بالآخر ایئر ھوسٹس نے ان کی خواہش کا احترام کیا اور ان کے کیے شراب لے آئی۔جہاز بنکاک کی طرف محو پرواز تھا۔ میں بار بار کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ پہنچ جاتا۔ گھڑی پر وقت دیکھتا اور سوچتا کہ اس وقت فلاں ٹیچر کا پیریڈ چل رہا ہو گا۔ فلاں فلاں لوگ کیفے ٹیریا میں ھوں گے۔ یہ فلائیٹ تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کی تھی۔ جہاز کے اندر فلپائنی مسافر عورتوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ان میں سے ہر ایک کئ کئ سالوں کے بعد کرسمس کی چھٹیاں گزارنے اپنی فیملی کے پاس جا رہی تھی۔
اعلان ھوا ہم بینکاک پہنچنے والے ہیں۔ سیٹ بیلٹس باندھ لی گئیں اور کچھ ہی دیر بعد ہم بینکاک کے بین الاقوامی ھوائی اڈے پر لینڈ کر چکے تھے۔ چند نئے مسافر سوار ھوے اور کچھ مسافر اتر گۓ۔ ایندھن اور دیگر ضروریات لینے کے بعد ہماری اگلی منزل فلپائن کا دارلحکومت منیلا تھا۔
دونوں شھروں کے درمیان سوا تین گھنٹے کا فضائی فاصلہ ھے۔جوں جوں منیلا قریب آرہا تھا فلپائنی خواتین خوشی سے پاگل ھوۓ جا رہی تھیں۔آخری پندرہ منٹ کا سفر باقی تھا۔ ہم فلپائن کی حدود میں داخل ھو چکے تھے۔ موسم بہت خراب تھا۔ منیلا میں طوفانی بارش ھو رہی تھی۔ تمام مسافر seat belt باندھ چکے تھے۔ پائلٹ نے landing کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔اگلی کوشش بھی بے سود رہی۔جہاز میں چیخ وپکار شروع ھو چکی تھی۔فلپائنی خواتین نے گلے میں موجود صلیب کو چومنا شروع کر دیا تھا۔ میرا یہ پہلا سفر تھا اور میں بہت خوف زدہ تھا۔ تمام گھر والوں کے چہرے، کراچی یونیورسٹی، کراچی ایئر پورٹ اور پاکستان کا سب کچھ دماغ میں گھومنے لگا۔کلمے کا ورد کرتے کرتے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے گھر والوں کو بتا کر ملک چھوڑنا چاہیے تھا۔ دل و دماغ میں عجیب کشمکش جاری تھی۔اعلان ھوا کہ کپتان ایک اور کوشش کرے گا۔اس دفعہ جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین سے لگے ایک ھنگامہ برپا ھوا جہاز میں اور سب خوشی سے چلانے لگے۔ کئ مسافروں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
آھستہ آھستہ جہاز خالی ھونا شروع ھوا۔ہم بھی امیگریشن کاؤنٹر پر گۓ۔ہم نے نۓ سفر کا آغاز اگلے دن کرنا تھا۔ایئر پورٹ پر میرا دوست ناصر کریم ہمارا منتظر تھا۔ ناصر کراچی یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ پڑھتا تھا، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اس نے منیلا کی Adamson University میں داخلہ لے لیا تھا۔
وہ اپنی گاڑی میں ہمیں لینے آیا تھا۔وہ کافی گرمجوشی سے ہمیں ملا۔ ایئر پورٹ سے آدھے گھنٹے کی drive کے بعد ہم ناصر کی رہائش گاہ پہنچے۔ یہ دو منزلہ مکان تھا اور کافی کشادہ تھا۔وہ اپنے دیگر دو دوستوں کے ہمراہ اس مکان میں رہائش پزیر تھا۔ہم کافی تھک چکے تھے۔ کپڑے وغیرہ بدلنے کے بعد ہم نے رات کا کھانا کھایا اور پھر وہ ہمیں منیلا کی سیر کروانے لے گیا۔ اس شھر کے بعض حصے بہت ترقی یافتہ تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے ہم امریکہ کہ کسی شھر میں ہیں اور بعض حصے انتہائی پسماندہ تھے۔ اس نے ہمیں کلب والے علاقوں کی بھی سیر کروائی جہاں غیر ملکیوں کا ایک جم غفیر تھا۔ فلپائن میں ہر سال یورپ، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ سے لاکھوں tourists آتے ہیں۔
اگلا دن ہماری زندگی کے اھم ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ ہمیں منیلا سے ٹوکیو جانا تھا۔ یہ تقریباً تین گھنٹے کی فلائیٹ تھی۔ ہم نے ترقی پزیر ملک سے ترقی یافتہ ملک میں قدم رکھنا تھا۔ ناصر نے ہماری خوب مہمانداری کے بعد ہمیں ایئر پورٹ پہنچایا۔ اس کو بتا دیا کہ اگر ہمیں deport کیا گیا تو دس سے پندرہ دن ہم منیلا میں قیام کریں گے۔
اس جہاز میں جوان فلپائنی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ مختلف لڑکیوں کے گروپ تھے۔ ہر گروپ کے ساتھ ایک جاپانی مرد تھا۔ ان لڑکیوں نے جاپان کے مختلف شھروں کے کلبوں میں ملازمت کرنا تھی۔کچھ بار میں کام کرنے والی تھیں ، کچھ ڈانسر تھیں اور کچھ نے کلبوں میں دیگر فرائض سر انجام دینے تھے۔ اس جہاز میں بھی مردوں کی تعداد نہ ھونے کے برابر تھی۔جہاز میں ہم صرف سات پاکستانی تھے۔منیلا سے ٹوکیو تک کا سفر تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کا تھا۔ یہ جہاز پچھلے جہاز کی نسبت زیادہ بہتر تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں جو جہاز بھیجے جاتے ہیں وہ زیادہ جدید ھوتے ہیں اور بہت آرام دہ ھوتے ہیں۔
جہاز نے اڑان بھری اور اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ھو گیا۔ ہماری منزل ٹوکیو کا Narita Airport تھا۔دل و دماغ میں ایک کشمکش جاری تھی۔ذہن میں کئی سوالات تھے۔ اگر جاپان میں داخلے کی اجازت مل جاتی ھے تو ہمیں ایک نئ زندگی کا آغاز کرنا تھا۔ اور deport ھونے کی صورت میں دوبارہ ناصر کا مہمان بننا تھا۔ساڑھے چار گھنٹے کے سفر کے بعد اعلان کیا گیا کہ ھم Narita Airport کے قریب ہیں اور اپنے اپنے seat belts باندھ لیجیے۔ سورج غروب ھو چکا تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے سمندر کے اندر چلنے والے جہازوں اور کشتیوں کی روشنیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔منزل کافی قریب تھی۔ landing کے بارے میں اعلان کیا گیا۔ میرے دل کی دھڑکن میں تیزی آگئ۔چند لمحات کے بعد ھمارا جہاز land کر گیا۔ دسمبر کا مہینہ اور سخت سردی کے دن۔ بہت ہی خوبصورت ایئر پورٹ تھا۔ امیگریشن کاؤنٹر پر لائنیں لگنا شروع ھوئیں۔ فلپائنی لڑکیاں تو فوراً لائنوں میں لگ گئیں۔ ہم نے تمام امیگریشن کاؤنٹرز پر ڈیوٹی دینے والے افراد پر نظر ڈالی۔ ایک کاؤنٹر کا امیگریشن آفیسر کچھ معقول سا لگا۔ میں اور سلیم اسی لائن میں لگ گۓ۔اس لائن میں ہم صرف دو پاکستانی تھے۔ اب ہم اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ ہم سے آگے تمام فلپائنی لڑکیاں تھیں جنھیں با آسانی ویزا دیا جا رہا تھا کیونکہ ان لڑکیوں کو جاپانیوں نے اپنے clubs کے لیے sponsor کیا تھا۔ سلیم میرے پیچھے کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میرا نمبر آگیا۔
(جاری ھے)