پی ڈی ایم اتحاد ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان سے زیادہ آصف علی زرداری کی سیاسی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ اسٹبلشمنٹ اور عمران خان نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی تنسیخ ، سندھ حکومت ختم کرنے یا کراچی کو الگ کرنے اور نیب کے ذریعے زرداری اور فریال تالپورکی گرفتاری کے ذریعے شکنجے میں جکڑ لیا تھا چنانچہ زرداری کی کوشش تھی کہ پی ڈی ایم الائنس بناکر حکومت کا مقابلہ کیا جائے کیونکہ یہ بات ماننے کی ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور عمران خان گورنمنٹ حکومت نے تمام اپوزیشن کو تھلے لگا لیا تھا۔ نوازشریف ، شہبازشریف، حمزہ حتیٰ کہ مریم نواز خود بھی جیل چلی گئیں اور کچھ نہ ہوا۔
یہ صرف مولانافضل الرحمان کادھرنا تھا جس نے عمران خان کو پہلا جھٹکادیا اور نوازشریف کے لندن جانے کی راہ ہموار ہوئی۔
دیکھا جائے تو اس وقت ن لیگ کے پاس کھونے کوکچھ نہیں۔ ن لیگ کے پاس پنجاب ہے نہ مرکز، نوازشریف جلاوطن جبکہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں ن لیگ اور مولانافضل الرحمان کو کچھ حاصل ہوسکتا ہے یعنی شراکت اقتدار اور فیئر الیکشن لیکن پی پی کو تحریک کی کامیابی کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ پی پی سندھ کے سوا اب کہیں نہیں جیت سکتی۔
پنجاب اور کے پی میں پیپلزپارٹی ختم ہوچکی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ مریم نواز ازراہ کرم پی پی کو پنجاب میں چند سیٹ دے دیں لیکن اس بات کو پنجابی قوم پرست اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گےتاہم معاملات سیاسی لین دین کے بغیر ممکن نہیں ۔
یوں لگتاہے کہ پی ڈی ایم تحریک کی لیڈرشپ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ رہے گی اور پی پی اسٹبلشمنٹ سے کچھ رعایتیں حاصل کرنے کے چکر میں اس الائنس سے جڑی رہے گی ، بہرحال یہ اتحاد اب سب کی سیاسی ضرورت بن چکاہے کیونکہ ان کا واسطہ ایک سفاک دشمن سے پڑچکاہے۔