غزل کیا ہے؟ عورتوں سے باتیں کرنا، غزل نے اپنا سفر انسانی جذبے کی اس اساس سے شروع کیا اور جیسے جیسے انسانی جذبات اور محسوسات میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی، آبنائے غزل کا دامن بھی پھیلتے پھیلتے سمندر بن گیا۔ طاہر حنفی جب ہجرت، آنکھوں اور شہر میں نارسائی اور رسائی کے جرم کو اپنے شعر کا موضوع بناتے ہیں تو دراصل یہی اعلان کرتے ہیں کہ آئیں غم ذات کا تجزیہ غم زمانہ کے تناظر میں کر کے اپنے عہد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
طاہر اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں، اسے جانچنے کا ایک پیمانہ تو یہ ہے کہ ان مجموعوں کی تعداد کو دیکھ لیا جائے کہ کیسے اوپر تلے تین مجموعے نہ صرف شائع ہوئے بلکہ ہاتھوں ہاتھ لیے بھی جا چکے۔ اب نہیں معلوم کہ اہل تخلیق کا اب باب میں انداز فکر کیا ہے لیکن ان کی شاعری پڑھ کر ایک احساس یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے بعض طبقات کو شعوری طور پر مخاطب کر کے اپنا قاری بنا لیتے ہیں، ان کے آخری دو مجموعوں کے نام بھی ان کی اس تیکنیک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
طاہر حنفی “آوازہ” کے مستقل قاری، خیر خواہ اور محبت کرنے والے ہیں، وہ اس میں شائع ہونے والی چیزوں پر فوری ردعمل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اس ویب سائٹ میں کئی مثبت اور خوبصورت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس اعتبار سے آوازہ انھیں دوست اور سرپرست ہی نہیں، اپنی ٹیم کا حصہ سمجھتا ہے۔
طاہر حنفی کی تازہ غزل کا لطف اٹھائیے، یہ غزل ایام نوجوانی کے جذبوں کا بظاہر روائتی اظہار لگتی ہے لیکن یہی جذبے جب ان کے تجزبے اور فن کی کٹھالی سے گزر کر اظہار میں بدلتے ہیں تو ایک نیا لطف دیتے ہیں، آپ بھی لطف اٹھائیے:
درد کی روانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
ندیوں کے پانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
یاد جب وہ آتی ھے ساز بجنے لگتے ہیں
پیار کی نشانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
اک دھنک اترتی ہے اس کے ساتھ آنگن میں
رنگ آسمانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
لفظ گنگناتے ہیں صبح کے اجالے میں
حسن نو جوانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
آج یاد رفتہ نے سیر کی پشاور کی
اب بھی قصہ خوانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
جب الاؤ روشن ہو لوگ بیٹھ جاتے ہیں
رات بھر کہانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
ہے یقیں گماں جیسا اور گماں یقیں جیسا
کس کی خوش گمانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
انتظار کرتا ہے آج بھی ترا طاہر
اب بھی رت سہانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں