سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس حکومت کے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا۔ ہڈی کے نگلنے یا اگلنے کا فیصلہ تو کچھ عرصہ پہلے ہو چکا تھا جب سپریم کورٹ نے ریفرنس کو غلط قرار دیا اور جج صاحب اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے۔ جمعہ کی شام عدالت عظمیٰ نے فیصلے کی تفصیل بھی جاری کر دی۔
کسی فیصلہ شدہ قضیے کے فیصلے میں یوں کوئی خاص بات نہیں ہوتی لیکن قانونی حلقوں کے نزدیک کسی معاملے کے بارے میں جو قانونی باریکیاں سامنے آتی ہیں، ان کی اہمیت غیر معمولی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جب سے جوڈیشل ایکٹو ازم شروع ہوا ہے، اس کے بعد سے تفصیلی فیصلوں پر توجہ دینے کی روایت مزید پختہ ہوئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا جو تفصیلی فیصلہ آیا ہے، اس نے صرف فریقین میں سے کسی ایک کو فتح یاب اور کسی شکست سے دوچار نہیں کیا بلکہ موجود ہائبرڈ سسٹم کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
عدالتی فیصلے کا وہ حصہ معمولی نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور اس حکومت کے ایک بڑے قانونی شہ دماغ مرزا شہزاد اکبر نے صدر مملکت کو غلط مشورے دیے۔ فیصلے کا ایک اور حصہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے جس نے عدالت نے صدر مملکت کے بارے میں کہا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے اور اس اہم معاملے کے سلسلے میں وہ اپنا ذہن استعمال کرنے اور اس سلسلے میں بامعنی مشاورت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے صدر مملکت کا منصب سیاسی تقسیم سے بلند ہو جاتا ہے اور اس کے لیے مناسب نہیں ہوتا کہ حکومت کی طرف سے جو کچھ بھی آئے، وہ آنکھیں بند کر کے اس پر عمل درآمد کردے۔ صدر مملکت کے سیکریٹریٹ میں ایک بھرپور قانونی شعبہ ہوتا ہے جس کی سربراہی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی سطح کا کوئی قانون دان یا ریٹائرڈ جج کرتے ہیں۔ ان کے معاونین کی ٹیم بھی قانون دانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایوان صدر کا یہ شعبہ ملک کے اس سب سے بڑے دفتر کا مصروف ترین سیکشن ہوتا جس کی نگاہ سے ملک کا ہر قانونی معاملہ گزرتا ہے، خاص طور پر قومی اہمیت کے حساس معاملات پر تو انتہائی باریک بینی سے غور کرنے کے بعد ہی کوئی معاملہ آگے بڑھایا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں بیوروکریسی بھی پھونک پھونک کر ہی قدم اٹھاتی ہے۔
صدر مملکت کے دفتر کی حساسیت اور ایوان صدر کے اتنے متحرک اور تجربہ کار قانونی شعبے کی موجودگی میں ایسی کسی غلطی کا امکان کم سے کم تر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس کے معاملے میں یہ غلطی ہوئی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ یہ کیس نمٹاتے وقت قانونی تقاضوں کے بجائے صرف مصلحتیں پیش نظر رکھی گئیں اور ایوان صدر کے شعبہ قانون کو اپنا ذہن استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا جس کا نتیجہ شرمندگی کی صورت میں سامنے اگیا۔ اس سے قبل آرمی چیف کی ایکسٹنشن کے معاملے میں بھی اس دفتر میں کوئی ایسا ہی سہو ہوا تھا جس نے حکومت کو پریشانی سے دوچار کر دیا۔
جسٹس قاضی عیسیٰ کیس کے فیصلے نے اس حکومت کے اہم لوگوں کی نااہلی ایک بار پھر ثابت کردی ہے۔ پاکستان جیسے اہم ایٹمی ملک کا ایک ناتجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں آ جانا تشویش کی بات ہے کیون کہ ملک کھلونا ہوتا ہے اور عوام کیڑے مکوڑے۔ اسی لیے کاروبار مملکت چلانے کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دی جاتی ہے جواس کے اہل ہوتے ہیں۔