یوں تو ہر کوئی اپنے دل کی بات کسی سے کہہ کرکے یا اپنی ڈائری میں لکھ کر دل کو سکون پہنچالیتا ہے مگر کچھ باتیں اور واقعات یا پھر یوں کہوں کہ احساسات دل کو اتنا دکھ دیتے ہیں کہ اس کا ذکر کر لینے یا کہیں لکھ لینے سے بھی دل کو کوئی سکون نہیں ملتا جب تک کہ اس مسئلے کا حل نہ ملے۔ ایک ایسے ہی دکھ کو آج میں اس آرٹیکل میں لکھ کر اس دل کو سکون دینے کی کو شش کر رہی ہوں۔
دکھ اور مسئلہ وہی پرانا میرے نہتے کشمیری بھائی بہنوں کا ہے جو آج ستر سال بعد بھی اپنی آذادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جن کی نسلیں اس لڑائی میں ختم ہو گئیں مگر ان کو اب تک آذادی تو دور جینے کا حق بھی نہ مل سکا۔ ہر دن ان کے لیے وہی تاریک دنیا اور نئی تکلیف لے کر آتا ہے۔ جس کو محسوس کرنا اور یہ کہنا کہ ہم کو اس کااحساس ہے اپنے آپ میں ایک بھدا مذاق ہے۔ ہم آج تک اس تکلیف کو محسوس ہی نہیں کر سکے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے کتنے اپنے انڈیا کے تشدد کا نشانہ بنے؟ یہ درد یہ تکلیف صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو اس درد سے ہر روز گزر رہے ہوں اور جن کا رونا اور سسکیاں کوئی سننے والا نہ ہو۔
اس معاملے میں تو اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آتی ہے جو دنیا میں کم و بیش اسی وقت سے جب سے کشمیر کا مسئلہ شروع ہوا ہے۔ نہ جانے یہ تنظیم پوری دنیا کے مسئلوں کے حل کے لیے بنی ہے یا پھر صرف مسلمانوں کے خلاف بنائی گی ہے۔ خیر یہاں بھی پاکستان اس مسئلے کو کئی بار اٹھا چکا ہے مگر نتیجہ کبھی نہ نکلا یا پھر یوں کہوں کہ کبھی کشمیریوں کے حق میں نہ نکلا تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ہر دن بیتنے والے واقعات پر ہم افسوس کر کے اور انڈیا پر لعنت ملامت کر کے سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہوا نہ جانے ہم خود کو تسلی دیتے ہیں یا پھر دوسروں پر اپنا مثبت تاثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج بھی دنیا بھر میں اس بات پر بحث ہے کہ کالے کو کالا کہنادرست نہیں ہے جو صحیح بھی ہے۔ آج ایک گورے پولیس والے نے ایک کالے کو بے دردی سےماردیا اور پوری دنیا چیخ اٹھی اور کشمیر کے مسلمانوں کا کیا جن کو آۓ دن بےدردی سے مارا جاتا ہے اور دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔واہ ری دنیا ایک طرف کالے اور گورے کی جنگ میں پوری دنیا کے لوگ پاگل ہورہے ہیں اور دوسری طرف انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ آج آپ اگر کالے کو کالا کہیں گے تو دنیا آپ کو نسل پرست کہے گی اور اگر آپ اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے تو دنیا آپ کو دہشتگرد کہے گی۔ جب کہ اصلی دہشتگردی تو انڈیا اتنے سالوں سے کشمیر میں دیکھا رہا ہے نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کو مار چکا ہے اور اس سے جواب تو کیا سوال کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
مسئلہ ہم مسلمانوں کا ہے ہم خود بے حس ہو چکے ہیں۔ دنیا کے کئی مسلمان ملک کشمیر کے مسئلے کو انڈیا پاکستان کا تنازعہ سمجھتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کشمیر میں کتنے مسلمان ہیں اور جن کے مرنے سے مسلمانوں کی طاقت دنیا میں کم ہو رہی ہے۔ انڈیا ہر روز ایک نیا طریقہ اپناتا ہے کشمیریوں کو مارنے کا اور ان کو اذیت پہنچانے کا مگر عالمی دنیا تو کیا دوسرے مسلم ممالک تک اس پر وہ غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتے جس کی ضرورت ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہےکہ اگر آج ساری دنیا کے مسلم ممالک ایک ہو کر انڈیا پر ہر طرح کی تجارتی اورغیر تجارتی پابندی لگا دیں تو انڈیا کی معیشت اور ساکھ کو بڑا چھٹکا لگ سکتا ہے۔ اور ویسے بھی انڈیا ٹہرا ایک ڈرپوک ملک سواۓ کمزورکشمیر یوں کے کسی اور ملک کے سامنے آتے ہوۓ اس کی جان نکلتی ہے اور ویسے بھی انڈیا گھرا ہوا ہے ان ممالک سے جن میں سے ہر ایک سے اس کا جھگڑا چل رہا ہے۔
اگر ہم مسلمان ایک ہوگئےتوانڈیا کو اس کی وحشی حرکتوں کا آئینہ دکھا سکتے ہیں اگر امریکہ ایران پر اور عراق کی ترقی پر کئی پابندیاں لگا سکتا ہے تو ہم مسلمان ایک ہوکر انڈیا پر پابندی کیوں نہیں لگا سکتے۔ کب ہم مسلمانوں کو سمجھ آۓ گی کہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلم امہ کا مسئلہ ہے۔ ہمارا تو وہ حال ہے کہ اگر انڈیا کا کوئی چھوٹا آرٹسٹ بھی مر جاۓ یا پھر خودکشی کر لے تو ہم کو انسانیت کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے فنکار انڈیا کے فنکار کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں جیسے مرنے والا یا تو سیدھا جنت میں جارہا ہے اور اس کی تعریف اور افسوس کا اظہار کر کے ہم بھی اپنے گناہ کم کرالیں گے یا پھر مرنے والا ہمارا سگا تھا جس کے مرنے پر ہم نہ صرف خود افسوس کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی نہ کرے تو اس کو انسانیت کا درس دیتے ہیں۔
میرا سوال اپنے ملک کے میڈیا سے یہ ہے کہ جب ہمارے ملک کا کوئی فنکار انتقال کرتا ہے تو انڈیا کے کتنے لوگ افسوس کا اظہار کرتے ہیں ؟ ابھی حال کی ہی بات کر لیتے ہیں ہمارے ملک کا اتنا بڑا نام طارق عزیز جب خالق حقیقی سے جا ملے تو انڈیا کے کس فنکار نے افسوس کا اظہار کر لیا ؟ ہمارے فنکاروں کا تو یہ حال ہے کہ اگر انڈیا سے کسی فلم کی پیش کش آجاۓ تو اپنا مذہب اور ثقافت سب کچھ چھوڑ کر دوڑتے ہیں انڈیا کی طرف۔
ادھر انڈیا کشمیر میں ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو انتہائی بے دردی سے مار رہا ہے اور ساتھ میں ان کو دہشت گرد کہہ کر ان کی لا شوں کی بھی بے حرمتی کرتا ہے۔ آج انڈیا کشمیر کا نام نہاد خدا بنا ہوا ہےاور بھول گیاجب وہ ایسے ہی آزادی کی جنگ انگریزوں کے خلاف لڑرہا تھا اور بڑے فخر سے اپنے لوگوں کو جنگ آزادی کا ہیرو کہتا تھا۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ غلطی انڈیا کی بھی نہیں وہاں کے ہندو کیوں مسلمانوں کا اچھا سوچیں گے ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو نکال دیں اور دیکھا جاۓ تو آہستہ آہستہ نکال ہی رہے ہیں۔ غلطی تو ہم مسلمانوں کی ہے جس کو ایک کرکے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گئے تھے اور جن کو ایک ہو کر رہنے کا ذکر قرآن میں جا بجا ملتا ہے مگر افسوس ہم مسلمان بٹے ہوۓ ہیں ملک ،قوم،نسلوں، فرقوں اور ذات پات میں۔ ہم آج بھی ایک ہو جائیں تو بہت آرام سے کشمیر کو آذاد کرا سکتے ہیں آذادی نہ بھی سہی تو پوری دنیا کو مجبور کر کے کشمیریوں کو ان کا حق دلوا سکتے ہیں۔
ہم کس دنیا کے لوگ ہیں جو ایک چھوٹے سے چراثیم سے ڈر کر گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں صرف اپنی جان بچانے کے لیے اور ان بیچارے کشمیریوں کا کیا جو گھر میں ہوں تو انڈین افواج گھس کر مارتی ہے اور باہر نکلیں تو سرے عام مارتی ہےاور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس دنیا میں کورونہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے دنیا کو اللہ کے قریب کر دیا ہےکہ آج کا غیر مسلم بھی اللہ کا نام لیتا اور دعاوں کی درخواست کرتا نظر آتا ہے۔ تین مہینوں میں لوگ لاک ڈاؤن سے تنگ آگئے ہیں اور دنیا کے معاشی حالات کی بھی دھجیاں اڑگئی ہیں اور وہاں کشمیر میں لگے لاک ڈاون کا سال پورا ہو گیا ہےمگر وہاں کے مسلمانوں کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ وہ آج بھی اسی عظم کے ساتھ انڈیا کے ظلم کو نہ صرف برداشت کر رہے ہیں بلکہ اسکا منہ توڑ جواب بھی دے رہے ہیں۔
کشمیر کے اس لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں ہی انڈین آرمی نے چار ہزار نوجوان کشمیریوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کرلیا اور اب نہ جانے ان پر کس کس طرح کے ظلم کر رہے ہو نگے۔ یہ لاک ڈاؤن کوئی عام لاک ڈاؤن نہیں جس میں کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہو۔ کشمیر کا لاک ڈاؤن تو اتنا ظالمانہ اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتا ہے کہ نہ صرف انٹر نیٹ اور فون بند ہیں کہ آپ کسی سے رابطہ کرکے خریت معلوم کر سکیں بلکہ زندگی گذارنے کے لیے عام ضرورت کی اشیاء بھی میسر نہیں کیونکہ سب دکانیں بند ہیں یہاں تک کے تمام میڈیکل دکانیں تک بند ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو تو یا تو اپنا علاج خود کرے یا پھر مرجاۓ۔ جہاں دنیا میں آج کے دور میں لوگ کورونہ کی وجہ سے ایک دوسرے کا زیادہ خیال کر رہے ہیں ،بیماروں کو ،بوڑھوں کو زیادہ پیاراور توجہ دی جارہی ہے وہیں دوسری طرف کشمیر میں انسانیت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں
انسانی حقوق پر بولنے والی دنیا بھر کی تنظیمیں اور حکومتیں آج کیوں خاموش ہیں ؟ خود انڈیا کے وہ لوگ اور فنکار جو امریکہ میں مرنے والے ایک کالے پر دنیا کو انسانیت کا درس دیتے رہتے ہیں اور اپنے ہی ملک میں مودی حکومت کی طرف سے کئے جانے والے وحشی اعمال پر ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ ظلم کی حد تو یہ ہےکہ کسی بھی نیشنل یاانٹر نیشنل میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت تک نہیں تاکہ انڈین آرمی اپنے گناہ چھپا سکے اور جو مرضی میں آۓ وہ کرے۔ وہاں ایک ہندو یا پنڈت مرجاتاہے تو انڈیا بھر میں شور مچ جاتا ہے اور وہاں کے ہندو مسلمانوں کو اور تنگ کرنے لگتے ہیں بلکہ انگریزی نیوز چینل میں بھی اسکی مزمت کی جارہی ہوتی ہے جبکہ کشمیر میں مرنے والے مسلمانوں کا ذکر بھی کرنا یہ جینل والے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
افسوس کہ پوری دنیا کے مسلمان ممالک ایک ہو کر اقوام متحدہ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتے کہ وہ انڈیا کو اس کےظالمانہ عزائم سے باز رکھ سکے۔یہ اللہ کا عذاب ہی تو ہے جو کورونہ کی صورت پر ہم پر نازل ہوا ہے تاکہ ہم کچھ محسوس کر
سکیں کہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے اور جب کوئی اپنا مرتا ہے اور آپ اسکی لاش کو بھی ہاتھ نا لگا سکیں کیونکہ انڈین افواج بےدردی سے مار کر لاش بھی غائب کر دیتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔
مجھے آج افسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کب ہم مسلمان ہوش میں آئیں گے اور ایک ہو کر اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کر سکیں گے۔ میں ان تمام شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنھوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جان نچھاورکر دی اور بڑے افسوس سے کہتی ہوں کہ ہاں میں زندہ ہوں مگرشرمندہ ہوں۔
ان شاء اللہ ایک دن کشمیر آزاد ضرور ہو گا (آمین ) آخر میں کشمیر کے لیے فوزیہ شیخ کے چند اشعار جو اس خطہ کی اصل تصویر کی عکاسی کرتے ہیں ۔
اس شہر بے نور میں کوئی کمرہ اداس ہے
کمرے میں ایک شخص کی دنیا اداس ہے
چلتی ہے شہر بھر میں ہوا سوگوار سی
بچھڑے ہوؤں کی یاد میں ر ستہ اداس ہے
ہم ایسے عالی ظرف تھے ہر بات سہ گئے
زندہ ہیں صرف جسم کا ملبہ اداس ہے
پھولوں میں کس کو لایا گیا ہے لپیٹ کر
قبریں بھی اشک بار ہیں کتبہ اداس ہے
****