سیاست میں غیر سیاسی فیصلوں کی قیمت بالاخر ریاست اور عوام جھیلتے ہیں، سیاسی بساط پر بونوں کو دیو بنانا آسان مگر گلے میں پٹا ڈالے رکھنا ناممکن، عدم کو کالعدم اور کالعدم کو عدم بنانا گویا سیلاب کو چھلنی سے روکنے کے مترادف ہے۔ جانے کیوں آج بھی مکھی کو توپ سے مارنے اور اسپرین سے کینسر کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جانے کیوں ہر تاریخی غلطی کو قومی سلامتی اور مذھبی گلکاری سے سجا کر پوجا رچائی جاتی ہے۔ مولانا مودودی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’غلطی بانجھ نہیں ہوتی‘۔
ہندوستان میں وزیر اعظم کی رہائشگاہ دلی صفدر جنگ روڈ پر ہوا کرتی تھی، وزیر اعظم اندرا گاندھی کے عروج کا دور، گرو رام داس کے امرتسر سے دو نوجوان سکھوں کو دلی لایا جاتا ہے، وزیر اعظم ہائوس میں مہمان بنایا جاتا ہے۔ پنجاب سے آئے حیران پریشان نوجوان، قدیم دلی کی جدید زندگی، کشادہ سڑکیں، بلند عمارات، پھر وزیر اعظم ہائوس میں پروٹوکول، سیدھے سادھے نوجوانوں کیلئے گویا حیرت کا ایک سمندر تھا۔ اگلے روز بڑے سے شاندار ڈرائنگ روم میں لے جایا جاتا ہے، باری باری انٹرویو ہوتا ہے، ایک نوجوان کامیاب قرار پاتا ہے۔ انٹرویو لینے والے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے سنجیو گاندھی ہیں اور انٹرویو میں کامیاب ہونیوالے نوجوان کا نام ہے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ، یہاں سے شروع ہوتی ہے اقتدار کی بساط پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی ایسی غیر سیاسی چال، جو آج بھی ہندوستان کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہے۔
سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ایک سادہ سے سکھ مبلغ، گائوں دیہات سکھ مت کا پرچار، نشہ چھڈو، امرت چکھو اور گر سکھ بنو کا نعرہ، زبان میں ایسی تاثیر کے دل چھو لے۔ یہ سادہ نوجوان مقبول ہوتا گیا، سکھ دھرم کے پالن کی تبلیغ، لوگ شراب، تمباکو، منشیات چھوڑنے لگے، گردوارے میں اس کے نزدیک بھیڑ بڑھتی گئی۔ ایسے میں بھنڈرانوالہ نے سکھوں کی علیحدہ مملکت خالصتان کا نظریہ پیش کیا، ایک ایسا راج جس میں شریعت نانک نافذ ہو۔ ہر سکھ کے دل میں رنجیت سنگھ کی سلطنت بستی ہے سو جلد وا گرو خالصہ کے نعروں کی گونج میں سکھ جوق در جوق بھنڈرانوالہ جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔
ہندوستان میں اندرا گاندھی کی حکومت مگر مشرقی پنجاب میں اکالی دل کا زور ہے، 1977 کے انتخابات ہوتے ہیں تو اکالی دل کانگریس کا صفایا کر دیتی ہے، پرکاش سنگھ بادل وزیر اعلی بنتے ہیں۔ پنجاب میں اکالی حکومت اندرا گاندھی کیلئے سیاسی دھچکا تھی، سو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے غیر سیاسی دائوں کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے سنجیو گاندھی سے جو اس زمانے میں وزیر اعظم سے بھی زیادہ طاقت رکھتے تھے۔ سنجیو گاندھی، اندرا گاندھی کے ممکنہ جانشین تھے۔ گیانی ذیل سنگھ جو بعد میں صدر بنے اس وقت کانگریس کے وزیر داخلہ تھے، انکی مشاورت پر دونوں سکھ نوجوانوں کو دلی بلایا گیا تھا۔ سنجیو گاندھی، کانگریس اور اسٹیبلشمنٹ نے بھنڈرانوالہ کے سر پر ہاتھ رکھا تو جلد ہی مقبولیت آسمان کو جا پہنچی۔ امرتسر کا گولڈن ٹیمپل اکالی مخالف تحریک کا گڑھ بنا، بھنڈرانوالہ شعلہ بیاں مقرر اور عوامی انسان تو تھے ہی پھر مذھب کا تڑکا، سکھ نوجوان دیوانے بن گئے، پورے پنجاب میں راج کرے گا خالصہ چھا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھنڈرانوالہ کے معتقدین مخالفین کو قتل کرنے لگے، خالصتان کی مخالفت کرنیوالے صحافیوں اور روشن خیال سکھوں سمیت درجنوں افراد بھنڈرانوالہ کے ماننے والوں نے راستے سے ہٹا دئیے۔ پنجاب میں اکالی دل حکومت پریشان، ہاتھ ڈالے تو فساد برپا ہو جائے، سو جب بھنڈرانوالہ پڑوسی ریاست ہریانہ کے دورے پر تھے تو کارروائی کا منصوبہ بنایا گیا۔ وفاقی حکومت کانگریس کو پتہ چل گیا، بھنڈرانوالہ اب دہلی کیلئے نہایت اہم تھے، سو وزیر داخلہ گیانی ذیل سنگھ نے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بھجن لال کو فون کیا اور بھنڈرانوالہ کے خلاف کسی بھی کارروائی سے منع کر دیا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں ایک بونا، دیو بنتا گیا، ساتھ ہی علیحدگی تحریک زور پکڑتی گئی، دنیا بھر کے سکھوں نے خزانے کا منہ کھول دئیے، اکال تخت رنجیت سنگھ کی ریاست دوبارہ قائم ہونے کا خواب ہر سکھ کیلئے مذھبی فریضہ بن گیا۔
گائوں کا سادہ سا سکھ مبلغ اب بڑا لیڈر بن چکا تھا، ایک بڑا سیاسی رہنما، ایک بڑا مذھبی رہنما، اتنا بڑا کے دلی جاتا تو وزیر خارجہ سورن سنگھ جیسا لیڈر بھی چرنوں میں بیٹھتا، سیاست کی چالبازی اور مذھب کا تقدس یکجا ہوئے تو ہر تریاق بے اثر رہتا ہے۔ صرف چار سال بعد بھنڈرانوالہ سنجیو گاندھی کے ہاتھ سے نکل چکا تھا، پنجاب میں قتل و غارتگری جاری تھی، اکالی دل ہی نہیں کانگریس بھی سر پکڑے بیٹھی تھی۔ اندرا گاندھی اور کابینہ علیحدگی کیلئے لڑنے والے سکھوں کے آگے بے بس نظر آتے تھے، بالاخر 1983 میں گورنر راج لگا۔ خالصتان تحریک کا زور توڑنے کیلئے اندرا گاندھی نے گیانی ذیل سنگھ کو صدر مملکت کے عہدے پر بھی فائز کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، علیحدگی پسند تحریک زور پکڑتی گئی، مرکز تھا امرتسر کا گولڈن ٹیمپل، دنیا بھر کے سکھ جرنیل سنگھ بھنڈرانولہ کے جھنڈے تلے اکال تخت کیلئے ایک بن چکے تھے۔
غیر سیاسی پودا، تناور درخت بن چکا تھا، بالاخر یکم جون 1984 مشرقی پنجاب میں فوج اتاری گئی، صرف پانچ دن بعد مشہور زمانہ آپریشن بلیو اسٹار، گولڈن ٹیمپل پر فوج کی چڑھائی، دوسری جانب سے بھر پور جواب، بھارتی فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ پانچ روز جاری رہنے والی جنگ میں ٹینک تک استعمال ہوئے، ہزاروں سکھ مارے گئے، سیکڑوں فوجی ہلاک ہوئے، امرتسر میں ہر جانب آگ اور خون، صرف اتنا ہی نہیں پورے بھارت میں سکھوں کے خلاف ہنگامہ، سکھوں کا قتل عام، گھروں کو آگ لگا دی گئی، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ سیکولر اور جمہوری بھارت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب، بھنڈرانولہ بھی فوجی کارروائی میں مارا گیا مگر خالصتان تحریک کو زندہ کر گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ہوا، پانچ ماہ بعد صفدر جنگ روڈ پر وزیر اعظم کی اسی رہائشگاہ جہاں سنجیو گاندھی نے بھنڈرانوالہ کا انتخاب کیا تھا، اسی رہائشگاہ میں دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کر ڈالا۔ یہ سیاسی سانحہ ہر ہندوستانی کے ذھن پر نقش ہے، یہ بھی درست ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے یہ غلطی پھر کبھی نہیں دھرائی۔
بساط کے سارے مہرے گر چکے مگر یہ غیر سیاسی فیصلہ آج سینتیس سال بعد بھی زندہ ہے، مولانا مودودی نے کیا خوب کہا تھا غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔