ADVERTISEMENT
میں نے استنبول کی گلیوں میں
تہذیب وثقافت کے
بہت سے رنگ دیکھے ہیں
مساجد، آبناۓ باسفورس کے کنارے کیف آور زمزمے تقسیم کرتی ہیں
ابو ایوب انصاری کے روضے پرعقیدت مند آنکھیں، آنسؤوں کی ڈور سے اپنی دعائیں باندھ کر چپ چاپ نیلے آسماں کو تکتی رہتی ہیں
یہاں ہر موڑ پر ماضی کی سطوت کے نشاں
آواز دیتے ہیں
محلات و مقابر عظمتٍ رفتہ کے سندیسے سناتے ہیں
مٌیں داتا گنج بخشٍ مظہرٍ نورٍخدا کے شہر میں سوتا ہوں
لیکن آنکھ کھلتی ہے تو خود کو قونیہ کے قلب میں اقبال کے مرشد کے قدموں میں کھڑا محسوس کرتا ہوں