ڈاکٹر شیبا عالم نے افسانے کے باب میں متھ بن چکے سعادت حسن منٹو کی بیٹی نصرت منٹو کے ساتھ مجھے اور کراچی سے ہمارے دوست افسانہ،نگار،شاعر اور”مکالمہ“ کے مدیرمبین مرز کو آمنے سامنے کرتے ہوئے دلچسپ موضوع چھیڑ دیا: ”منٹو کی نئی تعبیریں“۔یہ آمنا سامنا یوں نہیں تھا کہ ہم ایک میز کے گرد بیٹھے تھے، بلکہ یوں تھا کہ ہم ایک مانیٹر کے چوکھٹے میں آمنے سامنے تھے۔ جی، میری مراد فیصل آباد لٹریچر فیسٹیول کی ورچوئل نشست تھی جو لائیو ہو رہی تھی اور کووڈ19کی وبا کے خوف اور نئی ٹیکنالوجی کی عطا نے ہمیں مقابل ہونے اور مکالمہ جاری رکھنے کا یہ نیا قرینہ سکھا دیاتھا۔ اصغر ندیم سید، ڈاکٹر شیبا عالم، مصدق ذوالقرنین اور سارہ حیات کے افتتاحی سیشن سے لے کر تیسرے اور آخری روز کے مشاعرے تک بہت کچھ عطا کر گیا تھا۔
منٹو کے حوالے سے جس سیشن کی میں بات کر رہا ہوں، اس میں ڈاکٹر شیبا عالم نے عین آغاز میں میری جانب سوال لڑھکا دِیا کہ میں نے یہ جو اپنی کتاب میں کہہ رکھا ہے کہ منٹو کو سنجیدگی سے اور آج کے حالات سے جوڑ کر پڑھنے کی ضرورت ہے تو ایسا کیوں کہا؟۔ جب شیبا یہ سوال کر رہی تھیں تو مجھے پیارے افسانہ نگار دوست ڈاکٹر آصف فرخی یاد آئے۔ منٹو پر میری جس کتاب کا حوالہ دِیا جارہا تھا وہ آصف فرخی مرحوم نے ہی ”شہرزاد“ سے چھاپی تھی۔ کتاب کیا تھی؛ منٹو صاحب کی نئی تفہیم کی ایک کوشش۔اِس کتاب میں اُن الجھنوں کو بھی نشان زد کیا گیا تھا جو منٹو کے افسانوں کی تعبیر کی بابت ناقدین کے ہاں تھیں۔ آصف فرخی نے اس کتاب کے حوالے سے ایک دلچسپ نوٹ لکھا تھا۔ اسی سے ایک ٹکڑا مقتبس کر دیتا ہوں کہ غالباً ڈاکٹر شیبا کا بھی اسی جانب اشارہ تھا۔ آصف فرخی کا کہنا تھا:
”شمس الرحمن فاروقی جیسی جید ادبی شخصیت نے اپنی تازہ،گراں قدر کتاب میں لکھا ہے کہ منٹو کو نقاد کی ضرورت نہیں۔لیکن نئے زمانے کی حقیقت نگاری کے تقاضے،اس دور کی معروضات کا جائزہ لینے اور ان سے اٹھنے والے مباحث سے نبرد آزماہونے کے بعد محمد حمید شاہد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ منٹو کو اب بھی سنجیدہ نقاد کی ضرورت ہے۔وہ منٹو کی طرف اس کے تخلیقی متن کے راستے سے آتے ہیں اور ایک نئے تناظر سے دیکھنے کے قائل ہیں۔“
ڈاکٹر شیبا کا سوال آیا تو مجھے کسی کا کہا ایک جملہ بھی یاد آیاتھا۔جی یہی کہ’منٹو کے طرزِ بیاں کی بے باکی اور خفیہ نویسی کے سبب اُن سے مزہ لینے والے، لذت کشید کرنے اور لطف لینے والے بہت ہیں۔‘ میں نے اس پر گرہ لگائی کہ اسی طرز عمل کا شاخسانہ ہی تو ہے کہ منٹو کے افسانوں کی معنویت ایسوں سے کنی کاٹ کر نکل جاتی ہے۔ منٹوصاحب کو سنجیدہ مطالعے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ وہ بہت مقبول ہو کر متھ بن چکے ہیں۔ جی ہاں ایک متھ۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ متھ پر سوال قائم نہیں ہوتے، اسے مان لیا جاتا ہے۔ متھ عملی زندگی میں ناکارہ ہو جاتی ہے۔ موجودہوتی ہے، ہر کہیں ہوتی ہے،مگر یوں جیسے کہیں نہیں ہوتی۔
اور ہاں،منٹوصاحب افسانہ لکھتے تھے تو ماجرا پسپا نہیں ہوتاتھا، تاہم لطف یہ ہے کہ وہ نفسیاتی کیفیات بھی اُبھار لیتے یوں بظاہر سادہ نظر آنے والا حقیقت کی ایک وہ جہت بیانیے کو دبیزبنا دیتی۔ قاری جسے محض کہانی سے معاملہ کرنا ہوتا ہے وہ واقعات کے تیکھے پن کی زد پر رہتا ہے یا اپنے نفسیاتی اُبال سے نبٹنے لگتا ہے اور وہ معنویت جو اس افسانے کا حاصل ہو سکتی تھی اس کی ممکنہ جہات کو پانے کی طرف نہیں ہوپاتا۔ پھر یوں بھی تو ہے کہ منٹو کی شہرت برے کرداروں کے افسانہ نگار کے طور بھی ہو چکی ہے۔ حالاں کہ وہ برے کرداروں کا افسانہ نگار نہیں برائی کی طرف دھکیل دیے گئے کرداروں کا افسانہ نگارہے۔
منٹو کو اس رُخ سے سمجھنے کی بھی ضرورت تھی، کتنے نقاد اس جانب راغب تھے اور کیا وہ درست درست تعبیر کر پائے تھے۔ یہ سوال میرا تھا۔یہیں میرا دھیان سرمد کھوسٹ کی فلم ”منٹو“ کی طرف چلا گیا تو کہا کہ دیکھیے منٹو کو اس فلم میں شراب کی چھینی سے اپنا سینہ چھلنی کرتاتو دکھایا گیا ہے مگر وہ منٹو نہیں دکھایاجاسکا جس نے بہت دُکھ سے کہا تھا کہ، بعض منحوس سال ایسے بھی زندگی میں آئے تھے کہ بچی کی سالگرہ تھی اوران کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔وہ منٹو جو محض ایک سال زندہ رہنے والے اپنے بیٹے عارف کی آیا بن گیا تھا۔جس کی بیوی صفیہ رات سوئی رہتی اور وہ اس کو جگا کر بے آرام کرنے کی بہ جائے اپنے بچے کے من میں ماں کی چھاتی دے کر چپکے سے دودھ پلوا دیتا۔ وہ صفیہ کے آرام کے لیے گھر کے کام کاج میں اس کی مدد کرتا تھا۔ عورت کا احترام کرنے والا، اس کے دکھ درد میں شریک منٹو۔کہتے ہیں اُن کے ایک دوست اداکارنواب کاشمیری نے دوسری شادی کرلی۔ اس کی پہلی بیوی کواتنا صدمہ پہنچا کہ اس نے خود کشی کرلی۔ منٹو بہت دکھ ہوا۔اپنے دوست پر برس پڑے اور کہا: ”کشمیری ہوں، مگر میں ایسے ظالم کشمیری سے نفرت کرتا ہوں جو اپنی بیویوں سے برا سلوک کرے۔“
ایک بار عصمت چغتائی نے منٹو سے ”محبت“ کے حوالے سے اُن کے خیالات جاننا چاہے تو انہوں نے کہا تھا:”مجھے اپنی زرّی جوتی سے محبت ہے اور رفیق غزنوی کو اپنی پانچویں بیوی سے محبت ہے“یوں وہ محبت کے بجائے عشق کے طرف دار نکلے۔ جی، اُس عشق کے،جو ایک دوشیزہ سے ایک نوجوان کو ہوتا ہے۔ عصمت چغتائی نے عین اس لمحے منٹو سے پوچھا تھا کہ کیا اُنہیں بھی عشق ہوا تھا؟ منٹو نے کہا:”ہاں، کشمیری چرواہی سے“۔ عصمت چغتائی نے اس عشق کا قصہ منٹو کے افسانے میں پڑھا ہوا تھا۔ کہہ دیا: نہایت پھسپھسا عشق تھا وہ۔۔۔ ردی۔۔۔ مصری کی ڈلی لی اور لوٹ آئے۔ منٹو نے یہ سن کر جو جواب دیا اس کے ساتھ منٹو کے افسانوں کو جوڑ کر پڑھیں گے تو ڈھنگ سے اُن کی تعبیر بھی کر پائیں گے۔ منٹو نے کہا تھا:’کیا میں اُس کے ساتھ سوتا۔ ایک حرامی بچہ اس کی گود میں ڈالتا اور اسے چھوڑ کر یہاں مردانگی کی ڈینگیں مارتا۔۔‘
جی، یہ تھے منٹو صاحب۔اور یہ تھا ان کے ہاں عورت کے وجود کا احترام اور یہی وہ منٹوصاحب تھے جن پر فحش نگاری کے پانچ مقدمے بنے تھے۔ ان مقدموں کو دیکھنے سے پہلے ان افسانوں کے عقب سے جھانکتے منٹو کو بھی دیکھنا ہوگا جو ہر بار عورت کے ساتھ جاکرکھڑے ہوجاتے تھے۔ چاہے وہ کوئی طوائف ہی کیوں نہ ہو۔ جی اس طوائف کے اندر سے عورت کو باہر نکال کر، اسے زندہ انسانی وجود کی صورت دکھا کر وہ سماج کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب کی طرف لپکتے اور اسے نوچ پھینکتے تھے۔
میں نے کہا نا کہ منٹو کے سیاسی سماجی شعور کی اٹھان ایسی تھی کہ محض جنس لکھنا اور اسے لذت بناکر لکھنا ان کی تخلیقی ترجیحات میں کہیں نہیں تھا۔ ابھی وہ سات سال کے تھے کہ انہوں نے جلیانوالہ باغ کا سانحہ دیکھا اور اس سے اثر قبول کیاتھا۔ یہ سانحہ ان کے ذہن پر نقش رہا حتیٰ کہ انہوں نے پہلا افسانہ جلیانوالہ باغ کے اسی سانحے کے حوالے سے لکھا:”تماشا“۔ اور اس میں اتنی ہی عمر کے بچے کا کردار تراشا جس عمر میں خود منٹو نے یہ سانحہ دیکھا تھا۔ جی، اس افسانے کے بچے خالد کی عمر بھی سات سال ہے۔ وہی خالد جو ہوائی بندوق سے طیاروں سے انتقام لینے کی پریکٹس کررہاہوتا ہے جب وہ اوپر سے گولے برساتے۔ہم نے دیکھا ہے کہ بالعموم نوجوان لکھنے والے پہلے پہل محبت کی کہانیوں کی طرف لپکتے ہیں اور جنس کا لذید شیرہ چاٹنے لگتے ہیں مگر منٹوایسا افسانہ لکھ رہے تھے جس میں خوف اور دہشت گھسی بیٹھی تھی، یاتڑتڑ گولیوں کی آواز سنائی دِے رہی تھی۔
اس افسانے کے معصوم بچے کے کردار میں جس خالد کو انتقام لینے کے جذبے کے ساتھ دکھایا گیا ہے اسے اس پوسٹر کی عبارت کے ساتھ بھی جوڑ کر دیکھ لیجئے جو منٹو صاحب نے خود لکھاتھا اور راتوں کو شہر کی دیواروں پر چسپاں کر آئے تھے۔ آسکر وائلڈ کے ڈرامے”ویرا“ کا ترجمہ منٹو صاحب نے کیا تھا۔ مگر یوں ہوا کہ حکومت نے اس پر پابندی لگادی تھی۔ منٹو صاحب نے اس ڈرامے کی مشہوری کے لیے جو پوسٹربنایااس میں لکھا گیا تھا کہ یہ ڈرامہ مستبد اور جابر حکمرانوں کو عبرتناک انجام کی وعید تھا۔ ایک ایسا ڈرامہ جو زاریت کے تابوت میں آخری کیل تھا۔
اس منٹو کو ”نیا قانون“ والے منٹوصاحب سے جوڑ کر دیکھیے اور تصور میں لایے وہ زمانہ جو1930ء سے 1935ء کاتھا۔ گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ 1935ء کے نفاذ سے پہلے کا زمانہ، جب عام آدمی اس قانون کے حوالے سے بہت سی امیدیں باندھے بیٹھا تھا۔ منٹو صاحب تب منگو کوچوان کا کردار تراشتے ہیں اوراپنے اندر کے شدید جذبے اسے عطا کر دیتے ہیں۔ منٹو صاحب نے منگو کی زبان سے کہلوایا تھا:”آگ لینے آئے تھے،اورگھر کے مالک بن گئے ہیں، ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے۔ یوں رُعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں“۔پھر اسی منگو کے ہاتھوں گورے کو جی بھر کر پٹوایا۔ عجب افسانہ ہے کہ اس کا متن آج کے زمانے پر منطبق ہوجاتا ہے۔ ہر نئے قانون کے اجرا پر ہمیں صاف صاف دکھنے لگتا ہے کہ آگ لینے آنے والے ابھی گئے نہیں ہیں۔
گفتگو کے دوران منٹو صاحب کے پہلے افسانے کا ذکر ہوا اورافسانوں کے پہلے مجموعے ”آتش پارے“ کا بھی۔ یہ مجموعہ 1936میں شائع ہوا تھا اور منٹو کا اس میں مختصر دیباچہ تھا:”یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں۔ ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔ 8 افسانوں پر مشتمل اس مجموعے میں محض تین افسانے ایسے تھے جن میں عورت کا کوئی کردار تھا۔ ”تماشا“کا ذکر ہو چکا۔ اس میں ننھے خالد کی شفیق ماں کا محدود سا کردار تھا۔ دوسرا افسانہ تھا ”جی آیا صاحب“، اس میں گھر کی سخت گیر مالکن کا کردار تھا جو ننھے گھریلو ملازم کے لیے سے ظالمانہ رویہ رکھتی تھی اور منٹو صاحب کو اس عورت سے کوئی ہمدردی نہ تھے۔ تیسرے افسانے”ماہی گیر“ کی نرم مزاج عورت پانچ بچوں کی ماں تھی۔ اس افسانے کو لکھنے والے منٹو صاحب کو اس منٹو کے ساتھ ملا کر دیکھئے جو، 11۔ڈلفی چمبرز،کلیئر روڈ،ممبئی 8، سے جنوری 1939ء کو ایک خط لکھ رہے تھے۔بہ ظاہر بہت مختلف منٹو مگر اس ذہنی ساخت پر حددرجہ نامطمئن، جس میں عورت کا نقش ابھرتا ہے تو عشق جاگ اٹھتا ہے اور شہوت چھینٹے اڑاتی ہے۔ منٹو لکھتے ہیں:
”عشق اور محبت کے متعلق سوچتا ہوں تو صرف شہوانیت نظر آتی ہے۔۔۔عورت کو شہوت سے الگ کرکے میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ پتھر کی ایک مورتی رہ جاتی ہے۔ مگر یہ ٹھیک بات نہیں، میں جانتا ہوں۔۔ نہیں،میں جاننا چاہتا ہوں، کہ پھر آخر کیا ہے؟۔۔۔ کیا ہونا چاہیے؟ اگر یہ نہیں تو پھر اور کیا ہوگا؟لیکن میں عورتوں کے بارے میں وثوق سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہی کہاں ہوا۔ عورت کا وہ تصور جو ہم لوگ اپنے دماغ میں قائم کرتے ہیں ٹھیک نہیں ہوسکتا۔۔۔ کس قدر افسوسناک چیز ہے کہ عورتوں کے ہمسائے ہوکر بھی ہم ان کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ لعنت ہے ایسے ملک پر جو عورتوں کو ہم سے ملنے کے لیے روکے!۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر کیا؟۔کچھ بھی نہیں!۔ سب بکواس ہے۔“
اس”بکواس“ کو ڈھنگ سے سمجھنے کے لیے، کہ جس نے سماج میں عورت کے وجود کو جنس اور شہوانیت سے جوڑ دیا تھا منٹو صاحب طوائف کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔جی طوائف کی طرف اور اس جیسی عورت کی طرف جسے وہ اچھی طرح جان گئے تھے۔پسا ہوا نچلا طبقہ، اس طبقے کی ایک عورت، اور عورت بھی ایسی کہ وہ دھتکاری ہوئی تھی اور جنسی استحصال پر مجبوربھی۔ گویا سماج کا ایسا کردار منٹو کے سامنے تھا جو حد درجہ روندا اور کچلا ہوا تھا۔اس کردار کو لکھتے ہوئے بہ قول وارث علوی’منٹو کی حقیقت نگاری طوائف کی تصویر کشی میں اپنے عروج کو پہنچی۔”کالی شلوار،”ہتک“،”خوشیا”اور”دس روپے“کو پڑھ کروارث علوی کیا سب کو حیرت ہوتی ہے کہ’اپنی افسانہ نگاری کی ابتدائی منزلوں ہی میں منٹوصاحب نے وہ نظر پیدا کر لی تھی جو تنگ و تاریک کھولی میں بیٹھی ٹکھیائی کی روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتی تھی۔ سچ کہا گیا ہے کہ’طوائف کو اتنی غیر جذباتی اور اتنی دردمندانہ نظر سے دیکھنے والا افسانہ نگار عالمی ادب میں شاید مشکل سے نظر آئے گا۔‘ منٹو صاحب کواس باب میں اس رُخ سے دیکھا جائے گا توہی وہ درست درست تعبیر پاسکیں گے۔
جب منٹو کی نئی تعبیرکے حوالے سے ڈاکٹر شیبا عالم نے تقسیم سے جوڑے گئے افسانے ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کا ذکر کیا تو مجھے منٹو صاحب کا ایک اور افسانہ”پڑھیے کلمہ“ یاد آگیا تھا۔ جی، وہی افسانہ، جسے محترم شمس الرحمن فاروقی نے تقسیم کا افسانہ کہہ کر اس کی تعبیر کی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ فاروقی صاحب جسے تقسیم کا افسانہ کہہ رہے ہیں وہ ایک جھوٹے کلمہ گو خونی عبدالکریم عرف عبدل کا افسانہ ہے۔ منٹو کایہ افسانہ تقسیم یا پھراس تقسیم کی وجہ سے پھوٹ پڑنے والے ہندو مسلم فسادات کا نہیں ہے۔ اس افسانے کے کرداروں میں مردوں سے مالش کروانے والی سولہ نمبر کھولی کی مکین رکما بائی ہے، وہی رکما بائی جس نے عبدل کی گردن تار والی رسی میں جکڑ کر مارنا چاہا تھا مگر وہ بچ نکلا تھا اور موقع پاکر گردھاری لال کی لاش کے ٹکڑے کرنے والی اس رکما کوکھڑکی سے باہر اچھال کر ماردیا تھا۔ اس افسانے میں سفاک قاتل اور نام کے مسلمان عبدل کا تکیہ کلام ”پڑھیے کلمہ“ہے اور وہ قرآن کی قسمیں کھا کر جھوٹ بولتا ہے۔ پورے افسانے میں فسادات کا بیانیہ الگ پڑا رہتا ہے اور کہانی رکمابائی اور اس کے عاشقوں کے بیچ چلتی رہتی ہے۔میں نے اس افسانے کو بھی آج کے”کلمہ پڑھیے“ کا ورد کرتے اور باقی معاملات میں کہیں بھی نہ شرماتے مسلمان کے ساتھ جوڑ کر دیکھا تو یہ عین مین اس پر منطبق ہو گیا تھا۔
منٹو کے شاہکار افسانے”کھول دو“ افسانے کا ذکر ہواتو اُن آٹھ رضاکاروں پر بھی بات ہوئی جن کے ہاتھوں منٹو کی کہانی کی سکینہ کی عصمت لٹ گئی تھی۔ ایسے میں سکینہ کی جگہ میں نے اپنے پیارے وطن کو رکھ کر دیکھا تو پورے افسانے کی معنویت کچھ سے کچھ ہو گئی تھی۔
مجھے جو کہنا تھا اور جس حد تک کہہ سکتا تھا، اس سیشن میں کہا اور یہ بھی دہرایا کہ منٹوصاحب کا دُکھ جو ان کے افسانوں میں ہے ان کی اپنی ذات کا دُکھ نہیں تھا سماج کے اس ڈھانچے کی عطا دُکھ تھا جس میں مذہب ہو یا قانون، قوت ہو یا مرد اور عورت کی تفریق، کمزوروں کے لیے شکنجہ بن گیا تھا۔ ایسا شکنجہ جس میں کمزور طبقے کے افراد جکڑے ہوئے تھے۔اور یوں جکڑے ہوئے تھے کہ ایک ہلے میں مرتے نہ تھے، سسک سسک کر قسطوں میں ہر روز مرتے تھے۔ یہ شکنجہ نئے زمانے میں اور بھی سخت ہو گیا ہے۔
منٹو صاحب نے ”کسوٹی“ میں لکھا تھا: ”یہ نئی چیزوں کا زمانہ ہے۔ نئے جوتے، نئی ٹھوکریں، نئے قانون، نئے جرائم، نئی گھڑیاں، نئی بے وقتیاں، نئے آقا، نئے غلام اور لطف یہ ہے کہ ان نئے غلاموں کی کھال بھی نئی ہے جو ادھڑ ادھڑ کر جدت پسند ہو گئی ہے۔ اب ان کے لیے نئے کوڑے اور نئے چابک تیار ہو رہے ہیں۔“ منٹوصاحب نے بہت پہلے جس غلامی کے بابت ہمیں چوکنا کرنا چاہا تھا اب ہم اسے ننگی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ذراتیسری دنیا کے عام آدمی کومنٹو کی سوگندھی کی جگہ پر بھی رکھ کر دیکھیے اور یہاں کے حکمرانوں کو اس کے جھوٹے خود غرض عاشق حوالدار مادھو کی جگہ پر جو ہر بار اس سے پیسہ ہتھیا کر لے جاتا ہے۔ عوام مذہب سے محبت کرتے ہیں، ملک و ملت سے اور زبان اور اپنے علاقے سے بھی۔ انہیں ایک نہیں چار چار شناختوں سے عشق ہے۔ منٹو صاحب کی سوگندھی نے بھی چار عاشقوں کی تصاویر اپنی کھولی کی دیوار پر سجا رکھی تھیں، مگر جو کچھ سوگندھی کے ساتھ موٹر والے سیٹھ نے کیا وہی عالمی سرمایہ داری نظام میں یہاں کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔
سیٹھ نے رات دو بجے عین سڑک کے بیچ منٹو کے افسانے”ہتک“ کی طوائف کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینکی اور”ہونہہ“ کہہ کر گاڑی آگے بڑھالی تھی۔ جس کے پاس پیسہ تھا وہ دھتکار سکتا تھا۔ اس پیسے کے زور پر جب میں عالمی سرمائے کی منڈی میں ”ہونہہ“جیسی آواز سنتا ہوں تو مجھے منٹوصاحب یاد آجاتے ہیں۔ منٹو صاحب بھی اور ان کے افسانے بھی جو آج بھی ریلے وینٹ ہیں۔