Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج ہمارا دل بہت دکھی اور غمگین ہے۔ اس کورونا نے ہم سے نہ جانے کتنے حسین اور خوبصورت دوست چھین لیے ہیں کہ جن سے ہمارا حلقہ احباب گل و گلزار رہتا تھا۔ اب تو فیس بک اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے کب کس کے بچھڑنے کی خبر آجائے۔ ہر طرف موت کا ایک بھیانک رقص جاری ہے۔۔اور ہم سب بے بس تماشائی ہیں۔
کس کس کا غم کریں۔۔کس کس کا ماتم کریں
دوبارہ ایسے ہیرے جیسے دوست کہاں سے لائیں
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہم عزیزآباد میں اپنے پرانے گھر میں رہتے تھے۔ ایک دن ہم نماز کیلیے نکلے تو ہماری پچھلی گلی سے ایک نوجوان نے آواز دی۔ ظفر بھائی! شاید ہم سے پہلے ہمارے افسانے ان تک پہنچ چکے تھے۔ خیر ہم نے مڑ کر دیکھا تو چہرہ کچھ شناسا اور اپنا اپنا سا لگا۔ سلام دعا کے بعد تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف اسلام الدین ظفر ہیں اور ہم دونوں میں ظفر قدر مشترک ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جمیعت سے تعلق۔رکنیت۔ایک بڑی جامعہ کی نظامت اور شعرو سخن۔نظریات۔۔خیالات اور عقائد بھی ایک جیسے ہی ہیں۔خیر ہمارے اکثر دوست احباب ہم دونوں کو ظفر بھائی کے نام سے ہی یاد کرتے تھے۔
ظفر بھائی طلبہ سیاست میں بھی بہت سرگرم رہے اور اس سلسلے میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔جمیعت اور زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد آپ جماعت اسلامی سے بھی منسلک رہے اور جماعت کے ساتھ دامے درہمے سخنے قدمے ہر طرح سے تعاون کرتے رہے اور رکن بھی رہے۔
خیر ہم قریب ہی ایک مسجد میں نماز کیلیے گئے۔ نماز کے بعد ہی ہمارا تفصیلی تعارف ہوگیا۔ موصوف جمیعت کے رکن اور NED یونیورسٹی کے ناظم رہ چکے تھے۔یہی نہیں بلکہ انہون نے انتہائی پر آشوب دور میں جمیعت کے مکمل پینل کو جامعہ NED کے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا۔۔حالانکہ اس دور میں جمیعت کا نام لینا بھی آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا۔۔اور اسی وجہ سے ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہو چکاتھا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
خوش قسمتی سے ایک پروفیسر صاحب نے انہیں اپنے کمرے میں چھپادیا تھا۔اور اس طرح ان کی جان بخشی ہوئی۔نہ صرف یہ بلکہ انہیں الیکشن مہم کے دوران جلسے بھی جامعہ سے باہر یونیورسٹی روڈ پر کرنے پڑے۔
اس کے بعد ظفر بھائی نے میکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا اور مخلتف کمپنیز میں جاب کے ساتھ ساتھ ماسٹرز بھی NED سے ہی کیا۔۔اور مختلف اداروں اور یونیورسٹیز میں فری لانس درس وتدریس بھی جاری رکھی۔
آہستہ آہستہ ہم دونوں قریب ہوتے گئے اور ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے۔ہماری اکثر نمازیں ایک ہی مسجد مین ہونے لگیں۔جس کا نام تھا۔۔صفہ مسجد (رجسٹرڈ بریلوی مسلک)۔۔گو ہم دونوں عرف عام میں جماعتی اور وہابی تھے مگر ہم نے کبھی بھی مزہبی تعصب کو قریب نہ آنے دیا اور ہر مسلک اور مکتبہ فکر کی مسجدوں میں بلا تکلف نماز پڑھتے رہے ، آہستہ آہستہ ہمارا معمول بن گیا کہ صفہ مسجد میں فجر کے بعد ہماری ایک محفل ہونے لگی جس میں کئی اور بھی دوست احباب اور مسجد کے عام نمازی حضرات بھی شرکت کرنے لگے۔۔جن میں چند قابل ذکر حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔۔ڈاکٹر الیاس وہرہ جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں اور نارتھ امریکہ کی بزم شعر و سخن کے روح روان ہیں۔۔۔جناب سکندر صاحب جو کہ اسٹیٹ بنک کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور ظفر بھائی کے لنگوٹیا یار ہیں۔۔ایک ہمارے شاگرد رشید جناب احسن صاحب۔۔جنھون نے ہم سے کمپیوٹر کی تعلیم وتربیت حاصل کی تھی۔۔مگر افسوس کہ عین حالت جوانی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ثروت جمال اصمعی صاحب بھی اس محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہی ہیں اور بہت سارے نمازی حضرات شامل تھے۔۔غرض یہ بیٹھک دنیا جہان کی گفتگو اور بحث مباحثے کے بعد سورج طلوع ہوتے ہی غروب ہو جاتی تھی اور ہم سب پرامن طریقے سےاپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوجاتے تھے۔
اسی دوران ایک اور مصروفیت بھی ساتھ ساتھ جاری تھی۔۔درس قرآن کی ہفتہ وار محفل جو مغرب سے عشاء تک جاری رہتی تھی۔۔اور ثروت جمال اصمعی بھائی اس میں مدرس کے فرائض انجام دیتے تھے۔۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ثروت بھائی عزیزآباد میں رہتے تھے۔۔آہستہ آہستہ یہ محفلیں بھی اجڑ گئیں کیونکہ کئی حضرات عزیزآباد سے نقل مکانی کر گئے۔۔
خیر اکثر ہمارا معمول تھا۔۔کبھی اکیلے اور کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اتوار کی صبح ظفر بھائی کے گھر پر ناشتہ ہوتا تھا۔ان کی پہلی بیگم صاحبہ پوریوں اور سبزی سے ناشتہ تیار کرتی تھیں اور ہم سب اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔اس دوران ہمارے بچے ظفر بھائی کے بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول رہتے تھے۔
یوں تو ظفر بھائی ہم سے عمر اور جمیعت میں پانچ چھ سال چھوٹے تھے۔مگر ہماری گفتگو اور ہنسی مزاق اور جملے بازی بلا تکلف جاری رہتی تھی۔۔وہ بھی بہت خوش گفتار۔۔ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔۔
ان کا خاندانی پس منظر کچھ یوں تھا کہ وہ ہندوستان کے علاقے بہار شریف سے ہجرت کرکے ڈھاکہ۔سابق مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے اور بعد ازاں 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام پر انتہائی پرآشوب دور میں دوبارہ ہجرت کی آزمائش سے گزرے اور کراچی کے اورنگی ٹاون مین رہائش اختیار کی۔۔اور ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔اس دوران ان کے ماموں جو کہ ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے ہر دو ہجرتوں مین کام آئے اور ان کے خاندان کو سہارا دیا۔۔یہی وجہ تھی کہ ان کی شادی اپنی مامون زاد سے ہوگئی جو تقریباً 25 سال چلی۔۔مگر شاید دونوں کے مزاج۔۔مزاق اور نظریات میں فرق تھا۔اس دوران کئی نشیب و فراز بھی آئے اور بالآخر یہ شادی ختم ہوگئی۔
پہلی بیگم سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوگئی۔۔لیکن چھوٹا بیٹا پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ جو بقول ڈاکٹروں کے دس لاکھ میں کسی ایک کو ہوتی ہے اور لاعلاج ہے۔۔جس میں بچہ آہستہ آہستہ معزوری کی طرف چلا جاتا ہے اور بالآخر اللہ نے جتنی زندگی لکھی ہے وہ پوری کرتا ہے۔۔
غرض 25 سال کے بعد دونوں میں علحدگی ہوگئی۔۔اس کے باوجود ظفر بھائ نے پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور دنیاوی اعتبار سے اب تک جو کچھ کمایا تھا۔۔بنایا تھا سب کچھ ان کی نذر کردیا اور خود ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی دنیا الگ بسالی۔۔دوسری شادی نسبتاً ایک نوجوان خاتون سے ہوئ۔۔جن سے ان کے دو بیٹے ہیں جو کہ ابھی کافی چھوٹے ہیں۔۔وہ اپنی موجودہ بیگم اور بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔۔بچوں کو ہمیشہ بیٹا جانی کہتے تھے۔۔اور بیگم سے اظہار محبت کیلیے ان کی اپنی بیگم کے نام فیس بک کی ایک یادگار پوسٹ ہی کافی ہے۔۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ازدواجی زندگی کی تلخیوں کو دوسری بیگم کے حسن سلوک نے ماند کردیا تھا۔
ظفر بھائی۔۔ہجرتوں کے غم۔۔ازدواجی زندگی کے دکھ۔۔زندگی کی دیگر آزمائشوں۔۔غم روزگار اور کشمکش حیات کے باوجود بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ کبھی اپنی دلی کیفیات کو زبان پر نہ لائے۔۔ہر وقت چہرے پر ایک شرارتی اور زہین و فطین مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔۔کبھی اپنی ذات کے لیے پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ ہی کوئی شکوہ شکایت زبان پر مگر حق بات پر ہمیشہ ڈٹ جاتے تھے اور باطل کیلیے کبھی سمجھوتہ نہی کیا۔ غرض صرف گفتار ہی نہی کردار کے بھی غازی تھے اور تحریک کیلیے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔۔
ظفر بھائی عزیزآباد سے مختلف علاقون میں منتقل ہوتے ریے جس کی وجہ سے درمیان میں ان سے ملاقات اور رابطہ کم کم رہا۔ایک دن کافی عرصے کے بعد ہمارے مشترکہ دوست جناب سکندر صاحب سے اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔۔ہمیں معلوم نہ تھا کہ ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ کہاں روپوش ہیں۔۔لہٰذا سکندر بھائی سے ہم نے ظفر بھائی سے ملنے کی خواہش کی جو فوراٰ قبول ہوگئی۔ اندھا کیا چاہے۔دو آنکھیں۔ بس ہم نے آؤ دیکھا نہ تاو۔۔فوراً ہی بہادرآباد میں ان کے گھر پر چھا پا مارا اور انہیں بمعہ دوسری بیگم اور بچوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے اور یوں اچانک ملاقات پر باچھیں کھل گئیں اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔۔اور بہت ہی پر تکلف خاطر تواضع کی۔ہم لوگ کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔اور پرانی یادیں تازہ کرتے رہے ۔یہاں تک کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔۔خیر دوبارہ ملنے کے وعدے پر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔
اسی دوران ان سے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔کیونکہ وہ بزم شعروسخن کے بھی بہت ہی فعال کارکن تھے۔ان سے بالمشافہ آخری سے پہلی ملاقات 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے مشاعرے میں ہوئی جس میں ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ شریک ہوئے۔۔یہ مشاعرہKMC آفیسرز کلب کشمیر روڈ پر منعقد ہوا تھا۔۔ان کی خوش اخلاقی اور حسن سلوک کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا شعرو سخن کا زوق بھی بہت عمدہ پایا تھا۔۔۔
ظفر بھائی نے تبادلہ خیال فورم کے نام سے بھی ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جس کے وہ خود ہی صدر بھی تھی۔۔اس فورم پر اکثر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے پروگرامات ہوتے تھے جس میں ادبی۔۔سیاسی۔سماجی شخصیات اور دانشوران قوم کو بلایا جاتا تھا۔اور مختلف ایام منائے جاتے تھے اور اہم موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔۔یہ فورم ایک تھنک ٹینک کا کام بھی دیتاتھا خصوصاً نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہ کرنا اور رہنمائی کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ ان کے جانے سے یہ فورم بھی سونا سونا سا ہوگیا ہے۔
ان سے فون، واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بھی ہمارا رابطہ رہتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر افتخار کی یاد میں جو خاکہ ہم نے لکھا تھا اس پر ان کا تبصرہ ہماری پوسٹ پر آخری اور یادگار تبصرہ تھا۔۔کیا پتہ تھا کہ کچھ ہی عرصے بعد ہم کو ظفر بھائی کا خاکہ بھی لکھنا پڑے گا۔۔
ظفر بھائی سے ہماری آخری ملاقات جامعہ کراچی کے ایک شعبہ کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں مولانا سلیمان ندوی صاحب مرحوم کے صاحبزادے جناب مولانا سلمان ندوی صاحب کا ایک لیکچر تھا اور بعد ازاں ایک سوال و جواب کی بھر پور نشست بھی ہوئی۔ہم دونوں اتفاق سے پہلی صف میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے دونوں نے بھر پور حصہ لیا۔اس کے بعد یہ نشست چائے پارٹی پر ختم ہوئی۔ اس سارے پروگرام کے روح رواں تھے ہمارے دوست اور جامعہ کراچی کے آخری صدر انجمن طلباء جناب پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی صاحب صدر شعبہ جینیات جامعہ کراچی۔
ہمیں یاد آیا کہ اس موقع پر ظفر بھائی نے ہمیں ہماری پرانی بلیلہ مرگلہ ماڈل 94 کو تبدیل کرنے کا مشورہ بھی د ے ڈالا اور کہا کہ یہ بہت پرانی ہوگئی ہے ہم نے کہا اس سے پرانی تو ہماری بیگم صاحبہ ہیں، کہیں ایسا نہ ہو آگے چل کر آپ بیگم بدلنے کا خطرناک مشورہ بھی دے ڈالیں۔ انہوں نے ہماری بات پر زندگی سے بھرپور ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن اب جبکہ ہم نے مرگلہ بیچ کر کلٹس ماڈل 2012 لے لی ہے تو ظفر بھائی کو کیسے بتائیں کہ آپ کی خواہش ہم نے پوری کردی ہے۔کاش کہ وہ زندہ ہوتے۔
ظفر بھائی بہت ہی ذہین، قابل اور اعلٰی درجے کے انجینئر تھے۔آٹو موبیل اور میکینیکل انڈسٹریز میں ان کا بڑا نام تھا۔اور بڑی خدمات تھیں۔ اس حوالے سے انہون نے کئی غیر ملکی دورے بھی کر رکھے تھے اور ایک دنیا گھوم چکے تھے۔ وہ متعلقہ کمپنیوں کے ٹیکنیکل ڈائرکٹر اور جنرل مینیجر بھی رہے۔ آپ نے NED یونیورسٹی میں بھی درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا مگر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ بہت جلد انہیں یونیورسٹی سے استعفاء دینا پڑا۔۔ہوا کچھ یوں کہ دوران امتحان کو ئی طالب علم نقل کر رہا تھا۔۔ظفر بھائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اس کی کاپی لیکر اپنے سینئر پروفیسر کو دے دی۔۔مگر پروفیسر صاحب نے فوراً ہی کاپی متعلقہ طالب علم کو واپس کردی۔۔ظفر بھائی کیلیے یہ صورت حال نا قابل برداشت تھی۔۔انھوں نے فوراً ہی استعفاء دے دیا۔
ظفر بھائی ایک زمانے میں خود بھی ٹیوشن پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ریے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت مصروفیت کے باوجود روزانہ باقائدگی سے مغرب اور عشاء کے درمیان درس قرآن بھی دیتے رہے۔۔انہون نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری اور ان کی شخصیت بہت ہی عملی شخصیت تھی۔
کورونہاکی اس وباء میں جون 2020 میں ایک دن ہمیں فیس بک سے اطلاع ملی کہ ظفر بھائی کو بھی کوروونا ہوگیا ہے۔اور آپ نے اپنے آپ کو گھر ہی میں قرنطینہ کیا ہوا ہے۔۔ہم نے فوراً ہی ان سے فون پر رابطہ کیا۔۔شام کا وقت تھا۔۔ظفر بھائی سے بہت امید افزاء گفتگو رہی۔ہم نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورونا سے متعلق سارے مشورے ایک ہی سانس میں دے ڈالے۔۔اور کیوں نہ دیتے؟ آخر ہم اپنے جگری دوست کو کھونا نہیں چایتے تھے۔
پھر ہم نے دوسرے دن اسی وقت پر فون کیا۔۔انہوں نے بتایا کہ علامات بھی موجود ہیں۔۔ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے اور دیگر علاج اور پرہیز کا بھی ذکر کیا اور دعاؤں کی درخواست کی جو کہ ہم پہلے ہی کررہے تھے اب دعاوں مین مزید اضافہ بھی کردیا تھا۔۔اسی دوران انھون نے بتایا کہ ان کی والدہ صاحبہ بھی گر گئی ہیں اور سر میں چوٹ آنے کی وجہ سے کومے میں ہیں۔۔یعنی یک نہ شد دو شد۔۔خیر والدہ کیلیے بھی دعا کی۔۔
تیسرے دن پھر فون کیا تو بمشکل بات ہوسکی کیونکہ طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔۔ہم نے مزید زحمت دینا مناسب نہ سمجھا۔۔اور پھر ایک دن کا وقفہ دیکر فون کیا تو ان کی بیگم نے اٹھا یا اور بتایا وہ انڈس ہاسپٹل کے ICU میں ہیں اور وینٹیلیٹر پر ہیں اور دعاوں کیلیے کہا۔۔ہم نے فوراً ہی فیس بک پر دعاوں کی اپیل اور ان کی تازہ ترین صورت حال کے ساتھ ایک پوسٹ ڈال دی۔
اتفاق سے ان کے معالجین میں ان کے دوست احباب اور جمیعت کے ڈاکٹر حضرات بھی شامل تھے۔۔جو وقتاً فوقتاً فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپڈیٹ بھی دے رہے تھے اور دعاوں کی اپیل بھی کررہے تھے۔۔ان کے ڈاکٹروں نے ان کےعلاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دل و جان سے علاج کیا اور محبت اور دوستی کا حق ادا کردیا۔۔ان کے ڈاکٹروں کی بعض پوسٹوں نے ہم جیسے کمزور دل دوستوں کو وقت سے پہلے ہی رونے پر مجبور کردیا۔۔اسی دوران ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا جس کی خبر ظفر بھائی کو نہیں دی گئی۔۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ مان بیٹے کی جنت میں ہی ملاقات کرائی جائے۔ان کو وینٹیلیٹر پر اب پندرہ دن ہو چکے تھے۔ڈاکٹر حضرات بھی ضبط کا بندھن توڑ کر فیس بک پر اپیلیں کرریے تھے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کرلیا اب اللہ سے دعاوں کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا بھائ ہمیں لوٹا دے۔آمین
مگر یہ ہو نہ سکا۔۔ایک دن ہم نے فون کیا تو ان کی ساس نے اٹھایا۔۔ان کی آواز بھرائ ہوئ تھی اور بس انھون نے دعا کیلیے کہا اور لائین کٹ گئی۔۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔ظفر بھائ ہم سب کو روتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے جہاں ان کے لیے جنت الفردوس سجائ گئی تھی۔۔آمین۔۔ہمیں بھی ایک نہ ایک دن اپنے رب کے پاس جانا ہے۔۔اللہ سے حسن ظن ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی رحمت کے سائے میں اور اپنی جنتوں میں ظفر بھائ سے ملوائے گا۔آمین۔
۔۔۔۔بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ہی بدل گئ؛
۔۔۔۔۔اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا۔
اب ہم ظفر بھائ کی دوران بیماری تین اہم پوسٹوں کا زکر خیر کریں گے جو انہوں نے فیس بک پر ڈالی تھیں۔۔
پہلی پوسٹ کچھ یوں تھی کہ
جس میں انہوں نے سب سے اپنی غلطیوں۔۔گناہوں۔۔حقوق العباد اور دیگر معاملات کے سلسلے میں دوست احباب رشتہ داروں اور ہر ایک سے معافی مانگی تھی۔۔اے اللہ ہم گواہ ہیں کہ ظفر بھائ بہت ہی نیک اور شریف النفس انسان تھے ہم سب نے خوش دلی سے معاف کیا اور تجھ سے بھی معافی کے طلب گار ہیں۔۔
دوسری پوسٹ یوں تھی کہ
. . یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کرسکوں
. . آنکھیں نہی رہیں کہ تماشہ نہی رہا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظفر بھائ ذہنی طور پر صورت حال سے نہ صرف واقف تھے بلکہ تیار بھی تھے۔۔۔
تیسری اور آخری پوسٹ میں تو انہوں نے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے اپنا دل کھول کر پیش کردیا۔۔۔
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب
میرے پاس اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہی
اب یہاں ہم ایک حسن اتفاق کا زکر کرنا ضروری سمجھتے ییں۔۔کہ جس دن سیدی مرشد منور حسن صاحب کی نماز جنازہ ہورہی تھی اسی دن بارہ بجے کے بعد ظفر بھائ کا انتقال ہوا۔۔اور وہی سارا مجمع جو ظہر میں منور صاحب کے جنازہ میں شریک تھا۔۔اسی شام عشاء میں وہی سارے لوگ ظفر بھائ کے جنازے میں بھی شریک تھے۔۔اور محترم امیر جماعت جناب سراج الحق صاحب نے منور صاحب کی نماز جنازہ پڑھائ اور عشاء میں ظفر بھائ کی نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائ۔۔۔۔. . ایں سعادت بزور بازو نیست۔۔۔.
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب گناہ گاروں کو بھی اپنے ان پیاروں کے ساتھ اپنی جنتوں میں ملوائے۔۔آمین ثمہ آمین۔
آج ہمارا دل بہت دکھی اور غمگین ہے۔ اس کورونا نے ہم سے نہ جانے کتنے حسین اور خوبصورت دوست چھین لیے ہیں کہ جن سے ہمارا حلقہ احباب گل و گلزار رہتا تھا۔ اب تو فیس بک اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے کب کس کے بچھڑنے کی خبر آجائے۔ ہر طرف موت کا ایک بھیانک رقص جاری ہے۔۔اور ہم سب بے بس تماشائی ہیں۔
کس کس کا غم کریں۔۔کس کس کا ماتم کریں
دوبارہ ایسے ہیرے جیسے دوست کہاں سے لائیں
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہم عزیزآباد میں اپنے پرانے گھر میں رہتے تھے۔ ایک دن ہم نماز کیلیے نکلے تو ہماری پچھلی گلی سے ایک نوجوان نے آواز دی۔ ظفر بھائی! شاید ہم سے پہلے ہمارے افسانے ان تک پہنچ چکے تھے۔ خیر ہم نے مڑ کر دیکھا تو چہرہ کچھ شناسا اور اپنا اپنا سا لگا۔ سلام دعا کے بعد تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف اسلام الدین ظفر ہیں اور ہم دونوں میں ظفر قدر مشترک ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جمیعت سے تعلق۔رکنیت۔ایک بڑی جامعہ کی نظامت اور شعرو سخن۔نظریات۔۔خیالات اور عقائد بھی ایک جیسے ہی ہیں۔خیر ہمارے اکثر دوست احباب ہم دونوں کو ظفر بھائی کے نام سے ہی یاد کرتے تھے۔
ظفر بھائی طلبہ سیاست میں بھی بہت سرگرم رہے اور اس سلسلے میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔جمیعت اور زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد آپ جماعت اسلامی سے بھی منسلک رہے اور جماعت کے ساتھ دامے درہمے سخنے قدمے ہر طرح سے تعاون کرتے رہے اور رکن بھی رہے۔
خیر ہم قریب ہی ایک مسجد میں نماز کیلیے گئے۔ نماز کے بعد ہی ہمارا تفصیلی تعارف ہوگیا۔ موصوف جمیعت کے رکن اور NED یونیورسٹی کے ناظم رہ چکے تھے۔یہی نہیں بلکہ انہون نے انتہائی پر آشوب دور میں جمیعت کے مکمل پینل کو جامعہ NED کے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا۔۔حالانکہ اس دور میں جمیعت کا نام لینا بھی آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا۔۔اور اسی وجہ سے ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہو چکاتھا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
خوش قسمتی سے ایک پروفیسر صاحب نے انہیں اپنے کمرے میں چھپادیا تھا۔اور اس طرح ان کی جان بخشی ہوئی۔نہ صرف یہ بلکہ انہیں الیکشن مہم کے دوران جلسے بھی جامعہ سے باہر یونیورسٹی روڈ پر کرنے پڑے۔
اس کے بعد ظفر بھائی نے میکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا اور مخلتف کمپنیز میں جاب کے ساتھ ساتھ ماسٹرز بھی NED سے ہی کیا۔۔اور مختلف اداروں اور یونیورسٹیز میں فری لانس درس وتدریس بھی جاری رکھی۔
آہستہ آہستہ ہم دونوں قریب ہوتے گئے اور ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے۔ہماری اکثر نمازیں ایک ہی مسجد مین ہونے لگیں۔جس کا نام تھا۔۔صفہ مسجد (رجسٹرڈ بریلوی مسلک)۔۔گو ہم دونوں عرف عام میں جماعتی اور وہابی تھے مگر ہم نے کبھی بھی مزہبی تعصب کو قریب نہ آنے دیا اور ہر مسلک اور مکتبہ فکر کی مسجدوں میں بلا تکلف نماز پڑھتے رہے ، آہستہ آہستہ ہمارا معمول بن گیا کہ صفہ مسجد میں فجر کے بعد ہماری ایک محفل ہونے لگی جس میں کئی اور بھی دوست احباب اور مسجد کے عام نمازی حضرات بھی شرکت کرنے لگے۔۔جن میں چند قابل ذکر حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔۔ڈاکٹر الیاس وہرہ جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں اور نارتھ امریکہ کی بزم شعر و سخن کے روح روان ہیں۔۔۔جناب سکندر صاحب جو کہ اسٹیٹ بنک کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور ظفر بھائی کے لنگوٹیا یار ہیں۔۔ایک ہمارے شاگرد رشید جناب احسن صاحب۔۔جنھون نے ہم سے کمپیوٹر کی تعلیم وتربیت حاصل کی تھی۔۔مگر افسوس کہ عین حالت جوانی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ثروت جمال اصمعی صاحب بھی اس محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہی ہیں اور بہت سارے نمازی حضرات شامل تھے۔۔غرض یہ بیٹھک دنیا جہان کی گفتگو اور بحث مباحثے کے بعد سورج طلوع ہوتے ہی غروب ہو جاتی تھی اور ہم سب پرامن طریقے سےاپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوجاتے تھے۔
اسی دوران ایک اور مصروفیت بھی ساتھ ساتھ جاری تھی۔۔درس قرآن کی ہفتہ وار محفل جو مغرب سے عشاء تک جاری رہتی تھی۔۔اور ثروت جمال اصمعی بھائی اس میں مدرس کے فرائض انجام دیتے تھے۔۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ثروت بھائی عزیزآباد میں رہتے تھے۔۔آہستہ آہستہ یہ محفلیں بھی اجڑ گئیں کیونکہ کئی حضرات عزیزآباد سے نقل مکانی کر گئے۔۔
خیر اکثر ہمارا معمول تھا۔۔کبھی اکیلے اور کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اتوار کی صبح ظفر بھائی کے گھر پر ناشتہ ہوتا تھا۔ان کی پہلی بیگم صاحبہ پوریوں اور سبزی سے ناشتہ تیار کرتی تھیں اور ہم سب اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔اس دوران ہمارے بچے ظفر بھائی کے بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول رہتے تھے۔
یوں تو ظفر بھائی ہم سے عمر اور جمیعت میں پانچ چھ سال چھوٹے تھے۔مگر ہماری گفتگو اور ہنسی مزاق اور جملے بازی بلا تکلف جاری رہتی تھی۔۔وہ بھی بہت خوش گفتار۔۔ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔۔
ان کا خاندانی پس منظر کچھ یوں تھا کہ وہ ہندوستان کے علاقے بہار شریف سے ہجرت کرکے ڈھاکہ۔سابق مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے اور بعد ازاں 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام پر انتہائی پرآشوب دور میں دوبارہ ہجرت کی آزمائش سے گزرے اور کراچی کے اورنگی ٹاون مین رہائش اختیار کی۔۔اور ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔اس دوران ان کے ماموں جو کہ ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے ہر دو ہجرتوں مین کام آئے اور ان کے خاندان کو سہارا دیا۔۔یہی وجہ تھی کہ ان کی شادی اپنی مامون زاد سے ہوگئی جو تقریباً 25 سال چلی۔۔مگر شاید دونوں کے مزاج۔۔مزاق اور نظریات میں فرق تھا۔اس دوران کئی نشیب و فراز بھی آئے اور بالآخر یہ شادی ختم ہوگئی۔
پہلی بیگم سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوگئی۔۔لیکن چھوٹا بیٹا پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ جو بقول ڈاکٹروں کے دس لاکھ میں کسی ایک کو ہوتی ہے اور لاعلاج ہے۔۔جس میں بچہ آہستہ آہستہ معزوری کی طرف چلا جاتا ہے اور بالآخر اللہ نے جتنی زندگی لکھی ہے وہ پوری کرتا ہے۔۔
غرض 25 سال کے بعد دونوں میں علحدگی ہوگئی۔۔اس کے باوجود ظفر بھائ نے پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور دنیاوی اعتبار سے اب تک جو کچھ کمایا تھا۔۔بنایا تھا سب کچھ ان کی نذر کردیا اور خود ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی دنیا الگ بسالی۔۔دوسری شادی نسبتاً ایک نوجوان خاتون سے ہوئ۔۔جن سے ان کے دو بیٹے ہیں جو کہ ابھی کافی چھوٹے ہیں۔۔وہ اپنی موجودہ بیگم اور بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔۔بچوں کو ہمیشہ بیٹا جانی کہتے تھے۔۔اور بیگم سے اظہار محبت کیلیے ان کی اپنی بیگم کے نام فیس بک کی ایک یادگار پوسٹ ہی کافی ہے۔۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ازدواجی زندگی کی تلخیوں کو دوسری بیگم کے حسن سلوک نے ماند کردیا تھا۔
ظفر بھائی۔۔ہجرتوں کے غم۔۔ازدواجی زندگی کے دکھ۔۔زندگی کی دیگر آزمائشوں۔۔غم روزگار اور کشمکش حیات کے باوجود بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ کبھی اپنی دلی کیفیات کو زبان پر نہ لائے۔۔ہر وقت چہرے پر ایک شرارتی اور زہین و فطین مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔۔کبھی اپنی ذات کے لیے پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ ہی کوئی شکوہ شکایت زبان پر مگر حق بات پر ہمیشہ ڈٹ جاتے تھے اور باطل کیلیے کبھی سمجھوتہ نہی کیا۔ غرض صرف گفتار ہی نہی کردار کے بھی غازی تھے اور تحریک کیلیے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔۔
ظفر بھائی عزیزآباد سے مختلف علاقون میں منتقل ہوتے ریے جس کی وجہ سے درمیان میں ان سے ملاقات اور رابطہ کم کم رہا۔ایک دن کافی عرصے کے بعد ہمارے مشترکہ دوست جناب سکندر صاحب سے اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔۔ہمیں معلوم نہ تھا کہ ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ کہاں روپوش ہیں۔۔لہٰذا سکندر بھائی سے ہم نے ظفر بھائی سے ملنے کی خواہش کی جو فوراٰ قبول ہوگئی۔ اندھا کیا چاہے۔دو آنکھیں۔ بس ہم نے آؤ دیکھا نہ تاو۔۔فوراً ہی بہادرآباد میں ان کے گھر پر چھا پا مارا اور انہیں بمعہ دوسری بیگم اور بچوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے اور یوں اچانک ملاقات پر باچھیں کھل گئیں اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔۔اور بہت ہی پر تکلف خاطر تواضع کی۔ہم لوگ کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔اور پرانی یادیں تازہ کرتے رہے ۔یہاں تک کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔۔خیر دوبارہ ملنے کے وعدے پر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔
اسی دوران ان سے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔کیونکہ وہ بزم شعروسخن کے بھی بہت ہی فعال کارکن تھے۔ان سے بالمشافہ آخری سے پہلی ملاقات 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے مشاعرے میں ہوئی جس میں ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ شریک ہوئے۔۔یہ مشاعرہKMC آفیسرز کلب کشمیر روڈ پر منعقد ہوا تھا۔۔ان کی خوش اخلاقی اور حسن سلوک کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا شعرو سخن کا زوق بھی بہت عمدہ پایا تھا۔۔۔
ظفر بھائی نے تبادلہ خیال فورم کے نام سے بھی ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جس کے وہ خود ہی صدر بھی تھی۔۔اس فورم پر اکثر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے پروگرامات ہوتے تھے جس میں ادبی۔۔سیاسی۔سماجی شخصیات اور دانشوران قوم کو بلایا جاتا تھا۔اور مختلف ایام منائے جاتے تھے اور اہم موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔۔یہ فورم ایک تھنک ٹینک کا کام بھی دیتاتھا خصوصاً نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہ کرنا اور رہنمائی کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ ان کے جانے سے یہ فورم بھی سونا سونا سا ہوگیا ہے۔
ان سے فون، واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بھی ہمارا رابطہ رہتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر افتخار کی یاد میں جو خاکہ ہم نے لکھا تھا اس پر ان کا تبصرہ ہماری پوسٹ پر آخری اور یادگار تبصرہ تھا۔۔کیا پتہ تھا کہ کچھ ہی عرصے بعد ہم کو ظفر بھائی کا خاکہ بھی لکھنا پڑے گا۔۔
ظفر بھائی سے ہماری آخری ملاقات جامعہ کراچی کے ایک شعبہ کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں مولانا سلیمان ندوی صاحب مرحوم کے صاحبزادے جناب مولانا سلمان ندوی صاحب کا ایک لیکچر تھا اور بعد ازاں ایک سوال و جواب کی بھر پور نشست بھی ہوئی۔ہم دونوں اتفاق سے پہلی صف میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے دونوں نے بھر پور حصہ لیا۔اس کے بعد یہ نشست چائے پارٹی پر ختم ہوئی۔ اس سارے پروگرام کے روح رواں تھے ہمارے دوست اور جامعہ کراچی کے آخری صدر انجمن طلباء جناب پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی صاحب صدر شعبہ جینیات جامعہ کراچی۔
ہمیں یاد آیا کہ اس موقع پر ظفر بھائی نے ہمیں ہماری پرانی بلیلہ مرگلہ ماڈل 94 کو تبدیل کرنے کا مشورہ بھی د ے ڈالا اور کہا کہ یہ بہت پرانی ہوگئی ہے ہم نے کہا اس سے پرانی تو ہماری بیگم صاحبہ ہیں، کہیں ایسا نہ ہو آگے چل کر آپ بیگم بدلنے کا خطرناک مشورہ بھی دے ڈالیں۔ انہوں نے ہماری بات پر زندگی سے بھرپور ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن اب جبکہ ہم نے مرگلہ بیچ کر کلٹس ماڈل 2012 لے لی ہے تو ظفر بھائی کو کیسے بتائیں کہ آپ کی خواہش ہم نے پوری کردی ہے۔کاش کہ وہ زندہ ہوتے۔
ظفر بھائی بہت ہی ذہین، قابل اور اعلٰی درجے کے انجینئر تھے۔آٹو موبیل اور میکینیکل انڈسٹریز میں ان کا بڑا نام تھا۔اور بڑی خدمات تھیں۔ اس حوالے سے انہون نے کئی غیر ملکی دورے بھی کر رکھے تھے اور ایک دنیا گھوم چکے تھے۔ وہ متعلقہ کمپنیوں کے ٹیکنیکل ڈائرکٹر اور جنرل مینیجر بھی رہے۔ آپ نے NED یونیورسٹی میں بھی درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا مگر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ بہت جلد انہیں یونیورسٹی سے استعفاء دینا پڑا۔۔ہوا کچھ یوں کہ دوران امتحان کو ئی طالب علم نقل کر رہا تھا۔۔ظفر بھائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اس کی کاپی لیکر اپنے سینئر پروفیسر کو دے دی۔۔مگر پروفیسر صاحب نے فوراً ہی کاپی متعلقہ طالب علم کو واپس کردی۔۔ظفر بھائی کیلیے یہ صورت حال نا قابل برداشت تھی۔۔انھوں نے فوراً ہی استعفاء دے دیا۔
ظفر بھائی ایک زمانے میں خود بھی ٹیوشن پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ریے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت مصروفیت کے باوجود روزانہ باقائدگی سے مغرب اور عشاء کے درمیان درس قرآن بھی دیتے رہے۔۔انہون نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری اور ان کی شخصیت بہت ہی عملی شخصیت تھی۔
کورونہاکی اس وباء میں جون 2020 میں ایک دن ہمیں فیس بک سے اطلاع ملی کہ ظفر بھائی کو بھی کوروونا ہوگیا ہے۔اور آپ نے اپنے آپ کو گھر ہی میں قرنطینہ کیا ہوا ہے۔۔ہم نے فوراً ہی ان سے فون پر رابطہ کیا۔۔شام کا وقت تھا۔۔ظفر بھائی سے بہت امید افزاء گفتگو رہی۔ہم نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورونا سے متعلق سارے مشورے ایک ہی سانس میں دے ڈالے۔۔اور کیوں نہ دیتے؟ آخر ہم اپنے جگری دوست کو کھونا نہیں چایتے تھے۔
پھر ہم نے دوسرے دن اسی وقت پر فون کیا۔۔انہوں نے بتایا کہ علامات بھی موجود ہیں۔۔ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے اور دیگر علاج اور پرہیز کا بھی ذکر کیا اور دعاؤں کی درخواست کی جو کہ ہم پہلے ہی کررہے تھے اب دعاوں مین مزید اضافہ بھی کردیا تھا۔۔اسی دوران انھون نے بتایا کہ ان کی والدہ صاحبہ بھی گر گئی ہیں اور سر میں چوٹ آنے کی وجہ سے کومے میں ہیں۔۔یعنی یک نہ شد دو شد۔۔خیر والدہ کیلیے بھی دعا کی۔۔
تیسرے دن پھر فون کیا تو بمشکل بات ہوسکی کیونکہ طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔۔ہم نے مزید زحمت دینا مناسب نہ سمجھا۔۔اور پھر ایک دن کا وقفہ دیکر فون کیا تو ان کی بیگم نے اٹھا یا اور بتایا وہ انڈس ہاسپٹل کے ICU میں ہیں اور وینٹیلیٹر پر ہیں اور دعاوں کیلیے کہا۔۔ہم نے فوراً ہی فیس بک پر دعاوں کی اپیل اور ان کی تازہ ترین صورت حال کے ساتھ ایک پوسٹ ڈال دی۔
اتفاق سے ان کے معالجین میں ان کے دوست احباب اور جمیعت کے ڈاکٹر حضرات بھی شامل تھے۔۔جو وقتاً فوقتاً فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپڈیٹ بھی دے رہے تھے اور دعاوں کی اپیل بھی کررہے تھے۔۔ان کے ڈاکٹروں نے ان کےعلاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دل و جان سے علاج کیا اور محبت اور دوستی کا حق ادا کردیا۔۔ان کے ڈاکٹروں کی بعض پوسٹوں نے ہم جیسے کمزور دل دوستوں کو وقت سے پہلے ہی رونے پر مجبور کردیا۔۔اسی دوران ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا جس کی خبر ظفر بھائی کو نہیں دی گئی۔۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ مان بیٹے کی جنت میں ہی ملاقات کرائی جائے۔ان کو وینٹیلیٹر پر اب پندرہ دن ہو چکے تھے۔ڈاکٹر حضرات بھی ضبط کا بندھن توڑ کر فیس بک پر اپیلیں کرریے تھے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کرلیا اب اللہ سے دعاوں کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا بھائ ہمیں لوٹا دے۔آمین
مگر یہ ہو نہ سکا۔۔ایک دن ہم نے فون کیا تو ان کی ساس نے اٹھایا۔۔ان کی آواز بھرائ ہوئ تھی اور بس انھون نے دعا کیلیے کہا اور لائین کٹ گئی۔۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔ظفر بھائ ہم سب کو روتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے جہاں ان کے لیے جنت الفردوس سجائ گئی تھی۔۔آمین۔۔ہمیں بھی ایک نہ ایک دن اپنے رب کے پاس جانا ہے۔۔اللہ سے حسن ظن ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی رحمت کے سائے میں اور اپنی جنتوں میں ظفر بھائ سے ملوائے گا۔آمین۔
۔۔۔۔بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ہی بدل گئ؛
۔۔۔۔۔اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا۔
اب ہم ظفر بھائ کی دوران بیماری تین اہم پوسٹوں کا زکر خیر کریں گے جو انہوں نے فیس بک پر ڈالی تھیں۔۔
پہلی پوسٹ کچھ یوں تھی کہ
جس میں انہوں نے سب سے اپنی غلطیوں۔۔گناہوں۔۔حقوق العباد اور دیگر معاملات کے سلسلے میں دوست احباب رشتہ داروں اور ہر ایک سے معافی مانگی تھی۔۔اے اللہ ہم گواہ ہیں کہ ظفر بھائ بہت ہی نیک اور شریف النفس انسان تھے ہم سب نے خوش دلی سے معاف کیا اور تجھ سے بھی معافی کے طلب گار ہیں۔۔
دوسری پوسٹ یوں تھی کہ
. . یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کرسکوں
. . آنکھیں نہی رہیں کہ تماشہ نہی رہا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظفر بھائ ذہنی طور پر صورت حال سے نہ صرف واقف تھے بلکہ تیار بھی تھے۔۔۔
تیسری اور آخری پوسٹ میں تو انہوں نے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے اپنا دل کھول کر پیش کردیا۔۔۔
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب
میرے پاس اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہی
اب یہاں ہم ایک حسن اتفاق کا زکر کرنا ضروری سمجھتے ییں۔۔کہ جس دن سیدی مرشد منور حسن صاحب کی نماز جنازہ ہورہی تھی اسی دن بارہ بجے کے بعد ظفر بھائ کا انتقال ہوا۔۔اور وہی سارا مجمع جو ظہر میں منور صاحب کے جنازہ میں شریک تھا۔۔اسی شام عشاء میں وہی سارے لوگ ظفر بھائ کے جنازے میں بھی شریک تھے۔۔اور محترم امیر جماعت جناب سراج الحق صاحب نے منور صاحب کی نماز جنازہ پڑھائ اور عشاء میں ظفر بھائ کی نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائ۔۔۔۔. . ایں سعادت بزور بازو نیست۔۔۔.
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب گناہ گاروں کو بھی اپنے ان پیاروں کے ساتھ اپنی جنتوں میں ملوائے۔۔آمین ثمہ آمین۔
آج ہمارا دل بہت دکھی اور غمگین ہے۔ اس کورونا نے ہم سے نہ جانے کتنے حسین اور خوبصورت دوست چھین لیے ہیں کہ جن سے ہمارا حلقہ احباب گل و گلزار رہتا تھا۔ اب تو فیس بک اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے کب کس کے بچھڑنے کی خبر آجائے۔ ہر طرف موت کا ایک بھیانک رقص جاری ہے۔۔اور ہم سب بے بس تماشائی ہیں۔
کس کس کا غم کریں۔۔کس کس کا ماتم کریں
دوبارہ ایسے ہیرے جیسے دوست کہاں سے لائیں
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہم عزیزآباد میں اپنے پرانے گھر میں رہتے تھے۔ ایک دن ہم نماز کیلیے نکلے تو ہماری پچھلی گلی سے ایک نوجوان نے آواز دی۔ ظفر بھائی! شاید ہم سے پہلے ہمارے افسانے ان تک پہنچ چکے تھے۔ خیر ہم نے مڑ کر دیکھا تو چہرہ کچھ شناسا اور اپنا اپنا سا لگا۔ سلام دعا کے بعد تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف اسلام الدین ظفر ہیں اور ہم دونوں میں ظفر قدر مشترک ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جمیعت سے تعلق۔رکنیت۔ایک بڑی جامعہ کی نظامت اور شعرو سخن۔نظریات۔۔خیالات اور عقائد بھی ایک جیسے ہی ہیں۔خیر ہمارے اکثر دوست احباب ہم دونوں کو ظفر بھائی کے نام سے ہی یاد کرتے تھے۔
ظفر بھائی طلبہ سیاست میں بھی بہت سرگرم رہے اور اس سلسلے میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔جمیعت اور زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد آپ جماعت اسلامی سے بھی منسلک رہے اور جماعت کے ساتھ دامے درہمے سخنے قدمے ہر طرح سے تعاون کرتے رہے اور رکن بھی رہے۔
خیر ہم قریب ہی ایک مسجد میں نماز کیلیے گئے۔ نماز کے بعد ہی ہمارا تفصیلی تعارف ہوگیا۔ موصوف جمیعت کے رکن اور NED یونیورسٹی کے ناظم رہ چکے تھے۔یہی نہیں بلکہ انہون نے انتہائی پر آشوب دور میں جمیعت کے مکمل پینل کو جامعہ NED کے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا۔۔حالانکہ اس دور میں جمیعت کا نام لینا بھی آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا۔۔اور اسی وجہ سے ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہو چکاتھا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
خوش قسمتی سے ایک پروفیسر صاحب نے انہیں اپنے کمرے میں چھپادیا تھا۔اور اس طرح ان کی جان بخشی ہوئی۔نہ صرف یہ بلکہ انہیں الیکشن مہم کے دوران جلسے بھی جامعہ سے باہر یونیورسٹی روڈ پر کرنے پڑے۔
اس کے بعد ظفر بھائی نے میکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا اور مخلتف کمپنیز میں جاب کے ساتھ ساتھ ماسٹرز بھی NED سے ہی کیا۔۔اور مختلف اداروں اور یونیورسٹیز میں فری لانس درس وتدریس بھی جاری رکھی۔
آہستہ آہستہ ہم دونوں قریب ہوتے گئے اور ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے۔ہماری اکثر نمازیں ایک ہی مسجد مین ہونے لگیں۔جس کا نام تھا۔۔صفہ مسجد (رجسٹرڈ بریلوی مسلک)۔۔گو ہم دونوں عرف عام میں جماعتی اور وہابی تھے مگر ہم نے کبھی بھی مزہبی تعصب کو قریب نہ آنے دیا اور ہر مسلک اور مکتبہ فکر کی مسجدوں میں بلا تکلف نماز پڑھتے رہے ، آہستہ آہستہ ہمارا معمول بن گیا کہ صفہ مسجد میں فجر کے بعد ہماری ایک محفل ہونے لگی جس میں کئی اور بھی دوست احباب اور مسجد کے عام نمازی حضرات بھی شرکت کرنے لگے۔۔جن میں چند قابل ذکر حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔۔ڈاکٹر الیاس وہرہ جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں اور نارتھ امریکہ کی بزم شعر و سخن کے روح روان ہیں۔۔۔جناب سکندر صاحب جو کہ اسٹیٹ بنک کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور ظفر بھائی کے لنگوٹیا یار ہیں۔۔ایک ہمارے شاگرد رشید جناب احسن صاحب۔۔جنھون نے ہم سے کمپیوٹر کی تعلیم وتربیت حاصل کی تھی۔۔مگر افسوس کہ عین حالت جوانی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ثروت جمال اصمعی صاحب بھی اس محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہی ہیں اور بہت سارے نمازی حضرات شامل تھے۔۔غرض یہ بیٹھک دنیا جہان کی گفتگو اور بحث مباحثے کے بعد سورج طلوع ہوتے ہی غروب ہو جاتی تھی اور ہم سب پرامن طریقے سےاپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوجاتے تھے۔
اسی دوران ایک اور مصروفیت بھی ساتھ ساتھ جاری تھی۔۔درس قرآن کی ہفتہ وار محفل جو مغرب سے عشاء تک جاری رہتی تھی۔۔اور ثروت جمال اصمعی بھائی اس میں مدرس کے فرائض انجام دیتے تھے۔۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ثروت بھائی عزیزآباد میں رہتے تھے۔۔آہستہ آہستہ یہ محفلیں بھی اجڑ گئیں کیونکہ کئی حضرات عزیزآباد سے نقل مکانی کر گئے۔۔
خیر اکثر ہمارا معمول تھا۔۔کبھی اکیلے اور کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اتوار کی صبح ظفر بھائی کے گھر پر ناشتہ ہوتا تھا۔ان کی پہلی بیگم صاحبہ پوریوں اور سبزی سے ناشتہ تیار کرتی تھیں اور ہم سب اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔اس دوران ہمارے بچے ظفر بھائی کے بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول رہتے تھے۔
یوں تو ظفر بھائی ہم سے عمر اور جمیعت میں پانچ چھ سال چھوٹے تھے۔مگر ہماری گفتگو اور ہنسی مزاق اور جملے بازی بلا تکلف جاری رہتی تھی۔۔وہ بھی بہت خوش گفتار۔۔ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔۔
ان کا خاندانی پس منظر کچھ یوں تھا کہ وہ ہندوستان کے علاقے بہار شریف سے ہجرت کرکے ڈھاکہ۔سابق مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے اور بعد ازاں 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام پر انتہائی پرآشوب دور میں دوبارہ ہجرت کی آزمائش سے گزرے اور کراچی کے اورنگی ٹاون مین رہائش اختیار کی۔۔اور ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔اس دوران ان کے ماموں جو کہ ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے ہر دو ہجرتوں مین کام آئے اور ان کے خاندان کو سہارا دیا۔۔یہی وجہ تھی کہ ان کی شادی اپنی مامون زاد سے ہوگئی جو تقریباً 25 سال چلی۔۔مگر شاید دونوں کے مزاج۔۔مزاق اور نظریات میں فرق تھا۔اس دوران کئی نشیب و فراز بھی آئے اور بالآخر یہ شادی ختم ہوگئی۔
پہلی بیگم سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوگئی۔۔لیکن چھوٹا بیٹا پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ جو بقول ڈاکٹروں کے دس لاکھ میں کسی ایک کو ہوتی ہے اور لاعلاج ہے۔۔جس میں بچہ آہستہ آہستہ معزوری کی طرف چلا جاتا ہے اور بالآخر اللہ نے جتنی زندگی لکھی ہے وہ پوری کرتا ہے۔۔
غرض 25 سال کے بعد دونوں میں علحدگی ہوگئی۔۔اس کے باوجود ظفر بھائ نے پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور دنیاوی اعتبار سے اب تک جو کچھ کمایا تھا۔۔بنایا تھا سب کچھ ان کی نذر کردیا اور خود ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی دنیا الگ بسالی۔۔دوسری شادی نسبتاً ایک نوجوان خاتون سے ہوئ۔۔جن سے ان کے دو بیٹے ہیں جو کہ ابھی کافی چھوٹے ہیں۔۔وہ اپنی موجودہ بیگم اور بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔۔بچوں کو ہمیشہ بیٹا جانی کہتے تھے۔۔اور بیگم سے اظہار محبت کیلیے ان کی اپنی بیگم کے نام فیس بک کی ایک یادگار پوسٹ ہی کافی ہے۔۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ازدواجی زندگی کی تلخیوں کو دوسری بیگم کے حسن سلوک نے ماند کردیا تھا۔
ظفر بھائی۔۔ہجرتوں کے غم۔۔ازدواجی زندگی کے دکھ۔۔زندگی کی دیگر آزمائشوں۔۔غم روزگار اور کشمکش حیات کے باوجود بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ کبھی اپنی دلی کیفیات کو زبان پر نہ لائے۔۔ہر وقت چہرے پر ایک شرارتی اور زہین و فطین مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔۔کبھی اپنی ذات کے لیے پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ ہی کوئی شکوہ شکایت زبان پر مگر حق بات پر ہمیشہ ڈٹ جاتے تھے اور باطل کیلیے کبھی سمجھوتہ نہی کیا۔ غرض صرف گفتار ہی نہی کردار کے بھی غازی تھے اور تحریک کیلیے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔۔
ظفر بھائی عزیزآباد سے مختلف علاقون میں منتقل ہوتے ریے جس کی وجہ سے درمیان میں ان سے ملاقات اور رابطہ کم کم رہا۔ایک دن کافی عرصے کے بعد ہمارے مشترکہ دوست جناب سکندر صاحب سے اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔۔ہمیں معلوم نہ تھا کہ ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ کہاں روپوش ہیں۔۔لہٰذا سکندر بھائی سے ہم نے ظفر بھائی سے ملنے کی خواہش کی جو فوراٰ قبول ہوگئی۔ اندھا کیا چاہے۔دو آنکھیں۔ بس ہم نے آؤ دیکھا نہ تاو۔۔فوراً ہی بہادرآباد میں ان کے گھر پر چھا پا مارا اور انہیں بمعہ دوسری بیگم اور بچوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے اور یوں اچانک ملاقات پر باچھیں کھل گئیں اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔۔اور بہت ہی پر تکلف خاطر تواضع کی۔ہم لوگ کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔اور پرانی یادیں تازہ کرتے رہے ۔یہاں تک کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔۔خیر دوبارہ ملنے کے وعدے پر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔
اسی دوران ان سے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔کیونکہ وہ بزم شعروسخن کے بھی بہت ہی فعال کارکن تھے۔ان سے بالمشافہ آخری سے پہلی ملاقات 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے مشاعرے میں ہوئی جس میں ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ شریک ہوئے۔۔یہ مشاعرہKMC آفیسرز کلب کشمیر روڈ پر منعقد ہوا تھا۔۔ان کی خوش اخلاقی اور حسن سلوک کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا شعرو سخن کا زوق بھی بہت عمدہ پایا تھا۔۔۔
ظفر بھائی نے تبادلہ خیال فورم کے نام سے بھی ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جس کے وہ خود ہی صدر بھی تھی۔۔اس فورم پر اکثر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے پروگرامات ہوتے تھے جس میں ادبی۔۔سیاسی۔سماجی شخصیات اور دانشوران قوم کو بلایا جاتا تھا۔اور مختلف ایام منائے جاتے تھے اور اہم موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔۔یہ فورم ایک تھنک ٹینک کا کام بھی دیتاتھا خصوصاً نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہ کرنا اور رہنمائی کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ ان کے جانے سے یہ فورم بھی سونا سونا سا ہوگیا ہے۔
ان سے فون، واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بھی ہمارا رابطہ رہتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر افتخار کی یاد میں جو خاکہ ہم نے لکھا تھا اس پر ان کا تبصرہ ہماری پوسٹ پر آخری اور یادگار تبصرہ تھا۔۔کیا پتہ تھا کہ کچھ ہی عرصے بعد ہم کو ظفر بھائی کا خاکہ بھی لکھنا پڑے گا۔۔
ظفر بھائی سے ہماری آخری ملاقات جامعہ کراچی کے ایک شعبہ کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں مولانا سلیمان ندوی صاحب مرحوم کے صاحبزادے جناب مولانا سلمان ندوی صاحب کا ایک لیکچر تھا اور بعد ازاں ایک سوال و جواب کی بھر پور نشست بھی ہوئی۔ہم دونوں اتفاق سے پہلی صف میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے دونوں نے بھر پور حصہ لیا۔اس کے بعد یہ نشست چائے پارٹی پر ختم ہوئی۔ اس سارے پروگرام کے روح رواں تھے ہمارے دوست اور جامعہ کراچی کے آخری صدر انجمن طلباء جناب پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی صاحب صدر شعبہ جینیات جامعہ کراچی۔
ہمیں یاد آیا کہ اس موقع پر ظفر بھائی نے ہمیں ہماری پرانی بلیلہ مرگلہ ماڈل 94 کو تبدیل کرنے کا مشورہ بھی د ے ڈالا اور کہا کہ یہ بہت پرانی ہوگئی ہے ہم نے کہا اس سے پرانی تو ہماری بیگم صاحبہ ہیں، کہیں ایسا نہ ہو آگے چل کر آپ بیگم بدلنے کا خطرناک مشورہ بھی دے ڈالیں۔ انہوں نے ہماری بات پر زندگی سے بھرپور ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن اب جبکہ ہم نے مرگلہ بیچ کر کلٹس ماڈل 2012 لے لی ہے تو ظفر بھائی کو کیسے بتائیں کہ آپ کی خواہش ہم نے پوری کردی ہے۔کاش کہ وہ زندہ ہوتے۔
ظفر بھائی بہت ہی ذہین، قابل اور اعلٰی درجے کے انجینئر تھے۔آٹو موبیل اور میکینیکل انڈسٹریز میں ان کا بڑا نام تھا۔اور بڑی خدمات تھیں۔ اس حوالے سے انہون نے کئی غیر ملکی دورے بھی کر رکھے تھے اور ایک دنیا گھوم چکے تھے۔ وہ متعلقہ کمپنیوں کے ٹیکنیکل ڈائرکٹر اور جنرل مینیجر بھی رہے۔ آپ نے NED یونیورسٹی میں بھی درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا مگر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ بہت جلد انہیں یونیورسٹی سے استعفاء دینا پڑا۔۔ہوا کچھ یوں کہ دوران امتحان کو ئی طالب علم نقل کر رہا تھا۔۔ظفر بھائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اس کی کاپی لیکر اپنے سینئر پروفیسر کو دے دی۔۔مگر پروفیسر صاحب نے فوراً ہی کاپی متعلقہ طالب علم کو واپس کردی۔۔ظفر بھائی کیلیے یہ صورت حال نا قابل برداشت تھی۔۔انھوں نے فوراً ہی استعفاء دے دیا۔
ظفر بھائی ایک زمانے میں خود بھی ٹیوشن پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ریے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت مصروفیت کے باوجود روزانہ باقائدگی سے مغرب اور عشاء کے درمیان درس قرآن بھی دیتے رہے۔۔انہون نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری اور ان کی شخصیت بہت ہی عملی شخصیت تھی۔
کورونہاکی اس وباء میں جون 2020 میں ایک دن ہمیں فیس بک سے اطلاع ملی کہ ظفر بھائی کو بھی کوروونا ہوگیا ہے۔اور آپ نے اپنے آپ کو گھر ہی میں قرنطینہ کیا ہوا ہے۔۔ہم نے فوراً ہی ان سے فون پر رابطہ کیا۔۔شام کا وقت تھا۔۔ظفر بھائی سے بہت امید افزاء گفتگو رہی۔ہم نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورونا سے متعلق سارے مشورے ایک ہی سانس میں دے ڈالے۔۔اور کیوں نہ دیتے؟ آخر ہم اپنے جگری دوست کو کھونا نہیں چایتے تھے۔
پھر ہم نے دوسرے دن اسی وقت پر فون کیا۔۔انہوں نے بتایا کہ علامات بھی موجود ہیں۔۔ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے اور دیگر علاج اور پرہیز کا بھی ذکر کیا اور دعاؤں کی درخواست کی جو کہ ہم پہلے ہی کررہے تھے اب دعاوں مین مزید اضافہ بھی کردیا تھا۔۔اسی دوران انھون نے بتایا کہ ان کی والدہ صاحبہ بھی گر گئی ہیں اور سر میں چوٹ آنے کی وجہ سے کومے میں ہیں۔۔یعنی یک نہ شد دو شد۔۔خیر والدہ کیلیے بھی دعا کی۔۔
تیسرے دن پھر فون کیا تو بمشکل بات ہوسکی کیونکہ طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔۔ہم نے مزید زحمت دینا مناسب نہ سمجھا۔۔اور پھر ایک دن کا وقفہ دیکر فون کیا تو ان کی بیگم نے اٹھا یا اور بتایا وہ انڈس ہاسپٹل کے ICU میں ہیں اور وینٹیلیٹر پر ہیں اور دعاوں کیلیے کہا۔۔ہم نے فوراً ہی فیس بک پر دعاوں کی اپیل اور ان کی تازہ ترین صورت حال کے ساتھ ایک پوسٹ ڈال دی۔
اتفاق سے ان کے معالجین میں ان کے دوست احباب اور جمیعت کے ڈاکٹر حضرات بھی شامل تھے۔۔جو وقتاً فوقتاً فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپڈیٹ بھی دے رہے تھے اور دعاوں کی اپیل بھی کررہے تھے۔۔ان کے ڈاکٹروں نے ان کےعلاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دل و جان سے علاج کیا اور محبت اور دوستی کا حق ادا کردیا۔۔ان کے ڈاکٹروں کی بعض پوسٹوں نے ہم جیسے کمزور دل دوستوں کو وقت سے پہلے ہی رونے پر مجبور کردیا۔۔اسی دوران ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا جس کی خبر ظفر بھائی کو نہیں دی گئی۔۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ مان بیٹے کی جنت میں ہی ملاقات کرائی جائے۔ان کو وینٹیلیٹر پر اب پندرہ دن ہو چکے تھے۔ڈاکٹر حضرات بھی ضبط کا بندھن توڑ کر فیس بک پر اپیلیں کرریے تھے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کرلیا اب اللہ سے دعاوں کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا بھائ ہمیں لوٹا دے۔آمین
مگر یہ ہو نہ سکا۔۔ایک دن ہم نے فون کیا تو ان کی ساس نے اٹھایا۔۔ان کی آواز بھرائ ہوئ تھی اور بس انھون نے دعا کیلیے کہا اور لائین کٹ گئی۔۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔ظفر بھائ ہم سب کو روتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے جہاں ان کے لیے جنت الفردوس سجائ گئی تھی۔۔آمین۔۔ہمیں بھی ایک نہ ایک دن اپنے رب کے پاس جانا ہے۔۔اللہ سے حسن ظن ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی رحمت کے سائے میں اور اپنی جنتوں میں ظفر بھائ سے ملوائے گا۔آمین۔
۔۔۔۔بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ہی بدل گئ؛
۔۔۔۔۔اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا۔
اب ہم ظفر بھائ کی دوران بیماری تین اہم پوسٹوں کا زکر خیر کریں گے جو انہوں نے فیس بک پر ڈالی تھیں۔۔
پہلی پوسٹ کچھ یوں تھی کہ
جس میں انہوں نے سب سے اپنی غلطیوں۔۔گناہوں۔۔حقوق العباد اور دیگر معاملات کے سلسلے میں دوست احباب رشتہ داروں اور ہر ایک سے معافی مانگی تھی۔۔اے اللہ ہم گواہ ہیں کہ ظفر بھائ بہت ہی نیک اور شریف النفس انسان تھے ہم سب نے خوش دلی سے معاف کیا اور تجھ سے بھی معافی کے طلب گار ہیں۔۔
دوسری پوسٹ یوں تھی کہ
. . یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کرسکوں
. . آنکھیں نہی رہیں کہ تماشہ نہی رہا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظفر بھائ ذہنی طور پر صورت حال سے نہ صرف واقف تھے بلکہ تیار بھی تھے۔۔۔
تیسری اور آخری پوسٹ میں تو انہوں نے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے اپنا دل کھول کر پیش کردیا۔۔۔
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب
میرے پاس اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہی
اب یہاں ہم ایک حسن اتفاق کا زکر کرنا ضروری سمجھتے ییں۔۔کہ جس دن سیدی مرشد منور حسن صاحب کی نماز جنازہ ہورہی تھی اسی دن بارہ بجے کے بعد ظفر بھائ کا انتقال ہوا۔۔اور وہی سارا مجمع جو ظہر میں منور صاحب کے جنازہ میں شریک تھا۔۔اسی شام عشاء میں وہی سارے لوگ ظفر بھائ کے جنازے میں بھی شریک تھے۔۔اور محترم امیر جماعت جناب سراج الحق صاحب نے منور صاحب کی نماز جنازہ پڑھائ اور عشاء میں ظفر بھائ کی نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائ۔۔۔۔. . ایں سعادت بزور بازو نیست۔۔۔.
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب گناہ گاروں کو بھی اپنے ان پیاروں کے ساتھ اپنی جنتوں میں ملوائے۔۔آمین ثمہ آمین۔
آج ہمارا دل بہت دکھی اور غمگین ہے۔ اس کورونا نے ہم سے نہ جانے کتنے حسین اور خوبصورت دوست چھین لیے ہیں کہ جن سے ہمارا حلقہ احباب گل و گلزار رہتا تھا۔ اب تو فیس بک اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے کب کس کے بچھڑنے کی خبر آجائے۔ ہر طرف موت کا ایک بھیانک رقص جاری ہے۔۔اور ہم سب بے بس تماشائی ہیں۔
کس کس کا غم کریں۔۔کس کس کا ماتم کریں
دوبارہ ایسے ہیرے جیسے دوست کہاں سے لائیں
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہم عزیزآباد میں اپنے پرانے گھر میں رہتے تھے۔ ایک دن ہم نماز کیلیے نکلے تو ہماری پچھلی گلی سے ایک نوجوان نے آواز دی۔ ظفر بھائی! شاید ہم سے پہلے ہمارے افسانے ان تک پہنچ چکے تھے۔ خیر ہم نے مڑ کر دیکھا تو چہرہ کچھ شناسا اور اپنا اپنا سا لگا۔ سلام دعا کے بعد تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف اسلام الدین ظفر ہیں اور ہم دونوں میں ظفر قدر مشترک ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جمیعت سے تعلق۔رکنیت۔ایک بڑی جامعہ کی نظامت اور شعرو سخن۔نظریات۔۔خیالات اور عقائد بھی ایک جیسے ہی ہیں۔خیر ہمارے اکثر دوست احباب ہم دونوں کو ظفر بھائی کے نام سے ہی یاد کرتے تھے۔
ظفر بھائی طلبہ سیاست میں بھی بہت سرگرم رہے اور اس سلسلے میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔جمیعت اور زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد آپ جماعت اسلامی سے بھی منسلک رہے اور جماعت کے ساتھ دامے درہمے سخنے قدمے ہر طرح سے تعاون کرتے رہے اور رکن بھی رہے۔
خیر ہم قریب ہی ایک مسجد میں نماز کیلیے گئے۔ نماز کے بعد ہی ہمارا تفصیلی تعارف ہوگیا۔ موصوف جمیعت کے رکن اور NED یونیورسٹی کے ناظم رہ چکے تھے۔یہی نہیں بلکہ انہون نے انتہائی پر آشوب دور میں جمیعت کے مکمل پینل کو جامعہ NED کے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا۔۔حالانکہ اس دور میں جمیعت کا نام لینا بھی آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا۔۔اور اسی وجہ سے ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہو چکاتھا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
خوش قسمتی سے ایک پروفیسر صاحب نے انہیں اپنے کمرے میں چھپادیا تھا۔اور اس طرح ان کی جان بخشی ہوئی۔نہ صرف یہ بلکہ انہیں الیکشن مہم کے دوران جلسے بھی جامعہ سے باہر یونیورسٹی روڈ پر کرنے پڑے۔
اس کے بعد ظفر بھائی نے میکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا اور مخلتف کمپنیز میں جاب کے ساتھ ساتھ ماسٹرز بھی NED سے ہی کیا۔۔اور مختلف اداروں اور یونیورسٹیز میں فری لانس درس وتدریس بھی جاری رکھی۔
آہستہ آہستہ ہم دونوں قریب ہوتے گئے اور ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے۔ہماری اکثر نمازیں ایک ہی مسجد مین ہونے لگیں۔جس کا نام تھا۔۔صفہ مسجد (رجسٹرڈ بریلوی مسلک)۔۔گو ہم دونوں عرف عام میں جماعتی اور وہابی تھے مگر ہم نے کبھی بھی مزہبی تعصب کو قریب نہ آنے دیا اور ہر مسلک اور مکتبہ فکر کی مسجدوں میں بلا تکلف نماز پڑھتے رہے ، آہستہ آہستہ ہمارا معمول بن گیا کہ صفہ مسجد میں فجر کے بعد ہماری ایک محفل ہونے لگی جس میں کئی اور بھی دوست احباب اور مسجد کے عام نمازی حضرات بھی شرکت کرنے لگے۔۔جن میں چند قابل ذکر حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔۔ڈاکٹر الیاس وہرہ جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں اور نارتھ امریکہ کی بزم شعر و سخن کے روح روان ہیں۔۔۔جناب سکندر صاحب جو کہ اسٹیٹ بنک کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور ظفر بھائی کے لنگوٹیا یار ہیں۔۔ایک ہمارے شاگرد رشید جناب احسن صاحب۔۔جنھون نے ہم سے کمپیوٹر کی تعلیم وتربیت حاصل کی تھی۔۔مگر افسوس کہ عین حالت جوانی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ثروت جمال اصمعی صاحب بھی اس محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہی ہیں اور بہت سارے نمازی حضرات شامل تھے۔۔غرض یہ بیٹھک دنیا جہان کی گفتگو اور بحث مباحثے کے بعد سورج طلوع ہوتے ہی غروب ہو جاتی تھی اور ہم سب پرامن طریقے سےاپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوجاتے تھے۔
اسی دوران ایک اور مصروفیت بھی ساتھ ساتھ جاری تھی۔۔درس قرآن کی ہفتہ وار محفل جو مغرب سے عشاء تک جاری رہتی تھی۔۔اور ثروت جمال اصمعی بھائی اس میں مدرس کے فرائض انجام دیتے تھے۔۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ثروت بھائی عزیزآباد میں رہتے تھے۔۔آہستہ آہستہ یہ محفلیں بھی اجڑ گئیں کیونکہ کئی حضرات عزیزآباد سے نقل مکانی کر گئے۔۔
خیر اکثر ہمارا معمول تھا۔۔کبھی اکیلے اور کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اتوار کی صبح ظفر بھائی کے گھر پر ناشتہ ہوتا تھا۔ان کی پہلی بیگم صاحبہ پوریوں اور سبزی سے ناشتہ تیار کرتی تھیں اور ہم سب اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔اس دوران ہمارے بچے ظفر بھائی کے بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول رہتے تھے۔
یوں تو ظفر بھائی ہم سے عمر اور جمیعت میں پانچ چھ سال چھوٹے تھے۔مگر ہماری گفتگو اور ہنسی مزاق اور جملے بازی بلا تکلف جاری رہتی تھی۔۔وہ بھی بہت خوش گفتار۔۔ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔۔
ان کا خاندانی پس منظر کچھ یوں تھا کہ وہ ہندوستان کے علاقے بہار شریف سے ہجرت کرکے ڈھاکہ۔سابق مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے اور بعد ازاں 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام پر انتہائی پرآشوب دور میں دوبارہ ہجرت کی آزمائش سے گزرے اور کراچی کے اورنگی ٹاون مین رہائش اختیار کی۔۔اور ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔اس دوران ان کے ماموں جو کہ ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے ہر دو ہجرتوں مین کام آئے اور ان کے خاندان کو سہارا دیا۔۔یہی وجہ تھی کہ ان کی شادی اپنی مامون زاد سے ہوگئی جو تقریباً 25 سال چلی۔۔مگر شاید دونوں کے مزاج۔۔مزاق اور نظریات میں فرق تھا۔اس دوران کئی نشیب و فراز بھی آئے اور بالآخر یہ شادی ختم ہوگئی۔
پہلی بیگم سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوگئی۔۔لیکن چھوٹا بیٹا پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ جو بقول ڈاکٹروں کے دس لاکھ میں کسی ایک کو ہوتی ہے اور لاعلاج ہے۔۔جس میں بچہ آہستہ آہستہ معزوری کی طرف چلا جاتا ہے اور بالآخر اللہ نے جتنی زندگی لکھی ہے وہ پوری کرتا ہے۔۔
غرض 25 سال کے بعد دونوں میں علحدگی ہوگئی۔۔اس کے باوجود ظفر بھائ نے پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور دنیاوی اعتبار سے اب تک جو کچھ کمایا تھا۔۔بنایا تھا سب کچھ ان کی نذر کردیا اور خود ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی دنیا الگ بسالی۔۔دوسری شادی نسبتاً ایک نوجوان خاتون سے ہوئ۔۔جن سے ان کے دو بیٹے ہیں جو کہ ابھی کافی چھوٹے ہیں۔۔وہ اپنی موجودہ بیگم اور بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔۔بچوں کو ہمیشہ بیٹا جانی کہتے تھے۔۔اور بیگم سے اظہار محبت کیلیے ان کی اپنی بیگم کے نام فیس بک کی ایک یادگار پوسٹ ہی کافی ہے۔۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ازدواجی زندگی کی تلخیوں کو دوسری بیگم کے حسن سلوک نے ماند کردیا تھا۔
ظفر بھائی۔۔ہجرتوں کے غم۔۔ازدواجی زندگی کے دکھ۔۔زندگی کی دیگر آزمائشوں۔۔غم روزگار اور کشمکش حیات کے باوجود بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ کبھی اپنی دلی کیفیات کو زبان پر نہ لائے۔۔ہر وقت چہرے پر ایک شرارتی اور زہین و فطین مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔۔کبھی اپنی ذات کے لیے پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ ہی کوئی شکوہ شکایت زبان پر مگر حق بات پر ہمیشہ ڈٹ جاتے تھے اور باطل کیلیے کبھی سمجھوتہ نہی کیا۔ غرض صرف گفتار ہی نہی کردار کے بھی غازی تھے اور تحریک کیلیے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔۔
ظفر بھائی عزیزآباد سے مختلف علاقون میں منتقل ہوتے ریے جس کی وجہ سے درمیان میں ان سے ملاقات اور رابطہ کم کم رہا۔ایک دن کافی عرصے کے بعد ہمارے مشترکہ دوست جناب سکندر صاحب سے اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔۔ہمیں معلوم نہ تھا کہ ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ کہاں روپوش ہیں۔۔لہٰذا سکندر بھائی سے ہم نے ظفر بھائی سے ملنے کی خواہش کی جو فوراٰ قبول ہوگئی۔ اندھا کیا چاہے۔دو آنکھیں۔ بس ہم نے آؤ دیکھا نہ تاو۔۔فوراً ہی بہادرآباد میں ان کے گھر پر چھا پا مارا اور انہیں بمعہ دوسری بیگم اور بچوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے اور یوں اچانک ملاقات پر باچھیں کھل گئیں اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔۔اور بہت ہی پر تکلف خاطر تواضع کی۔ہم لوگ کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔اور پرانی یادیں تازہ کرتے رہے ۔یہاں تک کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔۔خیر دوبارہ ملنے کے وعدے پر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔
اسی دوران ان سے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔کیونکہ وہ بزم شعروسخن کے بھی بہت ہی فعال کارکن تھے۔ان سے بالمشافہ آخری سے پہلی ملاقات 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے مشاعرے میں ہوئی جس میں ظفر بھائی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ شریک ہوئے۔۔یہ مشاعرہKMC آفیسرز کلب کشمیر روڈ پر منعقد ہوا تھا۔۔ان کی خوش اخلاقی اور حسن سلوک کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا شعرو سخن کا زوق بھی بہت عمدہ پایا تھا۔۔۔
ظفر بھائی نے تبادلہ خیال فورم کے نام سے بھی ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جس کے وہ خود ہی صدر بھی تھی۔۔اس فورم پر اکثر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے پروگرامات ہوتے تھے جس میں ادبی۔۔سیاسی۔سماجی شخصیات اور دانشوران قوم کو بلایا جاتا تھا۔اور مختلف ایام منائے جاتے تھے اور اہم موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔۔یہ فورم ایک تھنک ٹینک کا کام بھی دیتاتھا خصوصاً نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہ کرنا اور رہنمائی کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ ان کے جانے سے یہ فورم بھی سونا سونا سا ہوگیا ہے۔
ان سے فون، واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بھی ہمارا رابطہ رہتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر افتخار کی یاد میں جو خاکہ ہم نے لکھا تھا اس پر ان کا تبصرہ ہماری پوسٹ پر آخری اور یادگار تبصرہ تھا۔۔کیا پتہ تھا کہ کچھ ہی عرصے بعد ہم کو ظفر بھائی کا خاکہ بھی لکھنا پڑے گا۔۔
ظفر بھائی سے ہماری آخری ملاقات جامعہ کراچی کے ایک شعبہ کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں مولانا سلیمان ندوی صاحب مرحوم کے صاحبزادے جناب مولانا سلمان ندوی صاحب کا ایک لیکچر تھا اور بعد ازاں ایک سوال و جواب کی بھر پور نشست بھی ہوئی۔ہم دونوں اتفاق سے پہلی صف میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے دونوں نے بھر پور حصہ لیا۔اس کے بعد یہ نشست چائے پارٹی پر ختم ہوئی۔ اس سارے پروگرام کے روح رواں تھے ہمارے دوست اور جامعہ کراچی کے آخری صدر انجمن طلباء جناب پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی صاحب صدر شعبہ جینیات جامعہ کراچی۔
ہمیں یاد آیا کہ اس موقع پر ظفر بھائی نے ہمیں ہماری پرانی بلیلہ مرگلہ ماڈل 94 کو تبدیل کرنے کا مشورہ بھی د ے ڈالا اور کہا کہ یہ بہت پرانی ہوگئی ہے ہم نے کہا اس سے پرانی تو ہماری بیگم صاحبہ ہیں، کہیں ایسا نہ ہو آگے چل کر آپ بیگم بدلنے کا خطرناک مشورہ بھی دے ڈالیں۔ انہوں نے ہماری بات پر زندگی سے بھرپور ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن اب جبکہ ہم نے مرگلہ بیچ کر کلٹس ماڈل 2012 لے لی ہے تو ظفر بھائی کو کیسے بتائیں کہ آپ کی خواہش ہم نے پوری کردی ہے۔کاش کہ وہ زندہ ہوتے۔
ظفر بھائی بہت ہی ذہین، قابل اور اعلٰی درجے کے انجینئر تھے۔آٹو موبیل اور میکینیکل انڈسٹریز میں ان کا بڑا نام تھا۔اور بڑی خدمات تھیں۔ اس حوالے سے انہون نے کئی غیر ملکی دورے بھی کر رکھے تھے اور ایک دنیا گھوم چکے تھے۔ وہ متعلقہ کمپنیوں کے ٹیکنیکل ڈائرکٹر اور جنرل مینیجر بھی رہے۔ آپ نے NED یونیورسٹی میں بھی درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا مگر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ بہت جلد انہیں یونیورسٹی سے استعفاء دینا پڑا۔۔ہوا کچھ یوں کہ دوران امتحان کو ئی طالب علم نقل کر رہا تھا۔۔ظفر بھائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اس کی کاپی لیکر اپنے سینئر پروفیسر کو دے دی۔۔مگر پروفیسر صاحب نے فوراً ہی کاپی متعلقہ طالب علم کو واپس کردی۔۔ظفر بھائی کیلیے یہ صورت حال نا قابل برداشت تھی۔۔انھوں نے فوراً ہی استعفاء دے دیا۔
ظفر بھائی ایک زمانے میں خود بھی ٹیوشن پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ریے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت مصروفیت کے باوجود روزانہ باقائدگی سے مغرب اور عشاء کے درمیان درس قرآن بھی دیتے رہے۔۔انہون نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری اور ان کی شخصیت بہت ہی عملی شخصیت تھی۔
کورونہاکی اس وباء میں جون 2020 میں ایک دن ہمیں فیس بک سے اطلاع ملی کہ ظفر بھائی کو بھی کوروونا ہوگیا ہے۔اور آپ نے اپنے آپ کو گھر ہی میں قرنطینہ کیا ہوا ہے۔۔ہم نے فوراً ہی ان سے فون پر رابطہ کیا۔۔شام کا وقت تھا۔۔ظفر بھائی سے بہت امید افزاء گفتگو رہی۔ہم نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورونا سے متعلق سارے مشورے ایک ہی سانس میں دے ڈالے۔۔اور کیوں نہ دیتے؟ آخر ہم اپنے جگری دوست کو کھونا نہیں چایتے تھے۔
پھر ہم نے دوسرے دن اسی وقت پر فون کیا۔۔انہوں نے بتایا کہ علامات بھی موجود ہیں۔۔ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے اور دیگر علاج اور پرہیز کا بھی ذکر کیا اور دعاؤں کی درخواست کی جو کہ ہم پہلے ہی کررہے تھے اب دعاوں مین مزید اضافہ بھی کردیا تھا۔۔اسی دوران انھون نے بتایا کہ ان کی والدہ صاحبہ بھی گر گئی ہیں اور سر میں چوٹ آنے کی وجہ سے کومے میں ہیں۔۔یعنی یک نہ شد دو شد۔۔خیر والدہ کیلیے بھی دعا کی۔۔
تیسرے دن پھر فون کیا تو بمشکل بات ہوسکی کیونکہ طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔۔ہم نے مزید زحمت دینا مناسب نہ سمجھا۔۔اور پھر ایک دن کا وقفہ دیکر فون کیا تو ان کی بیگم نے اٹھا یا اور بتایا وہ انڈس ہاسپٹل کے ICU میں ہیں اور وینٹیلیٹر پر ہیں اور دعاوں کیلیے کہا۔۔ہم نے فوراً ہی فیس بک پر دعاوں کی اپیل اور ان کی تازہ ترین صورت حال کے ساتھ ایک پوسٹ ڈال دی۔
اتفاق سے ان کے معالجین میں ان کے دوست احباب اور جمیعت کے ڈاکٹر حضرات بھی شامل تھے۔۔جو وقتاً فوقتاً فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپڈیٹ بھی دے رہے تھے اور دعاوں کی اپیل بھی کررہے تھے۔۔ان کے ڈاکٹروں نے ان کےعلاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دل و جان سے علاج کیا اور محبت اور دوستی کا حق ادا کردیا۔۔ان کے ڈاکٹروں کی بعض پوسٹوں نے ہم جیسے کمزور دل دوستوں کو وقت سے پہلے ہی رونے پر مجبور کردیا۔۔اسی دوران ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا جس کی خبر ظفر بھائی کو نہیں دی گئی۔۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ مان بیٹے کی جنت میں ہی ملاقات کرائی جائے۔ان کو وینٹیلیٹر پر اب پندرہ دن ہو چکے تھے۔ڈاکٹر حضرات بھی ضبط کا بندھن توڑ کر فیس بک پر اپیلیں کرریے تھے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کرلیا اب اللہ سے دعاوں کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا بھائ ہمیں لوٹا دے۔آمین
مگر یہ ہو نہ سکا۔۔ایک دن ہم نے فون کیا تو ان کی ساس نے اٹھایا۔۔ان کی آواز بھرائ ہوئ تھی اور بس انھون نے دعا کیلیے کہا اور لائین کٹ گئی۔۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔ظفر بھائ ہم سب کو روتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے جہاں ان کے لیے جنت الفردوس سجائ گئی تھی۔۔آمین۔۔ہمیں بھی ایک نہ ایک دن اپنے رب کے پاس جانا ہے۔۔اللہ سے حسن ظن ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی رحمت کے سائے میں اور اپنی جنتوں میں ظفر بھائ سے ملوائے گا۔آمین۔
۔۔۔۔بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ہی بدل گئ؛
۔۔۔۔۔اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا۔
اب ہم ظفر بھائ کی دوران بیماری تین اہم پوسٹوں کا زکر خیر کریں گے جو انہوں نے فیس بک پر ڈالی تھیں۔۔
پہلی پوسٹ کچھ یوں تھی کہ
جس میں انہوں نے سب سے اپنی غلطیوں۔۔گناہوں۔۔حقوق العباد اور دیگر معاملات کے سلسلے میں دوست احباب رشتہ داروں اور ہر ایک سے معافی مانگی تھی۔۔اے اللہ ہم گواہ ہیں کہ ظفر بھائ بہت ہی نیک اور شریف النفس انسان تھے ہم سب نے خوش دلی سے معاف کیا اور تجھ سے بھی معافی کے طلب گار ہیں۔۔
دوسری پوسٹ یوں تھی کہ
. . یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کرسکوں
. . آنکھیں نہی رہیں کہ تماشہ نہی رہا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظفر بھائ ذہنی طور پر صورت حال سے نہ صرف واقف تھے بلکہ تیار بھی تھے۔۔۔
تیسری اور آخری پوسٹ میں تو انہوں نے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے اپنا دل کھول کر پیش کردیا۔۔۔
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب
میرے پاس اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہی
اب یہاں ہم ایک حسن اتفاق کا زکر کرنا ضروری سمجھتے ییں۔۔کہ جس دن سیدی مرشد منور حسن صاحب کی نماز جنازہ ہورہی تھی اسی دن بارہ بجے کے بعد ظفر بھائ کا انتقال ہوا۔۔اور وہی سارا مجمع جو ظہر میں منور صاحب کے جنازہ میں شریک تھا۔۔اسی شام عشاء میں وہی سارے لوگ ظفر بھائ کے جنازے میں بھی شریک تھے۔۔اور محترم امیر جماعت جناب سراج الحق صاحب نے منور صاحب کی نماز جنازہ پڑھائ اور عشاء میں ظفر بھائ کی نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائ۔۔۔۔. . ایں سعادت بزور بازو نیست۔۔۔.
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب گناہ گاروں کو بھی اپنے ان پیاروں کے ساتھ اپنی جنتوں میں ملوائے۔۔آمین ثمہ آمین۔