ADVERTISEMENT
دنیا میں تجارت کے لئے سکوں کا رواج کافی پرانا ہے۔ کاغذی کرنسی ان کے بعد آئی ہے مگر آج بھی سکے ریزگاری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ سکے کئی قسم کی دہاتوں سے بنائے جاتے ہیں جن میں سونا، چاندی، پیتل، سلور اور نکل وغیرہ شامل ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے بعض دہاتوں کی قیمت، سکے کی قیمت سے زیادہ پڑتی ہے، اس لئے اب سکے ڈھالنے کے لئے سستی دہاتیں استعمال کی جاتی ہیں اور جس جگہ سکے ڈھالے جاتے ہیں اس کو اردو میں ٹکسال کہتے ہیں۔
ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک پر اس کی قیمت اور تاریخ وغیرہ لکھی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب اسے جاری کرنے والے سررشتہ کا نام کندہ ہوتا ہے۔ اردو محاورے میں دو چیزوں میں مماثلت کو بیان کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مطلب یہ کہ فرق کے باوجود کوئی فرق نہیں۔
میں یہاں سکوں کے بارے یہ چیزیں نہیں لکھنا چاہتا تھا مگر یہ خود ہی ذہن میں آ گئیں۔ یہاں میرا مقصد سکوں اور خطاطی کے درمیان تعلق کو بیان کرنا تھا۔ اصل میں سکے اور کاغذی کرنسی دونوں پر بہت خوبصورت ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ ان کا ایک مقصد تو جعل سازی کو مشکل بنانا ہوتا ہے لیکن اس میں فنون لطیفہ کا ذوق بھی شامل ہوتا ہے۔
میرے پاس سو سے زاید ممالک کے سکوں کے نمونے موجود ہیں۔ ان میں سے چند اسلامی ممالک کے کچھ سکے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جن پر مختلف عربی خطوط میں تحریریں کندہ کی گئی ہیں۔ میرے علم کے مطابق خط کے اعتبار سے سعودی عرب کے سکے پہلے نمبر پر ہیں۔ ان پر بہت پہلے زمانے سے خوبصورت خط ثلث لکھا جاتا ہے۔ شاہ عبد العزیز جب اپنے آپ کو “ملک الحجاز ونجد وملحقاتھا” لکھتے تھے، اس وقت سے لے کر اب تک ان پر ثلث کے سوا کوئی دوسرا خط بہت کم لکھا گیا ہے۔ 2016 میں سعودی تاریخ میں پہلی بار سکے پر بادشاہ کی تصویر کندہ کر کے سکہ دو رنگوں میں جاری کیا گیا۔ اس سے خطاطی کی جگہ بہت کم ہو گئی۔ چنانچہ خط تو اب بھی ثلث ہی ہے لیکن اس کی خوبصورتی میں فرق آ گیا ہے۔
عرب امارات کے سکوں پر عربی زبان کمپیوٹر کے سادہ خط نسخ میں لکھی جاتی ہے۔ اس میں جمالیاتی پہلو ناپید ہے جبکہ یمن کے جدید سکوں پر خط کوفی کو توڑ مروڑ کر لکھا گیا ہے جس سے ایک طرح کا بے ڈھنگا پن پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے مقابلے مصر کے سکوں پر خط ثلث بہت خوبصورت کندہ ہے مگر مصر کے شاہ فاروق کے زمانے کے ایک سکے پر تو خط ثلث کی خوبصورتی کی حد ہو گئی ہے۔
عراق چونکہ عربی خطاطی کا ایک اہم مرکز ہے اس لئے اس کے سکوں پر بھی جمالیاتی چھاپ ہے اور صدام کے زمانے کے سکوں پر خوبصورت خط ثلث لکھا گیا ہے۔ عراق کے ساتھ شام میں بھی عربی زبان اور خطاطی کا بڑا چلن ہے۔ اس کے سکوں پر خط کوفی لکھا گیا ہے۔ خوبصورت ہے۔
مغرب کی طرف جائیں تو الجزائر کے سکوں پر خط مغربی لکھا گیا ہے۔ یہ خط اسلامی دنیا کے دوسرے حصوں کے لئے اجنبی یے۔ اس لئے نامانوس ہونے کی وجہ سے بظاہر خوبصورت نہیں لگتا لیکن اس کا اپنا ایک جمالیاتی رخ ضرور ہے۔ اس خط میں ف اور ق پر ایک ایک نقطہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ ف کا نقطہ نیچے اور ق کا نقطہ اوپر ہے۔
روایتی طور پر ایران خط نستعلیق کا مرکز اور منبع مانا جاتا ہے۔ اس لئے ایرانی سکوں پر خط نستعلیق لکھا ہوتا ہے۔ رضا شاہ پہلوی اور اس کے بعد بھی سب سکوں پر نستعلیق ہی لکھا جاتا ہے۔ ایران کے ساتھ واقع ملک افغانستان کے سکوں پر پشتو زبان خط نسخ میں لکھی جاتی ہے۔ ویسے بھی عام چلن میں پشتو کا رسم الخط نسخ ہی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایران میں اخبارات ایک نہایت بھدے خط میں چھپتے ہیں جبکہ کتابیں بھی عام طور پر نسخ میں چھپتی ہیں۔
افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان میں نستعلیق کا جتنا چلن ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ہو۔ یہاں اردو اخبارات اور کتابوں میں نستعلیق ہی مستعمل ہے جبکہ کسی زمانے میں پریس میں نسخ بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کے سکوں پر اردو زبان عام طور پر خط نستعلیق میں لکھی جاتی ہے۔ شروع کے زمانے میں یہ خط بہت بھدا تھا۔ اس کی وجہ شاید جدید تیکنالوجی کی عدم دستیابی ہوگی۔
اس کے بعد “حکومت پاکستان” کے الفاظ کا خوبصورت طغرا بھی استعمال میں رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش 1971 میں بن گیا تھا لیکن 1974 میں بھی پاکستان کے سکوں پر بنگالی بدستور لکھی جاتی تھی۔ بنگالی کا اپنا رسم الخط ہے جو دیوا ناگری سے ملتا جلتا ہے اور بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے۔
پاکستان کے سکوں پر کسی زمانے میں بہت خوبصورت نستعلیق بھی لکھی گئی ہے لیکن مشرف کے زمانے کے بعد اس نستعلیق سے صفت نستعلیق نکال دی گئی یے۔ 1974 میں لاہور اسلامی سربراہی کانفرنس کے یادگاری سکے پر کئی خطوط لکھے گے ہیں۔ ان میں کوفی مربع، نستعلیق اور نسخ شامل ہیں۔ 1980 میں نئی اسلامی صدی کے آغاز پر جو سکے جاری ہوئے، ان کی ایک جانب “الہجرۃ” کا لفظ بہت خوبصورت ثلث میں اس طرح لکھا گیا تھا جس سے سکے کا ایک رخ بھرا ہوا ہوتا تھا۔
اس کے بعد بھی کئی طرح کے اور بھی یادگاری سکے ڈھالے گئے جن میں سب سے مشہور عبد الستار ایدھی کی وفات پر جاری ہونے والا سکہ تھا۔ اس پر بھی خط نستعلیق لکھا گیا ہے لیکن زیادہ خوبصورت نہیں۔
پرانے سکوں میں حیدر آباد دکن کے سکے کا ایک رخ جس پر آصف جاہ لکھا ہوا ہے، وہ تو ثلث کا ایک شاہکار ہے جبکہ دوسری جانب بھی ثلث اور نسخ ملا جلا کر لکھا گیا ہے لیکن اپنی ترتیب میں وہ بہت اچھا لگ رہا یے۔
میرے پاس موجود سکوں میں لبنان کا ایک سکہ بھی ہے۔ اس پر بھدا سا خط نستعلیق لکھا گیا ہے۔ اسی طرح سوڈان کا ایک خوبصورت سکہ بھی ہے جس پر خط دیوانی خفی لکھا گیا ہے۔ یہ سکہ سوڈان کی آزادی کی بیسویں سالگرہ پر جاری کیا گیا تھا۔ سوئے اتفاق کہ اس پر ایک صریح نحوی غلطی بھی موجود ہے۔ اس پر “العید العشرین للاستقلال” لکھا گیا ہے حالانکہ اسے “العشرون” ہونا چاہئے۔
میرے خیال میں اتنی گپ کافی ہے، باقی مین میخ آپ نکال لیں کیونکہ تنقید کرنا کونسا مشکل کام ہے اور ہم نے کونسے سکے ڈھالنے ہیں۔ وہ تو بچہ سقہ کی قسمت تھی کہ اسے ایک دن کے لئے چمڑے کے سکے چلانے کی اجازت مل گئی تھی۔