یہ مئی 1998 کا زمانہ تھا۔ایک دھماکہ تو پاکستان نے ایٹم بم کے نام سے کیا اور دوسرا ہم نے امریکہ سے واپسی پر۔ لوگ حیران تھے کہ امریکہ جا کر کوئi واپس نہی آتا مگر آپ کس مٹی کے ہیں کہ واپس آگئے وہ بھی ہزاروں ڈالر کی جاب چھوڑ کر ہم نے کہا کہ بھائی ہم اسی پاکستان کی مٹی سے ہیں اور اس کی خوشبو ہمیں کہیں اور رہنے نہی دیتی۔
چونکہ ہم ایک بڑے نیشنلائزڈ بنک سے گولڈن ہینڈ شیک کر کے گئے تھے لہٰذا واپسی کسی نجی ادارے میں ہی ہو سکتی تھی، پس ایک نجی سوفٹوئیر ہاوس میں پروجیکٹ مینیجر کی جاب کی اور ساتھ ہی کسی نجی بنک میں جاب کی کوشش کرتے رہے۔۔بالآخر ایک بڑے نجی بنک کے آئ ٹی ڈیپارٹمنٹ میں جاب ہوگئی۔۔جہاں سے اب ہم باعزت ریٹائر ہوچکے ہیں۔۔
خیر اس پس منظر کے بعد ہم آتے ہیں اصل معاملے کی طرف۔۔۔اتفاق سے ان دنوں کسی وجہ سےہمیں شیاٹیکا کا مرض لاحق ہوگیا۔۔جس میں ریڑھ کی ہڈی سے نکلنے والی اعصابی نس دب جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف درد میں اضافہ ہوتا گیا بلکہ ہماری دائیں ٹانگ بھی سن ہوتی چلی گئی۔۔یہاں تک کہ ہم وھیل چیئر اور بستر پر آگئے۔آدھا دھڑ سن کی کیفیت سے دوچار تھا۔۔درد اتنا شدید تھا کہ روزآنہ درجنوں پین کلرز اور نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود نہ چین آتا تھا نہ ہی نیند آتی تھی۔۔
یوں بنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس۔ٹس سے مس۔اور بس
اس مصور کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹھ برس اور بس
سب تماشائے کن ختم شد
کہہ دیا اس نے بس اور بس
خیر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو ہم نے سب کے مشورے سے پاکستان کے بہت ہی بڑے نیورو سرجن ڈاکٹر آئ ایچ بھٹی صاحب کو دکھا یا۔ انہوں نے نہ صرف ہمارا ایکسرے دیکھا بلکہ ربڑ کی ہتوڑی سے ہمیں بھی ٹھوک بجا کر دیکھا اور فرمایا کہ آپ فوراً لیاقت نیشنل اسپتال میں داخل ہوجائیں اور فوری. MRI کرائیں۔۔آپ کا دو دن کے اندر آپریشن کرنا ہے ورنہ اندیشہ ہے کہ آپ زندگی بھر کیلیے مفلوج نہ ہوجائیں۔۔
ان کی پرچی پر ہمارے سارے کام فوراً ہوگئے کیونکہ ان دنوں وہ LNH کے میڈیکل ڈائریکٹر بھی تھے۔۔بہرحال دو دن بعد شام تین بجے سے رات آٹھ بجے تک ہمارا آپریشن ہوا۔ اس سے پہلے ایک بہت ہی خوبصورت لیڈی ڈاکٹر نے باتوں باتوں میں ہمارے انجیکشن لگایا۔ ہم نے کہا یہ کیا ہے۔۔کہنے لگیں بے ہوشی کا انجیکشن ہے کیونکہ آپ بولتے بہت ہیں۔ ہم نے کہا آپ کے ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت تھی۔۔ہم تو ویسے ہی بے ہوش ہونے والے تھے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔خیر ہم جب ہوش میں آئے تو ریکوری روم میں تھے۔ یہاں کوئی نیب کا ریکوری روم نہ سمجھے۔ اس کے بعد ہم کمرے میں شفٹ کردئیے گئے۔ الحمد اللہ ہوش میں آتے ہی محسوس ہواکہ آپریشن کامیاب ہوچکا ہے۔۔کیونکہ درد بھی غائب تھا اور سن کی کیفیت بھی کافی کم ہوچکی تھی۔۔اور آخر دو دن بعد ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا کردیا بلکہ چلا بھی دیا۔ آہستہ آہستہ ہم مکمل صحتیاب ہوکر گھر شفٹ ہوگئے۔ مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ ہوا یوں کہ اس دوران ہم نے جو پین کلرز اور نیند کی گولیاں حد سے زیادہ استعمال کرلی تھیں۔۔انہوں نے اپنا رنگ دکھایا اور ان کی وجہ سے ہمارے بائیں طرف پتھری ہوگئی۔۔چونکہ پتھری چھوٹی تھی اس لیے اس کی اٹھکھیلیوں نے دوبارہ ہماری زندگی تکلیف دہ بنادی۔۔لہٰزا ہم گزشتہ بیماری کو بھول کر اس طرف متوجہ ہوئے کہ اس نئی آزمائش سے کیسے عہدہ برا ہوں۔
خیر پتھری ہونا بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ایں سعادت بزور بازو نیست۔خود مولانا مودودی صاحب بھی اس پتھری کے ستائے ہوئے تھے۔۔جس پر ان کے دوست جوش ملیح آبادی طنز کرتے تھے کہ مولانا کو اندر سے سنگسار کیا جارہا یے۔(نعوز با للہ)۔۔خیر یہ تو ایک جملئہ معترضہ تھا مگر جب ہماری تکلیف حد سے بڑھی تو ہمارے آفس کے دوست جناب ریاض الدین صاحب نے ہمیں ایک نابغہ روزگار سخصیت کے پاس بھیجا جن کا نام تھا سلامت اللہ خاں۔ ہم تکلیف کے مارے تھے لہٰزا ہم نے رات دس بجے ہی ان کے گھر پر دستک دے دی۔ اندر سے ایک انتہائ بزرگ اور بہت ہی خوبصورت اور پرنور چہرے والے صاحب برآمد ہوئے اور بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ہم نے معزرت کی کہ اتنی رات کو ان کو زحمت دی۔۔مسکرا کر کہنے لگے تکلیف اور ضرورت رات دن نہی دیکھتی۔۔ہمیں عزت سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود اندر جاکر وضو کیا۔ٹوپی پہنی اور بڑے مشفقانہ انداز سے ہمارے درد کی جگہ پر دایاں ہاتھ رکھا اور تین مرتبہ آنکھ بند کرکے کچھ پڑھ کر دم کیا اور تینوں مرتبہ ہم نے محسوس کیا کہ وہ مراقبہ کی کیفیت میں ہیں اور ان پر جھر حھری سی طاری ہوجاتی ہے۔
خیر وہ دن اور آج کا دن تقریباً 22 سال ہوگئے دوبارہ تکلیف نہ ہوئی۔اس کے بعد نہ صرف ہم ان کے گرویدہ اور مرید ہوگئے بلکہ ہم نے رشتہ داروں اور حلقئہ احباب میں بھی ان کو متعارف کرادیا اور یوں ہمارے واسطے سے بہت سے لوگ فیضیاب ہوئے۔۔اب ہمارا تعلق دوستی میں بھی بدل چکا تھا حالانکہ وہ ہمارے والد کے برابر تھے۔۔اس وقت بھی ان کی عمر ستر سال سے زائد تھی۔۔جب تعلقات بڑھے تو ہمیں پتہ چلا کہ کسی بزرگ نے انہیں بچپن میں یہ دم عطیہ کیا تھا جب کہ ان کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی۔۔اور اس وقت سے لیکر مرتے دم تک آپ نے یہ زمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے نبھائ۔۔ماشاء اللہ انہوں نے 90 برس سے زائد عمر پائی۔آپ کا تعلق انڈیا کے شہر را مپور سے تھا۔
ہر طرح کے مریض خصوصاً پتھری کے مریض چوبیس گھنٹے ان کے گھر کے چکر لگاتے تھے وہ چونکہ ایک نجی ادارے میں ملازمت بھی کرتے تھے لہٰزا اکثر لوگ رات کو انہیں زحمت دیتے تھے۔۔مگرکبھی ان کی پیشانی پر بل نہ آیا۔۔یہ کام وہ فی سبیل اللہ کرتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات مریض آنے کے قابل نہ ہوتا تو وہ خود اس کے گھر جاتے اور دم کرتے تھے۔۔تقریباً 80 سال تک وہ یہ کام کرتے رہے۔۔یوں ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے فیضیاب اور شفایاب ہوئے۔۔۔
اسی وجہ سے ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا۔۔جس کی وجہ سے اکثر لوگ ان سے دوسرے مسائل میں بھی نہ صرف مشورہ کرتے بلکہ ان کے حلقہ احباب کے زریعے سے ان کی سفارش پر فی سبیل اللہ کام بھی کراتے تھے۔۔خود ہمیں بھی بہت سے ذاتی نوعیت کے مسائل میں ان کے مشورے۔۔رہنمائی بلکہ عملی مدد بھی میسر رہی۔۔ہماری بیٹی صفیہ مریم کی شادی میں شریک ہوئے اور ہمارے گھر آکر دعائیں دیں۔صفیہ نے بھی اپنے ہاتھ سے بنائ ہوئ آیہة الکرسی کی گلاس پینٹنگ ان کو ہدیہ کی۔۔جب اس کی رخصتی لندن ہونے لگی تو ان دنوں کراچی میں سیکیوریٹی کے مسائل بھی تھے اور خصوصاً ائر پورٹ آنے جانے والےمسافروں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔۔ایسے میں سلامت صاحب ہی ہمارے کام آئے۔۔انہوں نے کچھ پولیس نفری معہ افسران اور موبائل ہمارے گھر بھیج دی اور ہم نے پوری حفاظت میں اپنی بیٹی کو ائرپورٹ پر الوداع کیا۔۔
سلامت صاحب کی ایک خوبی اور تھی کہ ان کی بیگم کم از کم دس سال سے زائد بیماری کی وجہ سے بستر پر رہیں۔۔ سلامت صاحب کا معمول تھا آفس جانے سے پہلے صبح بیگم کی خدمت کرتے۔انہیں کھانا اپنے ہاتھ سے کھلاتے۔۔اسکے بعد دفتر جاتے۔۔اور دوپہر میں دوبارہ گھر آتے اور بیگم کو کھانا کھلاتے اور واپس دفتر جاتے۔۔اور شام کو دفتر سے واپسی پر بھی ایساہی کرتے۔۔یہی وجہ تھی کہ بیگم بھی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ہاتھ سےکھانا نہی کھاتی تھیں اور ان کا انتظار کرتی تھیں۔۔
سلامت صاحب کی ایک بیٹی بایولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور مسقط میں سلطان قابوس یونیورسٹی میں پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔۔کبھی کبھی ان سے ملنے مسقط بھی جاتے تھے۔۔ان کے ایک صاحبزادے کینیڈا میں بڑے بزنس مین ہیں اور حکومت کی طرف سے ٹاپ ایکسپورٹر کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔۔کبھی کبھی سلامت صاحب کینیڈا بھی جایا کرتے تھے
اسی دوران ان کے گھٹنوں میں بہت تکلیف بڑھ گئی تو ساوتھ سٹی ہاسپٹل کلفٹن میں بھی داخل رہے اور وہاں ان کا گھٹنا بھی تبدیل کیا گیا۔۔ہم بھی ان کی عیادت کیلیے جاتے رہے۔۔مگر مصنوئ گھٹنا بھی بہت جلد جواب دے گیا۔۔لہٰزا انھوں نے دوسرے گھٹنے کی تبدیلی کا خیال ترک کردیا۔اس دوران وہ کافی تکلیف سے گزرے اور دوائیوں کی زیادتی نے بھی کافی تنگ کیا۔۔۔ہم نے ان سے کہا بھی کہ اب آپ کی عمر اورصحت دونوں جواب دے رہی ہیں اب آپ آرام کریں۔۔تو کہنے لگے ملازمت تو میں فٹ رہنے کیلیے کرتا ہوں۔۔
ایک دن موقع پاکر ہم نے ان سے درخواست کر ہی ڈالی کہ اب آپ کی صحت اور عمر دونوں جواب دے رہی ہیں اور موت سے بھی کسی کو مفر نہی۔۔آپ 70 80 سال سے لوگوں کو فیض پہنچارہے ہیں مگر ایک نہ ایک دن یہ سلسلہ منقطع ہو نے والا ہے۔۔آپ کے بعد کیا ہوگا۔۔کیوں نہ آپ یہ وظیفہ اپنے بیٹوں کو عطیہ کردیں تاکہ یہ صدقہ جاریہ جاری و ساری رہے۔۔کہنے لگے کہ میں نے بیٹوں سے بات کی تھی مگر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا کہ یہ کام ہمارے بس کا نہی۔۔ہم نے ساری زندگی آپ کو لوگوں کو خندہ پیشانی سے فیض پہنچاتے دیکھا ہے اور بہت صبر برداشت اور حوصلے سے کام لیتے دیکھا ہے۔۔آپ نے ہمیشہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی آپ کے ماتھے پر شکن نہ آئ۔۔مگر ہم اس کے متحمل نہی ہوسکتے اور ہم اس زمہ داری کو نبھانے سے قاصر ہیں۔۔ہم اس کے اہل نہی ہیں۔۔
خیر ہم نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو آپ ہماری ایک مینارہ مسجد عزیزآباد کے خطیب۔مفتی۔حافظ اور امام صاحب کو یہ وظیفہ عطیہ کردیں۔وہ ایک بڑے مشہور و معروف دینی گھرانے سے بھی تعلق رکھتے ہین۔۔ہمارے خیال میں وہ اس کام کیلیے موزوں رہیں گے۔۔سلامت صاحب کی مجھ پر یہ عنایت رہی کہ انہوں نے میرے ساتھ مسجد آکر مفتی صاحب کو وظیفہ ایک بند لفافے میں عطیہ کردیا اور اب ہمارے مفتی صاحب بھی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔۔اب جبکہ سلامت صاحب ہم میں نہی ہیں مگر ان کا فیض اب بھی جاری ہے۔۔
افسوس کہ اس کرونہ اور لاک ڈاون کی وجہ سے ان سے رابطہ بر قرار نہ رہ سکا اور ایک دن ہمارے وہی دوست۔۔ریاض صاحب جنہوں نے سلامت صاحب سے ہمیں ملوایا تھا۔۔واٹس ایپ پر اطلاع دی کہ سلامت صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ان کی پھولوں سے ڈھکی قبر کی تصویر بھی شیئر کی۔۔ہم نے ریاض بھائ سے گلا کیا کہ آپ نے ہمیں بروقت اطلاع کیوں نہ دی۔۔ہم بھی جنازے میں شرکت کرلیتے۔۔ریاض بھائ نے کہا کہ خود انہیں دو دن کے بعد اطلاع ملی ہے۔اور بتایا کہ 23 جون 2020 کو ان کا انتقال پر ملال ہوگیا ہے۔
ریاض بھائی لاہور میں رہتے ہیں۔۔بہر حال وہ طارق روڈ کے قبرستان کراچی آئے۔۔اور سلامت صاحب کی قبر پر ان کے لیے دعا کی۔۔ریاض بھائی کا سلامت صاحب سے تعلق 1977 سے قائم تھا۔۔اللہ تعالیٰ سلامت صاحب پر اپنی رحمتین برسائے اور انہیں اپنی جنتوں میں ہمیشہ سلامت رکھے۔۔آمین ثمہ آمین۔
ریاض بھائی سے طے ہواہے کہ وہ جب بھی لاہور سے کراچی آئیں گے ہمیں سلامت صاحب کی قبر پر لے جائیں گے تاکہ ہم بھی دعا کرلیں۔۔خیر یہ تو ہم اپنے دل کے بہلانے کیلیے کریں گے۔۔بات دراصل یہ ہے کہ سلامت صاحب نہ صرف ہمارے بلکہ ہمارے جیسے بے شمار لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔۔اور ہم سب کی دعاوں میں ہمیشہ شامل رہینگے۔کیونکہ انھوں نے خاموشی۔۔خندہ پیشانی اور محبت کے ساتھ فی سبیل اللہ 80 برس سے زائد انسانیت کی خدمت کی ہے۔۔اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔۔اور جنت الفردوس میں اعلٰی ترین مقام عطافرمائے۔۔آمین ثمہ آمین۔