الطاف حسین، وہ جس نے خدا کے لہجے میں بات کی اور زمیں بوس ہوا۔طاقت کو”اپنا”ہتھیارسمجھنے والوں کورب بے بس کردیتا ہے، انہیں بدترین زندگی اوربدترین موت کے عذاب سے گزارتا ہے، بائیس اگست پیغام دے رہی ہے کہ سب کچھ عارضی ہے
آج بائیس اگست ہے اور یہ پاکستان باالخصوص کراچی کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے لیکن اس سے بڑھ کر بائیس اگست تنہائی میں بیٹھ کر کچھ سوچنے کا دن ہے ،کیا سوچنے کادن؟ وہ یہ کہ کوئی انسان خدا کی ذات سے بڑانہیں ہوسکتا، خدا انسان کو اقتدار، اختیار اورطاقت دیتا ہے، جب انسان اُسے رب کی دین سے زیادہ اپنی قابلیت اورحق سمجھتا ہے تو پھر بدقسمتی دروازے توڑ کرقسمت پر حملہ کردیتی ہے، جب انسان اپنی شہرت اورعزت کے بل پر قدرت کو للکارتا ہے تو غرور خاک میں مل جاتا ہے، یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے بات کیا ہورہی ہے، بائیس اگست سے پہلے کراچی شہر میں ایک شخص کا سکہ چلتا تھا، ایک شخص کی آواز شہر میں گونجتی تھی، وہ دن کو رات کہتا تو سب “جی بھائی” کہتے، وہ کریلے کومیٹھا، گُڑ کو کڑواکہتا تو سب “جی بھائی” کہتے۔
جرات تھی کہ کوئی ساتھی اختلاف کرکے سرکٹوانے کیلئے تیار ہو؟ چائے کے ہوٹل تودرکنارشہری اپنے گھروں میں بھی اُس شخص کے خلاف لب کشائی کرتے ہوئے ڈرتے، ایسا خوف کا عالم تھا کہ جب نوجوان لڑکے الطاف حسین کیخلاف بولتے تو گھر والے ڈرکرکہتے چپ رہو، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، کتنی ہی ماوں کے بچے قتل ہوئے لیکن وہ خاموش رہیں، اس خوف سے کہ کہیں دوسرے بچوں کونقصان نہ پہنچے، طاقت کا نشہ انسان کا دماغ خراب کردیتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ عہدہ، اختیار، اقتدارسب کچھ عارضی ہے، یاد رکھیں غرور کا سریا گردن سے نکالنے کیلئے پوری کائنات سرگرم ہوجاتی ہے۔ بھائی آخری دنوں میں دوتین گھنٹے سے کم تقریرنہ کرتے اورتمام چینلز بغیر وقفے کے ایک ایک لفظ نشرکرنے پر مجبورہوتے، کسی کی ہمت نہ تھی کہ کوئی بات کاٹ کرسوال کرسکے، بھائی کے سامنے ساتھیوں کی کیا صحافیوں کی آوازیں بھی حلق میں دب جاتیں، بھائی ون ٹو تھری کہتے تو ہزاروں کاہجوم خاموش ہوجاتا، ایسی خاموشی کہ سوئی بھی گرے تو آوازآئے، ون ٹوتھری کی آواز آتے ہی ساتھی موبائل پر میسج لکھنا بند کردیتے، بات چیت بند کردیتے یہاں تک کہ کوئی ساتھی بیت الخلاء کیلئے قدم اٹھاتا اورون ٹوتھری کی صدا کانوں میں پڑتی توقدم وہیں رک جاتے، یہ تمام مناظر صحافیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، بھائی کے حکم پر جان لینے والے بہت سے ساتھی آج اپنی قبروں میں ہیں لیکن بھائی اوربھائی کے ساتھی ہمارے لئے ایک بہت بڑا پیغام چھوڑ گئے ہیں وہ یہ کہ خدا کی زمین پر اکڑ کر مت چلو، خود کو توپ سمجھنے کی غلطی مت کرو، اقتدار، اختیار،طاقت، عزت اورشہرت کو خدا کا عطیہ سمجھو اپناحق نہیں، طاقت کے نشے میں مست ہوکر انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کی غلطی نہ کرو، ورنہ قدرت کی ہرشے تہماری دشمن بن جائے گی۔ وہ شخص جس کی بات سے اختلاف کا مطلب موت تھا، وہ شخص جس کا شہر میں طوطی بولتا تھا، وہ شخص جس کے ایک اشارے پر جلسوں میں قبرستان جیسے خاموشی ہوجاتی تھی، ڈھائی کروڑ کا شہر جس کی انگلیوں پر ناچتا تھا،اب وہ کہاں ہے، آج الطاف حسین کی بہن سائرہ بیگم کا انتقال ہوا لیکن کہیں کوئی خبرتک نہ چلی، اِس وقت بھائی کس حال میں ہیں کوئی نہیں جانتا، جن لوگوں نے ایم کیوایم سے فائدے اٹھائے،متحدہ کے نام پر جائیدادیں بنائیں، عہدے اورشہرت کے جھنڈے گاڑے، آج وہ الطاف حسین کا نام لینے سے ڈرتے ہیں، الطاف حسین کی سوشل میڈیاپر ایسی تکلیف دہ ویڈیوز گردش کرتی ہیں کہ پتھر دل آدمی کو بھی رحم آجائے، ہم اُن کیلئے دعاکرسکتے ہیں لیکن وہ ہمارے لئے ایک سبق چھوڑ گئے ہیں، سبق یہ کہ رب کوعاجزی اور انکساری پسند ہے، ظلم، جبراور ناانصافی کرنے والوں کو قدرت راکھ کردیتی ہے،طاقت کو”اپنا”ہتھیارسمجھنے والوں کورب بے بس کردیتا ہے، انہیں بدترین زندگی اوربدترین موت کے عذاب سے گزارتا ہے، بائیس اگست پیغام دے رہی ہے کہ سب کچھ عارضی ہے، دنیا میں انسان مختصر سا امتحان دینے آیا ہے لہٰذا اختیاراورطاقت کے ناجائز استعمال کی ضرورت نہیں، تکبرکی چادراوڑھنے کی ضرورت نہیں،ورنہ انجام خطرناک ہوگا۔ عاجزی اورانکساری اختیار کریں یہی دنیا سے باعزت رخصت ہونے کا بہترین راستہ ہے۔