• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home فکر و خیال

کتنے پاکستان؟

روزنامچہ: ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم by ڈاکٹر طارق کلیم
June 27, 2020
in فکر و خیال
0
ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم

404
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

ہمیں کبھی اس بات سے اتفاق نہیں رہا کہ عمران خان عوام میں مقبول نہیں تھا اور یہ جیتا نہیں بلکہ اسے جتوایا گیا ہے . یہ کہ پچھلے الیکشن بالکل دھاندلی تھے اور ان کے رزلٹ تبدیل کرکے عمران کو حکومتی سنگھاسن پر بٹھایا گیا. ہمارا جہاں اٹھنا بیٹھنا تھا وہاں عمران کی کھلی حمایت دیکھنے کو ملتی. یہ سچ ہے کہ لوگوں کو اس سے محبت بھی تھی اور انھوں نے اس سے توقعات بھی بہت وابستہ کرلی تھیں. توقعات کیوں وابستہ نہ کرتے؟ خان نے خود ان کو یہ راہ دکھلائی تھی. خان نے بہت سے نعرے دیے جو تعلیم یافتہ اور درد دل رکھنے والے طبقے کو بہت متاثر کرتے . اس نے کہا کہ وہ کرپشن کے عفریت کا گلا گھونٹ دے گا. میرٹ کا بول بالا ہو گا، لوگوں کو رعایا کی بجائے شہری سمجھا جائے گا. طبقاتی نظام کو ختم کرکے ایسا پاکستان بنایا جائے گا جس میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں. لوگوں نے سوچا کہ یہ شخص ان نعروں کو حقیقت کا رنگ دے سکتا ہے . ان کا خیال تھا کہ یہ ہٹ دھرم ہے، لحاظ مروت بھی کم ہے، سیاسی مفادات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، بددیانت بھی نہیں ہے، پر عزم ہے. اس لیے اس نے جو کہا ہے وہ کر ڈالے گا. نوجوانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا. نوبت یہاں تک پہنچی کہ اچھے بھلے مخالف لیڈروں کو بھی اس بات کا خدشہ رہتا کہ کہیں ان کی اولاد عمران خان کو ووٹ نہ دے دے. نواز شریف کے وکیل جسٹس طارق نے ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ان کے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو پسند نہیں کہ وہ نواز شریف کی وکالت کریں. شاہی سید نے کہا کہ اس کی بیٹی عمران خان کی مداح ہے اور اس نے اپنے باپ کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا. جب تک خان حکومت سے باہر اپوزیشن میں تھا تو معاملات ٹھیک چل رہے تھے. مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب توقعات کو پورا کرنے کا وقت آیا. وعدہ کرنا اور بات ہے اور اسے پورا کرنا دوسری. خان نے جو وعدے کیے ان کو وفا کرنا اتنا آسان نہ تھا. جمہوریت میں تو یہ بالکل ممکن نہیں. ستر برس کے جمے جمائے معاشرے کو ایک سرے سے ادھیڑنے کے لیے جن عبقری صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے خان ان سے محروم تھا. اس کے لیے بہت صاحب بصیرت اور انقلابی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے. یہاں صرف نظام کو الٹنا ہی کافی نہیں بلکہ متبادل نظام بھی پیش کرنا ہوتا ہے. الیکشن جیت کے آنے والا اور خاص طور پر پارلیمانی طرز حکومت میں حکمران بہت آزاد نہیں ہوتا. وہ کہیں نہ کہیں پارلیمنٹ کے ارکان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا ہے. اس نظام میں انقلابی تبدیلی کی گنجائش بہت کم ہے. دراصل خان نے  وعدے نہیں کیے تھے بلکہ خواب دکھائے تھے. وہ خواب ایسے تھے کہ جن کی تعبیر کم از کم خان کے لیے ممکن نہیں تھی. غیر حقیقی وعدوں کے باعث خان کو بار بار اپنے کیے وعدوں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس کے یو ٹرن ضرب المثل بن گئے.  وعدے پورے نہ ہونے کے سبب  اس کے حمایتی طبقے میں بھی مایوسی پھیلی. اب ہم جہاں بیٹھتے اٹھتے ہیں وہاں خان کی وہ گرم جوش حمایت نظر نہیں آتی.

یہ بھی پڑھئے:

‏عمران خان دوراہے پر

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

شکریہ میرے کپتان

وزیراعظم کے نام ایک کھلا خط

ADVERTISEMENT

وزیر اعظم کی تقریر اور حکومت کی فعالیت

فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ وطن عزیز میں کسی بھی شعبے میں بہتری نظر نہیں آرہی (اگر بہتری ہے بھی تو اس کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے) بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ حالات مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں. خان نے جو جال دوسروں کے لیے بنا تھا وہ خود بری طرح اس میں پھنس گیا. وہ للکار کے کہا کرتا تھا کہ کارکردگی کا انحصار ٹیم کی بجائے کپتان پر ہوتا ہے. کپتان اچھا ہو تو وہ اوسط درجے کی ٹیم سے اعلا نتائج حاصل کرلیتا ہے. لوگوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے خان تنہا اس کا ذمہ دار سمجھا جائے گا. وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ اسے مناسب ٹیم نہیں ملی. کہاں کہاں حالات میں خرابی آئی ہے وہ تھوڑی سی کوشش سے آپ بھی دیکھ سکتے ہیں مگر ہمیں تو اس بات پر بہت تشویش ہے کہ خان پاکستان کے عوام میں طبقات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے. خان نے دو نہیں ایک پاکستان کی بات کی. لوگوں نے اسے بہت سراہا. اب صورت حال یہ ہے کہ دو سے کہیں زیادہ پاکستان بن گئے ہیں. عمران خان کی سب سے بڑی طاقت تعلیم یافتہ نوجوان اور سرکاری ملازمین تھے. خان کے آنے سے پہلے کم از کم سرکاری ملازمین بہت حد تک ایک پاکستان میں رہتے تھے. مراعات میں تھوڑا بہت فرق ضرور تھا مگر اتنا نہیں کہ اس کی وجہ سے کوئی طبقہ وجود میں آجائے. سرکاری مراعات یافتہ طبقے کو لوگوں نے تسلیم کر لیا تھا. لوگوں نے مان لیا تھا کہ کمشنر اور ڈی آئی جی کو بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنا چاہیے. ان کی ذمہ داریاں اتنی ہیں کہ انھیں کچھ مراعات مل جائیں تو کوئی حرج نہیں. پھر یہ بھی کہ نوآبادیاتی ماحول کے تربیت یافتہ لوگ طاقتور افسر کو دیکھ کر خوش بھی بہت ہوتے ہیں. خان کی تقریروں سے لگا کہ شاید یہ کوٹھیاں خالی کروا لی جائیں گی اور یہاں عوامی سہولت کے لیے ادارے قائم کردیے جائیں گے. جب وزیراعظم کا گھر یونیورسٹی بن سکتا ہے تو کمشنر اور ڈی آئی جی کی کیا اوقات. مگر کیا کہیے کہ حالات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئے. ہم صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی بات کرلیں تو اس حکومت کے کارنامے ہوش ربا ہیں. ایک پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہی کئی پاکستان بنا دیے ہیں. پہلے مراعات کا فرق ضرور تھا مگر تنخواہ برابر تھی. اب تو تنخواہ بھی برابر نہیں رہی. ایک کلرک جو محکمہ تعلیم یا صحت میں کام کرتا ہے اس کی تنخواہ اور ہے جب کہ اسی سکیل کے اس ملازم کی تنخواہ اور ہے جو عدالتوں میں فرائض سر انجام دے رہا ہے . سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے کی تنخواہ باہر کام کرنے والے سے بہت زیادہ ہے. (ممکن ہے کہ سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے آفس بوائے کی تنخواہ باہر کے ہیڈ کلرک سے بھی زیادہ ہو) اسی طرح جو افسران انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں ان کی تنخواہیں دیگر افسران سے بہت زیادہ ہیں. مراعات کو تو ایک طرف رکھیں، بیس گریڈ کے بیوروکریٹ اور اسی سکیل کے کالج پرنسپل کی تنخواہ میں زمین آسمان کا فرق ہے. سترہ سکیل کے لیکچرار کی تنخواہ سترہ گریڈ کے ڈاکٹر سے مختلف ہے. کسی کو انتظامی الاونس کے نام پر نوازا جا رہا ہے تو کسی کو جوڈیشری الاونس دیا جا رہا ہے. کوئی سیکرٹریٹ الاونس کے نام پر دوسروں سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہا ہے تو کوئی پروفیشنل الاونس لے رہا ہے. ڈاکٹر نان پریکٹسنگ الاونس وصول کر رہے ہیں. پولیس کی تنخواہ بھی دوسروں سے مختلف ہے. گریڈ سولہ کے انسپکٹر اور اسی سکیل کے سکول ٹیچر کی تنخواہ میں بہت فرق ہے.
ان تنخواہوں میں فرق کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے بعض محکموں میں کرپشن کے امکانات بہت ہیں اس کو کم کرنے کے لیے تنخواہ میں اضافہ کردیا گیا ہے. اگر اس منطق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہ جو لوگ بدعنوانی کرتے تھے ان کا خسارہ حکومت نے پورا کردیا. یعنی جو رشوت یا کمیشن وہ ادھر ادھر سے لیتے تھے وہ حکومت نے اپنے ذمہ لے کر ایک طرح سے ان کی بدعنوانی کو قانونی شکل دے دی. انھیں گویا اس بات کا انعام دیا گیا کہ وہ کرپشن کرتے ہیں اور دیگر محکموں کو ایمان داری سے کام کرنے کی سزا دیتے ہوئے ان کی تنخواہ میں اضافہ غیر ضروری سمجھا گیا . پھر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تنخواہوں میں اضافے کے بعد ان محکموں سے کرپشن ختم ہو گئی اور کیا ان کے کام کا معیار بہتر ہوگیا . جواب یقیناً نفی میں آئے گا. جہاں رشوت تھی وہاں آج بھی ہے. کمیشن کا بازار آج بھی گرم ہے. سائل آج بھی عرضیاں لیے افسران کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں. پولیس کا رویہ اتنا ہی سفاک ہے جتنا پہلے تھا. ایک اور بات بھی ہے کہ کیا اس طرح کرپشن کو روکنا ممکن بھی ہے؟ جو لوگ رشوت لیتے ہیں اور جن کے منہ کو حرام کی کمائی لگ چکی ہے کیا حکومت اتنا دے سکتی ہے کہ جتنا وہ روز لوگوں کی جیب سے نکلوا لیتے ہیں یا کمیشن کے ذریعے ہتھیا لیتے ہیں. ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں. اس کا صرف نقصان ہے. اس سے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے. دو کی بجائے کئی پاکستان بن گئے ہیں اور یہ کہ خان ان سرکاری ملازمین کی حمایت سے محروم ہو گیا کہ جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر وہ ایوان اقتدار میں پہنچا تھا. اب سرکاری ملازمین اس حکومت کے خلاف احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں. سرکاری ملازمین اگر یہ مطالبہ کریں کہ سب کی تنخواہوں کو برابر کرو تو اس مطالبے کے معقول ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے. میڈیا اور سول سوسائٹی بھی اس مطالبے کی حمایت کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں. حکومت کے حق میں چینلز پر بیٹھ کر چیخ پکار کرنے والوں کے پاس بھی شاید ان سوالات کا جواب نہ ہو. حکومت جو تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے وہ مزید مسائل کا شکار ہو سکتی ہے. لیکن کیا اس حکومت میں ایسا کوئی شخص ہے جو خان کو مسائل کے بارے میں بتا سکے. اسے سمجھا سکے کہ ایسے اقدام سے حکومت کمزور ہو جاتی ہے. ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور اس کا سلوک سب کے ساتھ برابر ہونا چاہیے. اگر ماں ایسا نہیں کرے گی تو بچے باغی ہو جائیں گے. مگر بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ باتیں تو خود خان ہمیں بتایا کرتا تھا. اس سے سن کر ہی ہمیں ایسی پیچیدہ باتوں کا علم ہوا. سوشل میڈیا پر ازراہ مذاق ایک مطالبہ کیا جاتا ہے  ” خان کو وقتاً فوقتاً اس کی پرانی تقریریں سنائی جائیں” ہم تو اس مطالبے سے پوری طرح متفق ہیں. آپ کیا کہتے ہیں.

Tags: تنخواہسرکاری ملازمینسیاستعمران خان
Previous Post

بھارت کی را پڑوسی ملکوں کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف، مکتی باہنی کے سابق راہنما کا انکشاف

Next Post

فلمی ہدایت کار لئیق اختر کا یوم وفات آج ہے

ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم ، پی ایچ ڈی اردو، بائیس فروری انیس سو سڑسٹھ کو جڑانوالہ ضلع لائلپور ( فیصل آباد) میں پیدائش. ابتدائی تعلیم معظم آباد ( سرگودھا). گورنمنٹ جامعہ قاسم العلوم سرگودھا، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس لاہور، سے تعلیمی مدارج طے کیے، سائنس ٹیچر کی حیثیت سے سرگودھا کے دیہی گاؤں سے کیرئیر کا آغاز، بعد میں کالج اور یونیورسٹی میں تدریس. مشفق خواجہ کی کالم نگاری پر مقالہ لکھ کر ایم فل اور " اردو کی ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر" پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. آج کل ایم اے او کالج لاہور میں تدریسی فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔

Next Post
فلمی ہدایت کار لئیق اختر کا یوم وفات آج ہے

فلمی ہدایت کار لئیق اختر کا یوم وفات آج ہے

محشر خیال

استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ
محشر خیال

استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ

میڈیا
محشر خیال

پاکستان میں میڈیا کا بحران

بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار
محشر خیال

بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار

امجد اسلام امجد
فاروق عادل کے خاکے

امجد اسلام امجد کا ورثہ

تبادلہ خیال

دہشت گردی
تبادلہ خیال

دہشت گردی کی آڑ میں درندگی

جمہوریت
تبادلہ خیال

پارٹی ٹکٹ اور جمہوریت کی تقدیر

امجد اسلام امجد
تبادلہ خیال

امجد اسلام امجد کے لیے

پرویز مشرف
تبادلہ خیال

مشرف جیسے کرداروں کی برائی کرنا قرآن سے ثابت ہے

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions