ہمارے دورہ تاشقند ازبکستان کے دوران یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اردو یہاں ایک مقبول زبان ہے جس میں ماہرین اردو اساتذہ اور طلباء کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ ہماری ملاقات محترمہ مکتوبہ مرتضیٰ خوجہ سے ہوئی جو تاشقند اورینٹل اسٹڈیز یونیورسٹی میں اردو
کی ٹیچر ہیں۔
ہم نے پوچھا کہ وہ کب سے اردو سے وابستہ ہیں۔ محترمہ مکتوبہ مرتضیٰ نے جواب دیا کہ طالب
علمی سے استاد بننےتک 30 سال ہو گئے ہیں۔ہم نے سوال کیا کہ طالب علم یہاں اردو کیوں سیکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سیاست کی تعلیم میں اردو اور ہندی جڑے ہوئے ہیں۔ جب طلباء یہ دو زبانیں سیکھتے ہیں تو وہ ڈپلومہ حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ازبکستان میں اردو اور ہندی کو مشترکہ زبانیں سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم اردو کا انتخاب کرتا ہے، تو وہ ہندی کو دوسری زبان کے طور پر لے گا۔
ہم نے نوٹ کیا کہ ہندی بنیادی طور پر اور زیادہ تر اردو ہے۔ دراصل 95% ہندی اردو ہے۔ وہ صرف چند الفاظ کی جگہ لے کر اسے ہندی کہتے ہیں۔ کوئی بھی اسے ان کی فلموں سے بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے جو کہا جاتا ہے کہ ہندی فلمیں ہیں لیکن اداکار جو زبان بولتے ہیں وہ اردو ہے۔لہذا جب آپ اردو بول سکتے ہیں، تو آپ دنیا کے 1.25 ارب سے زیادہ لوگوں سے بات کر سکتے ہیں جو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں۔ تینوں ممالک پہلےپاک ہند ذیلی براعظم تھے۔ محترمہ مکتوبہ مرتضیٰ نے ہم سے اتفاق کیا۔
ہم نے پوچھا کہ آپ کب سے اردو پر کام کر رہی ہیں اور آپ بہت اچھی اردو بول سکتی ہیں، کیا آپ کبھی پاکستان گئی ہیں یاجا نا چاہتی ہیں؟محترمہ مکتوبہ مرتضیٰ نے جواب دیا کہ یہ میرے نصیب میں نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال دعوت ملی تھی اور ہم دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن کورونا نے ہمیں اجازت نہیں دی۔
ہمارا اگلا سوال تھا کہ آپ نےکو اردوکو کیسا پایا؟ یہ کیسی زبان ہے؟ انہوں نے کہا کہ اردو بہت پیاری زبان ہے۔ اردو بولتے ہوئے آپ آسانی اور روانی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ندی کی طرح بہتی ہے۔ سیکھنے اور بولنے میں آسان لیکن لکھنے میں تھوڑی مشکل کیونکہ بہت سے حروف تہجی کی آوازیں ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن تحریر میں مختلف ہوتے ہیں جو طلباء کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ اردو اور ازبک زبانوں میں بہت سے الفاظ مشترک ہیں۔ ہماری مشترکہ تاریخ اور مشترکہ روایات ہیں۔ یہ ہماری زبانوں میں بھی جھلکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے الفاظ ایک ہیں لیکن ان کے معنی مختلف ہیں۔ پاکستان میں “تکلیف” درد ہے لیکن ازبک میں دعوت ہے۔
ہم نے کہا کہ اردو دوسری زبانوں سے مختلف ہے کیونکہ یہ عورت اور مرد، بڑے اور چھوٹے وغیرہ میں فرق کرتی ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی میں
You
سب کے لیے ہے لیکن اردو میں چھوٹے کو “تم” اور بڑے کو “آپ” سے مخاطب کیا جاتا ہے۔
’’تکلیف‘‘ جیسے الفاظ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ جب ہم کسی کو پاس آنے کے لیے بلاتے ہیں تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم آپ کو تکلیف دے رہے ہیں۔ تو شاید اسی لیے ازبک زبان میں “تکلیف” دعوت ہے۔
ہم نے کہا کہ آپ یقیناً جانتی ہوں گی کہ اردو پر ازبک نژاد شاعروں کے بہت احسانات ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب پاکستان اور ہندوستان میں سب سے زیادہ جانے اور پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد ازبکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ ازبکستان میں اب کیا کیفیت ہے؟ اردو شاعری کر نے والے ماہرین اور اردو کے طالب علم میں سے کوئی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ادب کے لیے الگ سیکشن ہے۔ وہاں آپ کو اردو ادب پر کام کرنے والے لوگ مل سکتے ہیں۔
محترمہ مکتوبہ مرتضیٰ سے ہماری ملاقات کا سہرا اردو میں ان کے طالب علم سعادت جان کو جاتا ہے جو تاشقند میں ہمارے قیام کی دیکھ بھال کے لیے رضاکار تھے۔ ہم نے محترمہ مکتوبہ مرتضیٰ کو پاکستان آنے اور ہماری مہمان بننے کی دعوت دی۔ انہوں نے ہمارے جذبے کی تعریف کی اور ہماری دعوت قبول کی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ازبکستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے بہت محنت کر رہا ہے۔ ازبکستان کے صدر شوکت میرومونووچ کا وژن ازبکستان کو پاکستان اور بھارت سے ملانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ازبکستان اردو زبان کی تعلیم کو فروغ دے رہا ہے۔