یہ 1985 کی بات ہے کہ ہم اپنے آفس کے کام کے سلسلے میں اسلام آباد گئے اور دفتری مصروفیات کی وجہ سے اپنے رشتے داروں سے بمشکل تمام ملاقات کرپائے ان دنوں سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارے ماموں زاد بھائی محترم جناب عبید السلام زینی (نزیر خرم) مرحوم و مغفور کی رہائش تھی۔ ہم ایک رات کے لیے ان کے ہاں بھی رکے۔ گو کہ یہ ملاقات مختصر تھی لیکن ان کے ساتھ محبت اور احترام کا رشتہ مزید مضبوط ہوگیا۔
ہماری ان سے پہلی ملاقات 1983 میں کراچی میں ہوئی جب کہ وہ ہمارے والد صاحب کے انتقال پر تعزیت کے سلسلے میں تشریف لائے تھے ان کا قیام ہمارے گھر پر تقریبا پندرہ دن رہا انتہائی محبت والے اور پر خلوص انسان تھے ہماری سب سے بڑی بیٹی نازیہ مریم ان دنوں ڈیڑھ سال کی تھی اور ہمارے والد صاحب کے ساتھ بہت زیادہ ہل چکی تھی ہم لوگ تو خیر بڑے تھے اور صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مگر اتنی چھوٹی بچی کو دادا کی یاد بھلانا مشکل تھا اتفاق سے نذیر بھائی جان کی شکل اور خاص طور پر داڑھی ہمارے والد صاحب سے بہت ملتی جلتی تھی لہذا ان کے آنے پر نازیہ مریم انہیں کو دادا سمجھنے لگی اور انہیں دا ابو کہہ کر پکارنے لگی نذیر بھائی بھی بہت محبت والے انسان تھے جتنے دن قیام رہا وہ نازیہ کو گود میں اٹھائے پھرتے رہے اور دادا کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ہم سب ان کے حسن سلوک و محبت اور خلوص کے گرویدہ ہوگئے اور جب وہ واپس جانے لگے تو ہم سب نے ان کو بہت یاد کیا خاص طور پر نازیہ کو وہ بہت دن تک یاد آتے رہے۔
والد محترم سے ان کو بہت عقیدت تھی والد کے انتقال پر انہوں نے ایک بہت خوبصورت مرثیہ بھی لکھا تھا جو انہوں نے اپنے ہفت روزہ اخبار “بیباک” مظفرآباد آزاد کشمیر میں یکم اپریل. 1983 کی اشاعت میں شائع کیا تھا۔ جس سے ان کی عقیدت اور محبت ظاہر ہوتی ہے اور شاعری پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس کالم کے آخر میں اس مرثیہ کا عکس بھی موجود ہے۔
ان کی پیدائش 1934 میں انڈیا میں بابری مسجد ایودھیا کے محلے میں ہوئ اور انتقال 54 برس کی عمر میں 26 مئی 1988 کو ہوا گو کہ ہمیں اطلاع بر وقت مل گئی تھی پھر بھی بڑی مشکل سے PIA کی نائٹ کوچ میں جگہ مل سکی اور ہم اپنی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صبح 4 بجے ان کے گھر پہنچے۔ تدفین ہوچکی تھی۔ لہٰزا صبح ہوتے ہی ہم سب نے ان کی قبر پر حاضری دی۔اور ان کے حق میں دعائیں کیں۔ ان کی شادی 1976 میں ہوئ۔ ان کا سسرال گوجر خان راولپنڈی میں تھا۔ لواحقین میں انہوں نے ایک بیوہ اور چار بیٹیان چھوڑیں۔ اور بہت ساری کتابیں۔جن میں خود ان کی کتاب ” اسلامی صحافت ” اور مجموعہ کلام ” کرب تمنا ” کے نام سے چھوڑا۔ مجموعہ کلام ” کرب تمنا ” کا انتساب اپنی والدہ مرحومہ کے نام کیا۔
سر پہ جب تک آپ کا سایہ تھا اندازہ نہ تھا
اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ کیا جاتا رہا
ان کی اہلیہ نے ان کی کچھ کتابیں ہمیں ہدیہ کیں جو آج بھی ہمارے زاتی کتب خانے کی زینت ہیں۔ اسلامی صحافت کے نام سے ان کی کتاب جو انہون نے خود اپنے آٹوگراف کے ساتھ ہمیں ہدیہ کی تھی آج بھی ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہے۔
ہم نے ان کے حالات زندگی سے آگاہی کیلیے ان کی سب سے چہیتی بھانجی جسے وہ پیار سے گڑیا کہتے تھے اور جو ان کی خواہش کے مطابق ہمارے بھانجے کے نکاح میں آئیں۔ انتقال کے بعد یہ زمہ داری وہ اپنی خواہش کی صورت ہمیں دے گئے تھے۔ جسے اللہ تعالٰی کی مدد سے ہم نے پورا کیا۔ خیر بھانجی صاحبہ فرماتی ہیں کہ
” وہ نہ صرف بہت اچھے شاعر تھے بلکہ ساری زندگی میدان صحافت میں گزاری اور راولپنڈی اور اسلاآباد کے کئی اخبارات میں کام بھی کیا۔ بہت اچھے لکھاری تھے۔
جن اخبارات میں کام کیا ان میں نوائے وقت اور جسارت خاص طور پر قابل زکر ہیں۔ آخری سروس ریڈیو پاکستان میں نیوز ٹرانسلیٹر کی تھی۔ مخلص اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ بہت اچھےشاعر بھی تھے ان کا مجموعہ کلام کرب تمنا کے نام سے موجود ہے ایک کتاب اسلامی صحافت کے نام سے بھی لکھی۔ بہت دیندار اصولوں پر کار بند رہنےوالی شخصیت تھی۔ کسی کی بھی غلط بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ منشی فاضل اور ادیب فاضل کیے ہوئے تھے۔ فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی پر بھی مکمل عبور تھا۔
چھ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد بہت سخت حالات سے گزرے۔ زندگی میں بہت محنت کی۔ 501 ورک شاپ میں ملازمت کی وہاں ایک سال تک ان کے افسر نے تنخواہ نہیں دی بلکہ خود وصول کرتا رہا لہزٰا مجبوراً وہ ملازمت چھوڑ دی۔ زندگی میں بہت نشیپ و فراز دیکھے۔ ان کے والد انھیں عالم دین بنانا چاہتے تھے۔ مگر حالات نے انہین شاعر اور صحافی بنادیا۔ ایوب دور میں بی ڈی ممبر کا الیکشن فاطمہ جناح کی طرف سے لڑا صرف ایک ووٹ سے ایوب خان کا امیدوار جیتا۔ “
زینی بھائ نے نوائے وقت , جسارت اور مظفر آباد سے شائع ہونے والے جریدے بے باک میں کام کیا۔ بھٹو صاحب کے دور فسطائیت میں جہاں صحافت کا گلا گھونٹا گیا ان کے جریدے پر بھی پابندی لگ گئی۔ نان جویں کا انتظام کرنے کے لئے کمرشل مارکیٹ سیٹلائٹ ٹاؤن میں حکمت کا دوا خانہ کھولا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی تو دواخانہ بند کر دیا۔ ادب سے بھی گہرا تعلق تھا۔ پہلے بے تاب زینی اور بعد ازاں نذیر خرم کے تخلص سے شاعری کی۔
لاہور میں نصر اللہ خان عزیز مرحوم کی شاگردی میں صحافت سیکھی۔ مدیر تکبیر صلاح الدین شہید, مدیر آئین مظفر بیگ صاحب ان کے قریبی دوستوں مین شامل تھے۔ مشہور صحافی مجیب الرحمن شامی اور سید عبید السلام زینی مرحوم نے اکھٹے نصر اللہ خان عزیز مرحوم سے صحافت سیکھی۔ پاکستان کے مشہور بزرگ صحافی جن کا حال ہی میں انتقال ہوا , سید سعود ساحر مرحوم ان کے قریبی دوست تھے اور ساحر صاحب صحافت میں ان کو اپنا استاد مانتے تھے۔
راولپنڈی اسلام آباد کے ادبی حلقوں میں زینی صاحب کو بہت عزت اور مقام حاصل تھا اور مشاعروں کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ حلقہ ادب اسلامی کے سرگرم رکن تھے۔ نعیم صدیقیؒ کے سیارہ میں ان کا کلام اور مضامین شائع ہوئے۔ ان کی وفات پر مدیر آئین مظفر بیگ کا مضمون بہت اہمیت کا حامل تھا۔ وہ ایک بہت جفاکش , محنتی , مخلص , ہمدرد, خوش گفتار اور ہنس مکھ انسان تھے۔ قدرتی طور پر رعب دار شخصیت تھی۔
ان کی ایک ہمیشیرہ سیدہ عزیز عائشہ زینی مرحومہ سے بہت محبت کرتے تھے اور چھوٹے بھائی محمد احمد خان مرحوم (سوتیلے) المعروف احمد زینی پر جان چھڑکتے تھے . اور دونوں بہن بھائی بھی باپ کی طرح ان کا احترام کرتے اور بے پناہ محبت کرتے تھے۔ دونوں بھائیوں کا تعلق مثالی تھا۔ حلقئہ احباب میں دونوں بھائیوں کے مثالی تعلق کے باعث لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ دونوں سوتیلے بھائی ہیں بلکہ بڑے زینی صاحب اور چھوٹے زینی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔
الحمدللہ ان کی چاروں بیٹیاں تعلیم و تربیت کے بعد شادی شدہ ہیں اور اپنے گھروں میں خوش و خرم ہیں۔ اور اب اپنے بچون کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی بہت دیندار خاتون ہیں اور تحریک اسلامی سے وابستہ ہیں اور درس وتدریس کے زریعے دین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ ہمارا جب بھی راولپنڈی جانا ہوتا ہے تو ہم ان کی خدمت میں ضرور حاضری دیتے ہیں اور ان سے دعائیں لیتے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ عبیدا لسلام زینی (نزیر خرم) صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کے ساتھ خیر و بھلائ اور عافیت کا معاملہ فرمائے۔ آمین ثمہ آمین۔