Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ہمیں کبھی اس بات سے اتفاق نہیں رہا کہ عمران خان عوام میں مقبول نہیں تھا اور یہ جیتا نہیں بلکہ اسے جتوایا گیا ہے . یہ کہ پچھلے الیکشن بالکل دھاندلی تھے اور ان کے رزلٹ تبدیل کرکے عمران کو حکومتی سنگھاسن پر بٹھایا گیا. ہمارا جہاں اٹھنا بیٹھنا تھا وہاں عمران کی کھلی حمایت دیکھنے کو ملتی. یہ سچ ہے کہ لوگوں کو اس سے محبت بھی تھی اور انھوں نے اس سے توقعات بھی بہت وابستہ کرلی تھیں. توقعات کیوں وابستہ نہ کرتے؟ خان نے خود ان کو یہ راہ دکھلائی تھی. خان نے بہت سے نعرے دیے جو تعلیم یافتہ اور درد دل رکھنے والے طبقے کو بہت متاثر کرتے . اس نے کہا کہ وہ کرپشن کے عفریت کا گلا گھونٹ دے گا. میرٹ کا بول بالا ہو گا، لوگوں کو رعایا کی بجائے شہری سمجھا جائے گا. طبقاتی نظام کو ختم کرکے ایسا پاکستان بنایا جائے گا جس میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں. لوگوں نے سوچا کہ یہ شخص ان نعروں کو حقیقت کا رنگ دے سکتا ہے . ان کا خیال تھا کہ یہ ہٹ دھرم ہے، لحاظ مروت بھی کم ہے، سیاسی مفادات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، بددیانت بھی نہیں ہے، پر عزم ہے. اس لیے اس نے جو کہا ہے وہ کر ڈالے گا. نوجوانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا. نوبت یہاں تک پہنچی کہ اچھے بھلے مخالف لیڈروں کو بھی اس بات کا خدشہ رہتا کہ کہیں ان کی اولاد عمران خان کو ووٹ نہ دے دے. نواز شریف کے وکیل جسٹس طارق نے ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ان کے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو پسند نہیں کہ وہ نواز شریف کی وکالت کریں. شاہی سید نے کہا کہ اس کی بیٹی عمران خان کی مداح ہے اور اس نے اپنے باپ کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا. جب تک خان حکومت سے باہر اپوزیشن میں تھا تو معاملات ٹھیک چل رہے تھے. مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب توقعات کو پورا کرنے کا وقت آیا. وعدہ کرنا اور بات ہے اور اسے پورا کرنا دوسری. خان نے جو وعدے کیے ان کو وفا کرنا اتنا آسان نہ تھا. جمہوریت میں تو یہ بالکل ممکن نہیں. ستر برس کے جمے جمائے معاشرے کو ایک سرے سے ادھیڑنے کے لیے جن عبقری صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے خان ان سے محروم تھا. اس کے لیے بہت صاحب بصیرت اور انقلابی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے. یہاں صرف نظام کو الٹنا ہی کافی نہیں بلکہ متبادل نظام بھی پیش کرنا ہوتا ہے. الیکشن جیت کے آنے والا اور خاص طور پر پارلیمانی طرز حکومت میں حکمران بہت آزاد نہیں ہوتا. وہ کہیں نہ کہیں پارلیمنٹ کے ارکان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا ہے. اس نظام میں انقلابی تبدیلی کی گنجائش بہت کم ہے. دراصل خان نے وعدے نہیں کیے تھے بلکہ خواب دکھائے تھے. وہ خواب ایسے تھے کہ جن کی تعبیر کم از کم خان کے لیے ممکن نہیں تھی. غیر حقیقی وعدوں کے باعث خان کو بار بار اپنے کیے وعدوں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس کے یو ٹرن ضرب المثل بن گئے. وعدے پورے نہ ہونے کے سبب اس کے حمایتی طبقے میں بھی مایوسی پھیلی. اب ہم جہاں بیٹھتے اٹھتے ہیں وہاں خان کی وہ گرم جوش حمایت نظر نہیں آتی.
یہ بھی پڑھئے:
وزیر اعظم کی تقریر اور حکومت کی فعالیت
فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ وطن عزیز میں کسی بھی شعبے میں بہتری نظر نہیں آرہی (اگر بہتری ہے بھی تو اس کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے) بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ حالات مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں. خان نے جو جال دوسروں کے لیے بنا تھا وہ خود بری طرح اس میں پھنس گیا. وہ للکار کے کہا کرتا تھا کہ کارکردگی کا انحصار ٹیم کی بجائے کپتان پر ہوتا ہے. کپتان اچھا ہو تو وہ اوسط درجے کی ٹیم سے اعلا نتائج حاصل کرلیتا ہے. لوگوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے خان تنہا اس کا ذمہ دار سمجھا جائے گا. وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ اسے مناسب ٹیم نہیں ملی. کہاں کہاں حالات میں خرابی آئی ہے وہ تھوڑی سی کوشش سے آپ بھی دیکھ سکتے ہیں مگر ہمیں تو اس بات پر بہت تشویش ہے کہ خان پاکستان کے عوام میں طبقات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے. خان نے دو نہیں ایک پاکستان کی بات کی. لوگوں نے اسے بہت سراہا. اب صورت حال یہ ہے کہ دو سے کہیں زیادہ پاکستان بن گئے ہیں. عمران خان کی سب سے بڑی طاقت تعلیم یافتہ نوجوان اور سرکاری ملازمین تھے. خان کے آنے سے پہلے کم از کم سرکاری ملازمین بہت حد تک ایک پاکستان میں رہتے تھے. مراعات میں تھوڑا بہت فرق ضرور تھا مگر اتنا نہیں کہ اس کی وجہ سے کوئی طبقہ وجود میں آجائے. سرکاری مراعات یافتہ طبقے کو لوگوں نے تسلیم کر لیا تھا. لوگوں نے مان لیا تھا کہ کمشنر اور ڈی آئی جی کو بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنا چاہیے. ان کی ذمہ داریاں اتنی ہیں کہ انھیں کچھ مراعات مل جائیں تو کوئی حرج نہیں. پھر یہ بھی کہ نوآبادیاتی ماحول کے تربیت یافتہ لوگ طاقتور افسر کو دیکھ کر خوش بھی بہت ہوتے ہیں. خان کی تقریروں سے لگا کہ شاید یہ کوٹھیاں خالی کروا لی جائیں گی اور یہاں عوامی سہولت کے لیے ادارے قائم کردیے جائیں گے. جب وزیراعظم کا گھر یونیورسٹی بن سکتا ہے تو کمشنر اور ڈی آئی جی کی کیا اوقات. مگر کیا کہیے کہ حالات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئے. ہم صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی بات کرلیں تو اس حکومت کے کارنامے ہوش ربا ہیں. ایک پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہی کئی پاکستان بنا دیے ہیں. پہلے مراعات کا فرق ضرور تھا مگر تنخواہ برابر تھی. اب تو تنخواہ بھی برابر نہیں رہی. ایک کلرک جو محکمہ تعلیم یا صحت میں کام کرتا ہے اس کی تنخواہ اور ہے جب کہ اسی سکیل کے اس ملازم کی تنخواہ اور ہے جو عدالتوں میں فرائض سر انجام دے رہا ہے . سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے کی تنخواہ باہر کام کرنے والے سے بہت زیادہ ہے. (ممکن ہے کہ سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے آفس بوائے کی تنخواہ باہر کے ہیڈ کلرک سے بھی زیادہ ہو) اسی طرح جو افسران انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں ان کی تنخواہیں دیگر افسران سے بہت زیادہ ہیں. مراعات کو تو ایک طرف رکھیں، بیس گریڈ کے بیوروکریٹ اور اسی سکیل کے کالج پرنسپل کی تنخواہ میں زمین آسمان کا فرق ہے. سترہ سکیل کے لیکچرار کی تنخواہ سترہ گریڈ کے ڈاکٹر سے مختلف ہے. کسی کو انتظامی الاونس کے نام پر نوازا جا رہا ہے تو کسی کو جوڈیشری الاونس دیا جا رہا ہے. کوئی سیکرٹریٹ الاونس کے نام پر دوسروں سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہا ہے تو کوئی پروفیشنل الاونس لے رہا ہے. ڈاکٹر نان پریکٹسنگ الاونس وصول کر رہے ہیں. پولیس کی تنخواہ بھی دوسروں سے مختلف ہے. گریڈ سولہ کے انسپکٹر اور اسی سکیل کے سکول ٹیچر کی تنخواہ میں بہت فرق ہے.
ان تنخواہوں میں فرق کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے بعض محکموں میں کرپشن کے امکانات بہت ہیں اس کو کم کرنے کے لیے تنخواہ میں اضافہ کردیا گیا ہے. اگر اس منطق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہ جو لوگ بدعنوانی کرتے تھے ان کا خسارہ حکومت نے پورا کردیا. یعنی جو رشوت یا کمیشن وہ ادھر ادھر سے لیتے تھے وہ حکومت نے اپنے ذمہ لے کر ایک طرح سے ان کی بدعنوانی کو قانونی شکل دے دی. انھیں گویا اس بات کا انعام دیا گیا کہ وہ کرپشن کرتے ہیں اور دیگر محکموں کو ایمان داری سے کام کرنے کی سزا دیتے ہوئے ان کی تنخواہ میں اضافہ غیر ضروری سمجھا گیا . پھر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تنخواہوں میں اضافے کے بعد ان محکموں سے کرپشن ختم ہو گئی اور کیا ان کے کام کا معیار بہتر ہوگیا . جواب یقیناً نفی میں آئے گا. جہاں رشوت تھی وہاں آج بھی ہے. کمیشن کا بازار آج بھی گرم ہے. سائل آج بھی عرضیاں لیے افسران کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں. پولیس کا رویہ اتنا ہی سفاک ہے جتنا پہلے تھا. ایک اور بات بھی ہے کہ کیا اس طرح کرپشن کو روکنا ممکن بھی ہے؟ جو لوگ رشوت لیتے ہیں اور جن کے منہ کو حرام کی کمائی لگ چکی ہے کیا حکومت اتنا دے سکتی ہے کہ جتنا وہ روز لوگوں کی جیب سے نکلوا لیتے ہیں یا کمیشن کے ذریعے ہتھیا لیتے ہیں. ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں. اس کا صرف نقصان ہے. اس سے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے. دو کی بجائے کئی پاکستان بن گئے ہیں اور یہ کہ خان ان سرکاری ملازمین کی حمایت سے محروم ہو گیا کہ جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر وہ ایوان اقتدار میں پہنچا تھا. اب سرکاری ملازمین اس حکومت کے خلاف احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں. سرکاری ملازمین اگر یہ مطالبہ کریں کہ سب کی تنخواہوں کو برابر کرو تو اس مطالبے کے معقول ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے. میڈیا اور سول سوسائٹی بھی اس مطالبے کی حمایت کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں. حکومت کے حق میں چینلز پر بیٹھ کر چیخ پکار کرنے والوں کے پاس بھی شاید ان سوالات کا جواب نہ ہو. حکومت جو تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے وہ مزید مسائل کا شکار ہو سکتی ہے. لیکن کیا اس حکومت میں ایسا کوئی شخص ہے جو خان کو مسائل کے بارے میں بتا سکے. اسے سمجھا سکے کہ ایسے اقدام سے حکومت کمزور ہو جاتی ہے. ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور اس کا سلوک سب کے ساتھ برابر ہونا چاہیے. اگر ماں ایسا نہیں کرے گی تو بچے باغی ہو جائیں گے. مگر بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ باتیں تو خود خان ہمیں بتایا کرتا تھا. اس سے سن کر ہی ہمیں ایسی پیچیدہ باتوں کا علم ہوا. سوشل میڈیا پر ازراہ مذاق ایک مطالبہ کیا جاتا ہے ” خان کو وقتاً فوقتاً اس کی پرانی تقریریں سنائی جائیں” ہم تو اس مطالبے سے پوری طرح متفق ہیں. آپ کیا کہتے ہیں.
ہمیں کبھی اس بات سے اتفاق نہیں رہا کہ عمران خان عوام میں مقبول نہیں تھا اور یہ جیتا نہیں بلکہ اسے جتوایا گیا ہے . یہ کہ پچھلے الیکشن بالکل دھاندلی تھے اور ان کے رزلٹ تبدیل کرکے عمران کو حکومتی سنگھاسن پر بٹھایا گیا. ہمارا جہاں اٹھنا بیٹھنا تھا وہاں عمران کی کھلی حمایت دیکھنے کو ملتی. یہ سچ ہے کہ لوگوں کو اس سے محبت بھی تھی اور انھوں نے اس سے توقعات بھی بہت وابستہ کرلی تھیں. توقعات کیوں وابستہ نہ کرتے؟ خان نے خود ان کو یہ راہ دکھلائی تھی. خان نے بہت سے نعرے دیے جو تعلیم یافتہ اور درد دل رکھنے والے طبقے کو بہت متاثر کرتے . اس نے کہا کہ وہ کرپشن کے عفریت کا گلا گھونٹ دے گا. میرٹ کا بول بالا ہو گا، لوگوں کو رعایا کی بجائے شہری سمجھا جائے گا. طبقاتی نظام کو ختم کرکے ایسا پاکستان بنایا جائے گا جس میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں. لوگوں نے سوچا کہ یہ شخص ان نعروں کو حقیقت کا رنگ دے سکتا ہے . ان کا خیال تھا کہ یہ ہٹ دھرم ہے، لحاظ مروت بھی کم ہے، سیاسی مفادات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، بددیانت بھی نہیں ہے، پر عزم ہے. اس لیے اس نے جو کہا ہے وہ کر ڈالے گا. نوجوانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا. نوبت یہاں تک پہنچی کہ اچھے بھلے مخالف لیڈروں کو بھی اس بات کا خدشہ رہتا کہ کہیں ان کی اولاد عمران خان کو ووٹ نہ دے دے. نواز شریف کے وکیل جسٹس طارق نے ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ان کے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو پسند نہیں کہ وہ نواز شریف کی وکالت کریں. شاہی سید نے کہا کہ اس کی بیٹی عمران خان کی مداح ہے اور اس نے اپنے باپ کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا. جب تک خان حکومت سے باہر اپوزیشن میں تھا تو معاملات ٹھیک چل رہے تھے. مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب توقعات کو پورا کرنے کا وقت آیا. وعدہ کرنا اور بات ہے اور اسے پورا کرنا دوسری. خان نے جو وعدے کیے ان کو وفا کرنا اتنا آسان نہ تھا. جمہوریت میں تو یہ بالکل ممکن نہیں. ستر برس کے جمے جمائے معاشرے کو ایک سرے سے ادھیڑنے کے لیے جن عبقری صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے خان ان سے محروم تھا. اس کے لیے بہت صاحب بصیرت اور انقلابی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے. یہاں صرف نظام کو الٹنا ہی کافی نہیں بلکہ متبادل نظام بھی پیش کرنا ہوتا ہے. الیکشن جیت کے آنے والا اور خاص طور پر پارلیمانی طرز حکومت میں حکمران بہت آزاد نہیں ہوتا. وہ کہیں نہ کہیں پارلیمنٹ کے ارکان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا ہے. اس نظام میں انقلابی تبدیلی کی گنجائش بہت کم ہے. دراصل خان نے وعدے نہیں کیے تھے بلکہ خواب دکھائے تھے. وہ خواب ایسے تھے کہ جن کی تعبیر کم از کم خان کے لیے ممکن نہیں تھی. غیر حقیقی وعدوں کے باعث خان کو بار بار اپنے کیے وعدوں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس کے یو ٹرن ضرب المثل بن گئے. وعدے پورے نہ ہونے کے سبب اس کے حمایتی طبقے میں بھی مایوسی پھیلی. اب ہم جہاں بیٹھتے اٹھتے ہیں وہاں خان کی وہ گرم جوش حمایت نظر نہیں آتی.
یہ بھی پڑھئے:
وزیر اعظم کی تقریر اور حکومت کی فعالیت
فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ وطن عزیز میں کسی بھی شعبے میں بہتری نظر نہیں آرہی (اگر بہتری ہے بھی تو اس کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے) بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ حالات مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں. خان نے جو جال دوسروں کے لیے بنا تھا وہ خود بری طرح اس میں پھنس گیا. وہ للکار کے کہا کرتا تھا کہ کارکردگی کا انحصار ٹیم کی بجائے کپتان پر ہوتا ہے. کپتان اچھا ہو تو وہ اوسط درجے کی ٹیم سے اعلا نتائج حاصل کرلیتا ہے. لوگوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے خان تنہا اس کا ذمہ دار سمجھا جائے گا. وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ اسے مناسب ٹیم نہیں ملی. کہاں کہاں حالات میں خرابی آئی ہے وہ تھوڑی سی کوشش سے آپ بھی دیکھ سکتے ہیں مگر ہمیں تو اس بات پر بہت تشویش ہے کہ خان پاکستان کے عوام میں طبقات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے. خان نے دو نہیں ایک پاکستان کی بات کی. لوگوں نے اسے بہت سراہا. اب صورت حال یہ ہے کہ دو سے کہیں زیادہ پاکستان بن گئے ہیں. عمران خان کی سب سے بڑی طاقت تعلیم یافتہ نوجوان اور سرکاری ملازمین تھے. خان کے آنے سے پہلے کم از کم سرکاری ملازمین بہت حد تک ایک پاکستان میں رہتے تھے. مراعات میں تھوڑا بہت فرق ضرور تھا مگر اتنا نہیں کہ اس کی وجہ سے کوئی طبقہ وجود میں آجائے. سرکاری مراعات یافتہ طبقے کو لوگوں نے تسلیم کر لیا تھا. لوگوں نے مان لیا تھا کہ کمشنر اور ڈی آئی جی کو بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنا چاہیے. ان کی ذمہ داریاں اتنی ہیں کہ انھیں کچھ مراعات مل جائیں تو کوئی حرج نہیں. پھر یہ بھی کہ نوآبادیاتی ماحول کے تربیت یافتہ لوگ طاقتور افسر کو دیکھ کر خوش بھی بہت ہوتے ہیں. خان کی تقریروں سے لگا کہ شاید یہ کوٹھیاں خالی کروا لی جائیں گی اور یہاں عوامی سہولت کے لیے ادارے قائم کردیے جائیں گے. جب وزیراعظم کا گھر یونیورسٹی بن سکتا ہے تو کمشنر اور ڈی آئی جی کی کیا اوقات. مگر کیا کہیے کہ حالات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئے. ہم صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی بات کرلیں تو اس حکومت کے کارنامے ہوش ربا ہیں. ایک پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہی کئی پاکستان بنا دیے ہیں. پہلے مراعات کا فرق ضرور تھا مگر تنخواہ برابر تھی. اب تو تنخواہ بھی برابر نہیں رہی. ایک کلرک جو محکمہ تعلیم یا صحت میں کام کرتا ہے اس کی تنخواہ اور ہے جب کہ اسی سکیل کے اس ملازم کی تنخواہ اور ہے جو عدالتوں میں فرائض سر انجام دے رہا ہے . سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے کی تنخواہ باہر کام کرنے والے سے بہت زیادہ ہے. (ممکن ہے کہ سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے آفس بوائے کی تنخواہ باہر کے ہیڈ کلرک سے بھی زیادہ ہو) اسی طرح جو افسران انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں ان کی تنخواہیں دیگر افسران سے بہت زیادہ ہیں. مراعات کو تو ایک طرف رکھیں، بیس گریڈ کے بیوروکریٹ اور اسی سکیل کے کالج پرنسپل کی تنخواہ میں زمین آسمان کا فرق ہے. سترہ سکیل کے لیکچرار کی تنخواہ سترہ گریڈ کے ڈاکٹر سے مختلف ہے. کسی کو انتظامی الاونس کے نام پر نوازا جا رہا ہے تو کسی کو جوڈیشری الاونس دیا جا رہا ہے. کوئی سیکرٹریٹ الاونس کے نام پر دوسروں سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہا ہے تو کوئی پروفیشنل الاونس لے رہا ہے. ڈاکٹر نان پریکٹسنگ الاونس وصول کر رہے ہیں. پولیس کی تنخواہ بھی دوسروں سے مختلف ہے. گریڈ سولہ کے انسپکٹر اور اسی سکیل کے سکول ٹیچر کی تنخواہ میں بہت فرق ہے.
ان تنخواہوں میں فرق کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے بعض محکموں میں کرپشن کے امکانات بہت ہیں اس کو کم کرنے کے لیے تنخواہ میں اضافہ کردیا گیا ہے. اگر اس منطق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہ جو لوگ بدعنوانی کرتے تھے ان کا خسارہ حکومت نے پورا کردیا. یعنی جو رشوت یا کمیشن وہ ادھر ادھر سے لیتے تھے وہ حکومت نے اپنے ذمہ لے کر ایک طرح سے ان کی بدعنوانی کو قانونی شکل دے دی. انھیں گویا اس بات کا انعام دیا گیا کہ وہ کرپشن کرتے ہیں اور دیگر محکموں کو ایمان داری سے کام کرنے کی سزا دیتے ہوئے ان کی تنخواہ میں اضافہ غیر ضروری سمجھا گیا . پھر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تنخواہوں میں اضافے کے بعد ان محکموں سے کرپشن ختم ہو گئی اور کیا ان کے کام کا معیار بہتر ہوگیا . جواب یقیناً نفی میں آئے گا. جہاں رشوت تھی وہاں آج بھی ہے. کمیشن کا بازار آج بھی گرم ہے. سائل آج بھی عرضیاں لیے افسران کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں. پولیس کا رویہ اتنا ہی سفاک ہے جتنا پہلے تھا. ایک اور بات بھی ہے کہ کیا اس طرح کرپشن کو روکنا ممکن بھی ہے؟ جو لوگ رشوت لیتے ہیں اور جن کے منہ کو حرام کی کمائی لگ چکی ہے کیا حکومت اتنا دے سکتی ہے کہ جتنا وہ روز لوگوں کی جیب سے نکلوا لیتے ہیں یا کمیشن کے ذریعے ہتھیا لیتے ہیں. ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں. اس کا صرف نقصان ہے. اس سے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے. دو کی بجائے کئی پاکستان بن گئے ہیں اور یہ کہ خان ان سرکاری ملازمین کی حمایت سے محروم ہو گیا کہ جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر وہ ایوان اقتدار میں پہنچا تھا. اب سرکاری ملازمین اس حکومت کے خلاف احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں. سرکاری ملازمین اگر یہ مطالبہ کریں کہ سب کی تنخواہوں کو برابر کرو تو اس مطالبے کے معقول ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے. میڈیا اور سول سوسائٹی بھی اس مطالبے کی حمایت کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں. حکومت کے حق میں چینلز پر بیٹھ کر چیخ پکار کرنے والوں کے پاس بھی شاید ان سوالات کا جواب نہ ہو. حکومت جو تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے وہ مزید مسائل کا شکار ہو سکتی ہے. لیکن کیا اس حکومت میں ایسا کوئی شخص ہے جو خان کو مسائل کے بارے میں بتا سکے. اسے سمجھا سکے کہ ایسے اقدام سے حکومت کمزور ہو جاتی ہے. ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور اس کا سلوک سب کے ساتھ برابر ہونا چاہیے. اگر ماں ایسا نہیں کرے گی تو بچے باغی ہو جائیں گے. مگر بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ باتیں تو خود خان ہمیں بتایا کرتا تھا. اس سے سن کر ہی ہمیں ایسی پیچیدہ باتوں کا علم ہوا. سوشل میڈیا پر ازراہ مذاق ایک مطالبہ کیا جاتا ہے ” خان کو وقتاً فوقتاً اس کی پرانی تقریریں سنائی جائیں” ہم تو اس مطالبے سے پوری طرح متفق ہیں. آپ کیا کہتے ہیں.