ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اتوار 21 فروری 2021 کی شام بعد مغرب رباط العلوم لائبریری عالمگیر مسجد بہادر آباد کے پرسکون ماحول میں ایک خوبصورت محفل منعقد ہوئی۔ جس میں کرونا کے حوالے سے سماجی فاصلے کا خیال رکھا گیا تھا۔ دراصل یہ محفل بزم شعر و سخن کے سالانہ انتخابات کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی جس میں کراچی شہر کے اہل علم شاعر اور ادیب اور علمی ذوق رکھنے والوں کی ایک کہکشاں آسمان سے اتر آئی تھی۔
ہمیں اس محفل میں شرکت کی دعوت بھائی سرفراز عالم جملانی نے دی تھی اور دعوت نامے میں جملالی صاحب نے ایسے ایسے جملے استعمال کیے کہ اس ناچیز کے لیے انکار کرنا ناممکن ہو گیا ہمیں انہوں نے اس الیکشن کی محفل میں مبصر کے طور پر بلایا تھا۔
ہم نے ساری زندگی بے شمار الیکشن دیکھے ہیں۔ الیکشن لڑ آئے بھی ہیں اور الیکشن لڑے بھی ہیں۔ اور حسب معمول ہار اور جیت دونوں کا مزہ چکھا ہے۔ ان الیکشنز میں بنیادی جمہوریتوں کے الیکشن۔ ایوب خان اور فاطمہ جناح کے الیکشن۔ 1970 کے الیکشن جس میں ملک دو لخت ہو گیا تھا۔ اس کے بعد 1977 کے الیکشن جس کے نتیجے میں ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا اور بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے. اس کے بعد بے شمار بلدیاتی صوبائی اور قومی الیکشنز دیکھے اور ان میں کسی نہ کسی شکل میں حصہ بھی لیا. جن مین جونیجو صاحب۔ نواز شریف صاحب۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ۔ زرداری صاحب اور سب سے آخر مین عمران خان صاحب کے الیکشنز قابل ذکر ہیں۔ اور خاص طور پر کراچی کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے الیکشنز بھی بھگتے۔
مگر مبصر والی ذمہ داری ادا کرنے کی نوبت کبھی نہ آئی تھی۔ پہلی دفعہ مبصر بننے کے شوق میں یوں لگ رہا تھا جیسا کسی ملک کے الیکشن ہیں اور ہمیں اقوام متحدہ کی نمائندگی کرنی ہے اور دنیا کو یہ بتا نا ہے کہ الیکشن انتہائی صاف و شفاف اور پر امن ہوئے ہیں یا پھر اس کے بر عکس رپورٹ دینی ہے۔ اسی شش و پنج میں جب ہم موقع واردات پر پہنچے تو ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی پہلے تو خیال آیا کہ شاید ہم کسی غلط جگہ پہنچ گئے ہیں۔ ہم حیران تھے نہ تو یہاں کوئی شور شرابہ ہے نہ ہی کوئی بینر لگے ہوئے ہیں نا ہی زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہیں نا ہی لا وڈ سپیکروں کی گھن گھرج ہے۔ نا پولیس ہے نا ہی فوج اور نہ ہی رینجرز۔ سچ پوچھئے تو ہمیں یہ الیکشن بالکل پھیکے پھیکے سے لگے۔ بھلا یہ بھی کوئی الیکشن ہوئے جس مین کوئی دھینگا مشتی ہی نہ ہوئی۔ دل کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔
. . دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے۔
یا اللہ یہ کیسے الیکشن ہیں۔ نا تو کوئی امیدوار ہے۔ نا ہی کوئی تائید کنندہ ہے۔ نہ ہی کسی کی کنویسنگ ہو رہی ہے۔ نہ ہی ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ اور تو اور ہمیں تو دور دور تک کوئی خلائی مخلوق بھی نظر نہیں آئی۔ نا ہی دھینگا مشتی ہوئی۔ نا ہی ووٹ کے تھیلے چوری ہوئے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے اہلکار غائب ہوئے۔ یہاں تک کہ پولنگ اسٹیشن بھی صحیح سلامت رہے اور آگ کی نذر ہونے سے بچ گئے۔ افسوس کے دھند بھی نہی تھی۔ اب اس سے زیادہ صاف و شفاف پر امن اور عین شریعت اسلامی کے مطابق الیکشن ہونے سے رہے۔
اس کے باوجود صدر۔ سیکرٹری جنرل اور مجلس منتظمہ با آسانی منتخب ہو گئیں۔ اہم بات یہ تھی کہ ہر ووٹر اپنے علاوہ کسی کو بھی ووٹ دے سکتا تھا۔ حد تو جب ہوئی کہ سیکرٹری جنرل صاحب ملک سے باہر ہونے کے باوجود منتخب ہوگئے۔ چونکہ اس الکشن کی تفصیلی روداد بہت سے دیگر حضرات مثلاً تنویر سخن۔ حمود الرحمن اور بھائ سرفراز عالم صاحب پہلے ہی طشت از بام کر چکے ہیں اس لیے ہم تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اور مزید روشنائی ڈالنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
اور کانوں کو۔ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ آئندہ ایسے کسی الیکشن میں مبصر نہی بنیں گے جہاں کہنے کو کچھ بچا ہی نہ ہو۔ البتہ اس بزم سے ہمارے اور بہت سے رشتے ہین۔ مثلاً مرحوم اسلام الدین ظفر بھائی جو اس کے روح رواں تھے اور کورونا کی وباء کے ابتدائی زمانے میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ہمارے یار غار تھے اور ہم گناہ گاروں کو اتنی خوبصورت بزم دے گئے۔ اب اس بزم کی آبیاری ہم سب کو کرنی ہے یہ ظفر بھائی کی امانت ہے۔ اس بزم کے بہت سے ایسے احباب بھی ہیں جن سے ہمارا محبت اور احترام کا رشتہ پہلے سے ہی قائم ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ بزم شعر و سخن کی خوشبو سے ہمارا یہ شہر یہ ملک اور یہ گلشن ہمیشہ مہکتا رہے۔ اور آنے والی پیڑھی کو ادب آداب۔ شعر و سخن۔ تہزیب و شائستگی۔ اور پیار و محبت کے نغمے بکھیرنے کا موقع ملتا رہے۔ آمین ثمہ آمین۔