اکتوبر 2001 میں امریکی دفاعی انٹیلیجنس کے منصوبہ سازوں کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا کہ کیا طالبان مخالف شمالی اتحاد طالبان سے حکومت چھین سکتا ہے؟
امریکی خفیہ اداروں کے ڈی کلاسیفائیڈ ریکارڈ کے مطابق اسوقت کابل کے دفاع کے لیے طالبان کے پاس 130 ٹینک، 85 بکتربند گاڑیاں ، اتنی ہی توپیں و دیگر سازو سامان اور تقریباً 7000 لڑاکے تھے۔اور شمالی اتحاد کے پاس جنرل فہیم خان کی زیر کمان تقریباً 10,000 سپاہی ، 40 ٹینک ،اتنی ہی بکتر بند گاڑیاں اور چند توپیں تھیں۔
اس کے ایک ماہ کے بعد امریکی مدد کی وجہ سے طالبان کابل سے فرار اور شمالی اتحاد کا لشکر کابل میں داخل ہوا تو عوام نے طالبان کے ظالمانہ اقتدار کے خاتمے کی خوشیاں مناتے ہوئے ان کا استقبال کیا۔
جس کے 20 سال بعد امریکی جنگی و افغان قوم کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش میں ناکامی اور پھر بھونڈے طریقے سے امریکی انخلاء کی وجہ سے، اب دو دہائیوں کے بعد کابل ک وہ ا ماضی اس کا مستقبل بن گیا۔
اسوقت طالبان کے پاس 2001 کی بہ نسبت بہتر سیاسی کنٹرول، افرادی و فوجی قوت ہے، اب تو ان کے قبضے میں افغان فوج سے چھینا ہوا امریکی فوجی ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ بھی ہے۔
سی آئی اے اور امریکی و وزارت دفاع کے اہلکار Mick Mulroy کا خیال ہے کہ اس مرتبہ حالات 1996 (جب طالبان افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے) کی بہ نسبت مختلف ہیں “فوجی طور پر ان کے پاس اربوں ڈالر کے ہمارے دئیے ہوئے ہتھیار، حالات کا رُخ (momentum) بھی ان کے حق میں ہے اور ان کے خیال میں انہوں نے دنیا کی نمبر ون سُپر پاور کو شکست دی ہے (hight moral)۔
لیکن طالبان کے برق رفتار حملے اور افغان حکومت کے گرنے کے باوجود ، اتنی جلد ہی افغانستان کے شمال مشرق پنج شیر میں مزاحمتی گروہ کی تشکیل شروع ہوگئی ہے۔ پنجشیرایک زمانے میں شمالی اتحاد کا مضبوط مرکز تھا، جو امریکی و اتحادی انخلاء کے بعد اب تک طالبان کے ہاتھ نہیں آیا۔
نو تشکیل شدہ شمالی مزاحمتی اتحاد برائے افغانستان کی قیادت مقتول شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود جو اپنے باپ کا ہمنام ہے جس نے واشنگٹن پوسٹ کے مضمون میں امریکی امداد کی اپیل ان الفاظ میں کی ہے:-
“ میں آج پنجشیر وادی سے یہ تحریر کررہا ہوں، میں اپنے مجاہدین لڑاکوں کے ساتھ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک بات پھر طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں، ہمارے پاس اسلحہ و گولہ بارود کا ذخیرہ موجود ہے جو ہم اپنے والد کے وقت سے جمع کر رہے تھے، کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ وقت آسکتا ہے۔”
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں افغانوں کی ایک نسل جنہوں نے طالبان کا اولین دور نہیں دیکھا آزادی و معاشی خوشحالی جو انکے والدین محروم رہے کے ساتھ جوان ہوئی ہے۔ شاید طالبان کی شدت پسندانہ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے پر تیار ہو جائیں۔
طالبان مخالف مزاحمتی اتحاد کی قسمت کا تعین کرنے کے لیے اہم ترین عنصر نئی حکومت کی تشکیل ہے کہ اب تک طالبان دنیا کے سامنے خود کو اپنے سابقہ ریکارڈ کے بہ نسبت معتدل ظاہر کررہے ہیں جس سے ماہرین و مغربی حکام مطمئن نہیں ہیں۔
لیکن اگر وہ دیگر افغان عمائدین بشمول حامد کارزائی،عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مل کر ایک کارگر حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے خلاف مزاحمت کی حمایت میں کمی آجائے گی۔ لیکن اگر انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت سخت کرنے کے ساتھ سابقہ حکومتی حکام کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کردیں تو بعض ماہرین کے خیال میں شمالی اتحاد کے نئے جنم والی مزاحمت کو تقویت ملے گی۔
افغانوں کا باہمی تشدد پہلے ہی موجود خوفناک انسانی سانحے کو مزید تباہ کن بنائے گا اور افغانستان کی سولین آبادی کو باہمی لڑائی کے درمیان میں پھنس کر نشانہ بنّے کے لیے چھوڑ دے گا۔
اس نوزائیدہ گروپ کی قیادت بھی اس معاملے میں یقینی نہیں ہے کہ،امریکی فوجی و مالی امداد کے بغیر ان کے پاس کافی افرادی قوت و دیگر معاونت موجود ہے کہ و طالبان کے خلاف قابل عمل مزاحمت کھڑی کرسکیں؟
“ہم جانتے ہیں کہ ہماری فوجی قوت و سپلائی کا نظام کافی نہیں ہے سوائے یہ کہ ہمارے مغربی دوست فوری طور پر (فوجی و مالی) فراہمی کا سلسلہ شروع کریں ورنہ ہمارا اسلحہ و دیگر جنگی اسباب جلد ہی ختم ہو جائے گا” احمد مسعود نے اپنے مضمون میں اپیل کی۔
افغانستان کے نائب صدا امراللہ صالح نےصدر اشرف غنی کے فرار اور طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد خود کو افغانستان کی عبوری حکومت کا قانونی صدر ہونے کا اعلان کردیا۔ اس وقت صالح کسی نامعلوم مقام پر ہیں لیکن اتحادی پُر امید ہیں کہ وہ طالبان حکومت سے مقابلے کے لئے پنجشیر سے قابل عمل مزاحمتی تحریک چلا سکیں گے۔
افغانستان کے تاجکستان میں سفیر ظاہر اغبر نے خبر رساں ایجنسی رائیٹرز سے کہا “ میں یہ نہیں کہ سکتا کہ طالبان نے جنگ جیت لی ہے، اشرف غنی نے طالبان سے بات کرکے غداری کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ دیا، اب صرف پنجشیر نائب صدر امراللہ صالح کی قیادت میں مقابلہ کررہا ہے، اگر کوئی لوگوں کو غلام بنانا چاہتا ہے تو پنجشیر ہمیشہ انکے خلاف سخت مزاحمت کرتا ہے۔”
احمد مسعود نے اپنے واشنگٹن پوسٹ کے مضمون میں لکھا کہ سقوط کابل کے بعد ان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا ہے کہ افغان فوج کے سابقین و کمانڈوز اپنے کمانڈروں کے ہتھیار ڈالنے پر ناراض ہو کر اب ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔
فاؤنڈیشن برائے تحفظ جمھوریتاں جو کہ افغانستان کی جنگی صورتحال پر طویل عرصے سے نظر رکھے ہوئے ہے، کے سینئر فیلو Bill Roggio کا کہنا ہے کہ “اسوقت بہت سے سابق فوجی، کمانڈوز و دیگر افراد (اپنی جانوں کے خوف سے ) مزاحمت کریں گے، ان کے لئے اہم ہے کہ طالبان کے اپنے اقتدار کو مکمل طور پر مستحکم کرنے سے پہلے ابھی اور اسی وقت مزاحمت شروع کردی جائے”۔
اس کا کہنا ہے کہ پنجشیر اور اس کے پڑوس کا بدخشاں صوبہ تاریخی طور طالبان مخالف صوبہ ہے ، بدخشاں کی سرحدیں تاجکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ گلگت بلتستان سے ملتی ہیں ۔”اگر صالح پنجشیر پر گرفت قائم رکھتے ہوئے، پورا بدخشاں طالبان سے چھین سکے تو اپنی فوج کے لئے سپلائی کا بیرونی راستہ کھول سکتا ہے، پھر اس بات کا امکان ہے کہ وہ طویل عرصے تک مزاحمت کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی مدد کون کرے گا؟
کچھ امریکی کانگریس کے ممبران بشمول فلوریڈا کے ریپبلکن Mike Waltz جو کہ ایک ریٹائیرڈ کمانڈو ہے اور افغانستان میں بھی لڑ چُکا ہے، صدر جو بائیڈن کو مسعود کی مدد کے لئے کہ رہےہیں ۔ اب تک یہ واضع نہیں کہ پینٹاگون افغان فوج جو طالبان کے سامنے چند ہفتوں میں تحلیل ہو گئی کے لئے پہلے سے مختص شدہ 3.3 ارب ڈالر کا کیا کرنے جارہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس سوال کا کہ کیا امریکہ امراللہ صالح یا مسعود سے رابطے میں ہے کا کوئی جواب نہیں دیا۔
لیکن فوجی نقشہ طالبان کے خلاف کسی مزاحمت کے لیے مشکلات سے بھرپور لگتا ہے۔ 1990 کی دہائی کے دوران مسعود کے مقتول والد (احمد شاہ مسعود) 5 سے 10 فیصد افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے جو کہ 2001میں طالبان امریکہ کے ہاتھوں شکست تک نہ لے پائے۔ لیکن اس مرتبہ پنجشیر عملی طور طالبان کے محاصرے میں ہے۔
امریکی اسٹانفورڈ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ۔۔2001 سے پہلے شمالی اتحاد کے قبضے میں مختلف صوبوں کے بہت سے علاقے تھے، لیکن اسوقت صرف ایک صوبے کی ایک یا دو ڈسٹرکٹ ان کے پاس ہیں ، اس لحاظ سے کوئی حقیقی مزاحمت نظر نہیں آرہی۔
رائیٹرز کو ملنے والے انٹیلیجنس کے تجزیے کے مطابق ،اپنے برق رفتار حملوں کے دوران طالبان نے امریکی ہتھیاروں کا بہت بڑا زخیرہ اکٹھا کر لیا ہے جن میں 2,000 سے زیادہ بکتربند گاڑیاں اور 40 ہوائی جہاز شامل ہیں۔
اس وقت طالبان نے شمالی صوبوں میں جہاں پہلے احمد شاہ مسعود کی مضبوط حمایت تھی میں بڑی تعداد میں طاقت متعین کی ہوئی ہے، جس سے وہ کسی بھی شورش کو فوری طور پر کچل سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ماہر ابراہیم بیحس کا کہنا ہے کہ “اس وقت طالبان نے سیکورٹی وجوہات پر کابل کو اپنے لوگوں سے بھر دیا ہے لیکن ساتھ ہی شمال میں بہت بڑی تعداد میں اپنی فورس پہنچائی ہوئی ہے۔اور (مخالفین کے پاس) اتنا ساز و سامان نہیں ہے کہ وہ طالبان جیسے بڑے دشمن کے سامنے طویل عرصے مزاحمت کرسکیں”۔
ایک طرف طالبان فوجی کامیابیوں کو مستحکم کررہے ہیں دوسری طرف سے پاکستان ، چین اور روس جیسے ممالک سے غیر رسمی قبولیت بھی حاصل کررہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اس وقت بجائے موجودہ (حکومتی ) ڈھانچے کے ساتھ کام کرنے کی نئے سرے سے پورے حکومتی نظام کی تشکیل میں خود کو پھنسا کر تھوڑی بہت خوش گمانی کو ضائع نہ کردیں۔
بدھ کو وال اسٹریٹ جنرل نے خبر دی ہے کہ بائیڈن حکومت نے جیسے ہی طالبان کابل کے قریب پہنچے افغانستان کو بھیجنے والی رقم کی ترسیل روک دی۔ چونکہ افغانستان کے مرکزی بینک کے خزانے کے 9 ارب ڈالر کا بڑا حصہ غیر ملکی بینکوں میں جمع ہے۔طالبان پر کئی مغربی ممالک میں پابندیاں ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ رقوم غیرملکی بینک طالبان کی حکومت کو نہ دی جائیں۔
امریکی جنرل David Petraeus جس نے 2010 سے 2011 تک افغانستان میں امریکی و ناٹو کی افواج کی قیادت کی تھی نے فارن پالیسی میگزین کو بتایا کہ ۔ “بہت کچھ ان (طالبان ) کی پیسہ جمع کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے، اس کا زیادہ حصہ پوسٹ کی کاشت سے آتا ہے جو پہلے ہی ان کے کنٹرول میں ہے، اگر اب وہ افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں تو انہیں سیکیورٹئ کی ضمانت دینی ہوگی۔ اس صورت میں ان کی زمین میں کھربوں ڈالر کی معدنیات پوشیدہ ہیں۔”
اس نے مزید کہا کہ طالبان مضبوط مرکزی کنٹرول والے حکومتی نظام نافذ کرنا چاہیں گے، جس کے لیے اربوں ڈالر کا بجٹ چاہیے جو کہ مشکل لگتا ہے کیونکہ بیرون ملک امدادی ادارے ملک چھوڑ جائیں گے۔ بغیر پیسے کے ناپختہ حکومت بنیادی خدمات ادا کرنے کے قابل نہ ہوگی۔ طالبان یہ سب کُچھ جاپانی، امریکی و دیگر غیرملکی پیسے کے بغیر کیسے کریں گے؟ اگر طالبان کے اپنے لوگ اقتدار یا طاقت کا ناجائز استعمال کریں تو کیا ہوگا؟
طالبان کے اقتدار کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل یہیں ختم نہیں ہوں گے، ماہرین اور سابقہ حکومتی افسران کا کہنا ہے کہ طالبان بطور مزاحمت کار لڑنے کے عادی ہیں لیکن باقایدہ فوج کھڑی کرنا اور چلانا اس سے بدرجہا مہنگا اور مشکل کام ہے۔
چونکہ افغانستان میں ٹیکس کی بنیادیں نہیں ہیں، اب وہ ان سب چیزوں کے لئے پیسہ کیسے اکٹھا کریں؟ امریکی اسٹانفورڈ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار اسفندیار میر کا سوال ۔
میرا تبصرہ:-
درحقیقت اس مضمون میں وسیع البنیاد حکومت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس پر طالبان پہلے ہی کام کررہے ہیں۔ اسمعیٰل خان کو معافی دینا۔ عبداللہ عبداللہ ،حامد کارزائی اور گلبدین حکمت یار اب تک کابل میں مقیم ہیں یقیناً ان سے طالبان کی قیادت میں ایسی حکومت پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے جس کی بنیاد پر افغانستان کو پُرامن اور مستحکم حکومت حاصل ہو سکتی ہے۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ میدان جنگ میں کامیابی کے باوجود طالبان کو اپنی کامیابی کا پھل دوسروں کے ساتھ مل کر کھانا ہو گا۔ یہ ایک مشکل امر ضرور ہے لیکن افغان قوم کے لئے فائدہ مند ہوگا۔
طالبان نے پہلے ہی بجائے سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے انہیں اپنے ذمہ داریوں پر واپس آنے کی اپیل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے وہ پہلے سے موجود حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔
طالبان کی اعلان شدہ عام معافی کی پالیسی انتہائی اہم ہے، کہ ملا عمر کے آخری دنوں کے بارے لکھی گئی کتاب جس کی تکخصیں کا اس فقیر نے ترجمہ کیا ہے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2001 میں جب ایک موقعے پر طالبان ہتھیار پھینکنے پر تیار تھے لیکن امریکہ نے اس سلسلے میں طالبان و حامد کارزائی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کو مسترد کردیا۔ اور طالبان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے نتیجے میں انہیں میدان جنگ میں اترنے پر مجبور کردیا ۔ بیس سال کے بعد اس کا خمیازہ ذلت آمیز شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
کہاوت ہے کہ ایک آپ بلئ کو بھی اس بُری طرح گھیرلیں کہ اسے بھاگنے کاراستہ بھی نہ ملے تو وہ شیرنی کی طرح حملہ کرتی ہے۔ بہتر ہے طالبان اپنے گھر کی بلّی کو شیرنی بننے کا موقع نہ دیں۔
جہاں تک شمالی اتحاد کے دوسرے جنم کی بات ہے درحقیقت پنجشیر وادی کی کسی بھی پڑوسی ملک سے سرحدیں نہیں ملتی۔پڑوسی صوبے بدخشاں کی سرحدیں تاجکستان اور پاکستانی گلگت بلتستان سے ملتی ہیں لیکن بدخشاں اس وقت طالبان کے قبضے میں ہے۔
اگر امریکہ باغیوں کے لئے سپلائی لائن کھولنا بھی چاہے تو اس کے پاس سوائے فضائی راستے کے کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے ۔ چونکہ اس وقت طالبان کے پاس کوئی قابل اعتماد فضائی دفاع کا نظام نہیں ہے اس کئے وہ بغیر کوئی خطرہ مول لیے ایسا کرسکتا ہے ۔
افغان فضائیہ کے چالیس طیارے تو موجود ہیں لیکن بغیر پائیلیٹس کے وہ طیارے کسی کام کے نہیں، حال ہی میں طالبان نے افغان پائیلیٹس اور فوجیوں کو واپس اپنی ملازمتیں جوائن کرنے کی اپیل کی ہے۔ جو ایک درست و عقلمندانہ اقدام ہے تربیت یافتہ پائیلیٹس افغان فضائیہ کا اثاثہ ہیں انہیں کسی بھی صورت میں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔(یہ الگ بات ہے کہ کیا ان پائلیٹوں پر اعتماد کیا جاسکے گا ممکن ہے وقتی مسائل پیش آئیں وقت کے ساتھ ساتھ حل ہو جائیں گے)۔
دوسری طرف افغان فوج کاغذوں پر ساڑھے تین لاکھ تھی لیکن کہا جاتا ہے کہ انکی اصل تعداد ایک لاکھ سے بھی کم تھی۔ ان تربیت یافتہ افراد کو فارغ چھوڑنے کا مطلب انہیں جُرائم یا باغیوں سے ملنے کا راستہ فراہم کرنا ہے۔
آخری بات اب تک افغان حکومت بڑی حدتک امریکی امداد پر چل رہی تھی۔ افغانستان کی دولت کا بڑا حصہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں ہے اور مستقبل قریب میں وہ موجودہ حکومت کے ہاتھ آنا مشکل لگ رہا ہے۔ بظاہر معاشی بحران افغانستان کی حکومت کے لیے پنجشیری ملیشیا سے بڑا چلینج ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ ان سب مسائل سے کس طرح عہدہ براہ ہوتے ہیں۔