شہرِ کراچی میں ایک زیریں متوسط علاقے کےگھر کے باہر محلے والے جمع تھے، اور چہ مگوئیاں جاری تھیں،
ارے باپ رے بڑا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے بھیا کا . . .
پورے خون نم خون تھے . . .
بھیا ہوش میں نہیں ہیں . . .
موٹر سائیکل تو بالکل کنڈم ہو گئی . . .
اللہ خیر ہی کرے
وقاص نے بتایا
کیسے ہوا کہاں ہوا ایکسیڈنٹ،
بھیا تو بہت آہستہ چلاتے ہیں موٹر سائیکل
رزاق نے سوال کیا ؟
ابے یار بھیا کی غلطی تھوڑی تھی
وہ تو ٹنکی والے روڈ سے واپس گھر آ رہے تھے . . .
لوگ کہہ رہے ہیں کسی بچے کے ہاتھ میں تھی 125 . . .
وه مارتا ہوا چلا گیا . . . وقاص نے جواب دیا
اب فاروق بولا
یار یہ تو سڑک ہی خطرناک ہو گئی ہے۔ اِس پر ایکسیڈنٹ والا بندہ مشکل ہی بچتا ہے۔
ہاں یار اللہ زندگی دے بھیا کو سب یہی دعا کرو
وقاص نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا
بالکل بالکل
باقی دونوں لڑکوں نے ہم آوازہو کرکہا
گفتگو کا اختتام ہوا تو تینوں لڑکوں نے گھر کی راہ لی
بھیا کا اصل نام تو گھر والے ہی جانتے ہوں گے، باقی لوگوں کے تو وه بھیا ہی تھے . پچاس پچپن کے لگ بھگ عمر ہوگی۔ آس پڑوس دوست رشتہ رار سب کے بھیا۔ سب کے کام آنے والے بھیا۔ ہر کسی کے خوشی غمی کے شریک بھیا۔ بھیا شادی شدہ تھے پر اولاد کی نعمت سے محروم۔ تو کیا ہوا انہوں نے بھائی بہن کے بچوں کو اپنا ہی جانا اور ایسے ہی پیار کیا اور ایسے ہی ہر کسی سے شفقت سے پیش آئے۔ وه خاندان تو کجا محلے بھر کے بچوں میں بھی یکساں مقبول تھے۔
دو دن کے بعد پھر شام کوجب اپنے کام دھندوں سے فارغ ہو کر تینوں دوست ملے تو وقاص نے صلاح دی۔ چلو یار پتا تو کر کے آئیں بھیا کیسے ہیں۔
یار گھر جائیں گے تو سب گھروالے ڈسٹرب ہوں گے۔ اُن کے چھوٹے بھائی یا اُن کے بھتیجے سے پوچھ لیں گے۔ ابے وه دیکھ سہیل جا رہا ہے۔ رزاق نے کہا
ابے ہاں یہ تو اپنے بھیا کا بھتیجا سہیل ہے۔ فاروق بے اختیار بولا۔
ابے اُس کو بلا نا اِدھر . . . وقاص بے تابی سے بولا۔
یہ تینوں محلے کے دیگر لڑکوں کی بہ نسبت بھیا سے زیادہ قریب تھے۔ کوئی رشتے داری نہ تھی بس محلے داری کی وجہ سے ایک خیال تھا
ایک فکر تھی کہ جلد از جلد بھیا کی خیر کی خبر ملے۔
سہیل عمر میں اِن تینوں سے ہی چھوٹا تھا۔ سہیل کالج میں پڑھ رہا تھا اور یہ تینوں پڑھائی ختم کر کر نوکری کر رہے تھے۔
اُسے بلایا گیا۔
کیسے ہو بھائی سب خیر،خیریت
وقاص نے دريافت کیا
جی آپ سنائیں، آپ ٹھیک ہیں۔ سہیل نے جواب دیا۔
یار وہ اپنے بھیا کی طبعیت کیسی ہے۔ ان کا احوال بتاؤ۔
وقاص نے ہی سوال کیا
بس بھائی دعا کریں . . . سہیل نے لمبی سانس لے کر کہا
کیوں کیا کچھ بہتری نہیں آئی طبعیت میں بھیا کی . . .
رزاق نے تشو یش آمیز لہجے میں دريافت کیا۔
نہیں بھائی، ابھی تک بے ہوش ہی ہیں۔ ہوش نہیں آیا۔
سرکاری اسپتال والے تو کہہ رہے ہیں پانچ دن بعد دكهانا،
مگرہم آج پرائیویٹ اسپتال لے جائیں گے۔ بس آپ لوگ دعا کریں۔
کسی قسم کا بھی کوئی مسئلہ آئے تو بس فون کر دینا اور پریشان مت ہونا انشاءاللّه بھیا جلد صحت یاب ہو کر گھر آجائیں گے . .
وقاص نے تسلی دی۔
کوئی بھی کام ہے تو بولو ہم کر دیتے ہیں . . .
رزاق بھی گویا ہوا۔
ہاں ہاں کوئی کام ہو تو ضرور بتانا . . .
فاروق بھی بولا
نہیں بھائی بس آپ لوگ دعا کریں۔
سہیل نے ان لوگوں سے جان چھڑا کے بھاگنے کی کی . . .
یار تو نے تو اُس لڑکے کا پوچھا ہی نہیں جس نے ٹکر ماری بھیا کو کہ
وہ 125 والا بچہ پکڑا گیا کہ نہیں . . .
فاروق نے پہلے وقاص سے شکایت کی۔
نہیں یار وه تو اپنے علاقے کے اسپتال تک تو تھا اِن لوگوں نے پکڑا ہوا۔ مگر جب بھیا کو بڑے اسپتال جانے کے لئے ایمبولینس میں ڈالنے لگے تو وه موقع غنیمت جان کر بھاگ گیا . . . اِن لوگوں کی گرفت سے۔رزاق نے پوری کہانی سنائی۔۔۔
ابے تیرے کو کیسے پتا۔۔۔ وقاص نے تفتیش کی
یار ررر . . . امی گئی تھی بھیا کے گھر . . . انہی کی زبانی معلوم ہوا ہے . . . میں کوئی پھینک تھوڑا ہی رہا ہوں۔
رزاق نے تپ کے جواب دیا۔
ہاں بھائی . . . اگر اِن لوگوں کی گرفت سے نکل بھی گیا ہے۔ تو اللّه کی گرفت سے کیسے بچے گا . . .
وقاص نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا . . .
میں تو پھر یہی کہوں گا لوگ کہنے لگ گئے ہیں
یہ سڑک خوں خوار سڑک ہو گئی ہے . . . .
بھوت پریت کا سایہ ہے وہاں پر . . . .
بچتا نہیں وہاں کا ٹُھکا ہوا۔
اِن تین چار سالوں میں کتنوں کا لہو پیا ہے اس سڑک نے پر اِس کی پیاس نہیں بھجتی . . .
اب فاروق نےپھر اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا باقی دونوں کو . . .
ہاں یار ۔ ۔ ۔ ۔ واقعی سڑک تو بہت خطرناک ہو گئی ہے۔
پارک والی سائیڈ تو پوری دهنس گئی ہے اسی لئے سارا ٹریفک ون وے جا رہا ہوتا ہے۔ . . . وقاص نے اِس کی ہاں میں ہاں ملائی . . .
ابے کون سا پارک زمانہ قدیم میں کبھی پارک ہوتا ہو گا میں تو نہ دیکھا بھائی آج تک . . . اب رزاق بھی مرده ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔
اگلے دن یہ تینوں پھر ملے اور اپنی کہا سنی کے بعد موضوع وہی بھیا والا آگیا۔ وقاص بولا یار پتا کیا بھیا کا
رزاق جو بھیا کے گھر کے نزدیک ہی رہتا تھا۔ بولا ہاں بھائی امی گئی تھیں ان کے گھر بھیا کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے وہیں سے پتا چلا ہے۔ ابھی تک ہوش نہیں آیا ہے۔ اسپتال میں ہی ہیں۔
ابھی یہ تینوں گلی کے کونے پر کھڑے باتیں ہی کر رہے تھے۔
کہ سہیل پریشان حال موٹر سائیکل دوڑاتا گلی میں داخل ہوا۔
تینوں نے ایک ساتھ ہی سہیل کو اس کے گھر کے دروازے پر ہی جا لیا۔ ابھی وہ روتے روتے موٹر سائیکل سائیڈ میں کھڑی ہی کر رہا تھا۔ کہ پہلے لڑکے نے بے تابی سے سوال کیا۔ . . .
کیا ہوا میرے بھائی؟ بھیا تو خیریت سے ہیں . . . ؟
سہیل بمشکل جواب دے پایا۔
چچا کا انتقال ہو گیا ہے۔
وقاص نےگلے لگا کر تسلی دی پھر باقی دونوں لڑکوں نے گلے مل کر سہیل کو تسلی دی کہ . . . بھائی جو رب کو منظور
اسکے بعد یہ تینوں اپنے اپنے گھر نہیں گئے۔ نماز جنازہ سے لیکر قبرستان تک سہیل اور بھیا کے باقی گھر والوں کے شانہ بشانہ رہے حتی الوسع جو ممکن ہو سکا بڑھ چڑھ کے کام کیا اِن تینوں نے ۔ ۔ ۔
جب قبرستان سے واپسی کے بعد لوگ تعز یت کر کے جانے لگے تو یہ تینوں بھی آگے بڑھے پہلے بھیا کے بھائیوں سے تعزیت کی انہی دلاسہ دیا۔
پھر سہیل کی جانب مڑے . . . .
وقاص آگے بڑھا اور صبر کرنے کی رسمی تلقین کر کے سائیڈ میں ہو گیا۔
رزاق آگے بڑھا اور رسمی تعزیت کے ساتھ کے ساتھ 125 والے لڑکے پر بھی تبرا بھیجا۔
فاروق آگے بڑھا اور تعز یت کے ساتھ ساتھ خونی سڑک والی تھیوری بھی پیش کی . . .
تینوں کی بات سن کر سہیل گویا ہوا
بس بھائی پتہ نہیں کون ہے قصور وار،
کون ہے چچا کا اصل قاتل،
وہ چھوٹا لڑکا جسے اُس کے ماں باپ نے 125 لے کی دے دی۔
وه آسیب جو سڑک کو خون خوار بنا چکا ہے۔
یا وه سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر جو چچا کو پانچ دن بعد OPD میں بلا رہے تھے۔
یا یہ نظام جس میں یا تو سڑک صدیوں بنتی ہی نہیں یا قسمت سے جس دن سڑک بن جاتی ہے اُس کے اگلے دن ہی کسی محکمے کو کھدائی کرنی یاد آ جاتی ہے۔ اور وه دوبارہ سڑک کھود کے ڈال دیتے ہیں۔
پتہ نہیں بھائی کون ہے قاتل کون ہے قصور وار
اب جب یہ تینوں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے
تو یہ بھی یہی سوچ رہے تھے کہ کون ہے قاتل کون ہے قصور وار؟