امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج اس وقت ایک آزمائش کا شکار ہیں کیوں کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سامنے آنے والے اعتراضات کے بعد ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے اور کچھ واضح نہی ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں کیا ہو گا۔ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے، ممتاز تجزیہ کار ناصر شہزاد نے اس پر روشنی ڈالی ہے
٭٭٭٭
امریکا کے تہلکہ خیز الیکشن کی ووٹنگ مکمل تو ضرورہوگئی لیکن تنازعات کی نہ ختم ہونےوالی جھڑپیں شروع ہوچکی ہیں جس میں صدرٹرمپ کی جانب سے لیگل جنگ شروع کرنے اور کئی سٹیٹس میں ووٹ شماری رکوانے کے مطالبات سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں کیونکہ ٹرمپ کو امید ہے کہ کوئی ایسا گیم ہوسکتا ہے جیساکہ بش اور الگورکے معاملے میں ہواتھا کہ الگورزیادہ ووٹ لینے کے باوجودصدرنہ بن سکے اورسپریم کورٹ نے بش کے حق میں فیصلہ دیاجس پربش نے آٹھ سال تک صدارت کے چسکے لئے ،ہمیں ہلیری کلنٹن کی مثال بھی سامنے رکھنی ہوگی جس کو تیس لاکھ ووٹ زیادہ ملے تھے اور وہ ڈیموکریٹ کی مضبوط امیدوارتھی ،اس کے باوجود الیکٹرول کالج کی پیچدگیوں نے اسے وائٹ ہاؤس سے دورکردیا ، بہت سے لوگ سرگوشیاں کرتے تھے کہ ہیلری کو پاورمیں نہیں آنے دیاگیاکیونکہ اس کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ٹرمپ اسٹبلشمنٹ کی ضرورت تھا بہرحال ہیلری جیسی مضبوط امیدوارکا آؤٹ ہوناڈیموکریٹس کےلئے بڑا سرپرائزتھا۔
ویسے توالیکشن مہم میں خود ٹرمپ بھی یہ الزام عائد کرچکے ہیں کہ انھیں ہروانے کی سازش ہورہی ہےاوریہ بات وہ امریکی عدالت کی جانب سے ووٹنگ کےاوقات بڑھانے کے احکامات جاری کرنے پر کررہے تھے، دوسری طرف ٹرمپ کو میلنگ ووٹ پربھی اعتراض تھا کہ اس کے ذریعے دھاندلی ہوگی اور رزلٹ بدل دیا جائے گا ، یہی وجہ ہے کہ ری پبلکن میلنگ بیلٹ کےلئے فنڈز دینے میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن آخر میں ڈیموکریٹ بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے جو تقریباً چوبیس ارب ڈالرکا بجٹ تھا۔