جنابِ شمس الرحمٰن فاروقی اردو تنقید و ادب کا ایک مکمل دبستان ہیں۔ اُن کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے کلاسیکی اور قدیم متون پر ڈھیروں ڈھیر کام کرنے کے باوجود اپنے کام کو فرسودگی سے بچایا اور جدید دور کی چکا چوند سے پورے طور پر متصل ہونے کے باوجود اندلمانی تہذیب اور مشرقیت کو قربان نہیں ہونے دیا۔ پون صدی پر محیط اُن کی ادبی زندگی کے کسی بھی دور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دونوں گن اُن کی ہر تحریر میں منہ سے بولتے ملیں گے، بھلے وہ شاعری ہو، تنقید ہو، تحقیق ہو، ادارت ہو، خطوط اور اُن کے جواب ہوں، اصلاحِ زبان ہو، یا خدا رکھے، فکشن ہو۔
برس دن گزرے، اُن کے ایک مضمون میں یہ جملے پڑھے جو مجھے آج تک حفظ ہیں: “شعر کو قائم ہونے اور صحیح یعنی valid ہونے کے لیے سیاست، یا تاریخ، یا شاعر کی سوانح عمری، یا غیر ادبی اصولوں (مثلًا شاعر کے زمانے کے سماجی حالات) کو معرضِ بحث لانا ضروری نہیں، بلکہ اکثر یہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن شعر کو قائم اور صحیح ہونے کے لیے اُس کی ادبی روایت، اُس کی ادبی تہذیب، اور اُس کو پیدا کرنے والی تہذیب کے تصورِ کائنات (Worldview) کو جانے بغیر ہم شعر کو سمجھ ہی نہیں سکتے، اُس کا قائم ہونا یا صحیح ہونا تو دور کی بات رہی۔ اِس بات کو ہم اب بھی پوری سمجھ نہیں پائے ہیں۔”
میرے مطالعے کی حد تک شمس الرحمٰن فاروقی پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مروج لفظیات اور محاورے (Current Idiom) میں حالی کے تنقیدی خیالات کی اِس قدر وضاحت سے تشریح کی ہے۔ مجھے اُن سے پہلے کوئی ادیب و نقاد نظر نہیں آیا جس نے “ادب پیدا کرنے والی تہذیب کے تصورِ کائنات” کا ذکر کیا ہو، عام اِس سے کہ یہ خیال نادر نہ ہو۔
فاروقی صاحب بنیادی طور پر نقاد تھے۔ تنقید اُن کے رگ و پے میں اتری ہوئی تھی۔ یہاں میری مراد اُس تنقید سے ہے جو درست لفظی اور ٹھیٹ اصطلاحی معنی میں تنقید ہے۔ یہ وضاحت اِس لیے ضروری ہے کہ ہمارے دور تک آتے آتے تنقید اور تنقیص کا فرق مٹ چکا ہے۔ میں نے جنابِ شان الحق حقی کی وفات پر مضمون لکھا تو فاروقی صاحب کو بھیجا کہ اشاعت سے قبل اِس پہ نگاہ دوڑا لیں کہ اِس کا پری آڈٹ ہو جائے۔ اُنھوں نے جواب میں لکھا کہ یہ بہت اچھی عادت ہے کہ اشاعت سے پہلے مضمون کو ریفری کرا لیا جائے۔ مزید لکھا کہ میں اپنی تحریر کو اشاعت سے قبل خود اِس نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ ادب کے لیے کس قدر ضروری ہے اور اشاعت کے بعد کتنا عرصہ زندہ رہ سکے گی۔ چنانچہ میں فاروقی صاحب کو نقاد یا تنقید نگار کہنے سے اِس لیے جھجھکتا ہوں کہ تنقید و نقاد کے الفاظ ہمارے ہاں تقریبًا ویسے ہی مذاق بن چکے ہیں جیسے دانشور کا لفظ۔ میرے بھانویں فاروقی صاحب اردو کے اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن کی تنقید کو کلاسیکی معنی میں Criticism اور Review کہا جاسکتا ہے۔ اپنے اِن دونوں دعووں کی دلیل میں میں “اردو لغات اور لغت نگاری” اور “ساحری، شاہی، صاحبقرانی” کو پیش کرسکتا ہوں۔
اِسی طرح ایک بار میں نے پوچھا کہ آپ کی ادبی تگاپو کی کئی جہتوں میں سے اگر تنقید کو بنیادی جہت تسلیم کیا جائے تو کیسا ہو؟ فرمانے لگے کہ میں دل کی گہرائی سے تسلیم کرتا ہوں کہ تخلیق کے بغیر تنقید صرف اعتراض ہے اِس لیے میں نے اپنا تخلیقِ ادب والا خانہ کبھی خالی نہیں رکھا (یعنی متواتر لکھتے رہے خواہ اپنے نام سے شائع نہ بھی کرایا)۔ اِس بنا پر میں فاروقی صاحب کو اردو کا “پورا نقاد” سمجھتا ہوں۔
ایک بار میں نے پوچھا کہ آپ کے “?How to Read Iqbal” پڑھنے سے سوال پیدا ہوا ہے کہ ادب کو کس طرح پڑھنا چاہیے۔ فرمایا کہ میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ ادب کا جو طالبِ علم میر، غالب، حالی، اقبال اور منٹو کو نہ پڑھے وہ جھک مارتا ہے۔
تنقیدِ ادب کے موضوع پر فاروقی صاحب کی باتوں کی یاد آنے کی سبیل یہ ہوئی کہ پچھلے ہفتے “مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی” ہمدست ہوا۔ اِسے جستہ جستہ دیکھا تو اطمینان ہوا کہ جنابِ حمید شاہد نے فاروقی صاحب کو تخلیقِ ادب کے روزن سے دیکھا ہے اور پوری دیانتداری سے اپنے تفصیلی مطالعے کا ٹھاٹھر پھیلایا ہے۔ یہ درست ہے کہ “کئی چاند تھے سرِ آسماں” کی اشاعت اور بڑے پیمانے پر اِس کے استقبال نے فاروقی صاحب کو تخلیقِ ادب/ فکشن کے میدان میں مرکزی جگہ دے دی تھی لیکن یہ مطالعہ ابھی باقی تھا کہ اردو میں یہ تاریخ ساز ناول “اچانک” کیسے لکھا گیا، اور ایک آدمی جو شاعر و نقاد اور ادبی رسالے کے مدیر کی hard-earned اور گمبھیر شناخت رکھتا ہے اُس کا تقابل اچانک جیمس جوائس، چارلس ڈکنس اور ہیمنگوے وغیرہ کے ساتھ کیوں ہونے لگا ہے۔ “مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی” میں شامل افسانے، ناول، ڈرامے اور تراجم وہ پورا منظر نامہ تخلیق کرتے ہیں جس نے مختلف قلمی ناموں سے فکشنی نگارشات پیش کرتے فاروقی سے بالآخر “کئی چاند تھے سرِ آسماں” لکھوایا۔ اِس بارے میں کوئی دورائی نہیں کہ “کئی چاند تھے سرِ آسماں” مابعد نوآبادیاتی دور میں اردو کا سب سے بڑا ناول ہے جو فاروقی صاحب کے کلاسیکی ادب کے اُس مطالعہ و تفہیم کا زائیدہ ہے جو نصف صدی اُن کے اندر پرنیں لیتا رہا ہے۔ اِس مجموعے میں اِس ناول کے صرف ابتدائی ابواب ہیں جب کہ باقی وہ تمام فکشن ہے جس کے خالق نے یہ ناول پیش کیا۔ اردو دنیا کو اِس عطا کے لیے جنابِ حمید شاہد کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
جنابِ حمید شاہد نے “مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی” کی جمع آوری میں جو کاوش کی ہے اُس کی تفصیل بہت دلچسپ ہے۔ اُنھوں نے بتایا ہے کہ بعض افسانے نیز “دلدل سے باہر” نام کا ایک ناولٹ ابھی اُنھیں ہمدست نہیں ہوا جو آج سے 70 سال قبل شائع ہوا تھا۔ امید ہے کہ یہ افسانے اور ناولٹ اِس مجموعے کے اگلے ایڈیشن میں شامل ہوسکیں گے تاہم اِن کے بغیر بھی فاروقی صاحب کی فکشن کی تفہیم کے تمام ہی موضوعات اِن تحریروں میں موجود ہیں۔ فاروقی صاحب کا مقام اردو تنقید میں اپنی جگہ قائم تھا اور ہے لیکن اب اُن کا دوسرا مقام اردو فکشن میں بھی قائم ہوگیا ہے۔ عصرِ حاضر میں اردو میں دور دور تک ایسی متنوع قابلیت کا کوئی ادیب نظر نہیں آتا۔
بک کارنر جہلم نے “مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی” میں فاروقی صاحب کا (“کئی چاند تھے سرِ آسماں” کے علاوہ) سارا فکشن پیش کرکے تفہیم و تنقیدِ فاروقی کے لیے آسانی کر دی ہے۔ اردو ادب کے ہر سنجیدہ طالبِ علم کو اِس کتاب کو پہلی فرصت میں حاصل کرکے پڑھنا چاہیے۔