کسی بھی سرکاری اور نجی ادارے میں ایک نوجوان پوری صلاحیتوں اور قوت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اپنے کیریئر میں کئی سردگرم اور اتارچڑھاو بھی راستے میں آتے ہیں۔ کہیں تبادلہ ، کہیں ترقی، کبھی شاباش ،کبھی معطلی، اکثریت کی ملازمت کا دورانیہ بڑی جانفشانی اور لگن کی کہانی پیش کرتا ہے۔
سرکاری اداروں سے وابستہ لوگ زیادہ محتاط اور اصول وضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ انہیں آج کے دور میں ملنے والی مراعات جنہیں PERX کہتے ہیں، نسبتاً کم یا محدود پیمانے میں ملتی ہیں۔ زندگی کے اس سفر میں پہلے شادی ہوتی ہے، پھر بچے آتے ہیں۔ ان کی تعلیم وتربیت اور پرورش کے لئے دوڑ دھوپ تیز ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات وسائل بڑھانے کیلئے ترقی کی منزلیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔ نجی شعبے سے وابستہ افراد دوسرے اداروں کا رُخ کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین دوسری یا پارٹ ٹائم ملازمت پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ اپنے کنبے کی خوشحالی اور بہتر مستقبل کی سوچ کے تحت کیاجاتا ہے۔ اس ساری بھاگ دوڑ میں دن رات کا تعاقب ایک مشینی انداز میں جاری رہتا ہے۔ انسان کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا بچے پڑھ لکھ کر ملازمت یا کاروبار کرنے کیلئے میدان عمل میں قدم رکھ دیتے ہیں، اسی اثناء میں بچیوں کی شادی یا پھر مکان بنانے کا بڑا ٹاسک بھی آتا ہے، جس کیلئے بنکوں ، عزیزوں سے قرضے اور کمیٹیوں کی کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ اکثرملازم لوگ گھر بنانے کا خواب تادم مرگ دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کا فرض کسی نہ کسی صورت پورا کرلیتے ہیں۔
ایک وقت آتا ہے جب بال سفید ہوجاتے ہیں۔ کام کرنے کی استعداد کچھ کم پڑجاتی ہے۔ کچھ مختلف نوعیت کے عارضوں میں مبتلا بھی ہوجاتے ہیں۔ رفتار بھی تھوڑی سست ہوجاتی ہے۔ ایسے میں کوشش ہوتی ہے کہ اردگرد والوں کو محسوس نہیں ہونے دینا ،اپنا کام اسی مستعدی سے کرناجیسے دوتین دہائیوں پہلے تھی۔
سرکاری ملازم کی نگاہیں اپنی ریٹائرمنٹ پرلگی ہوتی ہیں۔ اس کا ہدف آنے والا وقت ہوتا ہے۔ ساٹھ سال کا ہونے پراسے عمر بھری کی خدمات کے عوض میں ایک اچھی رقم کے ملنے کی آس لگی ہوتی ہے۔ جس سے کئی کام سوچ رکھے ہوتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ایک آزادی کااحساس بھی ہوتا ہے کہ کئی برسوں بعد اب صبح وقت پر اٹھ کر دفتر جانے سے جان چھوٹ جائے گی۔ بغیر کام کئے پنشن کی صورت میں معاوضہ ملے گا۔
بچے اپنے قدموں پر کھڑے ہوچکے ہوتے ہیں، ایک نئی زندگی پر توجہ مرکوز ہوجاتی ہے۔ کئی لوگوں کیلئے یہ نیا دور بوریت کا باعث ہوتا ہے لیکن کچھ اپنی مصروفیات تلاش کرلیتے ہیں۔ دراصل اچھی مراعات حاصل کرنے والے بہتر ریٹائرڈ زندگی بسر کرتے ہیں۔ جنہیں واجبی پنشن ملتی ہے وہ ایک نئی پریشانی والی زندگی میں قدم رکھ لیتے ہیں۔ ان کے دکھ اور تکالیف کا دوسرا جنم ہوتاہے۔
وہ سال بعد بجٹ میں ایک معمولی اضافے کا بھی بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ کئی ریٹائرڈ ملازمین نے اسی رقم سے گھر کے مالی معاملات چلانا ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ نے اپنی ادویات اور ذاتی خرچہ اس پنشن سے کرنا ہوتا ہے۔ ہر ماہ پنشن کے حصول کیلئے قطاروں میں کھڑے ہونابھی ان کا معمول ہے۔ جب حکومت یا ادارے کسی نہ کسی بہانے کچھ رکاوٹیں پیدا کردیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پنشن یا مراعات کاسلسلہ تعطل کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں عمر کے اس حصے میں ان پنشنر کو صدائے احتجاج تک بلند کرنا پڑجاتا ہے۔ سڑکوں پر آکر مطالبات کے حق میں کھڑے ہوکر حکام سے اپیلیں کرنا پڑتی ہیں۔ کوئی سنتا ہے ، کوئی کان تک نہیں دھرتا۔ آس امید اور مایوسی کے ملے جلے جذبات لئے یہ پنشنر ز اب اگلی منزل کا سوچ کر ڈر جاتے ہیں۔ یعنی انہیں یہ لگتا ہے کہ کوئی تکلیف اور پریشانی کے ان لمحات میں توجہ نہیں دے رہا۔ انہیں زندگی کے آخری دنوں کی آمد کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔ شاید وہ موت سے پہلے ہی اس کاانتظار شروع کردیتے ہیں۔
آج لاہور کی سڑکوں پر دیکھا، بنک کے ریٹائرڈ ملازمین سراپا احتجاج تھے۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک اچھی ملازمت کے بعد انہیں بہت معمولی پنشن ملتی ہے۔ ان لوگوں نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں اپنے مطالبات کے حق میں کیس جیتا مگر ڈھائی برس گزرنے کے بعد بھی عملدرآمد نہیں کیاگیا۔ انہیں پچھلے بیس سال سے اس صورتحال کا سامنا ہے۔ قانون اور انصاف کے اداروں سے رجوع کرنے کے باوجود حق نہ ملنا، کسی طورپر درست نہیں۔
اسی طرح ایک پنشنر سے دریافت کیا وہ سالانہ اضافے سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے نہایت دکھی انداز میں بتایا کہ وفاق کے ملازمین کی پندرہ فیصد بڑھی جبکہ وہ پنجاب کے ملازم ہیں۔ حکومت نے بڑے ابہام میں اعلان کیا۔ جوکہ صرف پانچ فیصد ہے۔ ایک سال انتظار کے بعد اگر بیس پچیس ہزار پنشن والے کو محض ایک ہزار یا ڈیڑھ ہزار اضافہ ملے۔ جبکہ مہنگائی کاتناسب کہیں زیادہ ہے۔ یہ صورتحال مایوس کن ہی ہوگی۔
حکومتیں اور ادارے انہیں بھی گھر کے بوڑھے والدین جیسا سلوک کرتے ہیں۔ جن کی شفقت، پیار اور پرورش فراموش کردی جاتی ہے۔ یہ احساس بھی دم توڑجاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ سماج میں پنشنزز کے ساتھ سلوک معمر ماں باپ کے ساتھ بے حسی کے رویے کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ وہ زبان پر حرف شکایت تک نہیں لاتے اور قدرت کے اس فیصلے پر خاموش اختیارکرلیتے ہیں۔