میرے ایک دوست کا ٹیلے ویژن پروگرام پروڈکشن ہاوس ہے۔ آٹھ نو برس پہلے وہ ٹیلے ویژن چینل کے لیے ایک ڈراما سیریل بنا چکا تھا، مجھے اِڈٹنگ رُوم میں اس ڈرامے کے کچھ حصے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک چینل سے ڈیل ہو گئی تھی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جتنی اقساط کی ڈیل ہوئی تھی اس میں سے کچھ اقساط کم پڑتی تھیں۔ اس سیریل کی کہانی کچھ یوں ہے، کہ ایک دولت مند لڑکا بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے آتا ہے؛ اس کے چچا جو اس کی جائداد کے نگران ہیں، اسے دھوکے سے منشیات کے مقدمے میں الجھا دیتے ہیں، تا کہ یتیم کے مال کو ہڑپ کیا جا سکے، چوں کہ اس جھوٹے مقدمے میں پولِس اس کے چچا کی زر خرید ہے، تو بھتیجا مفرور ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں اس پر کیا بیتتی ہے، یہ سیریل میں دکھایا گیا ہے۔ قسطیں بڑھانے کے لیے میں نے یہ تجویز دی کہ کہانی کے فلاں حصے میں جب پولِس ہیرو کا پیچھا کرتی ہے اور وہ چھپتے چھپاتے ٹرک پر سوار ہو جاتا ہے (وہی ٹرک اسے کراچی سے لاہور پہنچا دیتا ہے) وہاں ایسا کیا جائے کہ ٹرک پر سوار نہ ہو، بل کہ مچھیروں کی بستی میں پناہ لے لے۔ کچھ اقساط میں مچھیروں کی بستی کی کہانی بیان ہو، پھر وہاں سے نکل کر ٹرک والے لنک سے جوڑ دیا جائے، جو پہلے سے رِکارڈ ہو چکا ہے۔
ایک پنجابی محاورہ ہے، ”جیہڑابولے اوہو بوہا کھولے“، اس کا متبادل اردو محاورہ یوں ہے، ”جو بولے سو گھی کو جاوے“، یا ”جو بولے وہی پانی بھرنے جاوے“۔ ڈرامے کی یہ بیچ کی اقساط لکھنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی۔ انھی دنوں میں ایک نیوز چینل میں پروڈیوسر کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ وقت کی قلت کا بہانہ کیا، لیکن دوست کے اصرار پر ہار مان لی۔ کچھ دن بعد کسی مسئلے پر چینل کے سینئر پروڈیوسر سے اختلاف پیدا ہو گیا، اتنا بڑھا کہ میں استعفا دے کر اسی دوست کے دفتر آیا۔ تین دن بعد اسی ڈرامے کی شوٹ تھی، دوست نے کہا، اپنے لکھے کو ڈائریکٹ بھی کر دو۔
کراچی کورنگی کھاڑی کے ساحل پر ابراہیم حیدری نامی مچھیروں کی بستی ہے۔ جس مچھیرے کا گھر ”لوکیشن“ قرار پائی، وہ مچھیروں کی یونین کا کرتا دھرتا بھی تھا؛ نام تھا محمد۔ سب محمد بھائی پکارا کرتے تھے۔ سادہ مزاج شخص تھا، کسی قسم کی لالچ کا مظاہرہ نہ کیا۔ قریب نو دس دن اس بستی میں شوٹ جاری رہی۔ محمد بھائی کی نظروں میں ہم ”صاحب لوگ“ تھے، ان نو دس دنوں میں ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔ مثلا: میرے من میں یونہی سمایا، کیوں نا سمندر میں جا کے کچھ شاٹ لیے جائیں۔ محمد بھائی سے کشتی کے انتظام کرنے کا پوچھا، تو محض پانسو رُپے ایندھن کی مد میں مانگے گئے، جب کہ ہم کشتی کا کرایہ بھی دینے کو تیار تھے۔ اسی طرح ایک جرگے کا منظر رِکارڈ کرنا تھا۔ محمد بھائی سے پوچھا، کچھ مچھیروں کو اکٹھا کر سکتے ہیں، تا کہ مجمع لگے؟ جواب میں سوال کیا، کہ ”کھانے کی ایک دیگ بنوا دیں گے؟“ میری استفسارانہ نگاہوں کے جواب میں لائن پروڈیوسر نے ہامی بھر لی۔
ایک درخت تلے اسٹیج سج گیا۔ پس منظر میں گورستان تھا۔ بہت سے مچھیرے زمین پر بیٹھے، حقیقی منظر کا حصہ معلوم ہوتے تھے۔ دن کے دو بجے میں نے کھانے کا وقفہ کرنا چاہا تو محمد بھائی نے اختلاف کرتے کہا، جب تک آپ کی رِکارڈنگ مکمل نہیں ہو جاتی، تب تک کھانے کا سوچیے بھی مت۔ وجہ یہ بتائی کہ یہ مچھیرے کھانا کھانے کے لیے بیٹھے ہیں۔ جونہی کھانا دیا، ان میں سے ایک بھی یہاں نہیں دکھائی دے گا۔ ساڑھے تین یا چار بجے کھانا پیش کیا گیا، اور وہی ہوا جس کے بارے میں محمد بھائی نے آگاہ کر دیا تھا۔ میدان خالی ہو گیا۔ بظاہر یہ معمولی سا واقعہ ہے، لیکن میں بہت دن تک یہی سوچتا رہا کہ محض ایک وقت کے کھانے کے لیے یہ غریب گھنٹوں بیٹھے رہے۔ ہم اپنی غرض کے لیے کسی سے نا انصافی کرتے ہیں اور پھر کچھ یوں کہتے ہیں، ”ان کی اوقات کیا ہے، یہ تو چاول کی ایک پلیٹ پر بِک جاتے ہیں۔“
نیوز چینل میں میرا استعفا قبول نہیں ہوا، بل کہ میری شکایت کا ازالہ کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ آکے جوائن کروں۔ میں نے صاف صاف کہ دیا کہ دو ہفتوں سے پہلے نہیں لوٹ سکتا، وجہ بھی بتائی کہ رِکارڈنگ میں مصروف ہوں۔ میری اس بے باکی کی ایک وجہ یہ تھی، کہ میرا ارادہ ہی نہیں تھا کہ لوٹ کے جاوں گا۔ ”سب رنگ“ ڈائجسٹ کے مدیر شکیل عادل زادہ میرے پیر و مرشد ہیں۔ رِکارڈنگ سے فرصت ملتے ہی ان سے ملاقات کے لیے گیا۔ انھیں خبر ہوئی کہ میں نے ملازمت سے استعفا دے دیا ہے، تو خوش نہیں ہوئے۔ فرمایا کہ کتاب بھی تبھی خریدی جا سکتی ہے، جب جیب میں رقم ہو۔ جیب خالی ہو تو کتاب پڑھنے کو جی نہیں کرتا۔ ان سے ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے استعفا واپس لے لیا۔
ابراہیم حیدری کی لوکیشن پہلی بار میں نے دریافت کی تھی، اس کے بعد اندرون سندھ کا منظر دکھانے کے لیے بہت سے پروڈیوسر نے اسی بستی کا رُخ کیا، کہ اخراجات کم اٹھتے ہیں۔ محمد بھائی کو ہمی میں سے کچھ نے سکھا دیا کہ جو خدمات آپ مفت میں فراہم کرتے ہیں، اس کی پروڈکشن ہاوس کی طرف سے فیس ادا کی جاتی ہے۔ پھر یوں ہوتا چلا گیا کہ انھی لوکیشن کے بھاو بڑھتے گئے، جو کبھی سستے داموں دست یاب تھیں۔ علاقے کا ”کرتا دھرتا“ پروڈیوسر سے اپنی فیس لے لیتا ہے۔ اب اسے جرگے کی منظر کشی کرنا ہو، یا بستی میں چہل پہل دکھانا ہو، اس کے لیے چاول کی ایک دیگ کا خرچ اضافی ہے، بہت سے ”ایکسٹرا“ اکٹھے کیے جا سکتے ہیں، ان کی قیمت کوارڈنیٹر وصول کر لیتا ہے۔ یہ تب تک ہوتا رہے گا، جب تک یہ غریب اس بات کو نہ سمجھ لیں کہ انھیں کیسے بیچا جاتا ہے، اور چاول کی پلیٹ دینے والا ”ان داتا“ نہیں، ان کی لا علمی کا فائدہ اٹھانے والا ستم گر ہے۔
آپ کہیے، کیا کِیا جائے؟ رِکارڈنگ کرنے والوں کو وہاں جانے سے روک دیا جائے؟ یا رِکارڈنگ ٹیموں کو بھیجا جاتا رہے، ایک نہ ایک دن تو یہ غریب جان لیں گے، کہ ڈرامے بنانے والوں کو ہماری ضرورت ہے، اور اس کی قیمت محض چاول کی ایک پلیٹ نہیں ہوتی!
فرصت ملے تو یہ بھی سوچیے گا، ووٹ دینے والوں کو ہم یونہی حقارت کا نشانہ بناتے ہیں، کہ ایسے ووٹر بریانی کی ایک پلیٹ کے بدلے ووٹ دے دیتے ہیں؛ سو ان کے ووٹ کی کیا وقعت! یہ دلیل ہم اس برتے پر دیتے ہیں، کہ ہم با شعور ہیں، اور یہ ان پڑھ اور غریب لوگ جاہل ہیں۔ دیکھا جائے تو انھیں بے شعور رکھنے میں ہمارا بھی کردار ہے۔ کسی نا کسی سطح پر ہم استحصال کرنے والوں کے معاون ہوتے ہیں۔ ہم غاصبین کی حمایت کرتے ہیں، غاصبوں کے گن گاتے ہیں، اور ووٹ کی حرمت کا سوال آئے تو رعیت کو جاہل کہ کر ان پر ڈنڈے کے زور سے حکمرانی کو جائز قرار دینے لگتے ہیں۔