی روداد ” ،غافر شہزاد کا ”پاکستان میں مشاعروں کاکاروبار” اور قیصر عباس کا” رضیہ غنڈوں میں بیچاری اردو امریکہ میں” کوجگہ دی گئی ہے۔ان تمام مضامین میں ماضی اورحال کے مشاعروں کی خوبیوں اورخامیوں کواجاگرکیاگیاہے۔
جمیل جالبی نے اپنے مضمون میں جوش کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیاہے۔” جوش صاحب نے مجھے ،مولانااعجازالحق قدوسی اور پیرحسام الدین راشدی کوکوگھرپربلایا۔ہم پہنچے تووہ منتظرتھے،کہیں باہرسے آئے ہوئے تھے۔کچھ دیربعدہم سے سے کسی نے کہاکہ حضرت! اپنی وہ تازہ نظم’ بول اک تارے جھن جھن جھن،سنادیجئے۔جوش صاحب نے آوازدی،”ذرابیگ بھیج دو۔” اندرسے جواب میں آوازآئی،” ابھی توچیخ کرآرہے ہو۔اب پھرشروع کردیا۔” یہ ان کی بیگم تھیں۔”
غرض ”اثبات” کا”مشاعرہ نمبر”ایک خشک اوربے مزہ شمارہ نہیں۔اس میں موضوع کے حوالے سے بہت دلچسپ اور قابلِ مطالعہ موادشامل ہے اورقاری مشاعرے کے ہرپہلوسے بخوبی آگاہ ہوجاتاہے۔”مشاعرہ نمبر” کاتیسراباب’حجتِ قاطع”ہے۔ اس کے بارے میں اشعر نجمی کامختصرشذرہ ملاحظہ کریں۔” اس باب میں شامل تینوں مضامین دلچسپ ہیں اور وہ اس لیے کہ اب تک ہم کم وبیش تمام مضامین میں قدیم مشاعروں کی برتری اورآج کے مشاعروں کی مذمت ہی سے روبروہوتے رہے ہیں لیکن یہ مضامین دفاعی ہونے کے باوجودمعذرت خواہا نہ نہیں ہیں بلکہ مضمون نگاروں نے خم ٹھوک کرمدلل گفت گوکی ہے۔”
اس باب کا پہلا مضمون”اردوشاعری اورعوامی احتجاج” مشہورشاعر علی سردارجعفری کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔مستندقلم کارنے کیاخوب احوال بیان کیاہے۔”اردواساتذہ صاحبِ دیوا ن بننے سے پہلے مشاعروں میں سندحاصل کرتے تھے۔قصائد،جن کے بعض حصے اعلیٰ شاعری کی اچھی مثال ہیں، کاغذسے نہیں پڑھے جاتے تھے بلکہ بھرے درباروں میں سنائے جاتے تھے ۔جب شاعراپناکلام سناسناکراورداد اورسند حاصل کرلیتاتھا، تب کہیں جاکردیوان مرتب کرنے کی ہمت کرتاتھا۔میراورغالب کے دیوان ان کے شہرت حاصل کرلینے کے بعدلکھے اور چھاپے گئے ۔ذرائع آمدورفت کے محدودہونے کے باوجودان کے اشعارایک شہرسے دوسرے شہرمیں سفرکرتے رہتے تھے۔
انیس اوردبیر کے مرثیے شایع ہونے سے پہلے منبرسے سنائے جاتے تھے اوران کے سننے والے عام لوگ تھے۔داغ اورامیرمینائی ہی نہیں ،اقبال بھی اپنا ابتدائی کلام مشاعروں میں سناتے تھے۔اب بھی وہ لوگ موجود ہیںجنھوں نے حفیظ جالندھری کومسلم یونیورسٹی علی گڑھ جیسی درس گاہوں میں ترنم سے ‘شاہنامہ اسلام’ پڑھتے سناہے۔ وہ گھنٹوں اپناکلام سناتے تھے اورعلی گڑھ کے انتہائی سنجیدہ اساتذہ اوردانش ورگھنٹوںبیٹھ کرسنتے تھے۔صرف جگرہی نہیں بلکہ فراق گورکھپوری نے بھی اپنی شہرت مشاعروں سے حاصل کی۔دراصل شاعری بنیادی طورسے گانے ، سننے اور سنا نے کی چیز ہے۔جوشاعری اس قابل نہیں ہے، اس کارشتہ عام انسانوںاورزندگی سے کٹ چکاہے اور وہ اپنے جواز کے لیے یہ دلیل لارہی ہے کہ شاعری دراصل کتاب میں پڑھنے کی چیزہے۔”
اس باب میں مشہوربلاگرحسنین جمال جن کی دوکتب”داڑھی والا” اور”سوچتے ہیں” نے اشاعت کے بعددھوم مچادی۔کافکاہیہ ”ٹک ٹاک شاعری اورفیس بک”اورنوجوان شاعرسیدکامی شاہ کا”مشاعرے،تالیاں،سیٹیاں اورآپ کاشعری ذوق” بھی دلچسپ اورمشاعرے کے نئے پہلوسے سامنے لاتے ہیں۔
”مشاعرہ نمبر” کاچوتھاباب”خندہ زخم” ہے۔جس میں اردوکے مزاحیہ ادب میں مشاعرے کے بارے میں تحریروں کاانتخاب پیش کیاگیا ہے۔اس کی دلچسپی اورقابل مطالعہ ہونے کااندازہ اس میں شامل اکیس تحریروں کی فہرست سے ہی کیاجاسکتاہے۔
مشتاق احمدیوسفی”دھیرج گنج کا پہلااورآخری مشاعرہ” اور”مسندصدارت پراولتی کی ٹپاٹپ”، مجتبیٰ حسین” مشاعروں کوکیاہوگیاہے؟” اورمشاعرہ یامجرہ” ، شوکت تھانوی ”مشاعر”، ابن انشا”کسٹم کامشاعرہ”،چراغ حسن حسرت ” آؤمشاعرہ پڑھیں”،فکرتونسوی” مشاعرے کاصدارتی خطبہ”،حاجی لق لق ” متحرک مشاعرہ”،نیازفتح پوری” لکھنؤکاایک مشاعرہ”،کنہیالال کپور” سخن فہم”،یوسف ناظم” مشاعرے میں ہوٹنگ کے فوائد” اور ” لذیذ مشاعرے” ،عظیم اختر” تخلص اوتخلص!” اور”کرنانظامت مشاعروں کی”،ارشدمیر”داد”، سیدضمیرجعفری” مشاعرہ تودلِ ناتواں نے خوب کیا”،منظورعثمانی” خواتین کامشاعرہ”،اسدرضا” صنعت مشاعرہ”،احمدرضوان” مشاعرے کی رویت،روایت بزبان یوسفی” اور ” شجا ع الدین غوری ”مقتول مشاعرہ” کے ساتھ شامل ہیں۔مستند مزاح نگاروں کی تحریروں نے اس باب کوبہت دلچسپ بنادیاہے۔
اس باب کے بارے میں مدیرمحترم کافرمان ہے۔”ایک طرف جہاں مشاعروں کواردوتہذیبی روایت کابے نظیرامین گرداناجاتاہے تووہیں دوسری طرف اردوکے شاید ہی کسی سنجیدہ طنزومزاح نگار نے اسے اپناہدف نہ بنایاہواوربعض تحریروں میں تویہ تضحیک کی صورت میں نمودارہوا ہے۔یہ ایک دوسری انتہاہے۔دراصل ہمارے ہاں طنزومزاح کودرجہ دوم کی چیزسمجھاجاتارہاہے اوریہ صرف دل لگی اورتفریح کی چیزسمجھی گئی جس میں گہرائی وغیرہ نہیں ہوتی۔اسی غلط تفہیم کے سبب ہم آج بھی مزاح کے نام پرپھکڑ پن اورطنزکے نام پراپنے تعصبات اوررنجش کوٹھکا نے لگانے کاکام کررہے ہیں۔میں نے کوشش کی ہے کہ زیرنظرشمارے میں مشاعرے پرمعتدل ومتوازن ظریفانہ تحریروں کوہی شامل شامل کیاجائے۔”
اس باب سے کسی اقتباس کی ضرورت نہیں کہ ”آپ اپناتعارف ہوابہارکی ہے۔” کی مانندان طنزومزاح نگاروں کے نام ہی قاری کومطالعہ پر مجبورکرنے کے لیے کافی ہیں۔شمارے کاپانچواں باب کادلچسپ عنوان ”گواہ مندرجہ دستاویز”ہے۔جس میں اردوکے دونامورشعراکی خود نوشت میں مشاعرے کے بارے میںکچھ ٹکڑے شامل کیے گئے ہیں۔
اس باب کاتعارف اشعرنجمی نے کچھ یوں کیاہے۔”زیرنظرباب مشا عرے کی ‘ان سائیڈ’ اسٹوری پرمبنی ہے۔جن لوگوں کادعویٰ ہے کہ کنارے کھڑے ہوکرطوفان کااندازہ نہیں کیاجاسکتا،ان کی ضیافت طبع کے لیے ہم دوگواہان پیش کررہے ہیں جن کی عمرعزیز اس سمندرمیں ڈوبتے ابھرتے گزری ہے۔ملک زادہ منظوراورقتیل شفائی کوکون نہیں جانتا، اول الذکرمشاعروں کے روح رواں اوررطل گراں تھے۔انھوں نے مشاعروں کے ناظم کی حیثیت سے عالم گیرشہرت پائی۔ ملک زادہ منظور نے اپنی سرگزشت’ رقصِ شرر’ اورپنی کتاب’شہرسخن’ میں شعراکی باتیں اورمشاعروں کی رودادیں بھی لکھی ہیں۔قتیل شفائی جوفلمی دنیاسے وابستہ تھے اورہندوپاک کی بے شمارفلموںکے لیے گیت لکھے۔شاید ان کی اسی فلمی شہرت کے سبب انہیں ہندوپاک کے علاوہ دنیابھر میں ہو نے والے تقریباً تمام اہم مشاعروں میں مدعوکیاجانے لگا۔قتیل شفائی نے بھی ایک سرگزشت ”گھنگھروٹوٹ گئے’ لکھی جس میں انھوں نے مشاعروں میں ہونے والے اپنے تجربے رقم کیے ہیں۔”
چھٹے باب”جراحیات” کاتعارف مدیرنے اس طرح کرایاہے۔”مشاعرہ پڑھنے پرشایدکسی کواعتراض نہیں،آپ عوامی مشاعرہ پڑھیں یا درباری مشاعرے، کسی کوبھلااس سے کیوںمسئلہ ہونے لگا لیکن اصل مطالبہ یہ ہے کہ آپ شعرکیوں نہیں پڑھتے۔غالب نے بھی مشاعر ے پڑھے،میرنے بھی پڑھے،داغ،جگر،حسرت،مجروح سب نے پڑھے لیکن انھوں نے مشاعروں میں شعرپڑھے،نہ نرامشاعرہ پڑھا۔
راحت اندوری مرحوم اکثراسٹیج پرکچھ اشعارپڑھنے کے بعدکہتے نظرآتے تھے کہ ”مشاعرہ بہت ہوا،اب شعرسنیے۔” کیوں؟ ظاہر ہے کہ وہ جانتے تھے کہ عوام کوشعرکے خوب زشت کی کوئی پروا نہیں،اسے اچھے اوربرے شعرکی تمیز نہیں،سطحی اوراکہری بلکہ سپاٹ اورمعنی کے مغزسے محروم اشعاراوراسے بھی شاعرکی ڈرامائی تمہیدکے بغیرلائق اعتنانہ سمجھنے والی سامع کی بھیڑسامنے موجودہے۔یہ بات ہرمشاعرے کاشاعر جانتاہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر جوشعرکہناجانتے بھی ہیں،وہ بھی مشاعروں میں اپنااصل جوہردکھانے سے گریز کرتے ہیں۔یہ المیہ ہے کہ شاعرسننے والوںکواپنی سطح تک اٹھانے کے بجائے سامع کی سطح پرپہنچنے کی حرص میں خود کئی پائیدان نیچے گرتاچلاجاتاہے۔پھر کہاجاتا ہے کہ زبان کوفروغ دیاجارہاہے،شعروادب کی خدمت ہورہی ہے؟۔”
اس باب میں پانچ تحریریں شامل ہیں۔پی پی سریواستورند کا”منورراناکے لڑکھڑاتے اشعار” ،ندیم صدیقی کا”راحت اندوری:آوازکازیر وبم”،ذکی طارق کا” وسیم بریلوی اورماجددیوبندی کے کچھ اشعار” اوراشعرنجمی کے دومضامین” شکیل اعظمی:خزاں کاموسم اب تک رکاہوا ہے” اور”منظربھوپالی :یہ صدی تمہاری ہے”۔
”منورراناکے لڑکھڑاتے اشعار” کایہ اقتباس ملاحظہ کریں، باب کا موضوع واضح ہوجائے گا۔”منوررانا نے مشاعروں کی غیرحقیقی دادپر جس انداز سے تکیہ کیا،اس کالازمی اثران کے افکارکے فقدان اورگہرے شعوری خسارے کی صورت کاغذ پرآناہی تھا۔مجھے تسلیم ہے کہ ان کی شاعری میں روایت سے آزادہونے کارجحان ہے مگرانھوں نے اپنی اچھی اورستھری شاعری کومشاعروںکی وقتی داد اورجلب زرکی خاطر قربان کردیا۔ان کی کئی اشعارشعریت کے اصولوں کے ادبی،تخلیقی تجربے میں پیوست فکرواحساس کی کسوٹی پرکھرا نہیں اترتے۔
شاعری میں الفاظ کے ساتھ استعاروں،تشبیہوں اورپیکرتراشی کافن ایک خاص اہمیت رکھتاہے،الفاظ،اسلوب اورمعنی کاآپس میں ایک خاص رشتہ ہے،مگرکہیں کہیں منوررانانے غیرحقیقی داد اورمشاعرع کے ماحول کے مدنظرقواعداوراصولوں کے ساتھ چشم پوشی کی ہے۔منوررانا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”میں قلم رکھ دوں توالفاظ کی صحت گرجائے۔” یعنی ان کادعویٰ ہے کہ جس لفظ کوچھولیتے ہیں،وہ غزل بن جاتاہے مگرایسامحسو س ہوتاہے کہ لسانی،فنی اورجمالیاتی شعوران کے یہاں کم ہے۔وہ مشاعرے سے کھیلتے ہیں۔ان کایہ رویہ کہیں کہیں گمراہ کن بھی ہے۔”
منورراناکی شاعری کے بارے میں صاحبِ مضمون نے توکچھ خیال کیا۔لیکن اشعرنجمی صاحب نے ‘پسِ نوشت’ میںاپنے روایتی منہ پھٹ اندازمیں کہا۔” منوررانا کی شاعری پرتبصرہ کرتے ہوئے پی پی سریوستورندصاحب نے شایدمروت سے کام لیاہے ورنہ ان کے ہاں ایسے ایسے اشعارموجود ہیں جن کے لیے جراح کے نشترکی ضرورت نہیںبلکہ قصائی کاچاپڑہی ان اشعارکے ساتھ انصاف کرسکتاہے۔میں یہاں ان کی اس غزل کامطلع پیش کرناچاہتاہوںجومنورراناکی شخصیت کی پہچان ہے۔
کسی کو گھر ملا حصے میں ، یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹاتھا،میرے حصے میں ماں آئی
منوررانا نے اس شعرپرجھولیاں بھربھر کے مشاعروں میں دادبٹوری ہے، اس طرح یہ شعران کی شعری شخصیت کی شناخت بن چکاہے۔لیکن منوررانا کی شخصیت کی شناخت بننے والاشعرآلوک سریواستوکے شعرکاچربہ ہے بلکہ سرقہ ہے۔آلوک سریواستوکاشعربھی سن لیجئے۔
بابوجی گزرے تو گھر کی سب چیزیں تقسیم ہوئیں
میں گھر میں سب سے چھوٹاتھا، میرے حصے آئی ماں
یہ شعرآلوک نے منورراناسے کافی پہلے کہاتھا جس کے کئی شواہدموجودہیں۔میڈیاسے وابستہ اشوک سریواستو نے ٹوئٹر پراحتجاج کیا، اورمنور راناکوخط بھیج کربھی جواب طلب کرچکے ہیں،لیکن آج تک منوررانا کی جانب سے اس خط کاجواب انھیں نہیں ملا۔اشوک نے اس خبرکو ‘دور درشن’ تک میں نشرکیا لیکن منوررانانے نہ کوئی ردعمل دکھایا،نہ صفائی دی اور نہ اس شعرسے دستبردارہوئے،ظاہرہے یہ ان کے لیے مشکل تھا کیوں کہ یہ شعران کی شناخت بن چکاہے اورآدمی بھلااپنی پہچان سے کیسے دستبردارہوسکتاہے، یہ توخودکشی کے مترادف ہوگا۔”
ان اقتباسات سے اس باب کاموضوع واضع ہوگیا۔اشعرنجمی کے دومضامین بھی ایسے ہی چشم کشاہیں۔جس کااندازہ شکیل اعظمی کے مجموعے”خزاں کاموسم رکاہواہے” پران کے تبصرے میں دیے مشورے سے لگایاجاسکتاہے۔” بہترئی یت جی ‘کاتااورلے دوڑی’ کی مثل پرکاربندشکیل اعظمی اپنا پانچواں مجموعہ شایع کرنے سے قبل اپنے چاروں مجموعے کسی لائق فائق سخن شناس کوانتخاب کے لیے سونپ دیں تاکہ وہ سختی سے اچھے،گوارا اورغنیمت اشعارنکال سکے تب شایدایک اوسط درجے کامجموعہ وجودمیں آسکتاہے اورتبھی یہ فیصلہ کیاجاسکتاہے کہ شکیل اعظمی کہاں کھڑے ہیں ورنہ خزاں کایہ موسم یوں ہی رکارہے گا۔”
”مشاعرہ نمبر” کے ساتویں باب”معذرت خواہاں مشاعرہ” کا تعارف اشعرنجمی نے ان الفاظ میں کرایاہے۔” اپولوجسٹ صرف مذہب اورسیاست میں نہیں ہوتے، ادب میں بھی ہوتے ہیں۔جولوگ کچھ سمجھتے ہوئے،دیکھتے ہوئے،محسوس کرتے ہوئے،اسی سسٹم کاحصہ بنے رہتے ہیں اوراپنے وہاں ہونے کی تاویل پیش کرتے رہتے ہیں،انھیں اپولوجسٹ کہاجاتاہے۔مشاعروںکی بدحالی نے بھی ایسے اپولو جسٹ یا’معذرت خواہان مشاعرہ’ پیداکیے ہیں جنھوں نے اس کاروبارکے فروغ کے لیے اپنی پوری زندگی کھپادی اورجب انھیں اس تجار ت میں اعتبار مل گیاتواس کاالزام نوواردان مشاعرہ کے سرمڑھ دیا۔حالاں کہ یہ نئے شاعر یانئے منتظمین مشاعرہ انھی کی معنوی اولاد ہیں اورمشاعرے کے نئے منظرنامے کے بھی وہی بنیادگزار ہیں۔یہ تمام بیانات موقراخبارات اورانٹرویوزسے مقتبس ہیں۔”
اس شمارے کا آٹھواں باب”ضرب الازب” ہے۔جس کی توجیح کرتے ہوئے مدیرمحترم لکھتے ہیں۔”اردومشاعروں کی دوسوسالہ تاریخ پر اگرنظرڈالی جائے تواندازہ ہوتاہے کہ وقت کے ساتھ مشاعروں کاکردار،اندازاوراثرات بھی بدلتے رہے ہیں،میروسوداکے عہد میں جو مشاعرے ،محلوں اورحویلیوں میں مراختے کے نام سے ہوتے تھے اورخواص ان میں حصہ لیتے تھے،بعدمیں آتش وناسخ کے دورمیں وہ عام سامعین کی دسترس میں آگئے اوریہ اردوشاعری کومقبول بنانے میں انھوں نے اہم حصہ لیا اوراس کاسلسلہ آج تک جاری ہے۔مذکورہ مشاعر وںنے بیسویں صدی میں عوام کے سیاسی وسماجی شعورکوبیدارکرنے اورنکھارنے میں بھی اہم حصہ لیالیکن جس رفتارسے اردولکھنے پڑھنے والوں میں کمی آرہی ہے مشاعروں کامعیارخاص طور پران کی روایتی تہذیب وشائستگی مجروح ہورہی ہے،اس کی فکر کرناضروری ہے۔ کیا کہتے ہیں اس بارے میں اردوکے باوقاراورسنجیدہ دانش ور،آئیے ان کاردعمل دیکھتے ہیں۔”
اس باب میں اردوکے سات مستنددانش وران کرام کی تحریروں کوشامل کیاگیاہے۔وارث علوی”یہ شاعر مشاعرہ پڑھتے ہیں،ادب نہیں”، شمس الرحمٰن فاروقی” وہ شاعر نہیں،مشاعرے کے شاعر کہے جاتے ہیں”، مشفق خواجہ کاقلمی نام خامہ بگوش سے”ایک وسیع المطالعہ شاعر”، قاضی عبدالستار”مشاعروں نے اردونثرکوزبردست نقصان پہنچایا”، ندافاضلی” مشاعرہ سننے والوں میں فرق ہے”،کشورناہید” مشاعرے اور تماشے میں فرق ہوتاہے” اوراقبال مجیدکا مضمون” امبوہی شاعری کے بھنڈیت زندہ باد”اس میں شامل ہیں۔
”اثبات مشاعرہ نمبر” کانواں اورآخری باب ”گفت وشنید” ایک تحریری مذاکرے پر مشتمل ہے۔اس مذاکرے میں عصرحاضر کے نقاد بھی ہیں،شاعر ،فکشن رائٹر،یونیورسٹی کے استاد،کالم نگاراورشعروادب کے قارئین اورسامع بھی شامل کیے گئے ہیں۔مدیر”اثبات” نے ان حضرا ت کودس سوالات پرمبنی سوال نامہ بھیجاتھا اور یہ باب انھی سوالات کے جوابات پرمشتمل ہے۔ان کے ذریعے قاری کے ذہن میں مشاعرے کے ادارے کے بارے میں پیداہونے والے ہرسوال کاجواب موجودہیں اوراس باب سے” مشاعرہ نمبر” کا مجموعی تاثر بہتر ہوتاہے۔
شمارے کے آخرمیں اردوکے تین مزاح نگارشعراکے مشاعرے کے بارے میں تخلیقات کوجگہ دی گئی ہے۔دلاور فگارکی ”کرکٹ اورمشاعرہ ” سیدمحمدجعفری کی”مشاعرہ” اور ظریف لکھنوی کی”شعرآشوب”۔
”اثبات” کے ”مشاعرہ نمبر”میں اردومشاعرے کاکوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑاگیا۔ تہذیب وثقافت اورزبان کی ترقی پراس کے اثرات ، اردو زبان اور خصوصاً شاعری کے فروغ میں اس کاکردار،قدیم اورجدید مشاعرے، اخبارات وجرائدکے بعدریڈیو،ٹی وی اورسوشل میڈیا کی آمد پرمشاعروں کا نیاروپ، دیگرزبانوں میں ‘کوی سمیلن’ جیسی تقریبات سے موازنہ،شعراکی خودنوشت میں مشاعرے کاتذکرہ، مزاح نگاری سے مشاعرے کے بارے میں دلچسپ انتخاب غرض یہ ”مشاعرہ نمبر” مشاعرے کے بارے میں ایک انسائیکلوپیڈیاہے، جس سے قاری مشاعرے سے مکمل طور پرآشناہوجاتاہے۔لیکن اس شمارے کوتحریری مشاعرہ نہیں بنایاگیا،اس کے بجائے مشاعرہ بطورادارہ پیش کیا گیا ہے۔اثبات کے بھرپور مشاعرہ نمبرکے مرتب اشعرنجمی بھرپورداد وتحسین کے مستحق ہیں کہ اس سے قبل اس موضوع پرایسانمبر کوئی ترتیب نہیں دے سکا۔ سٹی بک پوائنٹ کا”اثبات”کے اس یادگار شمارے کوپاکستان سے شایع کرنے پرقارئین کی جانب سے بہت مبارک باد۔