جناب وارث صدیقی ممتاز ٹی وی جرنلسٹ ہیں، انھیں ابلاغ عامہ کی تدریس کا تجربہ بھی طویل ہے، ان دنوں وہ امریکا میں ہوتے ہیں، انھوں “آوازہ” کے لیے امریکی انتخابات کے ایک پہلو پر روشنی ڈالی ہے جو اس معاملے کا ایک منفرد پہلو ہے۔
٭٭٭
اب جبکہ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ جانے والے اور جوبائیڈن آنے والے صدر کے طور پر نمایاں نظر آرہے ہیں اور پاکستان جس کے عوام کو امریکی الیکشن سے “نہ لینا ایک نہ دینا دو” کے باوجود سارا الیکٹرانک میڈیا اس کی مقامی الیکشن کی طرح کوریج کرتا نظر آرہا ہے اس موقع پر صدر ٹرمپ کے دور حکومت پر ایک نظر ڈالنا مناسب محسوس ہوتا ہے۔
ٹرمپ کی پہلی کامیابی یہ رہی کہ اس پورے دور میں امریکہ نے کوئی نیا جنگی محاذ نہیں کھولا، چین سے زبانی، کلامی اور معاشی جنگ جاری رہی مگر فوجی حرکت میں نہیں آئے، شمالی کوریا سے امریکہ کا پہلی بار صدور کی سطح پر براہ راست رابطہ ہوا، ایران سے بھی لفظی محاذ آرائی جاری رہی مگر جارحانہ حکمت عملی نہیں اپنائی گئی، طالبان سے مذاکرات کچھ حل کی جانب بھی جاتے نظر آئے، کچھ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے باوجود زبردستی نہیں بلکہ مسلم ممالک کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے اکسایا گیا اور ایک آدھ سے تسلیم بھی کروایا جس کی مثال سوڈان ہے، اس دور میں مسلم ممالک کو اگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تو نقصان بھی نہیں ہوا۔
البتہ پاکستان گذشتہ 20 سالوں کی نسبت سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ یہ پہلی امریکی حکومت تھی جس نے پاکستان سے “Do More” کا مطالبہ نہیں کیا۔ لیکن ڈیموکریٹس کے آنے کے بعد اور ان کے پچھلے طرز حکمرانی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب پاکستان کو Do More کے لئے تیار ہوجانا چاہئے اور کچھ نئے جنگی محاذ بھی وا ہوسکتے ہیں۔