• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home کتاب اور صاحب کتاب

ہم ٹوکیو میں تھے اور خوف دامن گیر تھا | محمد اشفاق

داخلے کی اجازت ملنے پر نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا اور ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں دوبارہ ناصر کا مہمان بننا تھا

محمد اشفاق by محمد اشفاق
August 7, 2020
in کتاب اور صاحب کتاب
0
ہم ٹوکیو میں تھے اور خوف دامن گیر تھا | محمد اشفاق
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

بالآخر ایئر ھوسٹس نے ان کی خواہش کا احترام کیا اور ان کے کیے شراب لے آئی۔جہاز بنکاک کی طرف محو پرواز تھا۔ میں بار بار کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ پہنچ جاتا۔ گھڑی پر وقت دیکھتا اور سوچتا کہ اس وقت فلاں ٹیچر کا پیریڈ چل رہا ہو گا۔ فلاں فلاں لوگ کیفے ٹیریا میں ھوں گے۔ یہ فلائیٹ تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کی تھی۔ جہاز کے اندر فلپائنی مسافر عورتوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ان میں سے ہر ایک کئ کئ سالوں کے بعد کرسمس کی چھٹیاں گزارنے اپنی فیملی کے پاس جا رہی تھی۔
اعلان ھوا ہم بینکاک پہنچنے والے ہیں۔ سیٹ بیلٹس باندھ لی گئیں اور کچھ ہی دیر بعد ہم بینکاک کے بین الاقوامی ھوائی اڈے پر لینڈ کر چکے تھے۔ چند نئے مسافر سوار ھوے اور کچھ مسافر اتر گۓ۔ ایندھن اور دیگر ضروریات لینے کے بعد ہماری اگلی منزل فلپائن کا دارلحکومت منیلا تھا۔

ناصر کریم

دونوں شھروں کے درمیان سوا تین گھنٹے کا فضائی فاصلہ ھے۔جوں جوں منیلا قریب آرہا تھا فلپائنی خواتین خوشی سے پاگل ھوۓ جا رہی تھیں۔آخری پندرہ منٹ کا سفر باقی تھا۔ ہم فلپائن کی حدود میں داخل ھو چکے تھے۔ موسم بہت خراب تھا۔ منیلا میں طوفانی بارش ھو رہی تھی۔ تمام مسافر seat belt باندھ چکے تھے۔ پائلٹ نے landing کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔اگلی کوشش بھی بے سود رہی۔جہاز میں چیخ وپکار شروع ھو چکی تھی۔فلپائنی خواتین نے گلے میں موجود صلیب کو چومنا شروع کر دیا تھا۔ میرا یہ پہلا سفر تھا اور میں بہت خوف زدہ تھا۔ تمام گھر والوں کے چہرے، کراچی یونیورسٹی، کراچی ایئر پورٹ اور پاکستان کا سب کچھ دماغ میں گھومنے لگا۔کلمے کا ورد کرتے کرتے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے گھر والوں کو بتا کر ملک چھوڑنا چاہیے تھا۔ دل و دماغ میں عجیب کشمکش جاری تھی۔اعلان ھوا کہ کپتان ایک اور کوشش کرے گا۔اس دفعہ جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین سے لگے ایک ھنگامہ برپا ھوا جہاز میں اور سب خوشی سے چلانے لگے۔ کئ مسافروں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
آھستہ آھستہ جہاز خالی ھونا شروع ھوا۔ہم بھی امیگریشن کاؤنٹر پر گۓ۔ہم نے نۓ سفر کا آغاز اگلے دن کرنا تھا۔ایئر پورٹ پر میرا دوست ناصر کریم ہمارا منتظر تھا۔ ناصر کراچی یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ پڑھتا تھا، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اس نے منیلا کی Adamson University میں داخلہ لے لیا تھا۔
وہ اپنی گاڑی میں ہمیں لینے آیا تھا۔وہ کافی گرمجوشی سے ہمیں ملا۔ ایئر پورٹ سے آدھے گھنٹے کی drive کے بعد ہم ناصر کی رہائش گاہ پہنچے۔ یہ دو منزلہ مکان تھا اور کافی کشادہ تھا۔وہ اپنے دیگر دو دوستوں کے ہمراہ اس مکان میں رہائش پزیر تھا۔ہم کافی تھک چکے تھے۔ کپڑے وغیرہ بدلنے کے بعد ہم نے رات کا کھانا کھایا اور پھر وہ ہمیں منیلا کی سیر کروانے لے گیا۔ اس شھر کے بعض حصے بہت ترقی یافتہ تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے ہم امریکہ کہ کسی شھر میں ہیں اور بعض حصے انتہائی پسماندہ تھے۔ اس نے ہمیں کلب والے علاقوں کی بھی سیر کروائی جہاں غیر ملکیوں کا ایک جم غفیر تھا۔ فلپائن میں ہر سال یورپ، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ سے لاکھوں tourists آتے ہیں۔
اگلا دن ہماری زندگی کے اھم ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ ہمیں منیلا سے ٹوکیو جانا تھا۔ یہ تقریباً تین گھنٹے کی فلائیٹ تھی۔ ہم نے ترقی پزیر ملک سے ترقی یافتہ ملک میں قدم رکھنا تھا۔ ناصر نے ہماری خوب مہمانداری کے بعد ہمیں ایئر پورٹ پہنچایا۔ اس کو بتا دیا کہ اگر ہمیں deport کیا گیا تو دس سے پندرہ دن ہم منیلا میں قیام کریں گے۔
اس جہاز میں جوان فلپائنی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ مختلف لڑکیوں کے گروپ تھے۔ ہر گروپ کے ساتھ ایک جاپانی مرد تھا۔ ان لڑکیوں نے جاپان کے مختلف شھروں کے کلبوں میں ملازمت کرنا تھی۔کچھ بار میں کام کرنے والی تھیں ، کچھ ڈانسر تھیں اور کچھ نے کلبوں میں دیگر فرائض سر انجام دینے تھے۔ اس جہاز میں بھی مردوں کی تعداد نہ ھونے کے برابر تھی۔جہاز میں ہم صرف سات پاکستانی تھے۔منیلا سے ٹوکیو تک کا سفر تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کا تھا۔ یہ جہاز پچھلے جہاز کی نسبت زیادہ بہتر تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں جو جہاز بھیجے جاتے ہیں وہ زیادہ جدید ھوتے ہیں اور بہت آرام دہ ھوتے ہیں۔
جہاز نے اڑان بھری اور اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ھو گیا۔ ہماری منزل ٹوکیو کا Narita Airport تھا۔دل و دماغ میں ایک کشمکش جاری تھی۔ذہن میں کئی سوالات تھے۔ اگر جاپان میں داخلے کی اجازت مل جاتی ھے تو ہمیں ایک نئ زندگی کا آغاز کرنا تھا۔ اور deport ھونے کی صورت میں دوبارہ ناصر کا مہمان بننا تھا۔ساڑھے چار گھنٹے کے سفر کے بعد اعلان کیا گیا کہ ھم Narita Airport کے قریب ہیں اور اپنے اپنے seat belts باندھ لیجیے۔ سورج غروب ھو چکا تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے سمندر کے اندر چلنے والے جہازوں اور کشتیوں کی روشنیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔منزل کافی قریب تھی۔ landing کے بارے میں اعلان کیا گیا۔ میرے دل کی دھڑکن میں تیزی آگئ۔چند لمحات کے بعد ھمارا جہاز land کر گیا۔ دسمبر کا مہینہ اور سخت سردی کے دن۔ بہت ہی خوبصورت ایئر پورٹ تھا۔ امیگریشن کاؤنٹر پر لائنیں لگنا شروع ھوئیں۔ فلپائنی لڑکیاں تو فوراً لائنوں میں لگ گئیں۔ ہم نے تمام امیگریشن کاؤنٹرز پر ڈیوٹی دینے والے افراد پر نظر ڈالی۔ ایک کاؤنٹر کا امیگریشن آفیسر کچھ معقول سا لگا۔ میں اور سلیم اسی لائن میں لگ گۓ۔اس لائن میں ہم صرف دو پاکستانی تھے۔ اب ہم اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ ہم سے آگے تمام فلپائنی لڑکیاں تھیں جنھیں با آسانی ویزا دیا جا رہا تھا کیونکہ ان لڑکیوں کو جاپانیوں نے اپنے clubs کے لیے sponsor کیا تھا۔ سلیم میرے پیچھے کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میرا نمبر آگیا۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

(جاری ھے)

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: جاپانسفرنامہمنیلاناصر کریم
Previous Post

کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟| حفصہ جنید

Next Post

سلامت صاحب پر اللہ کی سلامتی | ظفر عالم طلعت

محمد اشفاق

محمد اشفاق

کئی سال بیرون ملک ملازمت کرنے اور کراچی یونیورسٹی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹر کرنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ تک فری لانس صحافت کی۔لیکن اسے اپنا پیشہ نہ بنایا۔اس کی بجاۓ میں نے ٹیچنگ کو ترجیح دی۔ ٹیچنگ میں پہلی ملازمت 1996 میں کی۔ دو سال مختلف اداروں میں ٹیچنگ کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ٹیچرپڑھانے میں آزاد نہیں۔اور ان پر بے پناہ پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں سے تنگ آکر میں نے دی اسکالر اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے میں یوں تو کئ خوبیاں ہیں لیکن جو خوبی اسے دوسرے اداروں سے ممتاز کرتی ھے وہ یہ کہ اس اسکول میں داخلہ لینے والا ہر بچہ تعلیمی طور پر insure ھوتا ھے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچے نے پہلی جماعت میں داخلہ لیا اور تیسری یا کسی بھی جماعت میں اس کے والد کا کسی بھی وجہ سے انتقال ھو جاۓ تو اس بچے کی میٹرک تک کی تعلیم مفت کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح داخلہ لینے والے بچے کے والدین کورس اور یونیفارم خریدنے میں آزاد ھوتے ہیں۔اسکول میں ماہانہ اور سالانہ فیس کے علاوہ اور کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی۔ ادارے میں ریڈنگ ، لکھائ اور املا پر خصوصی توجہ دی جاتی ھے۔

Next Post
سلامت صاحب پر اللہ کی سلامتی | ظفر عالم طلعت

سلامت صاحب پر اللہ کی سلامتی | ظفر عالم طلعت

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions