شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے بھی گلگت و ہنزہ سے تجارتی راستے چین کی طرف جاتے تھے جن پر تاجر گھوڑوں اور خچروں پر سفر کرتے ہوئے ریشم، مصالحہ جات اور قیمتی پتھروں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ دنیا کے اس قدیم تجارتی راستے کی حفاظت اور اس تجارت پر نظر رکھنے کیلئے مقامی حکمرانوں نے وادی میں جا بہ جا کئی چھوٹے بڑے قلعے بھی تعمیر کر رکھے تھے اور حفاظتی چوکیاں بھی بنا رکھی تھیں ۔ انہی قدیم قلعوں میں سے ایک “اوندرا” کا قلعہ بھی تھا جو وادئ ھنزہ کے گاؤں “گلمت” میں اوندرا نامی پہاڑی کی چوٹی پر سینکڑوں سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قلعہ زمیں بوس ہو گیا اور اب تو اس کی چند باقیات ہی رہ گئی ہیں ۔
پچھلے سال 2020ء میں جب پوری دنیا کورونا وبا کی لپیٹ میں تھی، راستے مسدود تھے اور دنیا بھر کے انسانوں کی طرح گلمت کے باسی بھی اپنے علاقے میں محصور تھے، تو یہاں کے باشندوں نے ایک انوکھے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ٹھانی ، اور یہ منصوبہ تھا نیچے گلمت سے اوپر اوندرا پہاڑ کی چوٹی پر قلعے تک پتھر کی ڈیڑھ ہزار سیڑھیوں کی تعمیر ۔
مٹی اور پتھر کی سلوں سے تعمیر کی جانے والی یہ ڈیڑھ ہزار سیڑھیاں تکمیل کی صورت میں پاکستان کی بلند ترین سیڑھیاں ہو سکتی تھیں اور ان کی تعمیر سے جہاں ایک طرف قلعہ اوندرا کی باقیات سنبھالنے میں آسانی ممکن تھی، وہیں علاقے میں ایک نئی سیاحت فروغ پانے کے امکانات بھی واضح تھے۔ ان سیڑھیوں کے ذریعے بہ آسانی اوندرا قلعے کی بلندی تک پہنچ کر نہ صرف ارد گرد کے بلندوبالا پہاڑوں، سرسبز وادیوں، گلیشیئرز اور ندی نالوں کے حسین مناظر دیکھے جا سکتے تھے، بلکہ یہاں سے ایک ہی نظر میں عطا آباد جھیل، بورتھ لیک، حسینی ولیج اور پھسو کے نوکدار برفانی پہاڑوں کا بھی نظارہ کیا جا سکتا تھا ۔ پھر یہ سیڑھیاں ہائیکنگ و ٹریکنگ کیلئے بھی استعمال ہو سکتی تھیں۔
چنانچہ گلمت کی عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور جوانوں نے مل کر اس دشوار کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ٹھان لی اور گزشتہ موسم سرما میں 1655 قدمچوں (مقامی زبان میں پوئیگاہ Steps) پر مشتمل ارضِ پاک کی اس بلند ترین سیڑھی کی تعمیر کو صرف ایک ماہ میں مکمل کر کے دم لیا۔
13 اگست 2021ء کے چمکتے روشن دن میں ہم بھی گلمت میں ہی تھے ، چنانچہ 100 روپے فی کس ٹکٹ لے کر ہم نے بھی اس سیڑھی پر چڑھنا شروع کر دیا ۔ جیسے جیسے اوپر چڑھتے گئے ویسے ویسے سانس مزید پھولتا اور دل مزید دھڑکتا چلا گیا ۔ کچھ ہی دیر میں بری طرح ہانپ گئے اور یوں لگا جیسے ہزار بارہ سو سیڑھیاں چڑھ آئے ہوں ۔ لیکن جب ایک گزرتے مقامی بزرگ سے فخریہ پوچھا کہ ہم کتنی سیڑھیاں چڑھ آئے ہیں؟ ۔۔۔ تو اس نے چند ثانیے ہمیں غور سے دیکھا، اور پھر بولے:
“چار سو 400”
ہم ٹھٹک کر وہیں کھڑے ہو گئے اور ہانپنا بڑھا دیا۔ پھر بے چارگی سے اوپر جاتی ہزار سے زیادہ سیڑھیوں کو دیکھا، پھر نیچے نظر آتے سرسبز و رنگا رنگ گلمت، مٹیالے دریائے ہنزہ اور برف ٹنکی پھسّو پہاڑیوں کو دیکھ کر وہیں پسر گئے، کچھ تصویریں بنوائیں اور سیدھی شرافت سے واپسی کی سیڑھیوں پر اتر گئے جہاں نیچے چشمے کے کنارے نمبردار سلطان ایوب کے ساتھ گاؤں کے چند بزرگ چائے پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔