اشتہار بازی آج کل ایسے ہی ہے جیسے کبوتر بازی۔ جس طرح کبوتر باز اپنے کبوتروں کے زریعے دوسروں کے کبوتروں کو دانہ ڈالتا ہے اور پھنساتا ہے۔ اور آآ آ کی صدا لگاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کیلیے ماڈل گرل کی طرح اپنی کبوتری کا بھی استعمال کرتا ہے۔ یہی حال آج کل کی اشتہار بازی کا بھی ہے۔ جسے عرف عام میں مارکیٹنگ کہا جاتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں اور قسمیں ہیں۔ اس کیلیے اخبارات و رسائل یعنی پرنٹ میڈیا۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا۔ بل بورڈز وغیرہ اور انسانی رابطوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ایک چورن والا کسی بس میں چڑھ کر مسافروں پر طبع آزمائ کرتے ہوئے آواز لگاتا تھا کہ بھائیوں ہر مرض کا علاج دو گولی سلیمانی چورن۔ گولی ہضم۔ کھیل ختم۔ پتہ نہی کھیل سے اس کی کیا مراد ہوتی تھی۔ ہم تو سمجھتے ہیں اس سے اس کی مراد مریض شقیقہ اور رفیقہ اور جملہ امراض کمزورئ جسم و جان ہے۔
اسی طرح اگر آپ کا گزر گرمیوں میں شاہراہ فیصل سے ہو تو آپ ڈرائیونگ پر چار حرف پڑھ کر ان تمام بل بورڈز سے لطف اندوز ہونگے جو دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جس میں کوِئ نہ کوئ حسینہ کسی نہ کسی لان کے سوٹ میں پتہ نہی کس کے لان پر پڑی ہوتی ہیں۔ اور بعض اوقات تو لان کا سوٹ ماڈل پر کم اور لان پر زیادہ یا ہوا میں لہراتا دکھاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر آپ حادثہ سے بچ جائیں تو آپ کا ڈرائونگ لائسنس پکا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کوئ حسینہ بلیڈ کے اشتہار میں نظر آتی ہے اور کسی نوجوان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہتی ہے “واٹ اے شیو”
اب بھلا بتائے بلیڈ اور مرد کے شیو سے خاتون کا کیا تعلق۔ مگر نہیں ان کو تو کسی نہ کسی طرح اپنی پروڈکٹ کو بیچنا ہے چاہے قوم کے اخلاق اور مزاج کا ستیاناس ہی کیوں نہ ہو جا ئے۔
ایک وقت تھا ہم لوگ کالجوں اور یونیور سٹیوں تک پہنچ جاتے تھے مگر ہمیں بہت سی باتوں کا علم نہی ہوتا تھا جب تک کہ ہماری شادیاں نہ ہوجاتیں۔ مگر آج یہ عالم ہے کہ آگاہی کے نام پر سب کچھ کھول کھول کر بتایا اور دکھایا جارہا ہے۔ ایسے ایسے اشتہار دکھائے جارہے ہیں اور اچانک سے چلادئیے جاتے ہیں عین پروگرام اور خبر نامے کے بیچ میں کہ فوراً چینل بدلنا پڑتا ہے۔ قارئین آپ سمجھ دار ہیں۔ سمجھ ہی گئے ہونگے۔ اس سے زیادہ ہمارا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ اب دیکھیں کہ جو بات ہم لکھ نہیں سکتے وہ کھلے عام دکھائ جارہی ہے۔ اب اس سے زیادہ مارکیٹنگ کیا ہوگی کہ چند ٹکوں کی خاطر نسلیں خراب کی جارہی ہیں۔ اور ہم اس کے بھیانک نتائج اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
کیا ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کی رہنمائ نہیں کرسکتیں جب کہ وہ سالوں سے کرتی آرہی ہیں۔ جبکہ یہ اشتہار نہیں ہوتے تھے تب بھی بچوں اور بچیوں کو والدین کی طرف سے ضروری آگاہی دی جاتی تھی۔ لیکن اب اس طرح کی اشتہار بازی نے نور مقدم جیسی کہانیوں کو جنم دیا ہے۔ میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کو تقویت دی ہے۔ اگر حکومت نے ایسی اشتہار بازی کو نہ روکا تو خدا نخواستہ ہماری آنے والی نسلیں بے حیائ اور بے حودگی کے گڑ ھے میں نہ جا گریں۔
آپ کپڑوں کی دوکانوں پر دیکھیں گے کہ کوئ اچھا خاصا مونچھوں والا ہٹا کٹا نوجوان ساڑھی لپیٹ کر کہتا ہے ” بی بی جی کیسا؟؟”۔ اور بی بی جی سوچ میں پڑ جاتی ہیں کہ ساڑھی کی تعریف کروں کہ نوجوان کی۔ اسی طرح ایک دفعہ کا زکر ہے ایک خاتون کپڑوں کی دوکان میں گھس گئیں۔ اور کپڑے دکھانے کی فرمائش کردی۔ ظاہر ہے دوکاندار کو تو مال بیچنا ہے۔ اس نے تھان پر تھان کھول کر ڈھیر لگادیا۔ کوئ آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد دوکاندار نے پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے اور گھگھیائے ہوئے انداز میں خاتون سے معزرت کی کہ ان کی پسند کو نہ پہنچ سکا۔ جس پر خاتون نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ” کوئ بات نہیں۔ ویسے بھی میں تو سبزی لینے جارہی تھی”۔ دوکاندار کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا۔ ظاہر ہے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
اب آپ نظر ڈالیں۔ ڈاکٹروں۔ میڈیکل نمائندوں اور دواساز کمپنیوں پر۔ جو مارکیٹنگ کا ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔ ان تینوں کا ایسا مافیا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ میڈیکل نمائندہ ڈاکٹروں کو گھیرتا ہے تاکہ ڈاکٹر اس کی کمپنی کی دوائیں ضرورت یا بلاضرورت ضرور لکھے۔ ڈاکٹر بھی پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے تاکہ اپنا کمیشن پکا کرسکے۔ اور کمپنیاں اپنی دن دونی رات چوگنی ترقی کیلیے کبھی ڈاکٹر کو معہ فیملی دنیا کے سیر سپاٹے پر بھیجتی ہیں۔ کبھی فارم ہاوسز میں پکنک کراتی ہیں۔ کبھی زیادہ سے زیادہ کمیشن سے نوازتی ہیں۔ تو کبھی نئی نویلی چم چم کرتی گاڑیاں دیکر لبھاتی ہیں۔ ان حالات میں مریض بے چارہ جائے تو کہاں جائے۔ ایسے میں مریض کیلیے صرف قبرستان ہی جائے پناہ رہ جاتی ہے مگر بقول شاعر
۔۔۔ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
وہاں بھی بغیر کمیشن اور کھلائے پلائے بغیر کوئ کام نہیں ہوتا۔ قارئین آپ تو واقف ہیں اور جو نا واقف ہیں۔ ان کے لیے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ مر کے دیکھیں۔ لگ پتہ جائے گا۔
یہی حال اسپتالوں۔ ڈاکٹروں۔ ایمبولینس والوں اور لیبارٹریوں کا ہے۔ کوئ کسی ڈاکٹر کے پاس چلا جائے پھر دیکھیں یہ گول چکر کیسے چلتا ہے۔ ڈاکٹر بضد ہوتا ہے کہ جو ٹیسٹ اس نے لکھے ہیں وہ اس کی پسندیدہ لیباریٹری سے ہی کروایا جائے کیونکہ وہاں اس کا کمیشن بندھا ہے۔ اسی طرح مریض کو اپنی پسند کے اسپتال بھی بھیجا جاتا ہے۔ تاکہ وہاں سے کمیشن لیا جاسکے۔ بلکہ اب تو ایک چھوٹا اسپتال کسی بڑے اسپتال کو مریض بیچ دیتا ہے اور مرض کی نوعیت کے مطابق طے شدہ ریٹ پر سودا پکا ہوجاتا ہے۔ اب آپ ایمبولینس کے کرتوت دیکھیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے کرونہ کے مریض کو ایک اسپتال نے لینے سے انکار کردیا تو ایمبولینس کے ڈرائیور نے ہمیں پیشگی تسلی دی کہ آپ کو ہم ایک اور اسپتال لے چلتے ہیں وہاں داخلہ مل جائے گا۔ اور واقعی وہاں داخلہ مل گیا۔ مگر چلتے چلتے اس نے ہم سے فون نمبر مانگا ہم نے بھی سوال نہ کیا۔ اور اخلاقاً نمبر دے دیا کہ اس نے ہمارے کرونہ کے مریض کو داخلہ جودلوایا تھا۔ بعد میں اس نے فون کرکے ہم سے تصدیق کی کہ ہم اسی اسپتال میں ہیں یا نہیں۔ تاکہ اسپتال سے اپنا کمیشن پکا کرسکے۔ اور اسپتال اسے گولی نہ دے سکے کہ بھئی آپ کا مریض تو کسی اور اسپتال چلا گیا تھا۔ اس لیے کس بات کا کمیشن؟؟
ہم دیکھتے ہیں کہ کمپنیوں کا کروڑوں کا مارکیٹنگ کا بجٹ ہوتاہے۔ یہاں ہم حکومت اور اداروں کو بھی مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان سب معاملات کو کنٹرول نہیں کیا بلکہ وہ خود اکثر اس سارے گورکھ دھندے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ہم ایک بہت ہی آسان اور تیر بحدف نسخہ مفت میں تجویز کرتے ہیں کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے جس میں کمپنیوں کو پابند کرے کہ جو بجٹ وہ اپنی مارکیٹنگ پر خرچ کرتی ہیں۔ وہی بجٹ مارکیٹنگ کے بجائے اپنی پروڈکٹ کو بہتر سے بہتر بنانے اور سستی کرنے پر خرچ کرے۔ یقیناً جو چیز مارکیٹ میں بہتر ہوگی اور سستی ہوگی وہ خود بخود بکے گی۔ اس کیلیے مارکیٹنگ کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور مارکیٹ میں ایک صحت مندانہ رجحان قائم ہوگا اور بالآخر عوام کو اس کا فائدہ ہوگا۔ اور لوگوں کی زندگی آسان ہوگی۔
مگر حکومت ایسا کیوں کرے۔ وہ تو خود پی ٹی وی اور دیگر سرکاری اخبارات کے اشتہارات سے کما رہی ہے۔ اور نجی اخبارات اور ٹیوی چینلز کو ان ہی اشتہارات کی بندش سے پابند کرتی ہے اور اپنا ہمنوا بناتی ہے۔ لفافہ صحافیوں کو خریدتی ہے۔ اور بہت کچھ عوام کی خدمت کے کام کرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ملک تین کاف پر چل رہا ہے۔ کمیشن۔ کرپشن اور کک بیکس۔ ایسے میں ہم کیوں عوام کے غم میں دبلے ہوں۔ ہمارا کام تو حکومت کی تعریف کرنا ہے اور اس کے کارناموں پر زمین آسمان کے قلابے ملانا ہے۔ عوام کو چاہیے۔کہ خود بھی کچھ کرلیں۔
یہاں اسلامی تجارت کے چند بنیادی اصول مفاد عامہ کیلیے بیان کرتا ہوں جو کہ ان شاء اللہ کارو بار کرنے والے حضرات کیلیے مفید ثابت ہونگے۔
۔۔ مال بیچتے وقت جھوٹ سے پر ہیز کریں۔
۔۔ مال کا نقص خریدار کو ضرور بتائیں۔
۔۔ بیچا ہوا مال واپس لینے میں نہ ہچکچائیں۔
۔۔ ترازو میں مال پورا تولیں۔ ڈنڈی نہ ماریں۔
۔۔ قیمت اور منافع مناسب رکھیں۔
۔۔ گاہک سے اخلاق سے پیش آئیں۔
۔۔ ایمانداری اور صحتمند رجحانات کو فروغ دیں۔
۔۔ کسی سے مقابلہ نہ کریں۔ ہر ایک کا رزق مقرر ہے
۔۔ ضرورت مند کو ادھار بھی دے دیا کریں۔
۔۔ صدقہ و خیرات بھی کرتے رہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد مارکیٹ میں آپ کی ساکھ اچھی ہوجائے گی۔ گاہکوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور آپ کے کاروبار میں بھی برکت اور ترقی ہوگی۔ جس طرح قرون اولٰی کے مسلمانوں نے صرف تلوار یا اپنی بہادری اور قربانیوں سے ہی ملک فتح نہیں کئے بلکہ بہت سے ایسے ملک بھی ہیں جن کو مسلماں تاجروں نے اپنی ایمانداری اور کردار و اخلاقی رویوں سے فتح کیا جہاں کوئ لشکر نہیں گیا۔ ان میں انڈونیشیا اور جزائر وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں مسلمان تاجر کشتیوں پر تجارت کرنے گئے تھے اور ان کی ایمانداری دیکھ کر پورا جزیرہ مسلمان ہوگیا۔
تو صاحبوں۔ اب ہم چلتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔