اقبال شناس کہتے ہیں کہ اقبال ابھی باقی ہے اور 21 ویں صدی میں بھی اقبال لاہوری کی معنویت اور بلند پروازی بروئے کار لائی جاسکتی ہے اگرچہ بظاہر ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال لاہوری پیچلھے نصف صدی سے زائد بلکہ ستر اسی سالوں میں صرف 21 اپریل کو خبر شائع ہوتی ہے اور کچھ مقالے و مضامین شائع ہوتے ہیں یا پھر نومبر میں 09 نومبر کو اقبال ڈے منایا جاتا ہے اس پر مستزاد حکومتی و انتظامی تقسیم سے بڑھ کر علاقائی اور قومیتوں کے پس منظر میں ناپ تول کر اقبال لاہوری کو لاہور کے اختلاف و افتراق کے ساتھ جوڑ کر بے وقعت اور بلند پروازی سے محروم کرنے کی کوشش و کاوش برقرار ہے ایسے میں 21 ویں صدی کے 21 ویں سال یعنی کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری کے شکار زمانے میں کوئٹہ سے معروف و مستند پبلشر گوشہ ادب اور سیلز اینڈ سروسز لمیٹڈ سے 21 ویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور اور اقبال پر اتھارٹی سمجھنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی تازہ ترین تصنیف,,, کمال اقبال اور اکیسویں صدی،،شائع ہونے کے خبر و واقعہ نے یقنی طور پر تہلکہ مچادیا اگرچہ گوشہ ادب کوئٹہ سے چھپنے کے لئے اس مواد و کتاب کا پہنچنے میں خود ایک خبر و ذہنیت چھپی ہوئی ہے کہ 2019 ء میں یعنی کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی اتھل پھتل سے پہلے کی دینا میں جب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب 12 روزہ دورے پر کوئٹہ تشریف لائے تھے تو ملاقاتوں اور استقبالیہ جات میں کوئٹہ کے ہی ایک معروف ادبی ادارے نے ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب سے اپنے 31 ویں کتاب کی اشاعت و ترویج کوئٹہ سے اپنے ادارے سے چھپنے اور اعزاز بخشنے کی دعوت دی اور بلآخر یہ قیمتی کتاب ان کے ادارے کی شان میں اضافے کے باعث بننے کے بجائے کوئٹہ ہی کے علمی و فکری اور سائنسی و تعلیمی خدمات انجام دینے والے ادارے کے ذریعے ملک و ملت کے پڑھنے والوں اور سوچ وفکر کی قوتیں مجتمع و تشکیل دینے والے احباب و رفقاء کے لئے دستیاب ہونا ممکن ہوا اگرچہ گوشہ ادب کوئٹہ اپنے بانی جانشین و راہنما جناب سید منصور علی بخاری صاحب کے کرونا وائرس سے متاثر ہو کر دینا فانی سے کوچ کر گئے اور ان کے صاحبزادے اور بلند پایہ ادبی و علمی ذوق رکھنے والے شخصیت جناب زعیم بخاری صاحب نے مشکلات کے باوجود اس معرکے کو سر کرنے کی ٹھان لی اور یوں اپنے بزرگ والد محترم جناب منصور بخاری صاحب مرحوم و مغفور کے نشان منزل کی طرف بڑھتے ہوئے کوئٹہ کے روایتی مہمان داری اور جی داری کی خوبصورت اور بامقصد لاج رکھنے میں ہمارے مددگار اور محسن ثابت ہوئے،،
اس قصہ کوتاہ سے آگے بڑھ کر کتاب کے نام اور تفصیلات پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی فروغ دینے میں سنجیدگی سے سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کا جائزہ لے سکیں ویسے تو بات نوجوان دانشور و مصنف پروفیسر عابد میر صاحب کی بجا ہے کہ کتاب پڑھنے سے ہی ممکنہ طور پر سمجھنے اور پرکھنے کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اس لئے یہ سوال پڑھنے والوں اور تبصرے و جائزے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس قیمتی کتاب کی اشاعت و افادیت کیا اور کیوں کر ہے،،،لیکن ہم کتاب کے دیباچے،پیش لفظ اور مقدمہ و ابواب کی طرف آتے ہیں مقدمہ میں مصنف لکھتے ہیں کہ
,,, تحقیق و تخلیق کا سفر جاری ہے_ نوع انسانی مقام کمال کی طرف تیزی سے گامزن ہے_ مذاہب کی تعبیر کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی نازک اور حساس کوشش جاری ہے_ فلسفہ کی صورت میں علم کی جمع بندی مسلسل آگے بڑھ رہی ہے سائنسی علم نے تحقیق و تخلیق سے آگے توانائی،ٹیکنالوجی اور ایجادات کو کمالی صورت دے دی ہے یہ سب ذہنی بیداری کا نتیجہ ہے__،،،
,,, زمین کی جس خاک سے ہم نے جنم لیا،تاریخ میں اسے ہندوستان و افغانستان اور ایران و کشمیر کہتے ہیں انتظامی تقسیم انسانوں کے ذہنی سفر کی کہانی ہے ہمارا محدود دائرہ ہندوستان ہے اور وسیع دائرہ آفاق ہے_ خیال آفرینی اپنی خاک سے جنم لیتی ہے اور طاقت فکر حاصل ہو جائے تو پرواز آفاقی ہوتی ہے ایسی ہی ایک ہستی ہے جو ہندو براہمن زادہ سے جنم لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی و پیغام بر بنتا ہے اسے کشمیر زادہ،برھمن زادہ اور ہندوستان زادہ ہونے پر ناز ہے جس کی بنیاد پر اس کی خیال آفرینی پیدا ہوتی ہے_ اُردو سے فارسی تک اور پھر انگریزی کے سفر میں خیال آفرینی فکر کا کندن بنتی ہے اصول مذہبی اور قید مذہبی کے امتیاز کو پالیتا ہے$ انہماک سے وجدان پاتا ہے اصول مذہبی کے تحت مسلمانوں کو جدید تجربہ گاہ کے تحت٫٫٫پاکستان،،، کی فکر دیتا ہے یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کو بعد از قیام قید مذہبی کی نذر کردیا گیا دراصل اصول مذہبی کے تحت ذہن سازی سے روک دیا گیا_
یہ روک ٹوک تاریخ کا اصول ہے شاید اسی سے آگے بڑھنے کے راستے وا ہوتے ہیں اور افکار طاقت پکڑتے ہیں علامہ اقبال بیسویں صدی کا مجدد ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق اور پیروکار ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور فکر،اقبال اور ہزاروں دوسروں کے ذریعے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں_
,,,کمال اقبال اور اکیسویں صدی،،، اقبال کی کمالی فکر کی ایک توجہیہ ہے یہ توجہیہ گزشتہ صدی سے جاری ہے ہم نے بھی حصہ ڈالا دوسروں کو دعوت ہے کہ اپنا حصہ ڈالیں،،
اکیسویں صدی کا مطلب کہ نئی دینا ہے ہم نے اس میں جینا ہے محض جینا کافی نہیں ہے بطور مالک ارض و سماء کے نائب جینا ہے مسلمان گزشتہ کئی صدیوں سے نائب حق کی سطح پر جینے کا ڈھنگ بھول چکا ہے قید مذہبی میں ذہنی بیداری نہیں پاسکا اسے کچھ نئا کرنا ہے ورنہ غربت و افلاس اور غلامی مقدر رہے گی،،،
یہ صاحب کتاب کے الفاظ میں مقدمہ کا خلاصہ ہے پڑھنے اور سمجھنے کے ساتھ آگے بڑھنے اور بلند پروازی کے لئے اصول مذہبی اور قید مذہبی کے اصطلاح پانے کی کوشش و توانائی آپ نے حاصل کرنے ہیں ابھی فاضل مصنف کے مقدمے،ابواب کی تقسیم و آبرو مندی کے رحجانات و ترجیحات تشکیل و تعبیر نو کے لئے مسائل حیات کی تشریح و تفسیر آگے موجود ہے اور حرف آغاز میں جناب پروفیسرڈاکٹر عبدالروف رفیقی صاحب نے کہا کہ یہ ہمارا عصر ہے دنیا مختلف علمی و سیاسی،ادبی و اقتصادی اور سماجی و فکری ارتقائی مسافتوں کو طئے کرتے ہوئے ایک بالکل نئے منزل کی طرف رواں دواں ہے مذاہب کے موضوعات میں الجھی ہوئی دینا،رنگ و نسل کے امتیاز سے بوجھل انسانیت،جغرافیائی امتیازات میں بٹا ہوا انسان،خواب امن کی تعبیر کو شرمندہ تعبیر بنانے کی تمنا میں اکیسویں صدی کے پہلے دو عشرے بھی گزار دیئے کیا ہمارے عصر کے لئے فکر اقبال سے اس جہان خاکی کی تعمیر نو کے لئے کوئی پیغام ہے،؟ کیا مشرق اور مغرب کے درمیان جاری کشمکش کی مصالحت کے لئے فکر اقبال کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ سینہ انسان پر دست انسان سے رسیدہ زخم پر مرہم کے لئے متاع اقبال میں کوئی مرہم موجود ہیں؟ کیا بین المذاھب ہم آہنگی اور تہذیبوں کے درمیان جاری چپقلش کو ختم کرنے کے لئے ہم عصائے اقبال کا سہارا لے سکتے ہیں؟ اس طرح کے بے شمار سوالات کے جوابات کے حل کو ڈھونڈنے کے لئے ابھی ہم پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب کی کتاب,,, مباحث خطبات اقبال،،،، کے علمی،ادبی ،فکری ،روحانی اور استدلالی اثرات کے خمار سے مخمور جھوم رہے تھے کہ اس فکری تسلسل کی ایک اور کاوش,,, کمال اقبال اور اکیسویں صدی،،، قرطاس ابیض پر نمودار ہوئی جس میں علامہ محمد اقبال لاہوری کے خطبات کے حدود سے نکل کر حضرت علامہ کے مجموعی افکار سے نکات تازہ ڈھونڈ کر انسانیت کو نجات کی راہ دکھانے کی کوشش کی ہے واہ ڈاکٹر صاحب واہ، الھم زد فی زد۔