وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ حکومت نے قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری نہیں کرنی، نجکاری فہرست میں پی آئی اے شامل نہیں بلکہ ہمیں اس کی تشکیل نو کرنی ہے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈی والا کی سربراہی میں ایوان بالا کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیر ہوابازی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے اسناد کی تصدیق کا عمل شروع ہوا تھا جس کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے اپنے طور پر پائلٹ لائسنسز پر بھی کام شروع کیا اور جب تصدیق اور انکوائری کی گئی تو بہت سارے پائلٹس کے لائسنسز مشکوک پائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پائلٹس کو شوکاز نوٹس دیا گیا، چارج شیٹ دی گئی، ان کو ذاتی حیثیت میں سماعت کے لیے بلایا گیا اور کچھ نے تو اعتراف بھی کیا جن کی تعداد کافی زیادہ تھی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جس کے بعد فروری 2019 میں 22 گریڈ کے افسر کی سربراہی میں ایک تحقیقات بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں آئی ٹی کے ماہرین بھی شامل تھے، انہوں نے مزید کہا کہ امتحان کا نیا طریقہ کار 2020 میں متعارف کروایا گیا ہے۔
وزیر ہوابازی نے کہا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ پائلٹس نے امتحان دینے میں غلط طریقہ اختیار کیا تھا، جس کے بعد فرانزک انکوائری ہوئی اور ایک سال 4 ماہ لگے، جس کے بعد ایوی ایشن ڈویژن کو رپورٹ جمع کروائی گئی، وزیراعظم کو بریف کیا گیا اور 262 پائلٹس کے لائسنسز مشکوک ہیں۔انہوں نے کہا کہ غلط طریقے سے کوئی دستاویز حاصل کیا جائے تو اسے جعلی سمجھ کر منسوخ کیا جاتا ہے لہذا تمام کارروائیوں کے بعد جب 28 پائلٹس پر یہ ثابت ہوگیا کہ انہوں نے غلط طریقے سے لائسنس لیے گئے تو وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد ان کے لائسنسز منسوخ کیے گئے۔